بہاراسمبلی کی243 سیٹوں میں سےآر جے ڈی کی قیادت والی مہاگٹھ بندھن کو کل 110 سیٹوں پر جیت ملی ہے۔آر جے ڈی نے 75،بی جے پی نے 74،جے ڈی یو نے 43، کانگریس نے 19، سی پی آئی ایم ایل نے 12 اور اےآئی ایم آئی ایم نے 5 سیٹوں پر جیت درج کی ہے۔ایل جے پی کو صرف ایک سیٹ ہی مل سکی۔
بہار اسمبلی کی243 سیٹوں میں سے ریاست میں مقتدرہ این ڈی اےنے 125سیٹ اب تک جیت لی ہیں۔ این ڈی اے کو اکثریت سے تین سیٹیں زیادہ ملی ہیں، وہیں آر جے ڈی کی قیادت والے مہاگٹھ بندھن نے 110 سیٹ جیتی ہیں۔
الیکشن کمیشن سے موصولہ جانکاری کے مطابق، بہار میں مقتدرہ این ڈی اے میں شامل بی جے پی نے 74 سیٹوں پر، جے ڈی یو نے 43سیٹوں پر، وکاس شیل انسان پارٹی نے 4 سیٹوں پر اور ہندستانی عوام مورچہ نے 4 سیٹوں پر جیت درج کی ہے۔
بہارانتخاب میں اپنے مظاہرہ کے بل پر بی جے پی قریب دو دہائی بعد این ڈی اے میں جے ڈی یو کو پیچھے چھوڑ کر بڑی اتحادی بنی ہے۔وہیں،اپوزیشن مہاگٹھ بندھن میں شامل آر جے ڈی نے 75 سیٹوں پر، کانگریس نے 19 سیٹوں پر، سی پی آئی ایم ایل نے 12 سیٹوں پر، سی پی آئی اورکمیونسٹ پارٹی آف انڈیانے دودو سیٹوں پر جیت درج کی ہے۔
اس انتخاب میں اسدالدین اویسی کی پارٹی اےآئی ایم آئی ایم نے 5 سیٹوں پر جیت درج کی۔ رام ولاس پاسوان کے عین انتخاب سے پہلے انتقال کے بعد چراغ پاسوان کے قیادت میں ان کی پارٹی صرف ایک سیٹ جیت سکی۔ مایاوتی کی قیادت والی بی ایس پی کو بھی صرف ایک سیٹ سے مطمئن ہونا پڑا۔ ایک سیٹ پر آزاد امیدوار جیتنے میں کامیاب رہا ہے۔
وہیں، والمیکی نگر لوک سبھاحلقہ کے لیے ہوئے ضمنی انتخاب میں جے ڈی یو نے پھر سے جیت درج کی ہے۔اس بار کے انتخاب میں وزیراعلیٰ نتیش کمار کی پارٹی کا مظاہرہ سال 2015 کے انتخابات کے مقابلے اچھا نہیں رہا۔ پارٹی نے اس بار جتنی سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑا کیے تھے، ان میں سے آدھی بھی جیت نہیں سکی۔
این ڈی اے کی سیٹیں بڑھیں، لیکن ووٹ فیصد2019 کےعام انتخاب کے مقابلے گھٹا
بہارانتخاب میں بی جے پی نے بھلے ہی جے ڈی یو سے اچھا مظاہرہ کیا ہے، لیکن گٹھ بندھن کے حساب سے دیکھیں تو 2019 لوک سبھا انتخاب کے مقابلے این ڈی اے کا ووٹ فیصد گھٹا ہے۔
لوک سبھا انتخاب میں این ڈی اےگٹھ بندھن (ایل جےپی سمیت)کو 40 میں سے 39 سیٹیں اور 53 فیصدی سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔بہار انتخابات میں ایل جے پی اکیلے اتری اوراس کو چھ فیصدی سے بھی کم ووٹ ملے۔ حالانکہ اب ہم اور وی آئی پی این ڈی اے کا حصہ بن گئے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق این ڈی اے(بی جے پی، جے ڈی یو، ہم اور وی آئی پی)کا ملاکر 40 فیصد سے کم ہے۔ وہیں آر جے ڈی کی قیادت والی مہاگٹھ بندھن کو قریب 37 فیصدی ووٹ ملے۔لوک سبھا انتخاب میں جے ڈی یو کاووٹ فیصد21.81 تھا، جبکہ اسمبلی انتخاب میں محض 15 فیصدی رہا۔ بی جے پی کا ووٹ فیصد عام انتخاب میں 23.58 فیصدی تھا اور اسمبلی انتخاب میں قریب 20 فیصدی رہا۔
تیجسوی یادو اور تیج پرتاپ یادو کامیا ب رہے
