لداخ کی گلوان گھاٹی میں ہندوستان اور چین کے جوانوں کے بیچ پرتشدد جھڑپ میں 20 ہندوستانی جوانوں کی ہلاکت کے بعد دونوں ممالک کے مابین رشتوں میں تلخی آگئی ہے۔ وہیں ہندوستان میں اس کو لےکر سیاسی بیان بازی بھی تیز ہو گئی ہے۔
لداخ کے پاس بالٹال میں ایک عارضی کیمپ کے پاس موجودہندوستانی فوج۔ (فوٹو: رائٹرس)
نئی دہلی: کچھ دن پہلے لداخ کی گلوان گھاٹی میں چینی فوج کے ساتھ پر تشدد جھڑپ میں ہندوستان کے 20 جوان ہلاک ہو گئے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ گلوان گھاٹی ان کی سرحد میں ہے اور ہندوستانی فوج غلط ڈھنگ سے وہاں گھس گئے تھے، جبکہ ہندوستان کا کہنا ہے کہ گلوان گھاٹی ہمیشہ سے ان کے حدود میں رہا ہے۔
گزشتہ تقریباً پانچ دہائیوں میں پہلی بار ہندوستان-چین سرحد پر ہندوستانی جوانوں کے ہلاک ہونے پر دونوں ممالک کے رشتوں میں تلخی آ گئی ہے اورسیاسی بیان بازی کافی تیز ہو گئی ہے۔حالانکہ یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب چینی فوج نے ہندوستانی سرحدوں میں در اندازی کی ہے۔ سال 2016 سے 2018 کے بیچ چینی فوج نے 1025 باردر اندازی کی ہے۔
دفاعی امور کے وزیر شریپد نائیک کے ذریعے
17 نومبر 2019 کو لوک سبھا میں پیش کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق چینی فوج نے 2016 میں 273 بار، 2017 میں 426 بار اور 2018 میں 326 بار ہندوستانی سرحد میں دراندازی کی تھی۔حکومت کا کہنا ہے کہ چونکہ ہندوستان اور چین کے سرحدی علاقے کی واضح طو رپرنشاندہی نہیں کی گئی ہے، اس لیے اس طرح کی دراندازی باربار کی جاتی ہے۔
نائیک نے کہا تھا، ‘ہندوستان اور چین کے بیچ سرحدی علاقوں میں عام طور پرنشان زد کوئی لائن آف ایکچوئل کنٹرول(ایل اے سی)نہیں ہے۔ ایل اے سی کے قریب کچھ علاقے ہیں، جس کو لےکر دونوں فریق کے اپنے الگ الگ دعوے ہیں۔ اسی بنیاد پر دونوں ممالک کی فوج سرحد پر گشت لگاتی ہیں، جس کی وجہ سے دراندازی ہوتی ہے۔’
چین کے ذریعے کی گئی دراندازی۔(ماخذ: لوک سبھا)
حکومت نے پارلیامنٹ میں دعویٰ کیاکہ چین کے ذریعے کی گئی ان دراندازیوں کی وجہ سے کسی فوج کے ہلاک ہونے کی کوئی جانکاری نہیں ملی ہے۔
وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ کسی بھی تجاوز یادر اندازی کی صورت پیدا ہونے پر وہ تسلیم شدہ ضابطےمثلاً فلیگ میٹنگ، بارڈر پرسنل میٹنگس، ہندوستان چین سرحد معاملوں پر صلاح اورتال میل کے لیے بنی کمیٹی اور سیاسی چینل کے ذریعے اس کو سلجھاتے ہیں۔
معلوم ہو کہ لداخ میں ہندوستان اور چین کے بیچ پرتشدد جھڑپ کے سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی کے بیان پر
سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی تنقیدکے بعد بی جے پی اور کانگریس کے مابین بیان بازی شروع ہو گئی ہے۔سنگھ نے کہا تھا کہ گمراہ کن پروپیگنڈہ کبھی بھی سفارت کاری اورمضبوط قیادت کامتبادل نہیں ہو سکتی اور یہ یقینی بنایا جانا چاہیے کہ جوانوں کی قربانی رائیگاں نہ جائے۔
گزشتہ سوموار کو بی جے پی صدر جےپی نڈا نے ٹوئٹ کر کےسنگھ پر الزام لگایا کہ منموہن سنگھ کی مدت کار میں 2011 سے 2013 کے بیچ چین نے 600 باردر اندازی کی تھی، تب انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔نڈا نے سنگھ اور کانگریس پارٹی کو نشانے پر لیتے ہوئے کہا کہ وہ سوال اٹھاکر فوج کی توہین کرنا بند کریں۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس نے ہی ہندوستان کی 43000 کیلومیٹرزمین چین کو دے دی تھی۔
اس کے جواب میں کانگریس کے سینئر رہنما پی چدمبرم نے منگل صبح کو ٹوئٹ کرکے کہا کہ بی جے پی کی مدت کار میں 2015 کے بعد سے 2264 بار چین کی طرف سےدر اندازی ہوئی ہے۔ انہوں نے نڈا کو چیلنج دیا کہ کیا وہ اس کے بارے میں وزیر اعظم نریندر مودی سے پوچھ سکتے ہیں؟
چینی حملے پر سوال اٹھانے کے سلسلے میں چدمبرم نے کہا کہ کانگریس کی قیادت والی یو پی اے کی حکومت (2004-2014)کے دوران بی جے پی نے چینی در اندازی اور یو پی اے کی چین پالیسی کی خوب تنقید کی تھی۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ رشتہ بھی بنائے رکھا تھا۔
معلوم ہو کہ لداخ میں لگ بھگ 38000مربع کیلومیٹر کا ہندوستانی علاقہ چین کے قبضے میں ہے۔ اس کے علاوہ دو مارچ 1963 کو چین اور پاکستان کے بیچ دستخط شدہ چین پاکستان ‘سرحد قرار’ کے تحت پاکستان نے پاکستان مقبوضہ کشمیر کا 5180 مربع کیلومیٹر چین کو سونپ دیا تھا۔
اس کے علاوہ چین اکثر اروناچل پردیش میں لگ بھگ 90000 مربع کیلومیٹر کے ہندوستانی علاقے پر دعویٰ کرتا رہتا ہے۔