کس کو ہے بولنے کی کتنی آزادی؟

کنال کامرا کے ویڈیو پر پیدا ہوئے سیاسی تنازعہ اور سیاست دانوں کی جانب سے اظہار رائے کی ازادی پر 'حدود' طے کرنے کے بارے میں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کے ساتھ میناکشی تیواری کی بات چیت۔

کنال کامرا کے ویڈیو پر پیدا ہوئے سیاسی تنازعہ اور سیاست دانوں کی جانب سے اظہار رائے کی ازادی پر ‘حدود’ طے کرنے کے بارے میں دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کے ساتھ میناکشی تیواری کی بات چیت۔

Next Article

تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے اے ٹی ایم چارجز میں اضافہ کو ’استحصال‘ قرار دیا

تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے اے ٹی ایم سے رقم نکالنے کے چارجز میں اضافے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے ‘ادارہ جاتی استحصال’ قرار دیا۔ مرکزی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس قدم سے غریبوں کو نقصان ہوگا۔

(فائل فوٹو/پی ٹی آئی)

(فائل فوٹو/پی ٹی آئی)

نئی دہلی:  تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے مرکزی حکومت اور ریزرو بینک آف انڈیا پر تنقید کی ہے کیونکہ بینکوں کو اب مفت حد سے زیادہ اے ٹی ایم کیش نکالنے پر چارجز بڑھانے کی اجازت دی گئی ہے۔ اسٹالن کا خیال ہے کہ اس قدم سے غریبوں کے لیے بینکنگ کی سہولیات بیکار ہو جائیں گی۔

اسٹالن نے ایکس پر پوسٹ کیاہے؛’مرکزی حکومت نے سب سے کہا کہ وہ بینک اکاؤنٹ کھولیں۔ پھر نوٹ بندی آئی اور اس کے ساتھ ہی ڈیجیٹل انڈیا کو فروغ دیا گیا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ ڈیجیٹل لین دین پر چارجز، کم بیلنس پر جرمانہ اور اب آر بی آئی نے بینکوں کو ماہانہ حد کے بعد اے ٹی ایم سے نقد رقم نکالنے پر 23 روپے تک چارج لگانے کی اجازت دی ہے۔’

ڈی ایم کے سربراہ نے مزید لکھا، ‘یہ لوگوں کو ضرورت سے زیادہ نقد رقم نکالنے پر مجبور کرے گا اور خاص طور پر غریبوں کے لیے بینکنگ کی سہولیات بیکار ہو جائیں گی۔’

اسٹالن نے دعویٰ کیا ہے کہ آر بی آئی کے اس اقدام سے سب سے زیادہ نقصان منریگا (مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ) کے مستفیدین اور تمل ناڈو حکومت کی کالینگر مگلیر ارمائی تگئی اسکیم کے مستفیدین کو ہوگا۔

‘یہ ڈیجیٹلائزیشن نہیں ہے، یہ ادارہ جاتی استحصال ہے۔ غریب لوگ کارڈ سوائپ کریں گے، اور امیر لوگ مسکرائیں گے۔’

آر بی آئی نے کیا فیصلہ لیا ہے؟

آر بی آئی نے اے ٹی ایم ٹرانزیکشن چارجز کو 21 روپے سے بڑھا کر 23 روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو یکم مئی 2025 سے لاگو ہوں گے۔ اس کے علاوہ، آر بی آئی نے کہا ہے کہ اے ٹی ایم انٹرچینج فیس — جو ایک بینک دوسرے بینک کو اے ٹی ایم خدمات فراہم کرنے کے لیے ادا کرتا ہے —اے ٹی ایم نیٹ ورک کے ذریعے کیا جائے گا۔ آر بی آئی کے مطابق، صارفین اپنے بینک کے اے ٹی ایم سے ہر ماہ پانچ مفت لین دین (مالی اور غیر مالی دونوں) کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ، وہ دوسرے بینکوں کے اے ٹی ایم سے بھی مفت ٹرانزیکشن کر سکتے ہیں- میٹرو شہروں میں تین اور غیر میٹرو شہروں میں پانچ۔ آر بی آئی نے کہا کہ’فری ٹرانزیکشن کی حد کے بعد صارف سے زیادہ سے زیادہ 23 روپے فی لین دین فیس وصول کی جا سکتی ہے۔ اس کا اطلاق یکم مئی 2025 سے ہوگا۔’