آرجے ڈی رہنما تیجسوی یادو 38000 ووٹوں سے بھی زیادہ کے فرق سے راگھوپور سیٹ سے جیت گئے ہیں۔الیکشن کمیشن کے مطابق تیجسوی نے بی جے پی کے ستیش کمار کو 38174 ووٹوں سے ہرایا۔ تیجسوی کے بڑے بھائی تیج پرتاپ یادو بھی21000 سے بھی زیادہ ووٹوں سے حسن پور سیٹ سے جیتے ہیں۔
راگھوپور سیٹ کی نمائندگی سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد اور رابڑی دیوی کر چکے ہیں۔
کانگریس اورآر جے ڈی کا گڑبڑی کا الزام ، کمیشن نے کہا: ہم دباؤ میں نہیں رہے
بہار میں کچھ اسمبلی سیٹوں پر گنتی میں گڑبڑی کے کانگریس اورآر جے ڈی کےالزامات کے مدنظرالیکشن کمیشن نے منگل کو کہا کہ وہ کبھی بھی کسی کے دباؤ میں نہیں رہا ہے۔کمیشن کے جنرل سکریٹری امیش سنہا نے یہ بھی کہا کہ تمام ضابطوں پر عمل کیا گیا۔
سنہا نے کہا کہ جن سیٹوں پر ہار اور جیت کا فرق خارج کیے گئے ڈاک ووٹوں سے کم ہے وہاں دوبارہ تصدیق کی جائےگی۔الیکشن کمیشن نے رات ایک بجے پھر کیے گئے اپنےپریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 223 سیٹوں کا نتیجہ اعلان کر دیا گیا ہے اور آخری نتیجہ ‘ایک گھنٹے میں’ آ جائےگا۔
کمیشن کی ویب سائٹ پر رات پونے دو بجے کہا گیا کہ 234 سیٹوں پر نیتجہ کا اعلان کر دیا گیا ہے اور اب صرف نو سیٹوں کانتیجہ آنا ہی باقی ہے۔
اس سے پہلے کانگریس اورآر جے ڈی کے رہنماؤں کے ایک وفدنے پٹنہ میں الیکشن کمیشن کے حکام سے ملاقات کرکے کچھ سیٹوں پر ان کے امیدواروں کو ہرائے جانے کاالزام لگایا اور کچھ سیٹوں پر پھر سے گنتی کی مانگ کی۔
کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجےوالا نے کچھ سیٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے ٹوئٹ کیا، ‘یہ نہ جمہوریت کا طرز ہے اور نہ ہی قانونی طور پر صحیح ہے۔ الیکشن کمیشن کہاں ہے؟’
اس کے ساتھ آر جے ڈی نے ایک فہرست جاری کرکے مہاگٹھ بندھن کے 119 سیٹوں پر جیتنے کا دعویٰ کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ 10 سیٹوں پر دھاندلی کی جا رہی ہے اور ان پر مہاگٹھ بندھن امیدواروں کو ہرایا جا رہا ہے۔
क़रीब 10 सीटों पर नीतीश प्रशासन गिनती में देरी कर रहा है।जीते हुए उम्मीदवारों को सर्टिफ़िकेट नहीं दे रहा है। CM आवास में बैठकर नीतीश कुमार और सुशील मोदी CM के प्रधान सचिव से सभी DM और RO को फ़ोन करवा कर नज़दीकी लड़ाई वाली सीटों के पक्ष में फ़ैसला दिलाने का दबाव बनवा रहे है
— Rashtriya Janata Dal (@RJDforIndia) November 10, 2020
آر جے ڈی کی جانب سے ٹوئٹ کرکے کہا گیا تھا، ‘قریب 10 سیٹوں پر نتیش انتظامیہ گنتی میں تاخیرکر رہی ہے۔ جیتے ہوئے امیدواروں کو سرٹیفیکٹ نہیں دے رہی ہے۔ سی ایم رہائش میں بیٹھ کر نتیش کمار اور سشیل مودی سی ایم کے چیف سکریٹری سے تمام ضلع حکام اور رٹرننگ آفیسرز کو فون کروا کر نزدیکی لڑائی والی سیٹوں کے حق میں فیصلہ دلانے کا دباؤ بنوا رہے ہیں۔’
