بنگال: اسلامی تنظیموں کے احتجاج کے بعد ممتا حکومت نے جاوید اختر کا پروگرام ملتوی کیا

مغربی بنگال اردو اکادمی نے 'ہندی فلموں میں اردو کا کردار' سے متعلق اپنے چار روزہ جشن  کوملتوی کر دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کچھ اسلامی تنظیموں نے نغمہ نگار جاوید اختر کو تقریب میں مدعو کرنے کی مخالفت کی تھی۔ اب ریاستی حکومت کے تحت کام کرنے والی اکادمی نے'نامساعدحالات' کا حوالہ دیتے ہوئے پورے پروگرام  کو ملتوی کر دیا ہے۔

مغربی بنگال اردو اکادمی نے ‘ہندی فلموں میں اردو کا کردار’ سے متعلق اپنے چار روزہ جشن  کوملتوی کر دیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کچھ اسلامی تنظیموں نے نغمہ نگار جاوید اختر کو تقریب میں مدعو کرنے کی مخالفت کی تھی۔ اب ریاستی حکومت کے تحت کام کرنے والی اکادمی نے’نامساعدحالات’ کا حوالہ دیتے ہوئے پورے پروگرام  کو ملتوی کر دیا ہے۔

نغمہ نگار اور اسکرین رائٹر جاوید اختر۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مغربی بنگال اردو اکادمی، جو ہندی فلموں میں اردو کا کردار کا جشن  منانے کے لیے چار روزہ فیسٹیول کا انعقاد کرنے جا رہی تھی، نے اپنا پروگرام ملتوی کر دیا ہے۔ وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ کچھ اسلامی تنظیموں نے نغمہ نگار جاوید اختر کو تقریب میں مدعو کرنے کی مخالفت کی تھی۔

گزشتہ30 اگست کی دو پہر، کولکاتہ میں ایونٹ شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل، اکادمی کی سکریٹری نزہت زینب نے سوشل میڈیا پر جاری  ایک بیان میں کہا’ ‘نامساعد حالات کی بنا پر 31 اگست سے 3 ستمبر تک مجوزہ چار روزہ پروگرام ‘ہندی فلموں میں اردو’ کو ملتوی کیا جا رہا ہے۔’

جب ان سے ملتوی کرنے کی  وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے دہرایا، ‘جیسا کہ میں نے کہا، نامساعد حالات کی بنا پر۔’

دی ہندو نے اکادمی سے وابستہ ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ریاست کی ترنمول حکومت نے یہ فیصلہ اس لیے لیا کیونکہ کم از کم دو اسلامی تنظیموں جمعیۃ علماء ہند اور وہیان فاؤنڈیشن نے جاوید اختر کو پروگرام میں مدعو کرنے کی مخالفت کی تھی۔

دی ہندو کے ذرائع کے مطابق، اختر ملک کے معروف  شاعروں میں شمار ہوتے ہیں اور خود کو ملحد کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، جسے یہ تنظیمیں قبول نہیں کرتیں۔

اخبار نے اپنے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے مزید لکھا ہے کہ انتخابی سال سے پہلے مغربی بنگال کی ممتا بنرجی حکومت کسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی اور نہ ہی کوئی ناخوشگوار واقعہ ہونے دینا چاہتی تھی۔

اکادمی کی منتظمہ کمیٹی اور جنرل کونسل کی رکن اور ایونٹ کے مرکزی منتظمین میں سے ایک غزالہ یاسمین نے دی ہندو کو بتایا، ‘میں مایوس ہوں کیونکہ ہم نے کولکاتہ کے شائقین کے لیے ایک منفرد ادبی اور ثقافتی پروگرام آراستہ کرنے کے لیے سخت محنت کی تھی، جس میں ہندی سنیما میں اردو کی خدمات کو دکھایا جاتا۔ لیکن مجھے امید ہے کہ ہم اس پروگرام کو کسی اور وقت اور بھی زیادہ تنوع اور وسیع شراکت کے ساتھ منعقد کر پائیں گے۔’

پہلےسے مل رہی تھی دھمکی

جاوید اختر کو پروگرام میں مدعو کیے جانے کے اعلان کے بعد سے ہی اسلامی تنظیمیں احتجاج کر رہی تھیں۔

انڈیا ٹوڈے کے مطابق ، جمعیۃ علماء ہند کی کولکاتہ اکائی نے اختر کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیے جانے پر سخت اعتراض کیا تھا۔ اکادمی کو لکھے گئے خط میں تنظیم نے کہا تھا کہ دعوت نامہ واپس لے لیا جائے کیونکہ اختر بار بار ‘مذہب اور اللہ کے خلاف بولتے ہیں۔’

خط میں بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین کی مثال دیتے ہوئے احتجاج کا انتباہ بھی دیا گیا تھا۔

جمعیۃ نے خط میں کہا تھا کہ جاوید اخترایسے شخص ہیں جو دین اور اللہ کے خلاف بولتے ہیں۔ ایسے شخص کو اردو زبان سے متعلق کسی بھی پر وقار پروگرام میں مدعو کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ اردو دنیا میں بہت سے اچھے شاعر، ادیب اور صحافی ہیں جنہیں اس پروگرام میں مدعو کیا جا سکتا ہے۔’

جمعیۃ علماء ہند کے بعد کولکاتہ کی ایک اور اسلامی فلاحی تنظیم وہیان فاؤنڈیشن نے بھی اکادمی کے اس اقدام کی مخالفت کی تھی۔

تنظیم کے مولانا شمائل ندوی نے پریس کانفرنس میں کہا تھا، ‘اردو اکادمی یکم ستمبر کو کولکاتہ میں ایک مشاعرہ منعقد کر رہی ہے۔ ہمیں یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اکادمی نے جاوید اختر صاحب کو تقریب کی صدارت کے لیے مدعو کیا ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ایسے شخص کو کیسے مدعو کیا جا سکتا ہے جو کھلے عام اللہ اور ایمان کے خلاف بات کرے اور نوجوانوں پر منفی اثر ڈالے؟ ہم نے اپنا موقف اکادمی کو بتا دیا ہے، اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں۔

دریں اثنا، اردو اکادمی کی جانب سے اس چار روزہ فیسٹیول کو ملتوی کیے جانے کے بعد اردو ادیبوں اور شاعروں سمیت دانشوروں اور سماجی کارکنوں نے حکومت کے اس اقدام پر تنقید کی ہے اور حکومت پر مذہبی  شدت پسندی کو فروغ دینے کا الزام لگایا ہے۔