رام جنم بھومی- بابری مسجد زمینی تنازعہ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کواے آئی ایم آئی ایم رہنما اسدالدین اویسی نےحقائق پر عقیدےکی جیت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سب سے اوپرہے، لیکن اس سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔
اسدالدین اویسی ،فوٹو: پی ٹی آئی
نئی دہلی :آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین(اے آئی ایم آئی ایم)رہنما اسدالدین اویسی نے سنیچر کو ایودھیا معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کوحقائق پر عقیدے کی جیت قرار دیا ہے۔حیدرآبادکے ایم پی اسدالدین اویسی نے عدالت کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں۔ سابق چیف جسٹس جےایس ورما کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے اویسی نے صحافیوں سے حیدرآباد میں بات چیت میں کہا کہ سپریم کورٹ در حقیقت سب سے اوپر ہے، لیکن اس سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالانکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آخری ہے، لیکن ہم لوگ اس سے مطمئن نہیں ہیں۔انہوں نے مقتدربی جے پی اورمرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے بابری مسجد گرائی ہے، ان لوگوں کوٹرسٹ کی تشکیل کرنے اور رام مندر بنانے کا کام شروع کرانے کے لیے کہا گیا ہے۔
اویسی نے کہا، ‘میں اس فیصلے پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی بات کی حمایت کرتا ہوں۔ ہم انصاف اور اپنے حقوق کی لڑائی لڑ رہے تھے، ہمیں خیرات میں ملی پانچ ایکڑ زمین کی ضرورت نہیں۔ مسجد کو لےکر کسی بھی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا جائےگا۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘ملک میں کئی دوسری مسجدیں ہیں، جس پر سنگھ کے لوگ دعویٰ کرتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا وہ ان معاملوں میں بھی اس فیصلے کا حوالہ دیں گے۔’دریں اثنا باوثوق ذرائع کے مطابق، مسلم فریق نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے حصے میں آنے والی 5 ایکڑ زمین نہیں لے گی۔
غورطلب ہے کہ
سپریم کورٹ نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کرتے ہوئے متنازعہ مقام پر مسلم فریق کا دعویٰ خارج کردیا ہے۔ رام جنم بھومی ٹرسٹ کو 2.77 ایکڑ زمین کا مالکانہ حق دیا جائےگا۔ کورٹ نے متنازعہ زمین ہندوفریق کو دینے کے فیصلے کے بعد معاملے کے مسلم فریق سنی وقف بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی نے کہا کہ وہ اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں، لیکن وہ اس کا احترام کرتے ہیں۔جیلانی آل انڈیا مسلم پرسنل الاء بورڈکے ممبر بھی ہیں۔
اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے سرکار کوہدایت دی ہے کہ وہ ایودھیا میں مسجد کے لیے کسی اہم جگہ پر پانچ ایکڑ زمین دے۔ یہ زمین سنی وقف بورڈ کو دی جائےگی۔قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ 1992 میں بابری مسجد کو گرانا اور 1949 میں مورتیاں رکھنا غیرقانونی تھا۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو مندر بنانے کے لیے تین مہینے میں منصوبہ تیار کرنے اور ٹرسٹ بنانے کی ہدایت دی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)