راہل گاندھی لکھتے ہیں؛ میری بھارت ماتا—زمین کا ٹکڑا محض نہیں ہے، چند تصورات کا مجموعہ محض بھی نہیں ہے، نہ ہی کسی ایک مذہب، ثقافت یا خصوصی تاریخ کا بیانیہ بلکہ ہر ہندوستانی کی اپنی اپنی آواز ہے بھارت ماتا- چاہے وہ کمزور ہو یا مضبوط۔
فائل فوٹو, ٹوئٹر/@بھارت جوڈو)
جو بات دل سے نکلتی ہے دل میں اُترتی ہے
گزشتہ سال اپنے گھر، یعنی مادر وطن کےآنگن میں ایک سو پینتالیس دنوں تک پیدل چلتا رہا، سمندر کے ساحل سے میں نےاس سفر کا آغاز کیا— دھوپ، بارش اور گردوغبارسب میرے زاد راہ ہوئے — اور اس طرح جنگلوں، چراگاہوں، شہروں، کھیتوں، دیہاتوں، ندیوں اور پہاڑوں سے گزرتے ہوئے کشمیر جنت نظیر کی برفیلی وادیوں میں ، میں نےاپنا قدم رکھا۔
راستے میں کئی لوگوں نے پوچھا؛ آپ یہ کیوں کر رہے ہیں؟ آج بھی کئی لوگ مجھ سے اس یاترا (سفر) کے مقصد کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کیا ڈھونڈ رہے تھے؟ کیا حاصل ہوا؟
دراصل، میں اس چیز کوسمجھنا چاہتا تھا، جو میرے دل کے اتنے قریب ہے، جس نے مجھے موت سے آنکھ ملانے اور ‘چریویتی’ (چلتے رہو) کی تحریک دی، جس نے مجھے درد اور ذلت کو برداشت کرنے کی قوت عطا کی اور جس کے لیے میں اپنا سب کچھ قربان کر سکتا ہوں۔
دراصل میں جاننا چاہتا تھا کہ یہ چیز آخر ہے کیا، جس کو میں اتنا عزیز رکھتا ہوں؟ یہ زمین؟ یہ پہاڑ؟ یہ سمندر؟ یہ لوگ یا کوئی آئیڈیالوجی؟ شاید میں اپنے اندرون کو ہی سمجھنا چاہتا تھا۔ وہ کیا شے ہے، جس نے میری روح کو اس جتن سے اپنی گرفت میں رکھا ہوا ہے؟
برسوں سے روزانہ ورزش کرتے ہوئےتقریباً ہر شام میں 8-10 کلومیٹر دوڑ لگاتا رہا ہوں۔ میں نے سوچا؛ صرف ‘پچیس’؟ میں تو آرام سے 25 کلومیٹر پیدل چل لوں گا۔ میں مطمئن تھا کہ یہ ایک آسان پدیاترا (پیدل مارچ) ہوگی۔
لیکن جلد ہی یہ مرحلہ بھی در پیش آیاکہ میرے گھٹنے کی پرانی چوٹ، جو طویل علاج و معالجے کے بعد ٹھیک ہوگئی تھی، اس کا درد پھر سے اُبھر آیا۔ اگلی صبح آہنی کنٹینرکی تنہائی میں میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ باقی کے 3800 کلومیٹر کا سفرکیسےطے کروں گا؟ میراتکبر چکنا چور ہوچکا تھا۔
علی الصبح ہی پد یاترا شروع ہو جاتی تھی– اور اس کے ساتھ ہی میرا یہ درد بھی محشر برپا کرنے لگتا تھا- ایک بھوکے بھیڑیے کی طرح وہ ہر جگہ میرا پیچھا کرتا اور میرےدم لینے کا انتظار کرتا۔ کچھ دنوں بعد میرے پرانے ڈاکٹر دوست آئے، انہوں نے کچھ مشورے بھی دیے۔ لیکن درد جوں کا توں سالم رہا۔
لیکن پھر ایک انوکھے تجربے سے دوچار ہوا۔ دراصل یہ ایک نئے سفر کی ابتدا تھی۔ جب بھی میرا دل ڈوبنے لگتا،میں سوچنے لگتا کہ اب اورنہیں چل پاؤں گا— اچانک کوئی آتا اور مجھے چلنے کی توانائی سے سرشار کرجاتا۔ کبھی خوش خط (خوبصورت لکھاوٹ ) والی آٹھ سالہ پیاری بچی،کبھی کیلے کے چپس کے ساتھ روشنی بکھیرنے والی بزرگ خاتون،کبھی کوئی شخص- جو ہجوم کے درمیان سے راستہ بناتے ہوئے آئے، مجھے گلے لگائے اور غائب ہو جائے، جیسےکوئی خاموش اور نادیدہ قوت میری مدد کر رہی ہو، گھنے جنگلوں میں جگنوؤں کی طرح،وہ ہرجگہ موجود تھی۔ جب مجھے واقعی اس کی ضرورت تھی، یہ میری راہیں روشن کرنےکے لیے ، میری نگہبانی کے لیے وہاں پہلے سے موجود تھی۔
پد یاترا آگے بڑھتی گئی ۔ لوگ اپنے مسائل لے کر آتے رہے۔ میں نےشروعات میں سب کو اپنی بات بتانی چاہی۔ میں نے ان کو حتیٰ الامکان سمجھنے کی کوشش کی۔میں نے لوگوں کی پریشانیوں اور ان کے حل کے بارے میں باتیں کی۔ جلد ہی لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی اور میرے گھٹنے کا درد بدستورجاری رہا – اس صورتحال میں اب میں نے لوگوں کو محض دیکھنا اور سننا شروع کر دیا۔
