ویسے تو ہر سال دسمبر میں بنگلہ دیش کے قیام اور پاکستانی لیڈرشپ کی ناکامی اور ہندوستانی فوج کے کارناموں پر سیر حاصل بحث ہوتی ہے۔مگر اگر دیکھا جائے تو بنگلہ دیش یا مشرقی پاکستان کو ایک الگ ملک بنانے کی بنیاد تو 1947 میں ہی ڈالی گئی تھی، جب پاکستانی حکومت بحیرہ عرب میں جزائر لکشدیپ اور خلیج بنگال میں انڈومان نکوبار جزائر پر اپنا دعویٰ کھو بیٹھی تھی۔
ہندوستان-بنگلہ دیش بارڈر (علامتی فوٹو : رائٹرس)
اپنی سروس کے آخری دنوں میں پاکستان کے سابق فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے ملک کے دولخت ہونے اور بنگلہ دیش کے قیام کے لیے سیاسی لیڈروں کو مورد الزام ٹھہرایا۔ مگرہندوستان، پاکستان کی ملٹری تاریخ اور دستاویزات کے مطابق پاکستان کی اس وقت کی دونوں یعنی سیاسی اور ملٹری قیادت فیصلہ کرنے کی قوت کھو چکی تھی اور یکے بعد دیگرے ایسے فیصلے کر رہی تھی، جس سے ان کی افواج کو ڈھاکہ میں ہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔
ویسے تو ہر سال دسمبر میں بنگلہ دیش کے قیام اور پاکستانی لیڈرشپ کی ناکامی اور ہندوستانی فوج کے کارناموں پر سیر حاصل بحث ہوتی ہے۔مگر اگر دیکھا جائے تو بنگلہ دیش یا مشرقی پاکستان کو ایک الگ ملک بنانے کی بنیاد تو 1947 میں ہی ڈالی گئی تھی، جب پاکستانی حکومت بحیرہ عرب میں جزائر لکشدیپ اور خلیج بنگال میں انڈومان نکوبار جزائر پر اپنا دعویٰ کھو بیٹھی تھی۔
ان جزائر پر کنٹرول نہ ہونے کی صورت میں اور وہ بھی ہندوستان کے ساتھ کشیدگی کی صورت میں پہلے سے ہی مغربی پاکستان سے مشرقی بازو تک نقل و حمل کے ذرائع ر محدود ہو چکے تھے اور ایسی صورت حال میں اس بازو کو زیادہ دیر تک حصہ بنائے رکھنا ممکن نہیں تھا۔
دستاویزات کے مطابق جس طرح جموں و کشمیر، جونا گڈھ اور حیدر آباد پرہندوستان نے الگ الگ موقف اختیار کرکے ان کو اپنی یونین میں شامل کرادیا، بالکل اسی طرح کا معاملہ لکشدیپ اور انڈومان نکوبار جزائر کے ساتھ بھی پیش آیا۔ 36 جزائر پر مشتمل لکشدیب میں 96فیصد آبادی مسلمان تھی۔ برطانوی عملدداری میں مدراس پریزیڈنسی ان کو کنٹرول کرتی تھی۔
یہ علاقہ ٹیپو سلطان کی مملکت میں شامل تھا اور ان کی موت کے بعد برطانیہ کے قبضے میں آ گیا تھا۔ آزادی کے بعداس خدشہ کے پیش نظر کہ مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہ کہیں پاکستان میں شامل نہ ہوجائے، ہندوستان کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے بحریہ کو فی الفور ان جزائر کا کنٹرول حاصل کرنے کا حکم دے دیا۔
بتایا جاتا ہے کہ چند روز بعد پاکستانی بحریہ اس علاقے میں پہنچی تھی، مگر تب تک ہندوستانی افواج نے اس کا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
دوسری طرف انڈومان نکوبار پر کئی سال تک تذبذب کی کیفیت رہی، کیونکہ ابتدا میں برطانیہ ان کو اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا۔ مگر پاکستانی حکومت کی دلیل تھی کہ یہ جغرافیائی اور تزویراتی طور پر اس کے لیے ضرور ی ہے، اس لیے ان کو اس کی مملکت میں شامل ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہندوستان کبھی بھی اور کسی بھی وقت مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان نقل و حمل کو روک سکتا ہے، اس لیے ان دونوں بازوں کے رابطہ کے لیے بحیرہ عرب میں لکشدیپ اور خلیچ بنگال میں انڈومان نکوبار پر پاکستان کا دعویٰ لازمی ہے۔
