گزشتہ دنوں ‘ہندو یودھا سنگٹھن’ سے وابستہ کچھ لوگوں نے سور کے گوشت کے ٹکڑے، مذہبی صحیفہ کے پھٹے ہوئے صفحات اور مسلمانوں کے خلاف لکھے کچھ خطوط ایودھیا کی کچھ مسجدوں اور مزاروں کے قریب پھینک کر فرقہ وارانہ ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس معاملے میں کلیدی ملزم مہیش مشرا مسلم مخالف رہا ہے۔ اس نے نہ صرف مسلمانوں کو قتل کرنے کی اپیل کی ہے بلکہ ان کے اقتصادی بائیکاٹ کی بھی اپیل کر چکا ہے۔
ہندو یودھا سنگٹھن کے مہیش مشرا۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)
نئی دہلی: اترپردیش کے ایودھیا شہر میں کچھ مسجدوں اور مزاروں کے قریب خنزیر (سور)کے گوشت کے ٹکڑے، ایک مذہبی صحیفہ کے کچھ پھٹے ہوئے صفحات اور مسلمانوں کے لیےلکھے گئے توہین آمیز خطوط پھینک کر فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے کی حالیہ کوششوں میں
مہیش مشرا کو کلیدی ملزم بنایا گیا ہے۔
دی وائر کی جانب سے مہیش کے سوشل میڈیا پروفائل کی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ وہ عادتاً مجرم ہے۔ ماضی میں ایودھیا میں تشدد بھڑکانے کے لیے بدنام مہیش نے کئی مواقع پر مسلمانوں کو مار ڈالنے کی قسم کھائی ہے، مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ‘دیش دروہی لوگوں کی ہٹ لسٹ’ تیار کی ہے جن کو وہ قتل کر دینا چاہتے ہیں۔
اتر پردیش کی ایودھیا پولیس کے مطابق، ایودھیا میں فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینے کی کوششوں کے لیے مشرا کی قیادت والی ایک ہندو شدت پسند تنظیم ‘ہندو یودھا سنگٹھن’ ذمہ دار تھی۔ ان کی کوششوں کو پولیس نے ناکام بنا دیا ہے۔ حالیہ واقعات کے سلسلے میں ہسٹری شیٹر مہیش کے خلاف چار مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
یہ چار ایف آئی آر تاتاشاہ جامع مسجد، گھوسیانہ مسجد، کشمیری محلے کی ایک مسجد اور ایودھیا میں گلاب شاہ بابا کے نام سے مشہور مقبرے کے سلسلے میں درج کی گئی ہیں۔
اس سلسلے میں سات لوگوں کو گرفتار کرنے کے بعد پولیس نے کہا کہ یہ ایودھیا میں فرقہ وارانہ تشدد اور فسادات کو ہوا دینے کی کوشش تھی۔
پولیس کے مطابق، گرفتار کیے گئے لوگوں میں سے ایک ہسٹری شیٹر مہیش مشرا ہے، جس کے خلاف شہر کے ایک پولیس اسٹیشن میں چار معاملے درج ہیں۔
پولیس نے جن دیگر لوگوں کو گرفتار کیا ہے ان میں پرتیوش کمار، نتن کمار، دیپک گوڑ، برجیش پانڈے، شتروگھن اور ومل پانڈے شامل ہیں۔ یہ سبھی کوتوالی نگر تھانہ علاقہ کے رہنے والے ہیں۔
کلیدی ملزم مہیش مشرا کی پچھلی زندگی
قابل ذکر ہے کہ 2016 میں مہیش مشرا کو کچھ وقت کے لیے
جیل میں ڈال دیا گیا تھا، ان پربچوں کے لیے مسلح تربیتی کیمپ چلانے کا الزام تھا، جہاں بچوں کو مسلم پہناواوالے لوگوں پر حملہ کرنے اوران کے قتل کرنے کی تربیت دی جاتی تھی۔
ان پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے اور نفرت کو فروغ دینے کا الزام تھا۔
وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے رہنما چمپت رائے، جو اب رام مندر ٹرسٹ کے نگراں ہیں، نے مشرا اور اس کے مسلح تربیتی کیمپ کی حمایت کی تھی۔ انہوں نے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔
بجرنگ دل کی مقامی یونٹ کے سربراہ کے طور پر 6 دسمبر 2017 کو مہیش مشرا نے بابری مسجد کے انہدام کی 25 ویں برسی کے موقع پر ‘شوریہ دوس’ منانے کے لیے ایودھیا میں ایک ریلی نکالی تھی۔ پولیس نے مبینہ طور پر اس کی اجازت نہیں دی تھی اور علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر دیا تھا۔
گزشتہ دو سالوں سے مشرا ایودھیا کے کچھ حصوں میں
گوشت پر پابندی کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ انہیں
نیوز نیشن پر ‘ہندو بنام مسلم’ کی بحث میں پینلسٹ کے طور پر بھی دیکھا گیا ہے۔
ان کا سوشل میڈیا بھی ‘دیش دروہی لوگوں’ کو مارنے کے پیغامات سے بھرا ہوا ہے، جس کا ایک نمونہ وہ ویڈیو ہے جو انہوں نے ستمبر 2021 میں ٹوئٹ کیا تھا، جس میں دیش دروہیوں کو خبردار کیا گیا تھا۔
ویڈیو میں ناراض مشرا کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ‘دیش دروہی لوگوں’ کی ہٹ لسٹ ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘سنو غدارو، تمہاری فہرست (ہٹ لسٹ) بنانا اب شروع ہو گئی ہے۔ تمہیں گھر سے نکال کر ایک ایک کو مارا جائے گا… سن لو اب ہندو جاگ چکا ہے… ایک ایک کو ڈھونڈ کر مارا جائے گا۔
ایک اور
ویڈیو میں انہوں نے تمام مسلمانوں کے اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔ ویڈیو میں اس نے مسلمانوں کو دہشت گردی کو فنڈ کرنے والا بتایا۔
ویڈیو میں انہیں یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ،ہم آج کے بعد کسی مسلمان کے ساتھ کوئی لین دین نہیں کریں گے، کیونکہ جو مسلمان ہوتے ہیں، ان سے جو ہم کاروبار کرتے ہیں، ان سے جو پیسہ ملتا ہے، اس پیسے کا 10 سے 40 فیصد مساجد کو دیتے ہیں اور مدارس اور مساجد کو یہ پیسہ دہشت گردی کے لیے دیا جاتا ہے۔ آپ کو پتہ ہے، دہشت گردی کی ایک گولی جو ہمارے ہندوستانی فوجی یا ہمارے کسی ہندو بھائی کو لگتی ہے، وہ ہمارے ہی پیسوں سے ہوتی ہے، کیونکہ ہم ان کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں۔
اگرچہ ان کی زیادہ تر سوشل میڈیا پوسٹس عام طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہیں، لیکن بعض اوقات انہوں نے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کوبھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور انہیں برہمنوں سے نفرت کرنے والا بتا یا ہے۔
مہیش مشرا کی سوشل میڈیا پوسٹ کا اسکرین شاٹ۔
کسی ارچنا گری کے ذریعے اپ لوڈ کردہ ایک اور ویڈیو میں ایک مسلم مذہبی مقام کا، ‘ناپاک زمین’ کیپشن کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے، مشرا اور ان کے ساتھیوں کو اسے پاک کرنے کے لیے چالیسہ پڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
دی وائر نے ایودھیا کے جن لوگوں سے بات کی، ان میں سے اکثراس بات پر متفق تھے کہ مہیش مشرا فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے کے لیے مقامی طور پر بدنام ہیں۔
ایک مقامی اسٹوڈنٹ لیڈر ہاشمی نے کہا کہ مشرا نے پہلے خود کو بی آر امبیڈکر کے پوسٹر پر پیشاب کرتے ہوئے دکھایا تھا۔ ہاشمی نے الزام لگایا کہ ایک اور آڈیو ریکارڈنگ میں مشرا کو فرقہ وارانہ گالی گلوچ کرتے ہوئے اور ایک مقامی درگاہ کو نشانہ بناتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
ہاشمی نے حکام سے اپیل کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