دلچسپ بات یہ ہے کہ آر بی آئی نے کہا کہ اے ٹی ایم انٹرچینج فیس کا فیصلہ اے ٹی ایم نیٹ ورک کرے گا۔ 2021 میں، آر بی آئی  نے مالیاتی لین دین پر انٹرچینج فیس کو 15 روپے سے بڑھا کر 17 روپے اور غیر مالیاتی لین دین پر 5 روپے سے بڑھا کر 6 روپے کر دیا ہے۔ اسے 1 اگست 2021 سے لاگو کیا گیا تھا۔ ہندوستان کا اے ٹی ایم نیٹ ورک، جو بینکنگ انفراسٹرکچر کا ایک اہم حصہ ہے، بنیادی طور پر نیشنل فنانشل سوئچ (این ایف ایس)کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ یہ نیشنل پیمنٹ کارپوریشن آف انڈیا (این پی سی آئی ) کے زیر انتظام ہے۔

آر بی آئی نے چارجز میں اضافہ کیوں کیا؟

آر بی آئی کے مطابق، اے ٹی ایم ٹرانزیکشن کے لیے انٹرچینج فیس کی شرح آخری بار اگست 2012 میں تبدیل کی گئی تھی، جبکہ صارفین پر لگائے جانے والے چارجز میں آخری بار اگست 2014 میں نظر ثانی کی گئی تھی۔ اس لیے ان چارجز میں تبدیلی کو لمبا وقت ہوگیا تھا۔ آر بی آئی نے کہا کہ یہ اضافہ ‘اے ٹی ایم کی تنصیب اور ان کی دیکھ بھال کی بڑھتی ہوئی لاگت کے ساتھ ساتھ تمام اسٹیک ہولڈرز کی توقعات اور صارفین کی سہولت کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی ضرورت کے پیش نظر کیا گیا ہے’۔

اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) اے ٹی ایم سے نقد رقم نکالنے کےتوسط سے اچھا منافع کما رہا ہے، جبکہ دیگر پبلک سیکٹر بینک (پی ایس یو) اس شعبے میں نقصان اٹھا رہے ہیں۔ ایس بی آئی کے پاس ملک بھر میں تقریباً 65000 اے ٹی ایم کا ایک بڑا نیٹ ورک ہے، جس سے اس نے مارچ 2024 کو ختم ہونے والے مالی سال میں اے ٹی ایم کیش نکالنے سے 331 کروڑ روپے کا منافع کمایا۔ حکومت نے یہ معلومات پارلیامنٹ میں دی۔

تاہم، اسی مدت کے دوران دیگر پبلک سیکٹر بینکوں کو مجموعی طور پر 925 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ بینک آف بڑودہ کو 212 کروڑ روپے اور یونین بینک کو 203 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق ، پچھلے پانچ سالوں میں ایس بی آئی نے اے ٹی ایم کیش نکالنے سے 2043 کروڑ روپے کا بہت بڑا منافع کمایا، جبکہ اس عرصے کے دوران پبلک سیکٹر کے نو بینکوں کو مجموعی طور پر 3738 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ اس مدت کے دوران صرف دو دیگر پی ایس یو بینکوں – پنجاب نیشنل بینک (پی این بی) اور کینرا بینک نے منافع کمایا۔ پی این بی نے 90.33 کروڑ روپے کا منافع کمایا اور کینرا بینک نے 31.42 کروڑ روپے کا منافع کمایا۔

ایس بی آئی  کی کامیابی کی بنیادی وجہ اس کا بہت بڑااے ٹی ایم  نیٹ ورک اور منظم فیس پالیسی ہے۔ اسی وقت، دیگر پی ایس یو بینک کم ہوتے لین دین اور بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ بینکنگ کے بدلتے ہوئے منظر نامے میں ان بینکوں کو آپریشن جاری رکھنے اور مالی استحکام برقرار رکھنے کے لیے اپنی اے ٹی ایم حکمت عملی پر دوبارہ کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔

Next Article

آر ایس ایس کے سینئر لیڈر سریش بھیا جی جوشی بولے-اورنگزیب کی قبر کا معاملہ بے وجہ اٹھایا گیا