کراچی سے ڈھاکہ یا چٹاگانگ جانے والے جہازوں کے لیے ایندھن بھرنے کی سہولیت کی خاطر بھی یہ جزائر پاکستان کے لیے ضروری تھے۔ انڈومان و نکوبار کے لیے برطانیہ کی سربراہی میں انڈیا برما کمیٹی کے تحت کئی بار دونوں ممالک کے درمیان گفت شنید ہوئی اور دستاویزات کا تبادلہ ہوا۔
ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے دلیل دی کہ انڈومان نکوبار کے 8 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط 572جزائر میں، جن میں 37آباد ہیں، کی 34000کی آبادی میں سے 12ہزار ہندو، سکھ اور بدھ مت سے تعلق رکھتے ہیں۔ 11000کے قریب مقامی قبائلی ہیں، جن کا کوئی مذہب نہیں ہے اور آٹھ ہزار کے قریب مسلمان ہیں، جو زیادہ تر قیدیوں کی صورت میں لائے گئے تھے اور پھر ان ہی جزائر میں بس گئے تھے۔ چونکہ ان جزائر کی اکثریتی آبادی غیر مسلموں پر مشتمل ہے، اس لیے ان کا ہندوستان میں جانا ایک فطری بات ہے۔ یہی دلیل جونا گڈھ اور حیدر آباد کے سلسلے میں بھی دی گئی تھی۔
مگر جموں و کشمیر اور لکشدیپ کے معاملے میں اسی دلیل کے برعکس فیصلے کیے گئے۔ نہرو نے مزید کہا کہ صرف ان ہی علاقوں کو پاکستان میں شامل کیا جاسکتا ہے، جہاں کی آبادی اپنی مرضی سے وہاں جانا چاہتی ہو۔ بقیہ تمام علاقے ہندوستان میں شامل تصور کیے جائیں گے۔
دستاویزات کے مطابق وائسراے لارڈ مونٹ بیٹن، برطانوی ملٹری کے اس موقف سے متفق نہیں تھے کہ یہ جزائر برطانیہ کی ہی عملداری میں رہنے چاہیے۔ وہ ان کو ہندوستان کے سپرد کرنے کے حامی تھے۔ جولائی 1947 کو بانی پاکستان محمد علی جناح نے سیکریٹری آف اسٹیٹ فار انڈیا کو ایک خط میں خبردار کیا کہ ان جزائر کا ہندوستان میں شامل ہونا ایک سنگین مسئلہ کو جنم دےگا۔ جناح نے اپنے خط میں لکھا؛
یہ جزائر تاریخی یا جغرافیائی طور پر ہندوستان کا حصہ نہیں ہیں۔ وہ برطانوی ملکیت ہیں اور دوسرے چیف کمشنر کے صوبوں کی طرح اسی زمرے میں نہیں ہیں، جو کہ 1935 کے آئینی ایکٹ کے تحت گورنر جنرل کے لیے محفوظ ہیں۔ ان جزائر پر پاکستان کا دعویٰ بہت مضبوط ہے کیونکہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان رابطے کا واحد ذریعہ سمندری راستہ ہے اور یہ جزائر سمندری راستوں پر اہم اسٹریٹجک پوزیشن پر قابض ہیں اور ایندھن بھرنے کے اڈے فراہم کرتے ہیں۔ اس لے انہیں پاکستان کا حصہ بننا چاہیے۔
جناح نے برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی اور اپوزیشن لیڈر ونسٹن چرچل کو بھی باور کرانے کی کوشش کی کہ اگر ان کی حکومت ان جزائر سے متعلق کوئی فوری فیصلہ نہیں کرپاتی ہے، تو کم از اکم ان کو انڈیا انڈپنڈنس ایکٹ کے زمرے سے باہر رکھاجائے۔ ا ن کا اصرار تھا کہ ہندوستان میں ان کی شمولیت پاکستان کے ساتھ صریح نا انصافی ہوگی اور برطانوی پارلیامنٹ کو اس پر غور کرنا چاہیے۔
