26 فروری کے فضائی حملے نے سارے حساب کتاب اور معاملات بدل ڈالے ہیں۔ ایک پر امید کانگریس اب پھر اگلے پانچ سالوں کے لیے حزب اختلاف کی نشستوں پر نظر ڈال رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مودی سیاست میں اتنے ایماندار ہیں کہ وہ اپنی ’عیاری‘ کو بھی نہیں چھپاتے…
فی الحال بی جےپی یا اس کی اتحادی پارٹیوں کے امیدواران کے بالمقابل ایک ہی طاقتور امیدوار کھڑا کرنے کی باتیں کہنے میں آسان ہیں، ان پر عمل بہت مشکل ہے۔ بنگال میں ہی دیکھیں تو ممتا بنرجی یا بائیں بازو کی پارٹیوں کے ساتھ ابھی تک کوئی اشتراک نہیں ہو پایا ہے۔ اس سے بھی بری حالت اُڑیسہ میں ہے، جہاں کانگریس اور نوین پٹنایک کی قیادت والے بیجو جنتا دل میں اتحاد کے امکانات نہیں کے برابر ہیں۔ آندھر پردیش میں تیلگو دیشم پارٹی اور کانگریس کو، گزشتہ دنوں تلنگانہ میں ہوئے ودھان سبھا الیکشن کے لیے کیے گئے گٹھ بندھن سے ملے زخم ابھی تک سہلانا پڑ رہے ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اتر پردیش یا دہلی کے بر خلاف ان ممکنہ اتحادیوں میں سے کسی نے بھی کانگریس کی جانب ہاتھ بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ اتر پردیش میں بھی اس اتحاد کی کہانی ادھوری ہی ہے۔ یہ ایک کھلا بھید ہے کہ بی ایس پی سپریمو بہن مایاوتی یو پی میں کانگریس کا استقبال کرنے کے قطعی موڈ میں نہیں ہوتیں۔ اس کے بدلے میں کانگریس کے سامنے اپنے اثر و نفوذ والی ریاستوں جیسے مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، پنجاب اور مہاراشٹر وغیرہ میں ایس پی بی ایس پی کو سیٹیں دینے جیسا ناگوار مرحلہ ہے اور پارٹی وہاں انہیں کوئی خاص اہمیت دینے کو راضی نظر نہیں آتی۔
یہ بھی پڑھیں: پرینکا گاندھی کو آپ کتنا جانتے ہیں؟
ان دونوں محاذوں کے پاس مضبوط تنظیمی نیٹ ورک، الیکشن میں کام کرنے والے مؤثر کارکنان اور جیتنے لائق امیدوار ہیں، جن کے بدلے میں انہیں آبرو بچانے کے لیے اتر پردیش میں سیٹوں کا بٹوارہ کرنا ہے۔ اتر پردیش میں باہم متضاد اس معاملے میں غیر بی جے پی اتحاد کے امکانات زیرو فیصدی سے سو فیصدی تک ہیں۔ گویا جہاں چاہ وہاں راہ والا معاملہ ہے۔ اگر ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس کھلے دل سے مل بیٹھ کر، اچھے امیدواروں کا انتخاب کر لیں تو صوبے کی 80 سیٹوں کا مناسب بٹوارہ کرنے میں انہیں زیادہ مشکلات نہیں آئیں گی۔ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں سونیا گاندھی اپنی ساکھ کا استعمال کر سکتی ہیں۔ احمد پٹیل اور اے کے انٹونی ان کی زیر نگرانی سیٹوں کا بٹوارہ کر سکتے ہیں۔ اس حساب کتاب میں کانگریس کے کام ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔ ایک بے حد متاثرکن روڈ شو کے بعد پرینکا اور جیوترادِتیہ سندھیا نے مسلسل 2000 با اثر رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ اس کے لیے انہوں نے 72 گھنٹے (ایک اندازے کے مطابق اس دوران صرف 7 گھنٹے آرام کے رہے) صرف کیے۔ اس سے نتیجہ یہ اخذ کیا گیا کہ قدیمی عظیم پارٹی بی جے پی کا نہ صرف اچھے سے مقابلہ کر سکتی ہے بلکہ خود کو اس کے قومی متبادل کے طور پر بھی پیش کر سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کیا ہماری فوج کا استعمال ایک خاص سیاسی پارٹی کے مفادات کے لئے کیا جا رہا ہے؟
اس میں اتحاد ہونے کے امکانات کم ہیں، البتہ ذاتوں کی بنیاد پر بنی چھوٹی پارٹیوں کو ضرور ٹٹولا گیا۔ لیکن 26 فروری کے فضائی حملے نے سارے حساب کتاب اور معاملات بدل ڈالے ہیں۔ ایک پر امید کانگریس اب پھر اگلے پانچ سالوں کے لیے حزب اختلاف کی نشستوں پر نظر ڈال رہی ہے۔ شہادت کی اس بازی نے مودی کو واپسی کا آسان راستہ دے دیا ہے اور مخالفین کے پاس انتظار کرنے کی عیاشی کا وقت نہیں ہے۔ (صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ان کا کالم پیر کے روز شائع ہوتا ہے، پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )