خصوصی رپورٹ : تین سو سال پرانا ‘جنم استھان مندر’1980 کی دہائی میں شروع ہوئی رام جنم بھومی تحریک سے پہلے رام کی پیدائش سے وابستہ تھا اور ایک مسلم زمیندارکی طرف سے عطیہ میں دی گئی زمین پر بنایا گیا تھا۔ یہ رام کے باہمی وجود والی اس ایودھیا کی علامت تھا، جس کا نام و نشان اب نظر نہیں آتا۔
سن 1870 میں اودھ گورنمنٹ پریس میں ایودھیافیض آباد کےاس وقت کے سیٹلمنٹ آفیسر پی کارنیگی کی رپورٹ ایودھیا میں مذہبی اہمیت کےحامل مقامات کی فہرست میں‘جنم استھان’ پہلے نمبر پر درج ہے۔
ایودھیا کے کوٹ رام چندر میں رام للا کے نئے اور عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کے لیے‘جنم استھان’مندر کو پچھلے دنوں (27 اگست 2020)منہدم کر دیا گیا۔شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کی تعمیراتی کمیٹی نے نئے رام مندر کی توسیع کے لیے لگ بھگ سوا تین سو سال پرانے ‘جنم استھان مندر’ کو نیست ونابود کر دیا۔
جنم استھان مندر 319 سال پرانا تھا، جس کے لیے ایک مسلم زمیندار میر معصوم علی نے زمین عطیہ کی تھی۔ یہ مندر ایودھیا میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے بھی معروف تھا۔یہ ان معنوں میں بھی بذات خودنادر تھا کہ جب بھی ایودھیا میں کوئی مہنتی ہوتی تھی، تو مہنت یہاں رسید کٹوا کر اپنا نام رجسٹر کرواتا تھا کہ وہ فلاں مندر کا مہنت بن گیا ہے۔
‘تڑ گودڑ رام چندر’کا یہ اہم مندر تھا۔ ایک طرح سے کہا جائے تو مہنتوں کی مہنتی کی مہر اسی مندر سے لگا کرتی تھی۔ مہنت گدڑی دھارن کرتے تھے اور یہی گدڑی اوڑھا کر مہنتی دی جاتی تھی۔یہ جگہ بابری مسجد کے ٹھیک بغل میں تھی، جسے ہنومان گڑھی سے دوراہی کنوا ں کی جانب جانے والی سڑک تقسیم کرتی تھی۔
تین سو انیس برس پہلے جب مسلم زمیندار معصوم علی کی جانب سے عطیہ کی گئی زمین پر رام کی جائے پیدائش کی شکل میں یہ مندر بنا تھا، اس وقت بابری مسجد میں کوئی مورتی نہیں تھی اور نہ ہی اس کے تین گنبدوں کے نیچے کوئی پوجا پاٹ ہوتی تھی۔بابری مسجد میں مورتی 22/23 دسمبر 1949 کی رات ایودھیا کے کچھ سادھوؤں کے ذریعے رکھی گئی تھی، جس کی ایف آئی آر درج ہوئی تھی اور مقدمہ بھی چلا۔
جنم استھان: فخر ایودھیا
سن 1870 میں اودھ گورنمنٹ پریس میں ایودھیافیض آباد کے اس وقت کے سیٹلمنٹ آفیسر پی کارنیگی کی رپورٹ ‘دی ہسٹاریکل اسکیچ آف تحصیل فیض آباد ضلع فیض آباد وتھ اولڈ کیپٹل ایودھیا اینڈ فیض آباد چھپی۔اس رپورٹ میں پی کارنیگی نے متعدد حقائق کے علاوہ ایودھیا میں مذہبی اہمیت کے حامل مقامات کی‘لسٹ آف سیکریڈ پلیس ان ایودھیا’ کی فہرست بھی دی۔
اس فہرست میں‘جنم استھان’ پہلے نمبر پر درج ہے، جس میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ جنم استھان کو میر معصوم علی زمیندار نے ایک ایکڑ سے زیادہ زمین معافی(رینٹ فری لینڈ)عطیہ میں دی تھی۔
بہ شکریہ : ریئر بک سوسائٹی آف انڈیا
یہ جگہ تڑ گودڑ رام چندر اورمہنت رام داس کی جانب سےقائم شدہ درج ہے۔ پی کارنیگی نے جنم استھان کو 166سال پرانا بتایا ہے۔جنم استھان میں فرقہ کے 22 سادھوؤں کا مندر احاطہ میں رہنا بھی درج ہے۔ کارنیگی نے یہ رپورٹ 1867-68 میں ریکارڈ کی تھی۔
جنم استھان کوٹ رام چندر، جسے رام کوٹ بھی کہا جاتا تھا، کا متمول اور دلکش مندر تھا۔ اس تاریخی مندر کی اپنی خاص اہمیت رہی۔
سن 1984 سے پہلے تک جنم استھان میں عقیدت مند بےروک ٹوک درشن اورپوجا کرنے آتے تھے۔مسلمہ روایت تھی کہ عقیدت مند ہنومان گڑھی سے مندروں کا درشن شروع کرتے تھے اور کنک بھون، دشرتھ محل، رام خزانہ، رتن سنہاسن، رنگ محل اور راستے میں پڑنے والے دیگر مندروں کا درشن کرتے ہوئے جنم استھان اور رام چبوترہ (جنم بھومی) تک پہنچتے تھے۔
یہ تمام مندر کوٹ رام چندر علاقے میں ہی بنے تھے۔ یہی علاقہ سب سے متمول علاقہ بھی کہلاتا تھا۔
ہنومان گڑھی مندر،18ویں صدی میں اودھ کے نواب نے اس کی مرمت وغیرہ کے لیے شاہی خزانے سےپیسہ دیا تھا۔ (فوٹو: شیام بابو)
ہندوتوا کی سیاست کے عروج کے ساتھ جنم استھان سمیت کئی مندروں پر بڑھتا گیابحران
جیسے جیسے ایودھیا میں رام مندر کے نام پر ہندوتووادی تحریک عروج پر پہنچتی گئی ویسے ویسے ایودھیا کے رام کوٹ واقع مندروں پر بحران بڑھتا گیا۔ایودھیا رام کوٹ کے ایک چھوٹے سے علاقے کا تنازعہ قومی سیاست کامرکزی نقطہ بن گیا۔ آئے دن ہونے والی تحریک کی وجہ سے عام عقیدت مندوں اور سادھو سنتوں کا اس علاقے پرانتظامیہ کی روک ٹوک، حفاظتی انتظامات کی وجہ سےآنا جانا کم ہوتا گیا۔
سن 1984 کے آس پاس اس مندر کے رہائشی حصہ میں رام کوٹ، ڈاک گھر بن گیا۔ 1991 میں جنم استھان کے اوپری حصہ میں پولیس انتظامیہ نے کنٹرول روم بنا دیا،تاکہ رام جنم بھومی بابری مسجد متنازعہ احاطہ پر ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے۔
غورطلب ہے کہ 6 دسمبر 1992 کو یہ کنٹرول روم اتر پردیش کے سینئر پولیس اورحکام کا جم گھٹ بن گیا تھا، جہاں سے وہ خاموش تماشائی کی طرح بابری مسجد کو منہدم ہوتے دیکھ رہے تھے۔
پھر بھی 1993 میں مرکزی حکومت کی جانب سے رام جنم بھومی بابری مسجد کے آس پاس کے 67 ایکڑ زمین کے تجاوزات کےپہلے تک جنم استھان مندر میں عقیدت مندوں اور سادھوسنتوں کا آنا جانا تھا اور مندر کے مہنت سکھ رام داس اور ان کےشاگرداور پجاری ٹھاکر کا بھوگ، راگ آرتی کرتے رہے۔
بابری مسجدانہدام کے بعد 1993 میں مرکز کی پی وی نرسمہاراؤ سرکار نے رام کوٹ کے اس متنازعہ احاطہ سمیت آس پاس کی 67.703 زمینوں پرتجاوز کر لیا، جس میں جنم استھان سمیت درجن بھر چھوٹے بڑے مندر اوردیگر مقامات بھی شامل تھے۔
اس تجاوز کے بعد مندروں میں ٹھاکر جی کے بھوگ راگ، آرتی کے لالے پڑ گئے۔ اس تجاوزات کے ساتھ ہی بابری مسجد انہدام کے بعد وہاں کارسیوکوں کے ذریعے اسی ملبے پر جلدبازی میں بنائے گئے عارضی رام للا مندر تک جانے کے لیے لوہے کی پائپ سے بنایا گیا جگ جیگ راستہ صرف اس عارضی رام للا مندر کو جاتا تھا۔
جو بھی چڑھاوا ہوتا تھا وہ اسی مندر تک محدود ہو گیا تھا۔ تجاوزات والے علاقےکےدیگر مندروں میں جانے کے راستے پر بیریربنا دیےگئے تھے۔
7 دسمبر 1992 کو بابری مسجد انہدام کے بعد اس جگہ بنائے گئے عارضی رام مندر کے پاس تعینات فورس۔ (فوٹو: ٹی نارائن)