خیر انڈیا برما کمیٹی نے فیصلہ صادر کردیا کہ وہ گورنر جنرل ماونٹ بیٹن سے اتفاق رکھتی ہے۔ اس لیے یہ جزائر 1950میں ہندوستان کے حوالے کر دیے گئے اور 1956میں ا ن کو مرکزی انتظام والے علاقہ کا درجہ دیکر وہاں لیفٹنٹ گورنر کی تعیناتی کی گئی۔ اس و قت ان جزائر پر ہندوستان کی تینوں مسلح افواج کی مشترکہ کمانڈ موجود ہے، جو مشرقی ایشیاء کے راستوں خاص طور پر ملاکہ بحری گزرگاہ کی دیکھ ریکھ کرتی ہے۔
مزید مؤرخ سری ناتھ راگھون کے مطابق 1971میں ہندوستان کی فوج کشی کا مقصد ابتدا میں مشرقی پاکستان کے کچھ علاقے پر قبضہ کرکے اس کو پاکستان کے فوجی تسلط سے آزاد کروانا تھا۔ ڈھاکہ کی طرف فوجی مارچ کرنا یا پاکستان فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا پلان کا حصہ نہیں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ جس فوجی آپریشن کی منظوری وزیر اعظم اندرا گاندھی اور فوجی سربراہ جنرل سام مانیک شا نے دی تھی، اس کے مقاصدمشرقی پاکستان کے کافی بڑے حصے پر قبضہ کر کے 10 ملین ریفوجیوں کا آباد کرناجو 25 مارچ 1971 کے بعد سے ہندوستان فرار ہو گئے تھے، عوامی لیگ کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں اس علاقے میں’بنگلہ دیش حکومت’ قائم کرنااور پھر’بنگلہ دیش’ کی آزادی کی راہ ہموار کرنے کے لیے مشرقی پاکستان سے پاکستانی افواج کے انخلاء کو یقینی بنانے کے لیے سفارتی تگ ودو کرنا۔
راگھوان کا کہنا ہے کہ دارالحکومت ڈھاکہ سمیت پورے مشرقی پاکستان پر قبضہ کرنے اور پاکستانی افواج سے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ جنگ کے آخری چند دنوں میں لیا گیا تھا۔دارالحکومت ڈھاکہ پر قبضہ غیر ضروری اور حد سے زیادہ چاہت والی خواہش بتایا گیا۔
اس ابتدائی پلان میں بتایا گیا تھاکہ ہندوستانی فوج کے لیے پدما اور میگھنا دریاوں کو کو بغیر پلوں کے پار کرنا نا ممکن ہوگا۔ صرف یہودی چیف آف اسٹاف میجر جنرل جے ایف آر جیکب نے اصرار کیا تھاکہ اگر ڈھاکہ، جو مشرقی پاکستان کا ‘جیو پالیٹکل دل’، ہے پر قبضہ نہ کیا گیا تو پورا آپریشن بے نتیجہ رہے گا۔مگر اس کی تجویز مسترد کر دی گئی۔
لیکن جنگ کے آخری مراحل میں جیکب کی تجویز قبول کی گئی، کیونکہ راگھون کے مطابق، مشرقی پاکستان میں ہندوستان کی فارمیشنز میں کچھ جونیئر،ڈھاکہ کی طرف بڑھ رہے تھے۔اس صورت حال کو دیکھ کر مشرقی پاکستان کے گورنر اے ایم ملک کے فوجی مشیر میجر جنرل راؤ فرمان علی خان نے ڈھاکہ میں پرامن حکومت کے قیام اورپاکستانی افواج اور دیگر اسٹاف کو محفوظ وطن واپسی کی تجویز پیش کی، اس میں ہتھیار ڈالنے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
ہندوستانی حکام اس پر غور کر ہی رہے تھے کہ پاکستان کے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان نے فرمان علی کی تجویز کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ یہ ایک آزاد بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔چند روز بعد جب جنرل مانیک شا نے پاکستانی فوج کے کمانڈر جنرل اے اے کے نیازی کو ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا تو بقول راگھون وہ آسانی سے راضی ہو گئے۔ صدر یحییٰ خان نے بھی اس پر مہر لگائی۔
آخر چند روز قبل کہ فرمان علی کی تجویز کیوں مسترد کی گئی، ہنوز ایک معمہ ہے۔شاید جاتے جاتے جنر ل باجوہ کو اس کا بھی جواب دینا چاہیے تھا۔