اورنگزیب کے مقبرے کے حوالے سے کشیدگی کے درمیان آر ایس ایس کے سینئر لیڈر سریش بھیا جی جوشی نے کہا کہ یہ مسئلہ غیر ضروری طور پر اٹھایا گیا،اس کی موت یہاں (ہندوستان) ہوئی اس لیے قبر بھی یہیں بنی ہوئی ہے۔ اور جن کو عقیدت ہے وہ وہاں جائیں گے۔ غور طلب ہے کہ گزشتہ ماہ بجرنگ دل اور وی ایچ پی نے اس کو لے کر مظاہرہ کیا تھا۔

ہندوتوا گروپوں کی جانب سے سنبھاجی نگر میں مغل بادشاہ اورنگزیب کی قبر کو ہٹانے کے مطالبے نے پورے مہاراشٹر میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو جنم دے دیا ہے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

ہندوتوا گروپوں کی جانب سے سنبھاجی نگر میں مغل بادشاہ اورنگزیب کی قبر کو ہٹانے کے مطالبے نے پورے مہاراشٹر میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو جنم دے دیا ہے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مہاراشٹر میں مغل حکمران اورنگزیب کے مقبرے کو لے کرجاری  تنازعہ کے درمیان راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)، بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات سامنے آرہے ہیں۔ اسی کڑی میں آر ایس ایس کے سینئر لیڈر سریش ‘بھیا جی’ جوشی نے کہا ہے کہ اورنگزیب کی قبر کا مسئلہ بے وجہ اٹھایا گیا۔

اورنگزیب کے مقبرے کے معاملے پر بدامنی پر مہاراشٹر نونرمان سینا (ایم این ایس) کے صدر راج ٹھاکرے کے بیان کو  لے کر صحافیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے آر ایس ایس کے سینئر لیڈر نے سوموار (31 مارچ) کو کہا، ‘اورنگزیب کا مسئلہ غیر ضروری طور پر اٹھایا گیا ہے۔ اس کی موت یہیں (ہندوستان) ہوئی  ہے اس لیے قبر بھی یہیں بنی ہوئی ہے۔ اورجن کو عقیدت ہے وہ  اس مقبرے پر جائیں گے۔’

شیواجی کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چھترپتی شیواجی مہاراج ہمارے آئیڈیل ہیں، اور انہوں نے یہاں افضل خان کا مقبرہ بنوایا تھا۔ یہ ہندوستان کی سخاوت اور جامعیت کی علامت ہے۔ ‘وہ قبر (اورنگزیب کی) رہے، جس کو  وہاں جانا  ہے وہ جائے،’ وہ کہتے ہیں۔

مراٹھواڑہ  علاقے  میں واقع سنبھاجی نگر میں مغل بادشاہ اورنگزیب کی قبر کو ہٹانے کے ہندوتوا گروپوں کےمطالبے نے پورے مہاراشٹر میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو جنم  دےدیا ہے۔

گزشتہ ماہ ناگپور میں کشیدگی اس وقت پیدا ہوگئی تھی جب ریاست بھر میں غیر مصدقہ خبریں پھیل گئیں، جن میں دعویٰ کیا گیا کہ انتہا پسند ہندوتوا گروپوں وشوہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بجرنگ دل کی جانب سے منعقد  احتجاج کے دوران ہندوتوا شرپسندوں نے مقدس ‘کلمہ’ لکھے کپڑے کو جلایا ہے۔

بتا دیں کہ ایم این ایس کے سربراہ راج ٹھاکرے نے کہا تھا کہ ‘چھاوا’ فلم دیکھ کر جاگنے والے ہندوؤں سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ شرمناک ہے کہ اس فلم سے پہلے کئی  لوگ چھترپتی سنبھاجی مہاراج کی قربانی سے واقف نہیں تھے۔ لوگوں کو کتابیں پڑھنی چاہیے اور تاریخ جاننے کے لیے وہاٹس ایپ پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔’

راج ٹھاکرے نے یہ بھی کہا تھا کہ ‘کچھ لوگ اورنگزیب کی قبر کے نام پر صرف سیاست کر رہے ہیں۔’

مرکزی وزیر نے کہا – ‘اورنگزیب کا انتقال 1707 میں ہوا، تو اس کی قبر کو ابھی کیوں ہٹانا؟’

دریں اثنا، این ڈی اے کے اتحادی، ریپبلک پارٹی آف انڈیا (اٹھاوالے) کے سربراہ اور مرکزی وزیر رام داس اٹھاولے کا ایک بیان سامنے آیا ہے۔

انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘اورنگزیب کا انتقال 1707 میں ہی ہو گیا تھا، تواس کی قبر کو ابھی کیوں ہٹانا؟’