آر جے ڈی نے ایک دوسرےٹوئٹ میں کہا تھا، ‘یہ ان 119 سیٹوں کی فہرست ہے، جہاں گنتی ہونے کے بعد مہاگٹھ بندھن کے امیدوار جیت چکے ہے۔ رٹرننگ آفیسر نے انہیں جیت کی مبارکباد دی، لیکن اب سرٹیفیکٹ نہیں دے رہے ہیں کہہ رہے ہیں کہ آپ ہار گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر بھی انہیں جیتا ہوا دکھایا گیا۔جمہوریت میں ایسی لوٹ نہیں چلےگی۔’
119 सीट जीतने के बाद टीवी पर 109 दिखाया जा रहा है। नीतीश कुमार सभी अधिकारियों को फ़ोन कर धाँधली करवा रहे है। फ़ाइनल रिज़ल्ट आने और बधाई देने के अब अधिकारी अचानक कह रहे है कि आप हार गए है।
— Rashtriya Janata Dal (@RJDforIndia) November 10, 2020
آر جے ڈی نے الزام لگایا تھا، ‘119 سیٹ جیتنے کے بعد ٹی وی پر 109 دکھایا جا رہا ہے۔ نتیش کمار تمام افسروں کو فون کرکے دھاندلی کروا رہے ہیں۔ فائنل رزلٹ آنے اور مبارکباد دینے کےبعد اب افسر اچانک کہہ رہے ہیں کہ آپ ہار گئے ہیں۔’
کمیشن کے افسروں کا کہنا ہے کہ مختلف سرکاری خدمات سے وابستہ لوگوں سے 1.6 لاکھ بیلیٹ پیپر الکٹرانک طور پر منتقل کیے گئے تھے۔تقریباً 52000 بیلیٹ کا استعمال 80 سال سے زیادہ عمرکے لوگوں اور معذوروں نے کیا۔
حکام نے ان الزامات کو خارج کر دیا کہ بیلیٹ کی گنتی کو بیچ میں ہی روک دیا گیا۔
کووڈ19 کے مد نظر سماجی دوری بنائے رکھنے کےضابطہ پر عمل کرنے کے لیے کمیشن نے 2015 اسمبلی انتخاب کے مقابلے اس بار پولنگ سینٹروں کی تعداد بڑھا دی تھی۔اس سے پہلے 2015انتخاب میں تقریباً65000پولنگ بنائے گئے تھے، جنہیں بڑھاکر اس بار 1.06 لاکھ کر دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے الکٹرانک ووٹنگ مشین(ای وی ایم)بھی زیادہ استعمال کرنی پڑی۔
اس بار ہر پولنگ سینٹر پرووٹروں کی تعداد 1000 سے 1500 تک طے کی گئی تھی، تاکہ سماجی دوری کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے لیے پولنگ بوتھ کی تعداد بڑھانی پڑی۔
مودی نے بہار کی جیت کو وکاس کے لیے عوام کافیصلہ کن نتیجہ بتایا
وزیراعظم نریندر مودی نے بہار اسمبلی انتخاب میں این ڈی اےکی جیت کو ‘وکاس کے لیے’ عوام کا فیصلہ کن نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ 15 سال بعد بھی ‘سشاسن’ کو پھر سے آشیرواد ملنا ریاست کے سپنے اور اس کی امیدوں کو دکھاتا ہے۔
انہوں نے سلسلےوار ٹوئٹ کرکے ریاست کی عوام کو ہرشعبہ کی متوازن ترقی کے لیے سپردگی کے ساتھ کام کرنے کا بھروسہ دیا اور این ڈی اے کی جیت کے لیے عوام کےلیے شکریہ کا اظہارکیا۔وزیر اعظم نے بی جے پی، جے ڈی یو سمیت دیگراتحادی پارٹیوں کے کارکنوں کومبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ بہار میں عوام کے آشیرواد سےجمہوریت نے ایک بار پھرکامیابی حاصل کی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘میں کارکنوں کومبارکباد دیتا ہوں اور بہار کی عوام کے لیےدل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔’
बिहार में जनता-जनार्दन के आशीर्वाद से लोकतंत्र ने एक बार फिर विजय प्राप्त की है।@BJP4Bihar के साथ एनडीए के सभी कार्यकर्ताओं ने जिस संकल्प-समर्पण भाव के साथ कार्य किया, वह अभिभूत करने वाला है। मैं कार्यकर्ताओं को बधाई देता हूं और बिहार की जनता के प्रति हृदय से आभार प्रकट करता हूं।
