بی جے پی ایم پی نشی کانت دوبے نے گزشتہ ماہ پارلیامنٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ سنتھال پرگنہ میں آدی واسیوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی درانداز یہاں آباد ہو رہے ہیں۔ جھارکھنڈ جنادھیکار مہاسبھا اور لوک تنتر بچاؤ ابھیان کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی نے پارلیامنٹ اور میڈیا میں جو اعداد و شمار پیش کیے ہیں، وہ جھوٹے ہیں۔
جھارکھنڈ جنادھیکار مہاسبھا اور لوک تنتر بچاؤ ابھیان کے ممبران رپورٹ جاری کرتے ہوئے۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@JharkhandJanad1)
نئی دہلی: جھارکھنڈ جنادھیکار مہاسبھا اور لوک تنتر بچاؤ ابھیان نے اپنی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں بتایا ہے کہ سنتھال پرگنہ کے بنگلہ بولنے والے مسلمان ہندوستانی ہیں نہ کہ بنگلہ دیشی درانداز۔
’سنتھال پرگنہ میں بنگلہ دیشی دراندازی اور متعلقہ معاملات – متھ بنام سچائی’ کے عنوان سے 6 ستمبر کو پریس کلب (رانچی) میں جاری کیے گئے
فیکٹ فائنڈگ رپورٹ میں کہا گیا ہے ، ‘چاہے زمین لے کر بسنے کی بات ہو ،آدی واسی خواتین کے ساتھ شادی کی بات ہویا حالیہ تشدد کی بات ہو تو ان میں بنگلہ دیشی دراندازی کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ ‘
حقائق کی چھان بین کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟
رپورٹ کے بالکل شروع میں لکھا گیا ہے ، ‘حالیہ دنوں میں بی جے پی مسلسل یہ پروپیگنڈہ کر رہی ہے کہ سنتھال پرگنہ میں بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی درانداز آ رہے ہیں جو آدی واسیوں کی زمین پر قبضہ کر رہے ہیں ، آدی واسی خواتین سے شادی کر رہے ہیں اور آدی واسیوں کی آبادی کم ہورہی ہے۔ علاقے میں حالیہ تشدد کے کئی واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے ان دعوؤں پرسماجی اور سیاسی ماحول بنایا جا رہا ہے ۔ زمینی حقیقت کو سمجھنے کے لیے جھارکھنڈ جنادھیکار مہاسبھا اور لوک تنتر بچاؤ ابھیان کے ایک وفد نے سنتھال پرگنہ جا کر تمام متعلقہ معاملے کے حقائق کی چھان بین کی ۔‘
وفد نے کئی گاؤں کا دورہ کیا اور مقامی لوگوں ، طلباء ، عوامی نمائندوں وغیرہ سے پوچھا کہ کیا کسی کے پاس آج تک ایک بھی بنگلہ دیشی دراندازی کے بارے میں معلومات ہے ؟ سب نے کہا کہ ایسی کوئی جانکاری نہیں ہے ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے دراندازی کی بات کہاں سنی، تو سب نے کہا کہ انہیں سوشل میڈیا سے اس کا علم ہوا لیکن آج تک دیکھا نہیں ہے ۔
بتا دیں کہ جھارکھنڈ کے بی جے پی ایم پی نشی کانت دوبے نے گزشتہ ماہ پارلیامنٹ میں بنگلہ دیشی دراندازوں کا معاملہ اٹھایا تھا۔ انہوں نے
دعویٰ کیا تھا کہ سنتھال پرگنہ میں آدی واسیوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی درانداز آ کر آباد ہو رہے ہیں۔
ایم پی نے کہا تھا کہ بنگلہ دیشی دراندازوں کی وجہ سے جھارکھنڈ بننے کے بعد سے سنتھال پرگنہ میں آدی واسیوں کی آبادی 16 فیصد کم ہوئی ہے ۔ سن 2000 میں سنتھال پرگنہ میں 36 فیصد آدی واسی تھے اور اب 26 فیصد ہیں ۔