وہ کہتے ہیں،’اورنگزیب کا انتقال 1707 میں ہوا، گزشتہ 300 سالوں میں ا س کی قبر کو ہٹانے کا مسئلہ نہیں اٹھایا گیا۔ یہ مسئلہ اس وقت اٹھایا جا رہا ہے جب چھترپتی سنبھاجی مہاراج پر فلم بنی۔’

اٹھاولے کہتے ہیں،’میں این ڈی اے اور مودی جی کے ساتھ ہوں… کیونکہ مجھے ان کی پالیسیاں پسند ہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ اورنگزیب کی قبر کو ہٹانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اسے نہیں ہٹایا جاناچاہیے۔’

انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کو خود کو اس قبر سے دور رکھنا چاہیے اور ہندوؤں کو اسے ہٹانے کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے… اس قبر کی حفاظت اے ایس آئی کے ذمے ہے۔

مرکزی وزیر نے مزید کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی لڑائی ملک کے لیے اچھی نہیں ہے، سب کو ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔

اورنگزیب کی قبر کو ہٹایا نہیں جا سکتا، لیکن اس کی عظمت بیان کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی: فڈنویس

دریں اثنا، مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے سوموار (31 مارچ) کو کہاتھاکہ چھترپتی سنبھاجی نگر (سابقہ اورنگ آباد) میں مغل بادشاہ اورنگزیب کا مقبرہ ایک محفوظ یادگار ہے اور اسے ہٹایا نہیں جا سکتا، لیکن ریاست میں اس کی عظمت بیان کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

Next Article

سوشل میڈیا پرنگرانی تیز: حکومت نے 1.1 لاکھ پوسٹ ہٹانے کے نوٹس بھیجے

وزارت داخلہ نے گزشتہ ایک سال میں 1.1 لاکھ سے زیادہ پوسٹ ہٹانے کے نوٹس دیے، جن میں پی ایم مودی کا مذاق اڑانے والے پوسٹ، وزیر داخلہ کے ایڈیٹیڈ ویڈیو اور وزیر مملکت برائے داخلہ پر طنزیہ ویڈیو شامل ہیں۔

سوشل سائٹ ایکس کا لوگو، جو پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانا جاتا تھا۔ (علامتی تصویر بہ شکریہ: ایکس)

سوشل سائٹ ایکس کا لوگو، جو پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانا جاتا تھا۔ (علامتی تصویر بہ شکریہ: ایکس)

نئی دہلی: وزارت داخلہ کے انڈین سائبر کرائم کوآرڈینیشن سینٹر نے گزشتہ ایک سال میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کو 66 نوٹس بھیجے ہیں۔ ان میں سے تقریباً ایک تہائی نوٹس مرکزی حکومت کے وزراء اور ایجنسیوں سے متعلق پوسٹ کو ہٹانے کے لیے تھے۔

دی ہندو کے ذریعے حاصل کیے گئے عدالتی ریکارڈ کے مطابق ، ان نوٹس میں وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور ان کے بیٹے جئے شاہ، وزیر مملکت برائے داخلہ بندی سنجے کمار اور وزیر خزانہ نرملا سیتارامن سے متعلق پوسٹ شامل ہیں۔

پوسٹ ہٹانے کے لیےنوٹس

پچھلے سال کے دوران حکومت نے سوشل میڈیا اور میسجنگ پلیٹ فارمز – جیسے ایکس ، فیس بک، انسٹا گرام اور وہاٹس ایپ – کو 1.1 لاکھ سے زیادہ پوسٹ ہٹانے کے لیے نوٹس بھیجے ہیں۔ یہ کارروائی ‘غیر قانونی معلومات کو ہٹانے’ کے تحت کی گئی، جس میں ڈیپ فیکس، بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق مواد، مالی فراڈ اور ‘گمراہ کن اور غلط معلومات’ شامل ہیں۔ ہٹانے کے لیے نشان زد کیے گئے مواد میں سیاسی جماعتوں، نیوز اداروں  اور ہندوستان سمیت دنیا بھر کے صارفین کی پوسٹ شامل ہیں۔

