کرناٹک کے بیلگاوی ضلع کا معاملہ۔ 28 ستمبر کو 24 سالہ اربازکی مسخ شدہ لاش ضلع سے لگ بھگ 30 کیلومیٹر دور ریلوے ٹریک سے برآمد کی گئی۔مہلوک کی ماں نے رائٹ ونگ تنظیم شری رام سینا کے دو ممبروں اور ہندو لڑکی کے والدکے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔
ارباز مُلا (فوٹو اسپیشل ارینجمنٹ)
رائٹ ونگ تنظیم کےممبروں کےذریعےکرناٹک کے بیلگاوی ضلع میں ہندولڑکی سے پیارکرنے والے ایک مسلم نوجوان کےقتل کا معاملہ سامنے آیا ہے۔
یہ واقعہ28 ستمبر کا ہے۔ اس دن 24 سالہ ارباز مُلاکی مسخ شدہ لاش بیلگاوی ضلع سے لگ بھگ 30 کیلومیٹر دور دیسر اورخان پور ریلوے اسٹیشن کے بیچ ٹریک سے برآمد کی گئی۔
مہلوک نوجوان کی ماں نظیمہ شیخ نےاپنے بیٹے کےقتل کےلیےرائٹ ونگ تنظیم شری رام سینا کے ممبروں اور لڑکی کے والدکے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔
مہلوک کی ماں نے دی وائر کو بتایا کہ ان کا بیٹا ارباز اور ہندو کمیونٹی کی ایک لڑکی گزشتہ کچھ سالوں سے رابطےمیں تھے، لیکن انہیں دونوں کے رشتہ کے بارے میں پچھلے سال ہی پتہ چلا اور انہیں تبھی سے اس بات کا خدشہ تھا کہ اس کے لیے اس کے بیٹے کوقتل کر دیا جائےگا۔
ہندوخاتون سے پیارکرنے کی وجہ سے آنی والی پریشانیوں سے بچانے کے لیےمتاثرہ ماں نے کئی گھر بدلے تاکہ وہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھ سکیں، لیکن دونوں الگ نہیں ہو پائے۔
رائٹ ونگ تنظیم شری رام سینا سے وابستہ افراد اور لڑکی کے اہل خانہ پر ارباز کو اغوا کرکےقتل کرنے ، اور لاش کو مسخ کر کےریلوے ٹریک پر پھینکنے کاالزام ہے، تاکہ اس قتل کو خودکشی کا معاملہ دکھایا جا سکے۔
پولیس کے مطابق، لاش کے پاس ملے ثبوت اور اربازکی موت سے وابستہ کئی واقعات واضح طور پراشارہ کرتے ہیں کہ یہ منصوبہ بند سازش تھی، جس کے بعد لاش کو ٹھکانے لگایا گیا۔
نظیمہ نے واضح طور پرایف آئی آرمیں تین لوگوں کو نامزد کیا ہے، جن میں شری رام سینا سے جڑے پنڈالک مہاراج اور برجےاورلڑکی کےوالدکمبھار شامل ہیں۔ پولیس نے معاملے میں ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں کی ہے۔
ایف آئی آر میں برجے اور کمبھار کے پورے نام کا ذکر نہیں ہے۔
بیلگاوی ریلوے پولیس سے جڑے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ لڑکی کے اہل خانہ اور شری رام سینا کے ممبروں سمیت اب تک 33 لوگوں کو پوچھ تاچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے، لیکن ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔
اس بیچ جانچ کرنے والے افسرانجیا نے فون پر بات کرنے سے انکار کر دیا، لیکن ان کے ماتحت ستیپا مکنور نے کہا کہ جانچ جاری ہے، اس لیے ابھی وہ کسی بھی بات کی تصدیق نہیں کر سکتے۔
اس معاملے کی جانچ اب بیلگاوی ضلع پولیس کو سونپ دی گئی ہے۔
حالانکہ ارباز کے اہل خانہ کی گواہی اور واقعات سے اشارہ ملتا ہے کہ یہ ایک منصوبہ بند مجرمانہ سازش ہو سکتی ہے۔
پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ120(بی)نہیں لگائی ہے۔اس کے بجائے ایف آئی آر میں آئی پی سی کی دفعہ302(قتل)،201(ثبوتوں کو ضائع کرنا)اور34(یکساں ارادے سے مجرمانہ فعل کو انجام دینا)کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
ہم لگاتار خوف کے سائے میں جی رہے
ارباز پچھلے سال کے اواخرتک بیلگاوی ضلع کے باہری علاقے خان پور میں اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔ماں کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا کار ڈیلر تھا اور بہت ہی ذمہ دار تھا۔
وہیں نظیمہ ایک مقامی اردو میڈیم اسکول میں پڑھاتی ہیں، جبکہ ان کے شوہر ایک درزی تھے، جن کی کچھ سال پہلے موت ہو گئی تھی۔
ارباز اور ہندو لڑکی طویل عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔
نظیمہ نے دی وائر کو فون پر بتایا،‘وہ ہمارے گھر کے بغل میں ہی رہتی تھی۔ پہلے دونوں دوست تھے، لیکن پھر دونوں میں پیار ہو گیا۔’