— Narendra Modi (@narendramodi) November 10, 2020
بہار کی عوام کو بھروسہ دیتے ہوئے مودی نے کہا کہ ہرشخص اور ہرشعبہ کی متوازن ترقی کے لیے این ڈی اے پوری سپردگی سے مسلسل کام کرتا رہے گا۔انہوں نے کہا، ‘بہار کے گاؤں غریب، کسان مزدور، تاجر، دکاندار، ہرطبقہ نے این ڈی اے کے ‘سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس’کے منتر پر بھروسہ کیا ہے۔’
بہار کی خواتین کی جانب سے کیے گئے ریکارڈووٹنگ کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ سالوں میں ریاست کی مادری قوت کو نیااعتماد دینے کا این ڈی اے کو موقع ملا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ خوداعتمادی بہار کو آگے بڑھانے میں ہمیں طاقت دےگی۔’
बिहार की बहनों-बेटियों ने इस बार रिकॉर्ड संख्या में वोटिंग कर दिखा दिया है कि आत्मनिर्भर बिहार में उनकी भूमिका कितनी बड़ी है। हमें संतोष है कि बीते वर्षों में बिहार की मातृशक्ति को नया आत्मविश्वास देने का NDA को अवसर मिला। यह आत्मविश्वास बिहार को आगे बढ़ाने में हमें शक्ति देगा।
— Narendra Modi (@narendramodi) November 10, 2020
بہار کے نوجوانوں کا ذکر کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ انہوں نے صاف کر دیا ہے کہ یہ نئی دہائی بہار کی ہوگی اور آتم نربھر بہار اس کا روڈمیپ ہے۔انہوں نے کہا، ‘بہار کے نوجوانوں نے اپنی اہلیت اور این ڈی اے کے عزم پر بھروسہ کیا ہے۔ اس نوجوان توانائی سے اب این ڈی اے کو پہلے کے مقابلے اورزیادہ محنت کرنے کاحوصلہ ملا ہے۔’
وزیر اعظم نے کہا کہ ریاست کے ہر ووٹر نے صاف صاف بتا دیا کہ وہ پرامید ہے اور اس کی ترجیح میں صرف اور صرف وکاس ہے۔انہوں نے کہا، ‘ریکارڈ تعداد میں بہار کے غریب،محروم اور خواتین نے ووٹ بھی کیا اور آج وکاس کے لیے اپنا فیصلہ بھی سنایا ہے۔’
شاہ نے این ڈی اے کی جیت کو ڈبل انجن وکاس کی جیت بتایا
مرکزی وزیراور بی جے پی کے سابق قومی صدرامت شاہ نے بہار اسمبلی انتخاب میں این ڈی اے کی جیت کو وزیراعظم نریندر مودی اوروزیراعلیٰ نتیش کمار کے ڈبل انجن وکاس کی جیت بتایا ہے۔شاہ نے منگل کی دیر رات ٹوئٹ کرکے کہا، ‘بی جے پی وکاس، وشواس اور پرگتی’ کی علامت ہے۔’
बिहार के हर वर्ग ने फिर एक बार खोखलेवादे, जातिवाद और तुष्टिकरण की राजनीति को सिरे से नकार कर NDA के विकासवाद का परचम लहराया है।
यह हर बिहारवासी की आशाओं और आकांक्षाओं की जीत है…@narendramodi जी और @nitishkumar जी के डबल इंजन विकास की जीत है।@BJP4Bihar के कार्यकर्ताओं को बधाई।
— Amit Shah (@AmitShah) November 10, 2020
انہوں نے کہا، ‘بہار کے ہر طبقہ نے پھر ایک بار کھوکھلے وعدے، ذات پات اور اپیزمنٹ کی سیاست کی سرے سے تردید کرکے این ڈی اے کے وکاس واد کا پرچم لہرایا ہے۔’شاہ نے کہا، ‘یہ ہر بہاری کی امیدوں اورخواہشوں کی جیت ہے۔ نریندر مودی جی اور نتیش کمار جی کے ڈبل انجن وکاس کی جیت ہے۔ بہار بی جے پی کے کارکنوں کومبارکباد۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)