جئے شاہ سے متعلق تنازعہ

جنوری میں، انڈین سائبر کرائم کوآرڈینیشن سینٹر نے ایکس کو ‘جئے شاہ اور سن رائزرز حیدرآباد کی مالک کویتا مارن سے متعلق ایڈیٹیڈ تصاویر’ کو ہٹانے کے لیےنوٹس بھیجا تھا۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ‘سوشل میڈیا پر اس طرح کے مواد کو پھیلانا ایک پروپیگنڈہ ہے، جس کا مقصد اہم عہدیداروں اور وی آئی پی لوگوں کی شبیہ کو خراب کرنا ہے۔’ ان میں سے ایک پوسٹ فیکٹ چیک تھی، جس نے تصویر کو غلط ثابت کیا تھا، اس لیے ایکس  نے اسے نہیں ہٹایا۔ دوسری پوسٹ صارف نے خود ڈیلیٹ کر دی۔

امت شاہ سے متعلق پوسٹ

گزشتہ دسمبر میں انڈین سائبر کرائم کوآرڈینیشن سینٹر نے ایکس  کو امت شاہ کو تنقیدکا نشانہ بنانے والی پوسٹس ہٹانے کی ہدایت کی تھی۔ ان میں سے 54 پوسٹ ایک ایڈیٹیڈ ویڈیو کلپ سے متعلق تھی، جس میں امت شاہ کو ریزرویشن مخالف دکھانے کی کوشش کی گئی تھی۔

حکومت نے ویڈیو کو گمراہ کن اور فریب پر مبنی قرار دیا اور ایکس  سے اسے ہٹانے کو کہا۔

مودی اور وزیر خزانہ سے متعلق پوسٹ

حکومت نے ایک اور پوسٹ کو ہٹانے کی کوشش کی، جس میں وزیر اعظم نریندر مودی کا ایک ویڈیو تھا۔ اس ویڈیو میں ان کے پانچ سال میں ملک کو حساب دینے کے وعدے پر طنز کیاگیا تھا۔ اس پوسٹ کو بعد میں صارف نے خود ہٹا دیا تھا۔

جولائی 2024 میں، وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن سے متعلق کچھ پوسٹ کو ہٹانے کے احکامات دیے گئے ۔

تعاون یا ‘سینسرشپ پورٹل’

یہ نوٹس پچھلے دو سالوں سے عوام کی نظروں میں نہیں آ رہے تھے کیونکہ ایکس  نے اپریل 2023 میں سرکاری درخواستوں کو عام کرنا بند کر دیا تھا۔ لیکن اب، یہ تفصیلات ایکس  اور ہندوستانی حکومت کے درمیان ‘سہیوگ’ پورٹل کے حوالے سے جاری قانونی جنگ میں اجاگر ہوئی ہیں۔

ایکس نے  حکومت کے سہیوگ  پورٹل کو’سینسرشپ پورٹل’ کہا ہے، جو پولیس اور سرکاری ایجنسیوں کو مواد کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم، حکومت کا کہنا ہے کہ یہ نوٹس بلاک کرنے کے براہ راست احکامات نہیں ہیں بلکہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو ممکنہ قانونی خطرات سے خبردار کرتے ہیں۔

مجموعی طور پر حکومت سوشل میڈیا پر اپنی نگرانی بڑھا رہی ہے اور تنقیدی پوسٹ کو ہٹانے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔ تاہم، اس عمل پر قانونی بحث جاری ہے۔

Next Article

دہلی فسادات کے پانچ سال بعد کپل مشرا کے خلاف عدالت نے ایف آئی آر درج کرنے کو کہا

دسمبر 2024 میں دہلی فسادات کے سلسلے میں بی جے پی لیڈر کپل مشرا اور چھ دیگر افراد کے کردار کی جانچ کی مانگ کرتے ہوئے دہلی کے یمنا وہار کے ایک رہائشی نےعدالت سے رجوع کیا تھا۔ دہلی پولیس نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اب عدالت نے مشرا کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کو کہا ہے۔

موج پور لال بتی کے قریب ڈی سی پی(نارتھ-ایسٹ)وید پرکاش سوریہ کےساتھ بی جے پی رہنما کپل مشرا(فوٹو : ویڈیو اسکرین گریب/ٹوئٹر)

موج پور لال بتی کے قریب ڈی سی پی(نارتھ-ایسٹ)وید پرکاش سوریہ کےساتھ بی جے پی رہنما کپل مشرا(فوٹو : ویڈیو اسکرین گریب/ٹوئٹر)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے منگل (1 اپریل) کو 2020 کے شمال- مشرقی دہلی فسادات کے معاملے میں دہلی کے وزیر قانون کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیاہے۔

