بہار: کیا مسجد میں ہندو لڑکے کی قربانی دی گئی؟

09:33 PM May 16, 2020 | امیش کمار رائے

خصوصی رپورٹ: بہار کے گوپال گنج ضلع کے ایک گاؤں میں گزشتہ مارچ مہینے میں ایک لڑکے کی  لاش پاس کی ندی سے برآمد ہوئی تھی۔ اہل خانہ نے قتل کیے جانے کا الزام لگایا ہے۔ حالانکہ کچھ نیوز ویب سائٹس کے ذریعے مسجد میں لڑکےکی قربانی دیے جانے کی بھرم پیدا کرنےوالی  خبریں شائع کرنے کے بعد اس معاملے نے فرقہ وارانہ رنگ لے لیا۔پولیس نے اس بارے میں ‘آپ انڈیا’ اور ‘خبر تک’ نام کی ویب سائٹ کے خلاف کیس درج کیا ہے۔

روہت جیسوال۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

پٹنہ: بہار کے گوپال گنج ضلع میں گزشتہ مارچ مہینے میں ہوئی ایک لڑکے کی موت نے اچانک طول پکڑ لیا ہے۔ کچھ لوگ اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس بارے میں کچھ ویب سائٹس نے خبریں بھی شائع کی ہیں، جن کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

معاملہ گوپال گنج ضلع کے کٹیا تھانہ حلقہ  کے بیلہی ڈیہہ گاؤں کا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ مہینے پہلے یہاں ایک 15 سالہ لڑکے روہت جیسوال کی لاش پاس کی ندی سے برآمد کی گئی تھی۔ قتل کے خدشے کا اظہار کیا گیاتھا۔ حالانکہ اہل خانہ  نے قتل کیے جانے کی بات کہی ہے۔اس معاملے کو لےکر پچھلے 3-4 دنوں سے سوشل میڈیا اور کچھ ویب سائٹس اور نیوز چینل پر اہل خانہ  کے بیان کے حوالے سے خبریں چل رہی ہیں کہ روہت کی مسجد میں قربانی دی گئی تھی۔

اس کے بعد سے اس معاملے نے طول پکڑ لیا ہے۔ حالانکہ گوپال گنج ضلع پولیس نے اس افواہ کی  پرزور تردیدکی ہے۔سوشل میڈیا پر روہت جیسوال کو انصاف دلانے کے لیے پوسٹ بھی لکھے جا رہے ہیں۔ یہ بھی افواہ چل رہی ہے کہ گاؤں سے ہندو ہجرت کر رہے ہیں، حالانکہ گاؤں کے لوگوں نے اس بات کی تردید کی  ہے۔

بیلہی ڈیہہ گاؤں میں ہندو اور مسلم کی ملی جلی آبادی ہے، لیکن مسلمانوں کی تعداد ہندوؤں سے کم ہے۔ روہت کے والد راجیش شاہ گاؤں میں ہی پکوڑی کا ٹھیلہ لگاتے ہیں۔اہل خانہ کے مطابق، 28 مارچ کو روہت کچھ لڑکوں کے ساتھ کھیلنے نکلا ہوا تھا، لیکن شام تک گھر نہیں لوٹا۔ اس کی کھوج بین شروع ہوئی، لیکن کو رونا وائرس کی وجہ سے جاری  لاک ڈاؤن کی وجہ سے رات تک سبھی لوگ واپس گھر آ گئے۔

اگلے دن 29 مارچ کو خبر ملی کہ گوئتا ٹولہ میں ایک لڑکے کی لاش ملی ہے۔ روہت کے والد راجیش اپنی بیوی  اور گاؤں کے لوگوں کے ساتھ ندی میں گئے تو وہ لاش روہت کی تھی۔اہل خانہ  نے قتل کا الزام لگاتے ہوئے تھانے میں شکایت دی تھی، جس کے بعدپولیس نے نامزد ایف آئی آر درج کی ہے۔

اس بارے میں گزشتہ 29 مارچ کو تھانے میں دی گئی درخواست  میں روہت کے والد راجیش شاہ نے لکھا ہے، ‘28 مارچ کو دن میں تین بجے روہت اپنی ماں کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اسی دن مسلمان اور ہندو بچہ (چاروں نابالغ ہیں، اس لیے نام نہیں لکھا جا رہا ہے)اس کو کرکٹ کھیلنے کے لیے بلاکر لے گئے۔ شام تک میرا لڑکا گھر نہیں لوٹا، تو ہم لوگ اس کو کھوجنے کے لیے نکلے۔’