وہ کہتی ہیں کہ وہ ہندو اکثریتی علاقے میں رہتی تھی اور انہیں احساس ہو گیا تھا کہ یہ ان کے بیٹے کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے ارباز سے یہاں سے کسی دوسری جگہ جانے کو بھی کہا تھا۔
اس کے بعد وہ اپنے بیٹے کےساتھ کسی دوسری جگہ شفٹ ہو گئی تھیں۔ بیلگام جانے سے پہلے نظیمہ اور ارباز تین الگ الگ گھر کرایے پر لے چکے تھے، لیکن ہر بار ارباز اور وہ لڑکی ایک دوسرے کے رابطے میں رہنے کا راستہ نکال لیتے تھے۔
وہ کہتی ہیں،‘پچھلا سال ہم لوگوں نے ڈر کے سائے میں بتایا اور آخرکار میں نے لڑکی کے گھروالوں کو اس کی اطلاع دی۔’
وہ کہتی ہیں،‘مجھے امید تھی کہ وہ کچھ کریں گے اور یہ یقینی بنائیں گے کہ دونوں الگ الگ رہیں،لیکن انہوں نے اس کے بجائے ارباز اور مجھے اس کا خمیازہ بھگتنے کی دھمکی دے دی۔’
وہ کہتی ہیں کہ لڑکی کے اہل خانہ نے مقامی شری رام سینا کے غنڈوں سے رابطہ کیا اور 26 ستمبر کو ارباز کو شری رام سینا کے مقامی ممبر پنڈالک مہاراج نام کے ایک شخص کا فون آیا۔
مہاراج نے ارباز کو خان پور چوک آنے کو کہا اور کہا کہ وہاں ہزاروں کی تعداد میں شری رام سینا کے لوگ اسے سبق سکھانے کے لیے انتظار کر رہے ہیں۔
وہ کہتی ہیں،‘میں نے بھی ارباز کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو وہاں صرف مہاراج اور برجے نام کا ایک اور شخص تھا۔’
وہ کہتی ہیں،‘دونوں نے میرے بیٹے کا فون چھین لیا اور اس کے فون سے لڑکی کی فوٹو ڈی لٹ کر دی، سم بھی توڑ دی اور ارباز کے لڑکی سے ملنے پر تیزاب سے حملے کی دھمکی دی۔’
ایف آئی آر میں بھی ان کے بیان میں اس کا ذکر ہے۔
اس واقعہ کے ایک دن بعد نظیمہ کو اپنی بہو کے پاس گوا جانا پڑا۔ 28 ستمبر کی صبح ارباج نے نظیمہ کو کئی بار فون کیا اور اسے گھر آنے کو کہا۔
وہ کہتی ہیں،‘وہ (ارباز)مجھے لگاتار کہتا رہا کہ اسے ڈر تھا کہ اس پر حملہ ہوگا۔ کوئی اسے باربار فون کر رہا تھا۔ میں نے اسے اطمینان دلایا کہ میں اگلی ٹرین لےکر گھر آ جاؤں گی۔’
نظیمہ28ستمبر کو شام لگ بھگ 7:30بجے بیلگاوی پہنچیں،لیکن تب تک اربازکاقتل ہو چکا تھااور پولیس نے ان کی لاش ریلوے ٹریک سے برآمد کر لی تھی۔
اس واقعہ کے بعد سے ان کی دیکھ بھال کر رہے ارباز کے چچازادبھائی سمیر کا کہنا ہے کہ ارباز پر بہت دباؤ تھا۔
سمیر نے بتایا،‘کال کرنے والوں نے اس سے پیسے مانگے تھے۔ جب نظیمہ اور ارباز26 ستمبر کو مہاراج سے ملے تھے تو ارباز کو ‘سمجھوتہ رقم’کی صورت میں مہاراج کو 7000 روپے دینے پڑے تھے۔ جس دن ارباز کا قتل کیا گیا، اس دن بھی پیسوں کی اسی طرح کی مانگ کی گئی تھی۔
ان کےمطابق، ارباز کو ڈر تھا کہ اس کے دو مہنگے آئی فون چھین لیے جا ئیں گے،اس لیے 28 ستمبر کو گھر سے نکلنے سے پہلے اس نے آئی فون اپنی دادی کو دے دیےتھے۔
سمیر کہتے ہیں،‘جب ارباز گھر سے نکلا تو اس کے پاس سستا فون تھا۔’
اب یہی فون ایک اہم ثبوت ہے، کیونکہ گھروالوں کے دعووں کے مطابق دھمکی بھرے فون کال اسی نمبر پر کیے گئے تھے۔
کانگریس کے ایک مقامی رہنما عرفان تالکوٹی کیس لڑنے میں متاثرہ فیملی کی مدد کر رہے ہیں۔ تالکوٹی کا ماننا ہے کہ ارباز کی مسخ شدہ لاش کو کسی مقصد سے ریلوے ٹریک پر پھینکا گیا۔
انہوں نے کہا،‘دراصل وہ ارباز کی موت سے دوسرے مسلمانوں کوواضح پیغام دینا چاہتے ہیں۔ وہ مسلم کمیونٹی کوقاعدے میں رہنے کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ارباز کے ساتھ کی گئی یہ بدسلوکی ان لوگوں کے لیے ایک وارننگ تھی، جو پیار کرنے کاحوصلہ دکھاتے ہیں۔’
نظیمہ کہتی ہیں،‘انہوں نے میرا اکلوتا سہارا چھین لیا، لیکن میں چپ نہیں رہوں گی۔ انہوں نے میرے بیٹے کو مارکر اپنے خون کی پیاس تو بجھا لی ہوگی، لیکن جب تک میرے بیٹے کو انصاف نہیں مل جاتا، میں ان سے لڑوں گی۔ میں ان سب کو پھانسی پر چڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں۔’
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)