خبروں کے مطابق، یہ حکم ایڈیشنل چیف جوڈیشل مجسٹریٹ ویبھو چورسیا نے یمنا وہار کے رہائشی محمد الیاس کی جانب سے دائر درخواست کے جواب میں دیا ہے۔

لائیو لاء کے مطابق ، عدالت نے کہا کہ استغاثہ کی طرف سے پیش کیے گئے مواد سے پتہ چلتا ہے کہ مشرا متعلقہ علاقے میں موجود تھے اور’ساری چیزیں اس کی تصدیق کر رہی تھیں۔’

محمد الیاس نے دسمبر 2024 میں عدالت سے رجوع کیا تھا اور فسادات میں مشرا اور دیگر چھ افراد کے کردار کی تحقیقات کی مانگ کی تھی۔ 2020 کے فسادات میں 53 افراد ہلاک اور 700 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔

اس سال مارچ میں دہلی پولیس نے اس درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈر کے کردار کی پہلے ہی چھان بین ہو چکی ہے اور کوئی سنگین الزام سامنے نہیں آیا تھا۔

معلوم ہو کہ کپل مشرا اب بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی دہلی حکومت میں قانون اور انصاف کے وزیر ہیں۔

دی ہندو کی خبر کے مطابق ، الیاس نے اپنی درخواست میں کپل مشرا، مصطفی آباد کے ایم ایل اے اور ڈپٹی اسپیکر موہن سنگھ بشٹ، اس وقت کے ڈی سی پی (نارتھ ایسٹ)، دیال پور تھانہ کے اس وقت کے ایس ایچ او اور بی جے پی کے سابق ایم ایل اے جگدیش پردھان پر فسادات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کا الزام  لگایا تھا ۔

الیاس نے دعویٰ کیا تھا کہ 23 فروری 2020 کو اس نے مشرا اور دیگر کو کردم پوری میں ایک سڑک کو بلاک کرتے اور سڑک پر ٹھیلوں کو تباہ کرتے ہوئے  دیکھا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ سابق (نارتھ ایسٹ) ڈی سی پی اور کچھ دیگر افسران مشرا کے ساتھ کھڑے تھے، جب انہوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں کو دھمکی دی تھی۔

الیاس نے اپنی درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا  ہےکہ انہوں نے دیال پور کے سابق ایس ایچ او اور دیگر کو شمال -مشرقی دہلی میں مساجد میں توڑ پھوڑ کرتے دیکھا تھا۔

غورطلب  ہے کہ 2020 کے دہلی فسادات کے سلسلے میں پولیس نے عمر خالد، گلفشاں  فاطمہ اور شرجیل امام سمیت کئی طلبہ رہنماؤں اور کارکنوں کو فسادات کی  سازش کرنے والوں کے طور پر نامزد کیا ہے۔

تاہم، اس معاملے میں دہلی اقلیتی کمیشن کی طرف سے تشکیل دی گئی 10 رکنی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے کہا تھا کہ دہلی میں تشدد ‘منصوبہ بند تھااور ہدف بنا کرکیا گیا’ تھا اور اس کے لیےکمیٹی  نے کپل مشرا کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ 23 فروری 2020 کو موج پور میں کپل مشرا کی مختصر تقریر کے فوراً بعد مختلف علاقوں میں تشدد پھوٹ پڑا، جس میں انہوں نےکھلے طور پر شمال -مشرقی دہلی کے جعفرآباد میں مظاہرین کو زبردستی ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے باوجود ان  کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔

مشرا کی اشتعال انگیز تقریر

بتادیں کہ دہلی میں دنگا بھڑکنے سے ایک دن پہلے 23 فروری کو کپل مشرا نے ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا تھا، جس میں وہ موج پور ٹریفک سگنل کے پاس سی اے اےکی حمایت میں جمع ہوئی بھیڑ کوخطاب کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس دوران ان کے ساتھ شمال مشرقی دہلی کے ڈی ایس پی ویدپرکاش سوریہ بھی کھڑے ہیں۔

مشراکہتے ہیں،‘وہ(مظاہرین)دہلی میں کشیدگی پیدا کرنا چاہتے ہیں، اس لیے انہوں نے سڑکیں بند کر دی ہیں۔ اس لیے انہوں نے یہاں فسادات  جیسے حالات پیدا کر دیے ہیں۔ ہم نے کوئی پتھراؤ نہیں کیا۔ ہمارے سامنے ڈی ایس پی کھڑے ہیں اور آپ کی طرف سے میں ان کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ہندوستان  میں رہنے تک ہم علاقے کو پرامن چھوڑ رہے ہیں۔ اگر تب تک سڑکیں خالی نہیں ہوئیں تو ہم آپ کی(پولیس)بھی نہیں سنیں گے۔ ہمیں سڑکوں پر اترنا پڑےگا۔’

