ایودھیا کے نروانی اکھاڑے کے سربراہ مہنت دھرم داس نے وزارت داخلہ کو نوٹس بھیجتے ہوئے کہا ہے کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیرکے لیے بنا ٹرسٹ غیر قانونی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس ہے۔ اگر مرکزی حکومت نے عدالت کےاحکامات کے مطابق اس کی تشکیل اورریگولیشن نہیں کیاتو وہ قانون کی مدد لیں گے۔
ایودھیا کے نروانی اکھاڑے کے سربراہ مہنت دھرم داس نے وزارت داخلہ کو لیگل نوٹس بھیجتے ہوئے کہا ہے کہ رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کی تشکیل اور ریگولیشن‘رام جنم بھومی بابری مسجد زمینی تنازعہ میں دیے سپریم کورٹ کے فیصلے’ کے مطابق ہونا چاہیے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، یہ الزام لگاتے ہوئے کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے بنا موجودہ ٹرسٹ غیر قانونی، من مانا اور گزشتہ سال نومبر میں دیے عدالت کے فیصلے کے برعکس ہے، مہنت داس نے قانونی نوٹس بھیجتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس ‘نوٹس کے موصول ہونے کے دو مہینوں کے اندرمرکزی حکومت ایسا نہیں کرتی ہے تو وہ قانون کی مدد لیں گے۔’
مہنت داس کا کہنا ہے کہ موجودہ ٹرسٹ غیر قانونی ہے کیونکہ کئی پہلووؤں کو لےکر قانونی اور آئینی ضابطوں پرعمل نہیں کیا گیا ہے۔
نوٹس میں کہا گیا ہے، ‘انہوں نے رام للابراجمان کے ریسیور کی کسٹڈی میں رہنے کے دوران آئے چڑھاوے کو انہیں نہ دےکر ان کی اہمیت گھٹائی ہے۔ ساتھ ہی، ٹرسٹ کی ملکیت کو ٹرسٹ میں شامل کرنے کو لےکر سپریم کورٹ کےاحکامات پر عمل نہیں ہوا ہے۔’
مہنت کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو لوگ 1949 سے اس اراضی تنازعہ کے کیس کو لڑ رہے تھے، انہیں ٹرسٹ کی تشکیل میں مناسب جگہ نہیں دی گئی جبکہ 1989 کے بعد آئے لوگوں کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ان کے مطابق، ‘یہ دکھاتا ہے کہ جن لوگوں کا سرکار کے ساتھ سیاسی تعلق تھا، انہیں ٹرسٹ میں اہم رو ل دیا گیا۔’
پتر یکا کے مطابق، مہنت داس نے یہ بھی کہا ہے کہ مفادپرستی کی وجہ سےافسروں اور چنپت رائے نے مل کر رام مندر کی ملکیت کو ہڑپنے کے لیے ٹرسٹ بنایا۔ وہ چاہتے ہیں کہ رام جنم بھومی پر ان کا اختیار ہو اور سادھو سماج کو یہاں سے باہر کر دیا جائے۔ یہی ان لوگوں کی منشا ہے۔
مہنت دھرم داس نے یہ بھی کہا کہ جب ساری ملکیت بھگوان کی ہے تو بھگوان کو ٹرسٹ میں شامل کیوں نہیں کیا گیا؟
مہنت نے یہ بھی کہا کہ ویشنو کمیونٹی کے اکھاڑوں میں سے ایک بھی سنت کو ٹرسٹ میں جگہ نہیں ملی ہے۔ رام جنم بھومی کی بہتری کرنے والے سنت ابھرام داس جو 1949 سے رام للا کے نگراں اور پجاری اور ان کے گرو تھے کے خاندان سے بھی کسی کو نہیں لیا گیا۔
اپنے نوٹس میں مہنت داس نے وزارت داخلہ پر شیڈول کاسٹ کے شخص کو ٹرسٹ کا تاعمرممبر بناکر ‘ہندوؤں کو بانٹنے’ کاالزام بھی لگایا ہے۔ ان کے مطابق ایسا سیاسی ایجنڈہ پانے کے لیے کیا گیا ہے۔غورطلب ہے کہ ایودھیا میں رام مندرکی تعمیر کے لیے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اس سال فروری میں مرکزی کابینہ نے رام مندر ٹرسٹ بنانے کو منظوری دی تھی۔
وزیراعظم نریندر مودی کے ذریعے لوک سبھا میں بتایا گیا تھا کہ کابینہ کی بیٹھک میں‘شری رام جنم بھومی تیرتھ شیتر’ کی تشکیل کی تجویز کو منظوری دی گئی اور یہ ٹرسٹ ایودھیا میں بھگوان رام کے مندر کی تعمیر اور اس سے متعلق معاملوں پرفیصلہ لینے کے لیےپورے طور پر آزاد ہوگا۔
اس اعلان کے بعد وزیر داخلہ امت شاہ نے بتایا تھا کہ ٹرسٹ میں 15 ٹرسٹی ہوں گے، جن میں سے ایک ہمیشہ دلت ہوگا۔اس کے بعد ‘شری رام جنم بھومی تیرتھ شیتر’ ٹرسٹ نے رام جنم بھومی ٹرسٹ کے صدر نرتیہ گوپال داس کو صدر اور وی ایچ پی کے نائب صدر چنپت رائے کوجنرل سکریٹری بنایا تھا۔
بتایا گیا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی کے سابق چیف سکریٹری نرپیندر مشرا ایودھیا میں66.7 ایکڑ زمین پر مندر کی تعمیر اور مینجمنٹ کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی قیادت کریں گے۔کمیٹی بنیادی طور پر رام جنم بھومی کے لیے بننے والے مندر سے متعلقہ انتظامی امور کے حل اور کارروائی کے کام کرے گی۔
ایک ٹرسٹی نے بتایا تھا کہ مشرا کمیٹی کی بیٹھک کرکے تعمیری کاموں کامنصوبہ پیش کریں گے۔
قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے نو نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے بابری مسجدرام جنم بھومی زمینی تنازعہ پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ زمین پر مسلم فریق کا دعویٰ خارج کرتے ہوئے ہندو فریق کو زمین دینے کو کہا تھا۔
ایک صدی سے زیادہ پرانے اس معاملے کی شنوائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ رام جنم بھومی ٹرسٹ کو 2.77 ایکڑ زمین کا مالکانہ حق ملے گا۔ وہیں، سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی پانچ ایکڑ زمین دی جائےگی۔
عدالت نے تب کہا تھا کہ مندرتعمیر کے لیےمرکزی حکومت کو تین مہینے کے اندر ٹرسٹ بنانا ہوگا اور اس ٹرسٹ میں نرموہی اکھاڑہ کا ایک ممبر شامل ہوگا۔ متنازعہ2.77 ایکڑ زمین اب مرکزی حکومت کے ریسیور کے پاس رہےگی، جو اسے سرکار کی جانب سے بنائے جانے والے ٹرسٹ کو سونپے گی۔