درخواست میں وہ لکھتے ہیں،‘پورے ہندوستان  میں لاک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے اس کو کھوجنے کے لیے ہم لوگ زیادہ دور نہیں جا سکے۔ 29 مارچ کی صبح علاقے میں خبر پھیلی کہ گوئتا ٹولہ میں ندی سے ایک لڑکے کی لاش ملی ہے، تو مجھے ایک مسلم بچہ پر شک ہوا۔’

درخواست کے مطابق، نابالغ (مسلم)نے پوچھ تاچھ میں بتایا کہ اس نے چھ لوگوں کے ساتھ مل کر اس کا(روہت)قتل کر دیا اور لاش ندی میں پھینک دی۔ پوچھ تاچھ میں اس نے یہ بھی بتایا کہ روہت کا کپڑا ندی کے کنارے جھاڑی میں چھپاکر رکھ دیا ہے۔راجیش شاہ نے درخواست میں کہا ہے، ‘میرا دعویٰ ہے کہ لڑکے کاقتل چھ لڑکوں (پانچ مسلم و ایک ہندو) نے کیا ہے۔’

29 مارچ کو لاش کی برآمدگی کے بعد اس کو پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال لے جایا گیا۔ اسی دن صبح 11:50 بجے لاش کا پوسٹ مارٹم ہوا۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ناک اور منھ سے خون نکلنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جسم میں  کوئی باہری یا اندرونی زخم نہیں ملا ہے۔ رپورٹ میں موت کی وجہ ڈوبنے کی وجہ سے آکسیجن کی سپلائی نہیں  ہونا بتایا گیا ہے۔

راجیش شاہ کی طرف سے دیےگئے تحریری درخواست کی بنیاد پرپولیس نے آئی پی سی کی دفعہ302، 201 اور 34 کے تحت ایف آئی آر (ایف آئی آرنمبر: 98/20) درج کی ہے۔ایف آئی آر میں چھ نابالغوں کو نامزد کیا گیا ہے، جن میں ایک ہندو اور پانچ مسلمان ہیں۔معاملہ کے بعدپولیس نے پانچ نابالغوں کو گرفتار کر جوینائل جسٹس بورڈ کے سامنے پیش کیا تھا، جہاں سے انہیں ضمانت مل گئی۔

ایک دوسرےملزم کو گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے، وہ واقعہ کے بعد سے فرار ہے۔گوپال گنج کے ایس پی منوج تیواری نے بتایا،‘مسجد میں قربانی کا الزام افواہ ہے۔ معاملے میں ایسا کچھ بھی سامنے نہیں آیا ہے۔’انہوں نے یہ بھی کہا کہ معاملے میں مناسب  کارروائی کی گئی ہے اور آگے کی جانچ چل رہی ہے۔

گزشتہ 29 مارچ کو یہ معاملہ سامنے آنے کے اگلے دن مقامی  اخباروں میں اس بارے میں خبریں بھی شائع ہوئی تھیں۔ 30 مارچ کے پربھات خبر کے گوپال گنج ایڈیشن میں چھپی خبر میں لاش کی برآمدگی کے دن ہی چار نابالغوں کو حراست میں لیے جانے کا ذکر ہے۔مقامی اخباروں نے اس وقت اس خبر کو کسی دوسرے  مجرمانہ واقعات کی طرح کور کیا تھا، لیکن یہ خبر پچھلے 4-5 دن پہلے تب وائرل ہونی شروع ہوئی، جب ‘آپ انڈیا’ نام کی ویب سائٹ نے اپنی ایک خبر میں اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے مسلمان، مسجد اور قربانی سے جوڑ دیا۔

‘خبر تک’نام کی ایک دوسری ویب سائٹ نے بھی ایسی ہی خبر چلائی۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر روہت کو انصاف  دلانے کے پوسٹ لکھے جانے لگے۔روہت کے قتل کو مسجد میں قربانی سے جوڑکر چلائی گئی بھرم پیدا کرنے والی خبر وائرل ہونے لگی تو سارن کے ڈی آئی جی وجئے ورما خود بیلہی ڈیہہ گاؤں پہنچے۔