Next Article

اتراکھنڈ: تین اضلاع میں 15 جگہوں کے نام بدلے، اپوزیشن نے کہا – کام کے بجائے نام بدلنے کا تماشہ

اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے تین اضلاع میں 15 مقامات کے نام تبدیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس قدم کا مقصد ان عظیم شخصیات کو خراج تحسین پیش کرکے لوگوں کو تحریک دینا ہے جنہوں نے’ہندوستانی ثقافت کے تحفظ’ میں اپنا کردار ادا کیا۔

وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے کہا کہ ہری دوار، دہرادون، نینی تال اور ادھم سنگھ نگر اضلاع میں 15 مقامات کے نام تبدیل کیے جائیں گے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے کہا کہ ہری دوار، دہرادون، نینی تال اور ادھم سنگھ نگر اضلاع میں 15 مقامات کے نام تبدیل کیے جائیں گے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے سوموار (31 مارچ) کو ایک اعلان میں کہا کہ ہری دوار، دہرادون، نینی تال اور ادھم سنگھ نگر اضلاع میں 15 مقامات کے نام ‘عوامی جذبات اور ہندوستانی ثقافت اور ورثے’ کو ذہن میں رکھتے ہوئے تبدیل کیے جائیں گے۔

دھامی نے کہا کہ اس قدم کا مقصد ان عظیم ہستیوں کا اعزاز دے کر لوگوں کو تحریک دینا ہے جنہوں نے ‘ہندوستانی ثقافت کے تحفظ’ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ہری دوار ضلع میں اورنگزیب پور کا نام بدل کر شیواجی نگر، غازی والی کا نام بدل کر آریہ نگر، چاند پور کا نام بدل کر جیوتی با پھولے نگر، محمد پور جٹ کا نام بدل کر موہن پور جاٹ، خان پور کرسلی کا نام تبدیل کر کے امبیڈکر نگر،اندریش پور کا نام نند نگر، خان پور کا نام شری کرشن پور کااور اکبر پور فاضل پور کا نام وجئے نگر رکھا جائے گا۔

دہرادون ضلع میں میانوالہ کا نام بدل کر رام جی والا، پیر والا کا نام بدل کر کیسری نگر، چاند پور خورد کا نام بدل کر پرتھوی راج نگر اور عبداللہ نگر کا نام تبدیل کر کے دکش نگر رکھا جائے گا۔

نینی تال ضلع میں نوابی روڈ کا نام اٹل مارگ رکھا جائے گا اور پن چکی سے آئی ٹی آئی تک کی سڑک کا نام گرو گولوالکر مارگ رکھا جائے گا۔

اس کے ساتھ ہی اودھم سنگھ نگر ضلع میں سلطان پور پٹی میونسپل کونسل کا نام بدل کر کوشلیہ پوری کر دیا جائے گا۔

حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس اقدام کو تاریخی فیصلہ قرار دیا ہے ۔

پارٹی کے ریاستی میڈیا انچارج منویر چوہان نے کہا، ‘بھارتیہ جنتا پارٹی اس فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے۔ یہ فیصلہ ایک طرف تو ہندوستانی ثقافت کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرنے والی شخصیات کو اعزاز سے نواز کر لوگوں کی حوصلہ افزائی کرے گا تو دوسری طرف غیر ملکی حملہ آوروں کے مظالم سے بھی آگاہ کرے گا۔ ‘

وہیں، اپوزیشن کانگریس نے کہا کہ وہ نہ تو اس قدم کی حمایت میں ہے اور نہ ہی اس کے خلاف ہے۔

سابق وزیر اعلیٰ ہریش راوت نے کہا ، ‘نام بدلنا بی جے پی کا ایجنڈہ بن گیا ہے کیونکہ ان کے پاس دکھانے کے لیے کوئی حقیقی کام نہیں ہے۔ وہ گزشتہ ساڑھے آٹھ سالوں میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں اور عوام ان سے سوال کر رہے ہیں۔ عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے نام بدلنے کا یہ تماشہ کررہے ہیں۔’