دوبے نے ریاست کی ہیمنت سورین حکومت پر بنگلہ دیشی دراندازوں کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام لگایا تھا اور ہندوستانی حکومت سے ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
آدی واسیوں کی آبادی کی حقیقت کیا ہے ؟
بی جے پی لیڈر مسلسل کہہ رہے ہیں کہ بنگلہ دیشی دراندازوں کی وجہ سے پچھلے 24 سالوں میں آدی واسیوں کی آبادی میں 10-16 فیصد کمی آئی ہے ۔ رپورٹ میں سرکاری ڈیٹا سے اس دعوے کی چھان بین کی گئی ہے۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے حوالے سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں لکھا گیا ہے کہ ‘ پہلی بات توبنگلہ دیشی دراندازوں کے آباد ہونےکے کوئی ثبوت نہیں ہیں ۔ دوسری بات ، مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق، سنتھال پرگنہ کے علاقے میں 1951 میں ، 46.8فیصد آدی واسی ، 9.44فیصدمسلمان اور 43.5فیصد ہندو تھے ۔ وہیں۔ 1991 میں 31.89فیصد آدی واسی تھے اور 18.25فیصد مسلمان ۔ آخری مردم شماری (2011) کے مطابق علاقے میں 28.11فیصد آدی واسی تھے ، 22.73فیصدمسلمان اور 49فیصد ہندو تھے ۔ 1951 اور 2011 کے درمیان ہندوؤں کی آبادی میں24 لاکھ ، مسلمانوں کی آبادی میں 13.6 لاکھ اور آدی واسیوں کی آبادی میں 8.7 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے ۔ ‘
اعداد و شمار سے واضح ہے کہ آدی واسیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن کل آبادی میں ان کا تناسب کم ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے ، ‘یہ واضح ہے کہ بی جے پی نے پارلیامنٹ اور میڈیا میں جو اعداد و شمار پیش کیے ہیں وہ جھوٹے ہیں، لیکن کل آبادی میں آدی واسیوں کا گھٹتا تناسب ایک سنگین معاملہ ہے اور اس کی بنیادی وجوہات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔آدی واسیوں کے تناسب میں بڑے پیمانے پر کمی 1951 اور 1991 کے درمیان واقع ہوئی اور اب بھی جاری ہے ۔ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں؛ پہلی، کئی دہائیوں سے آدی واسیوں کی آبادی میں اضافے کی شرح ناکافی غذائیت ، ناکافی ہلیتھ کیئر ، اقتصادی حالات کی وجہ سےغیر قبائلی گروہوں سے کم ہے ۔ دوسری، سنتھال پرگنہ کے علاقے میں جھارکھنڈ ، بنگال اور بہار سے مسلمان اور ہندو آکر بستے گئے اور آدی واسیوں سے زمین خریدتے گئے۔ تیسری، سنتھال پرگنہ سمیت پوری ریاست کے آدی واسی دہائیوں سے لاکھوں کی تعداد میں ہجرت کرنے کو مجبور ہو رہےہیں، جس کا براہ راست اثر ان کی آبادی میں اضافے کی شرح پر پڑتا ہے ۔‘
تشدد کے واقعات میں کون ملوث ہے ؟
گزشتہ چند مہینوں میں سنتھال پرگنہ، خصوصی طور پاکڑ، میں مختلف برادریوں کے درمیان تشدد کے کئی واقعات پیش آئے ہیں،مثلاً— گائےبتھان ، گوپی ناتھ پور ، تارا نگر-الامی وغیرہ جیسے دیہاتوں میں۔ بی جے پی پروپیگنڈہ کر رہی ہے کہ یہ واقعات بنگلہ دیشی دراندازوں نے انجام دیے ہیں ۔
فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ نے بی جے پی کے اس پروپیگنڈے کو مسترد کر دیا ہے۔ وفد نے پایا کہ جو بھی واقعات پیش آئے ، وہ مقامی لوگوں کے درمیان ہوئے ۔ ان تمام دیہاتوں کے کسی بھی دیہاتی ( آدی واسی ، ہندو یا مسلمان ) نے بنگلہ دیشی دراندازوں کے بسنے کی بات نہیں کی ۔ یہاں تک کہ تارانگر – الامی میں رہنے والے بی جے پی کے منڈل صدر نےبھی کہا کہ ان کے علاقے کے تمام مسلمان یہیں کے باشندہ ہیں ۔