سفر میں شور بہت ہوتاتھا۔ لوگ نعرے لگاتے، تصویریں کھنچواتے، باتیں کرتے اور ایک دوسرے کو آگے پیچھے کرتے ہوئے چلتے ۔ہر دن کا یہی معمول تھا۔ میں ہر روز 8-10 گھنٹے صرف لوگوں کی باتیں سنتا اور گھٹنے کے درد کو بھول جانے کی کوشش کرتا۔
پھر ایک دن، میں نے بالکل انجان اوراور غیر متوقع سکوت کا تجربہ کیا۔سوائے اس شخص کی آواز کے —جو میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے مجھ سے باتیں کر رہا تھا— مجھے کچھ اور سنائی نہیں دے رہا تھا۔ میرے اندر کی آواز، جو بچپن سے مجھ سے کچھ کہتی– سنتی آرہی تھی، خاموش ہونے لگی۔ یوں لگا، جیسے کوئی شے ہمیشہ کے لیےچھوٹ رہی ہو۔
وہ ایک کسان تھا اور مجھے اپنی فصل کے بارے میں بتا رہا تھا۔ اس نے روتے ہوئے کپاس کی بوسیدہ لڑیاں مجھے دکھائیں، مجھے اس کے ہاتھوں میں برسوں کی تکلیف محسوس ہوئی۔ اپنے بچوں کےمستقبل کے لیے اس کا خوف میں نےاپنے اندرمحسوس کیا۔ اس کی آنکھوں کے پیالے ان کی تمام بھوکی راتوں کا احوال بتارہے تھے۔ اس نے کہا کہ وہ اپنے قریب المرگ باپ کے لیےبھی کچھ نہیں کرپایا۔ اس نے کہا کہ بعض اوقات اپنی بیوی کو دینے کے لیےبھی اس کے ہاتھ میں ایک پیسہ نہیں ہوتا۔ شرمندگی اور پریشانی کے وہ لمحے جو اس نے اپنے شریک سفرکے سامنے محسوس کیے وہ میرے دل میں کوندگئے۔ میں کچھ بول نہیں پایا۔ بے بس ہو کر ٹھہر گیا اور میں نے اس کسان کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔
اب مسلسل یہی ہو نے لگا۔ اُجلی ہنسی والے بچے آئے، مائیں آئیں، طالبعلم آئے- سب سے مل کر یہی احساس بار بار مجھ پر طاری ہوتا رہا۔ یہی تجربہ مجھے دکانداروں، بڑھئیوں، موچیوں، نائیوں، کاریگروں اور مزدوروں کے ساتھ بھی ہوا۔ فوجیوں کے ساتھ بھی یہی محسوس ہوا۔ اب میں بھیڑکو، شور کواوراپنے آپ کو سن ہی نہیں پا رہا تھا۔ میری توجہ اس شخص سے ہٹتی ہی نہیں تھی جو میرے کان میں کچھ کہہ رہا ہوتا تھا۔آس پاس کا شور وغل اور میرے اندر سمایا ہوا شب و روزاور مجھ پر فیصلہ دینے والا شخص — نہ جانے کہاں غائب ہو چکے تھے۔ جب کوئی طالبعلم کہتا کہ اس کو فیل ہونے کا ڈر ستا رہا ہے، تو مجھے بھی اس کا ڈراپنے اندرمحسوس ہوتا۔ چلتے چلتے ایک دن، سڑک پر بھیک مانگنے کو مجبور بچوں کا ایک غول میرے سامنے آ گیا۔ وہ بچے سردی سے ٹھٹھر رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر میں نے طے کیا کہ جب تک میں سردی برداشت کر سکتا ہوں، یہی ٹی شرٹ پہنوں گا۔
میرےاس بھروسے اورعقیدےکی وجہ اچانک اپنے آپ مجھ پر ظاہر ہو رہی تھی۔ میری بھارت ماتا—زمین کا ٹکڑا محض نہیں ہے، چند تصورات کا مجموعہ محض بھی نہیں ہے، نہ ہی کسی ایک مذہب، ثقافت یا خصوصی تاریخ کا بیانیہ ، نہ ہی کسی خاص ذات محض کا، بلکہ ہر ہندوستانی کی اپنی اپنی آوازہے بھارت ماتا- چاہے وہ کمزور ہو یا مضبوط۔ان آوازوں میں اندر تک پیوست جو خوشی کی لہرہے، جو ڈر کا سایہ ہے۔ جو درد کی داستان ہے– وہی ہے بھارت ماتا؛ مادر ہند۔
مادر ہند کی یہ آوازہر جگہ ہے۔مادر ہند کی اس آواز کو سننے کے لیےآپ کواپنی آواز، اپنی خواہشات اوراپنی امنگوں پر مہر سکوت ثبت کرنا ہوگا۔ بھارت ماتا ہر وقت گویا ہیں۔ بھارت ماتا کسی اپنے کے کان میں کچھ نہ کچھ سرگوشی کرتی ہے، لیکن صرف اس وقت — جب اس اپنے کا ‘میں’ پوری طرح سے عالم سکوت میں ہو، جیسےمراقبہ میں بیٹھے کسی انسان کااستغراق۔
سب کچھ کتنا سہل تھا۔مادر ہندکی روح کا وہ گوہر جسے میں اپنے باطن کی ندی میں تلاش کر رہا تھا، وہ مادرہند کے بچوں کے ٖٹھاٹھیں مارتے لامتناہی سمندر میں ہی پایا جا سکتا ہے۔