بنگلہ دیش میں تشدد کےنئےچکر سےشایدہم ایک جنوب ایشیائی پہل کے بارے میں سوچ سکیں جو اقلیتوں کےحقوق کےتحفظ اور ان کی برابری کےحق کےلیےایک بین الاقوامی معاہدہ کی تشکیل کرے ۔
بنگلہ دیش میں ہندوؤں پرمسلسل حملے۔حکومت کے سخت موقف کے باوجود دنگائیوں پر گولی چلانے کے بعد بھی حملے پھیل گئے۔ عوامی لیگ کی سرکار کےوزیروں اور وزیر اعظم نےباربار کہاکہ مجرموں کو کھوج نکالا جائےگا اور کڑی سزا دی جائےگی۔ لیکن تشددبندنہیں ہوا۔
تشدد کے لیےبنگلہ دیش کی جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ تنظیم کے علاوہ خلافت تحریک کےایک دھڑے اور بنگلہ دیش کی اہم اپوزیشن پارٹی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور دوسری‘اسلامی’تنظیموں کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ سرکار کا کہنا ہے کہ یہ تشدد پوری طرح سے منصوبہ بندسازش کے تحت کیا گیا اور ارادہ ملک کے امن اور اس کے سماجی تانےبانے کومجروح کرنے کا ہے۔
ادھر بی این پی نے حکمراں جماعت پر ہی الزام لگایا کہ آئندہ انتخاب میں عوام کی توجہ اس کی آمریت سے بھٹکانے کے لیے اسی نے اس تشدد کوبھڑکایا ہے یا ہونے دیاہے۔
بنگلہ دیش دوسرا ملک ہے لیکن وہاں بھی اس تشدد کو فرقہ وارانہ تشدد کہا جا رہا ہے۔ وہاں بھی اخبار اور انسانی حقوق کے کارکن اور طلبا اور اساتذہ پوچھ رہے ہیں کہ آخر اس ملک میں اقلیتوں پر اس طرح کا ظلم کب تک جاری رہےگا۔
‘ڈھاکہ ٹربیون’نے اپنے اداریہ میں لکھا‘یہ سب کچھ طویل عرصے سے جاری ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد کو قابو کرنے میں ہم نے کتنی ہی کامیابی کیوں نہ حاصل کی ہو، یہ بدشکل تشدد باربار، سال در سال سر اٹھا ہی لیتا ہے۔’
اس طرح کے تشدد کے لیے ہر بار کوئی ایک وجہ دی جاتی ہے، جس سے آپ تشدد سے زیادہ وجہ پر چرچہ کرنے لگیں اور تشددجائز نہیں تو اس وجہ کی ایک فطری ردعمل جان پڑنے لگے اور اس طرح اس کی ذمہ داری تشدد کو منظم کرنے والوں اور اس میں شامل لوگوں کے ساتھ، یا ان سے زیادہ اس وجہ کی وجہ پر بھی ڈال دی جا سکے۔ سو، اس بار تشدد کا اکساوا بتلایا جا رہا ہے کو ملا میں ایک پوجا کے پنڈال میں مقدس قرآن کا رکھ دیا جانا۔ اس کی خبر پھیلنے میں دیر نہیں لگی اورتشدد بھڑکنےمیں اس سے بھی کم دیر۔
پھرسوشل میڈیا پر خانہ کعبہ کی توہین کرنے والے کسی نوجوان کے مبینہ تبصرے کے بہانے ایک دوسری جگہ، رنگ پور میں تشددبرپاہوا۔ ایک کے بعد ایک شہروں اور علاقوں میں یہ تشدد کیا گیا۔ پوجا کے پنڈال توڑ دیے گئے، مجسموں کو توڑا گیا، گھروں اور دکانوں میں آگ زنی کی گئی، ہندوؤں پر حملہ کیا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے ہر جگہ تشدد کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہے، پولیس کے لوگ بھی زخمی ہوئے ہیں۔ہندوؤں پر تشدد کرنے والوں میں کچھ مارے بھی گئے ہیں۔پولیس نے ہزاروں دنگائیوں کے خلاف رپورٹ درج کی ہے اور کئی کو گرفتار کیا ہے۔
لیکن اب تک ہندوؤں کا کافی نقصان ہو چکا ہے۔ پوچھا جا رہا ہے کہ جب اس کا خدشہ تھا تو پہلے ہی اسے روکنے کے لیے سرکار نے قدم کیوں نہیں اٹھائے۔
بنگلہ دیش میں کوئی پہلی باراقلیتوں میں سے کسی ایک کمیونٹی پرتشدد ہوا ہو،ایسا نہیں۔ہندوؤں، بودھوں، عیسائیوں کے خلاف الگ الگ وقت پرتشدد ہوتا رہا ہے۔