گزشتہ 14 مئی کو دینک بھاسکر میں چھپی خبر کے مطابق، ڈی آئی جی نے کہا ہے کہ جانچ میں جو باتیں سامنے آئی ہیں، اس سے صاف ہو گیا ہے کہ لڑکےکو مسجد میں نہیں مارا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ غلط خبر چلاکر سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔پربھات خبر میں چھپی ایک خبر کے مطابق، ڈی آئی جی نے کہا کہ واقعہ 28 مارچ کو ہوا تھا اور 29 مارچ کو ایف آئی آر درج کر پانچ ملزمین  کے خلاف کارروائی کی گئی۔ اب اس معاملے کی جانچ سی آئی ڈی کر رہی ہے۔

بھرم پیدا کرنے والی اور فرقہ وارانہ رنگ دے کر خبر چلانے کو لےکر‘آپ انڈیا’ اور ‘خبر تک’ جیسے پورٹل کے خلاف پولیس نے ایف آئی آر بھی درج کی ہے۔ڈی آئی جی نے کہا ہے، ‘اس معاملے کو لےکر آپ انڈیا اور خبر تک نیوز پورٹل پر خبر نشر کی گئی اور یہ زاویہ دینے کی کوشش کی گئی کہ قتل کا تعلق مسجد کی تعمیر سے ہے اور لڑکے کو وہاں لے جایا گیا تھا۔ یہ ساری بات غلط ہے۔ اس کو لےکر آپ انڈیا اور خبر تک کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔’

بیلہی ڈیہہ گاؤں اتر پردیش کی سرحدسے سٹا ہوا ہے۔ راجیش شاہ فی الحال گاؤں سے تقریباً پانچ کیلومیٹر دور اتر پردیش کے دیوریا میں اپنے سسرال میں ہیں۔فون پر ہوئی بات چیت میں راجیش شاہ نے کہا، ‘میرے بیٹے کی ڈوب کر موت نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس کا قتل کیا گیا ہے اور اس قتل میں مسلمان  بچے شامل تھے۔ اس سے زیادہ میں کیا بولوں۔ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ اس کو مسجد میں مارا گیا اور نہ ہی یہ ہی کہا کہ کیوں مارا گیا۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ مارنے والے مسلمان ہیں(حالانکہ ایف آئی آر میں نامزد 6 نابالغ ملزمین میں ایک ہندو ہے)۔ مجھے انصاف چاہیے۔ میں بس اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں۔’

یہ پوچھنے پر کہ اہل خانہ  کے بیان کی بنیاد پر ایسی ‘خبریں’ چل رہی ہیں کہ مسجد میں روہت کی قربانی دی گئی ہے، اس پر انہوں نے کہا، ‘میں سیدھے کیسے یہ بات کہہ سکتا ہوں؟ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا کہ مسجد میں اس کی قربانی دی گئی ہے۔’وہ کہتے ہیں،‘مجھے بس یہ پتہ چلا تھا کہ میرے بیٹے سمیت چار پانچ لڑکوں پر مولوی پانی چھڑکتا تھا۔ دوسرے لڑکے کون تھے، اس کے بارے میں تو میرا لڑکازندہ  رہتا تو وہی بتاتا، لیکن اس نے 5-6 دن پہلے اپنی ماں سے کہا تھا کہ مولوی نے اس پر پانی چھڑک دیا تھا اور اس کے بعد یہ واقعہ  ہو گیا۔ یہ بات میں نے میڈیا کو بتائی تھی۔’

تھوڑا زور دےکر پوچھنے پر کہ کیا انہوں نے میڈیا کو یہ بیان دیا ہے کہ مسجد میں ان کے بچہ کی قربانی لی گئی؟ اس سوال پر انہوں نے کہا، ‘میرے بیٹے کے قتل کی جانکاری کے لیے صرف میرے پاس ہی کال نہیں آتی ہے، اور بھی لوگ ہیں، جو کال ہینڈل کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے، ان میں سے کسی نے ایسا کہا ہو۔ میں نے صاف طور پر نہیں کہا کہ ایسا کچھ ہوا ہے، لیکن میرے لڑکے کو مارکر ہی پھینکا گیا ہے۔ معاملے کی جانچ ہونی چاہیے کہ اس کا قتل کہاں اور کیوں کیا گیا ہے۔’

راجیش شاہ نے معاملے میں ملزم ہندو نابالغ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 29 مارچ کو اسی سے پوچھ تاچھ کی گئی تھی، تو اس نے کہا تھا کہ روہت کو مارکر ندی میں پھینک دیا گیا ہے۔انہوں نےپولیس اور ملزمین کے اہل خانہ  پر دھمکانے کا الزام لگایا اور کہا کہ ان کی دھمکی کے ڈر سے وہ دیوریا میں ہیں۔ راجیش شاہ نے الزام لگاتے ہوئے کہا، ‘کٹیا تھانے کے انچارج نے مجھ سے بدسلوکی  کی اور دھمکی دی۔’