رپورٹ میں ان علاقوں کے مسلمانوں کی تاریخ بھی بیان کی گئی ہے ، ‘اس وقت پاکڑ اور صاحب گنج میں رہنے والی مسلم کمیونٹی کا ایک بڑا حصہ شیرشاہ آبادی ہیں جو کئی دہائیوں سے وہاں آباد ہیں ۔ اس کے علاوہ جھارکھنڈ میں پڑوسی ریاستوں سے آئے پسماندہ اور دیگر کمیونٹی آباد ہیں ۔ ان میں سے بہت سے لوگ جمع بندی رعیت ہیں اور گزشتہ چند دہائیوں میں قریبی اضلاع / ریاستوں سے آکر آباد ہوئے ہیں ۔ تاریخی طور پر شیرشاہ آبادی مسلمان مغل دور سے ہی گنگا کے کنارے ( راج محل سے موجودہ بنگلہ دیش کے راج شاہی ضلع تک ) بسے رہے ہیں ۔ یہ بھی اہم ہے کہ بی جے پی کے ذریعے جتنی بھی جگہوں کے معاملے اٹھائے گئے ،زیادہ تر دیہاتوں میں فرقہ وارانہ تشدد کی کوئی تاریخ نہیں ہے ۔‘
کیا زمین پر قبضہ کرنے کے لیے بنگلہ دیشی مسلمان آدی واسی خواتین کو نشانہ بنا رہے ہیں ؟
دائیں بازو کی تنظیموں کی طرف سے یہ بات پھیلائی جا رہی ہے کہ بنگلہ دیشی مسلمان زمین حاصل کرنے کے لیےآدی واسی خواتین سے شادی کر رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں شیڈول ٹرائب کمیشن کی رکن اور بی جے پی لیڈر آشا لکڑا نے 28 جولائی کو ایک پریس کانفرنس میں ایک فہرست جاری کی تھی ، جس میں سنتھال پرگنہ علاقے کی 10 قبائلی خواتین کے نمائندوں اور ان کے مسلمان شوہروں کے نام تھے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ روہنگیا مسلمان اور بنگلہ دیشی درانداز قبائلی خواتین کو پھنسا رہے ہیں ۔
فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے وفد کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایسی کئی خواتین سے ملاقات کی ۔ ایک بھی ایسامعاملہ نہیں ملا جس میں بنگلہ دیشی درانداز کے ساتھ شادی ہوئی ہو ۔ یہاں تک کہ مقامی دیہاتیوں کو بھی ایسے کسی معاملے کا علم نہیں ہے ۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جن 10 خواتین کی فہرست شیڈول ٹرائب کمیشن کے ممبر نے جاری کی ہے ان میں سے 6 خواتین کی شادی مقامی مسلمانوں سے ہوئی ہے اور تین کے شوہر قبائلی ہی ہیں ۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے ، ‘علاقے میں قبائلی خواتین کی ہندو، مسلم یا غیر قبائلیوں سے شادی کرنے کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔ لیکن ان خواتین نے اپنی رضامندی اور آپسی پسند سے شادی کی ہے ۔ یہ بھی واضح رہے کہ سیاسی جماعتیں اور لوگ سوشل میڈیا پر خواتین اور ان کی ذاتی زندگی سے متعلق باتوں کومشتہر کرکے ان کی پرائیویسی کی سنگین خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔‘
بی جے پی پر انتخابی فائدے کے لیے سماج میں دراڑ پیدا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے ، ‘ بی جے پی ریاست کے مسلمانوں کو بنگلہ دیشی درانداز قرار دے کر قبائلیوں ، ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان سماجی اور سیاسی دراڑ پیدا کرنا چاہتی ہے ۔ اس کا مقصد جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات سے قبل مذہبی اور سماجی پولرائزیشن پیدا کرنا ہے ۔‘
مکمل رپورٹ پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