بنگلہ دیش کےبننے کےوقت جو خواب دیکھا گیا تھا، وہ اب تک خواب ہی رہا۔ وہ یہ کہ ایک زبان پر مبنی سیکولرملک بناہے۔ یہ تجربہ شروع سے ہی مشکل میں ہے۔ بننےکے 4 سال کے اندر ہی اس آئیڈیالوجی پر بڑا حملہ کیا گیا جب بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کا تختہ پلٹ دیا گیا اور ان کو، ان کے اہل خانہ اور ساتھیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ بنگلہ دیش میں وہ عناصر جو اس طرح کے ملک کےآئیڈیا کے خلاف تھے دھیرے دھیرے مضبوط ہوتے چلے گئے۔
سچ تو یہ بھی ہے کہ اس ملک کی پیدائش میں رول نبھانے والے ہندوستان میں بنگلہ دیش کے بننے کو لےکر جو جشن تھا، وہ ایک سیکولر ملک کے بننے کا جتنا نہ تھا، اتنا پاکستان کو توڑ دینے کا تھا۔ یہ بےایمانی بعد میں ڈھٹائی سے بنگلہ دیش اور اس کے شہریوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے میں بدل گئی۔
بنگلہ دیش بھی بنگلہ بھاشی لیکن مسلمان ملک ہی بنتا چلا گیا جس میں باقی اقلیت اکثریتی مسلمانوں کی مہربانی پر رہیں۔
ابھی جب یہ سطور لکھے جا رہے ہیں، ڈھاکہ میں طلباہندوؤں پر حملوں کے خلاف سڑک پر مظاہرہ کر رہے ہیں۔
آئندہ 23 اکتوبر سے ہندو بودھ عیسائی یونٹی کاؤنسل نے ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ اساتذہ نے اس تشدد کی شدید مذمت کی ہے۔
یہ بنگلہ دیش کےقیام کی گولڈن جوبلی کاسال ہے۔ صرف 50سال میں ایک بڑے عزم کوفرقہ وارانہ ذہنیت نے ہرا دیا ہے، ایساخوف محسوس ہوتا ہے۔ یہ چیلنج بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے سامنے ہے کہ کیا وہ اس ہارکو قبول کر لیں گے یا اپنی کمزوریوں کو پہچان کر 1971 میں شروع کیے گئے جرأت مندسفرکے راہوں کی رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔
بنگلہ دیش کا استعمال ہندوستان کے لیےیہ نہیں ہونا چاہیے کہ اس تشدد کے مناظر دکھلاکر مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کواور بھڑکایا جائے۔مغربی بنگال میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے یہ کرنا شروع کر دیا ہے۔
تاریخی اور جغرافیائی وجوہات سے ایک ملک میں جو کچھ ہوگا اس کا اثر دوسرے پر پڑتا رہا ہے اسی لیے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم نےحکومت ہند کو کہا ہے کہ وہ اپنے یہاں فرقہ وارانہ عناصر پر لگام لگائے۔ لیکن جس سرکار کا وزیر داخلہ اورباقی وزیربنگلہ دیشیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی زبان کے علاوہ کچھ نہ جانتے ہوں، اس سے یہ امید کچھ زیادہ ہے۔
پھر بھی، ہمیں دھیان رکھنا چاہیے کہ ہم بنگلہ دیش کے ہندوؤں کی مدد اسی طرح کر سکتے ہیں کہ اپنے ملک میں اقلیت،بالخصوص مسلمان اور عیسائی مخالف تشدد کو قابو کریں۔
بنگلہ دیش میں تشدد کے اس نئے چکر سے شاید ہم ایک جنوب ایشیائی پہل کے بارے میں سوچ سکیں جو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی برابری کے حق کے لیے ایک بین الاقوامی معاہدے کی تشکیل کرے۔ جس ملک میں اقلیت محفوظ نہیں، وہ مہذب ہی کیسے کہلا سکتا ہے؟ خود کو قاضی نذرالاسلام کا ملک کہنے والا ملک کیا ان کے لائق بھی رہ گیا ہے؟
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)