راجیش نے ایک درخواست مہیا کرایا، جس میں دو مقامی مسلم نوجوانوں کا ذکر کرتے ہوئے ان پر بھی دھمکی دینے کا الزام انہوں نے لگایا تھا۔انہوں نے درخواست میں لکھا، ‘افضل انصاری اور ساغر انصاری نے دھمکی دی اور کیس واپس لینے کا دباؤ بنایا تھا۔’راجیش کے مطابق، وہ دونوں ایک نابالغ ملزم کے رشتہ دار ہیں۔

راجیش شاہ نے تھانہ کیمپس کا ایک ویڈیو بھی شیئرکیا ہے جس میں ایک شخص گالی گلوچ کر رہا ہے۔ ویڈیو میں وہ شخص یہ بھی کہہ رہا ہے کہ اس معاملے میں چار لوگوں پر کیس ہوا ہے، پھر وہ تھانے پر باربار کیا دیکھنے آ رہا ہے۔راجیش شاہ نے کہا کہ ان کے ساتھ گالی گلوچ کرنے والے تھانے کے انچارج ہیں۔ انہوں نے مذکورہ  تھانہ انچارج  پر کارروائی کی مانگ کی ہے۔

روہت کی موت کو لےکرپولیس کی پڑتال کہاں پہنچی ہے، یہ جاننے کے لیے ڈی آئی جی وجئے ورما سے رابطہ  کیا گیا، تو انہوں نے کہا کہ وہ ایک ہی مدعے پر باربار بیان نہیں دے سکتے۔ کوئی اور سوال پوچھنے سے پہلے ہی انہوں نے فون کاٹ دیا۔اس بارے میں تھانہ انچارج اےکے تیواری کو کال کیا گیا تو انہوں نے معاملے کی پولیس پڑتال کو لےکر فون پر کچھ بھی بتانے سے انکار کر دیا، لیکن یہ ضرور کہا کہ نابالغوں نے پوچھ تاچھ میں بتایا ہے کہ وہ ندی میں ڈوبنے سے مرا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘پوچھ تاچھ میں کسی نے بھی قتل کی بات قبول نہیں کی  ہے۔ سب نے کہا کہ وہ لوگ نہانے گئے تھے، تبھی وہ ڈوب گیا۔’راجیش شاہ نے علاقے میں کسی سے جھگڑا ہونے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘مسلمانوں کے ساتھ ہمارا بہت عام سا رویہ  تھا۔ کبھی ان کے ساتھ میرا جھگڑا نہیں ہوا ہے۔ مسلمان ہی کیوں کسی کے بھی ساتھ میری کبھی کوئی ان بن نہیں ہوئی۔ میں ہندو مسلمان کرنا نہیں چاہتا ہوں۔ مجھے صرف انصاف چاہیے۔’

راجیش شاہ اور ان کی بیوی  سےبدسلوکی  کے الزام پر ڈی آئی جی نے میڈیا سے بات چیت میں کہا ہے کہ ایس پی معاملے کی چھان بین کر رہے ہیں اور جانچ رپورٹ آنے کے بعد کارروائی کی جائےگی۔راجیش شاہ نے بتایا ہے کہ وہ دھمکیوں اورانتظامیہ  کی طرف سے مناسب کارروائی نہیں ہونے کی وجہ سے اپنا گاؤں چھوڑکر دیوریا میں رہ رہے ہیں۔ حالانکہ اس کو سوشل میڈیا میں یہ کہہ کر مشتہر کیا جا رہا ہے کہ وہاں سے ہندو ہجرت کر رہا ہے۔ اس پر مقامی  لوگوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

بیلہی ڈیہہ کے پردمن رائے نے کہا، ‘مسلمانوں کے ڈر سے ہندوؤں کی ہجرت کی بات بالکل غلط ہے، یہاں ایسا کچھ نہیں ہو رہا ہے۔’ایک مقامی نوجوان ونود گپتا کہتے ہیں،‘لڑکے کاقتل ہوا ہے۔ یہ مجرمانہ معاملہ ہے۔ اس کی جانچ پولیس کرےگی۔ ہندو مسلم اور مسجد کے لیے قربانی کی جو باتیں چل رہی ہیں، وہ افواہ ہے۔ سب یہاں آپسی میل جول سے رہتے ہیں۔’

(مضمون نگار آزاد صحافی  ہیں۔)