جنم استھان متنازعہ رام جنم بھومی -بابری مسجد احاطہ کے بغل میں تھا۔ جنم استھان کو جانے والی سڑک کو ہی بند کر دیا گیا، جس سے عقیدت مندیہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتے تھے صرف عارضی رام للا کے مندر تک جانے کے لیے جگ جیگ راستہ بنا دیا گیا تھا۔
عدالتی وجہوں سےعارضی مندر پر چڑھنے والا چڑھاوا صرف اسی کے استعمال میں لایا جا سکتا تھا، دوسرے مندروں کے لیے خرچ کیا جا سکتا تھا۔عقیدت مندخوف کے سائے میں عارضی رام للا مندر کا ہی درشن کر پاتے تھے۔دیگر مندرعقیدت مندوں کے لیے ترس جاتے تھے۔
عقیدت مندوں کی دیگر مندروں تک پہنچ سرکاری نظام کی وجہ سے ختم ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ سے جنم استھان جیسے متمول مندر کی کون کہے، رام کوٹ کے اس علاقے کی زیادہ تر مندریں بھی پوجا ارچنا کو ترس گئیں، جو اس تجاوزات کا حصہ نہیں تھیں۔
چھ دسمبر 1992: جب کارسیوکوں نے بابری مسجد اور تاریخی رام چبوترے کو منہدم کیا
سن 2020 میں رام کی جائے پیدائش کے طور پرمعروف جنم استھان مندر کو شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کی جانب سے27 اگست کو بلڈوزر اور جےسی بی سےمنہدم کردیا گیا۔وہیں، اس کے پہلے اس کے رام بھکت کارسیوکوں نے 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے ساتھ ہی بابری مسجد احاطہ میں بنے ‘رام چبوترہ’اور ‘سیتارسوئی’ کو بھی نیست ونابود کر دیا تھا۔
‘رام چبوترہ’ کو ‘جنم بھومی’ کےطورپر جانا جاتا تھا اور جہاں 1885 کے پہلے سے 6 دسمبر 1992 تک یعنی اس کے انہدام سے پہلے تک باقاعدگی سےپوجا ہوتی آ رہی تھی۔
‘رام چبوترہ’ اور ‘سیتارسوئی’ وہ مقامات تھے، جس پر نرموہی اکھاڑے کے سادھو 1885(یعنی 1949 کے پہلے سے پوجا کرتے آ رہے تھے جس کی وجہ سے برٹش سرکار کو ایک لوہے کی ریلنگ والی دیوار بناکر بابری مسجد کو رام چبوترہ اورسیتارسوئی الگ کرنا پڑا، جس سے دونوں ہی کمیونٹی بنا کسی تنازعہ کے اپنے اپنےمذہب پر عمل کر سکیں)سے پہلے سے پوجا کرتے آ رہے تھے۔
اسی رام چبوترے پر مندر بنانے کے لیے نرموہی اکھاڑے کےمہنت رگھوور داس نے 1885 میں اجازت حاصل کرنے کے لیے مقدمہ دائر کیا تھا، جس کی اجازت انہیں نہیں مل سکی۔اس کے خلاف دائر کی گئی پہلی اپیل اور جوڈیشیل کمشنر آف اودھ کی کورٹ میں دائر دوسری اور آخری اپیل میں بھی راحت نہیں ملی۔
(اس وقت تک رام چبوترہ بھی رام کے جنم استھان کے طور پر ہی جانا جاتا تھا جیسا کہ مہنت رگھوورداس نے اپنے مقدمے میں لکھا تھا)۔ اس طرح 1885 میں رام چبوترے پر مندرتعمیر نہیں ہو سکی۔
کوٹ رام چندر حلقے میں بابری مسجد، جنم استھان مندر، رام چبوترہ اور سیتا رسوئی۔
‘رام چبوترہ’ اور ‘سیتارسوئی’ کی جگہ انگریزی کے ‘ایل’ شیپ میں تھی جو بابری مسجد کے دونوں گیٹ پر واقع تھا۔ جسے انگریزوں نے اس دلیل کے ساتھ لوہے کی ریلنگ سے تقسیم کر دیا تھاکہ ہندو مسلمان اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت اور پوجا کر سکیں۔
الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ کی خصوصی بنچ کے سامنےچل رہے مقدمے میں ان مقامات کو مقدمے میں بابری مسجد اور اس کے آنگن کو ‘انر کورٹ یارڈ’اور رام چبوترہ اور سیتارسوئی والی جگہ کو ‘آؤٹر کورٹ یارڈ’ کا نام دیا گیا تھا۔سن 2010 کے اپنےفیصلے میں ہائی کورٹ نے رام چبوترے اور سیتارسوئی دونوں جگہوں پر نرموہی اکھاڑے کا قبضہ مانتے ہوئے 1969 میں دائر ان کے مقدمے کو زمانی ماننے کے باوجود ایک تہائی حصہ نرموہی اکھاڑے کو (رام چبوترہ اور سیتارسوئی)دیا تھا۔
اسی طرح سنی سینٹرل وقف بورڈ کے مقدمے (1961 میں دائر)کو زمانی مانتے ہوئے ہوئے متنازعہ احاطہ کا ایک تہائی حصہ دیا تھا۔تیسرے اہم فریق رام للا براجمان کے مقدمے (1989 میں دائر اپیل)میں ایک تہائی حصہ (مورتی رکھے جانے والے بیچ گنبد کے نیچے والے حصہ کو)دیا تھا۔ اس طرح اصل مقام کے اس متنازعہ حصہ کو تین پارٹیوں میں بانٹ دیا گیا۔
نئے عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کی تیاری، پرانے تاریخی رام مندروں کا گرنا
رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ میں 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مرکز کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی نریندر مودی سرکار نے شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کی تشکیل کرکے 1993 میں تجاوزات مکمل 67.307 ایکڑ زمین کو ٹرسٹ کو نئے اورعظیم الشان رام مندرکی تعمیر کے لیے سونپ دیا ہے۔
ٹرسٹ کے صدرایودھیا کے منی رام داس چھاؤنی کے مہنت نرتیہ گوپال داس اور جنرل سکریٹری وشو ہندو پریشد کے چنپت رائے ہیں۔غورطلب ہے کہ صدر اورجنرل سکریٹری دونوں ہی بابری مسجدانہدام کے ملزم ہیں۔ اس سلسلے میں لکھنؤ کی خصوصی سی بی آئی عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے، جس کا فیصلہ 30 ستمبر 2020 تک ہونا ہے۔
ٹرسٹ کو زمین سونپے جانے کے بعد ٹرسٹ نے وشو ہندو پریشد کے پرانے مندر ماڈل کے مطابق ہی نئے اور عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کافیصلہ کیا ہے۔اپنےمندر ماڈل کی توسیع کرتے ہوئے اس میں ترمیم کرکے اسے اور بڑا کر دیا ہے، جس کی لمبائی اب 360 فٹ چوڑائی 235 فٹ اور اونچائی 161فٹ اوریہ تین منزلوں والا ہوگا۔
بابری مسجدانہدام کے بعد مرکزی حکومت کے ذریعےتجاوز کئے گئے 67.307 ایکڑ زمین میں بابری مسجد کی جگہ کے ساتھ ہی جنم استھان مندر ااور دیگر چھوٹے بڑے درجن بھر مندر بھی شامل تھے۔ٹرسٹ اب انہیں بھی منہدم کرےگا۔ ان میں ساکشی گوپال (بنیادی طور پر کرشن مندر ہے، جس کا ایک حصہ 1991-92 میں زمین کو برابرکرنے کے نام پر توڑاجا چکا ہے)، آنند بھون، مانس بھون ہے۔
اس کے پہلے1991 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی کلیان سنگھ سرکار کے ذریعے2.77 ایکڑ زمین تجاوزکئے جانے کے بعد بابری مسجد کے سامنےزمین کو برابر کرنے کے نام پر سمترا بھون، ساکشی گوپال (جزوی)سنکٹ موچن اور رام جانکی مندر سمیت کئی چھوٹے بڑے مندر منہدم کیے گئے تھے۔
یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ کلیان سنگھ سرکار کے دوران سرکاری اورسیاسی طور پر نہ صرف یہ مندرمنہدم کیے گئے تھے بلکہ رام بھکت کارسیوکوں نے 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کے قدیم اورمقدس مقام ‘رام چبوترہ’اور ‘سیتارسوئی’ کو نیست و نابود کرکے تاریخ کےاوراق سے ان کا زمینی وجود ختم کر دیا۔
سن 2020 میں رام کے عظیم الشان مندر کے لیے جنم استھان کاتوڑا جانا بھی اسی کی ایک کڑی کا حصہ بن گیا ہے۔ ان مقامات کو رام کی جائے پیدائش کے نام سے جانا جاتا تھا، جو اب نہیں رہے۔
ایودھیا: جو گنگا جمنی تہذیب کی علامت تھا
ایودھیا کو گنگا جمنی تہذیب کا مرکز مانا جاتا رہا ہے۔سیاست نے اس کو تنازعہ کا مرکز بنا دیا۔صرف جنم استھان ہی نہیں ایودھیا کے درجن بھر سے زیادہ مندر اور اکھاڑوں کے لیے اور ٹھاکر جی کے بھوگ، راگ، آرتی کے لیے زمین ان وقتوں کےمسلم حکمرانوں، نوابوں اور مسلم زمینداروں نے عطیہ میں دی تھی۔
اس سلسلے میں آفیشیٹنگ کمشنر اینڈ سیٹلمنٹ آفیسر پی کارنیگی کی رپورٹ(1866-67)میں متعدد حقائق کے علاوہ مندروں ااور اکھاڑوں کی ایک فہرست دی تھی، جس میں دیے گئے مندروں کے مہنت، ان کے مندروں کی قدیمی تاریخ اور ان کو دی گئی زمین کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
ایودھیا کے مشہور مندروں میں ہنومان گڑھی، جنم استھان، رام گلیلا اچاری مندر، رانوپالی نانک شاہی مندر، خاکی اکھاڑا، سمیت درجن بھر مندروں کو مسلمانوں نے مندروں کی تعمیر اور ٹھاکر کے بھوگ، راگ، آرتی کے لیے زمین عطیہ میں دی تھیں۔
مثال کے طور پر کارنیگی کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ رپورٹ لکھی(1867)جانے کے لگ بھگ سو سال پہلے 1900 سال پرانے ہنومان گڑھی مندر کی تزئین و آرائش اورتعمیر اودھ کے نواب منصور علی خان نے شاہی خزانے سے کروائی۔
جنم استھان اور جنم بھومی
وقت کے ساتھ ساتھ جگہوں کے بھی نام بدلتے گئے۔ بابری مسجد احاطہ میں واقع سیتارسوئی کا نام چھٹی پوجن استھل ہو گیا۔اسی طرح 1859 کے پہلے سے وجود میں رہے ‘رام چبوترہ’کی جگہ پر ‘جنم بھومی’ کا پتھر (شیلاپٹ)1901 میں لگایا گیا تھا، جوتنازعہ کی وجہ سےعدالتی آرڈرکے بعد 1903 میں ہی قائم ہو سکا۔
اسی طرح ایودھیا کے رام مندر کو لےکر جیسے جیسے تحریک بڑھتی گئی‘جنم استھان’کے شیلاپٹ میں جنم استھان کے ساتھ ‘سیتارسوئی’ بھی جوڑکر اس کا نام ‘جنم استھان سیتارسوئی’ کر دیا گیا۔ یہاں پر سیتا کی رسوئی جیسی جھانکی بھی عقیدت مندوں کی توجہ کے لیے الگ سے بناکر پیش کی گئی تھی۔
اس کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب عقیدت مند جنم استھان کا درشن کرنے آتے تھے، تو انہیں حیرانی ہوتی تھی کہ رام کے دودو جنم استھان!ایک طرف ‘جنم استھان’ہے دوسری طرف رام چبوترہ رام کا جنم استھان (جنم بھومی) پنڈے پھر بتاتے تھے کہ یہ‘جنم استھان’ ہے اور وہ ‘جنم بھومی۔’
ایودھیا کی اس جنم بھومی کی اپنی ایک الگ تاریخ ہے۔ 1898 میں ایودھیا میں انگلینڈ کے پرنس البرٹ ایڈورڈ(رانی وکٹوریہ کے بڑے بیٹے جو بعد میں جارج ہفتم کے نام سے 1901میں راجہ بنے)کے برتھ ڈے پر بڑاستھان دشرتھ محل کے مہنت منوہر پرساد کی قیادت میں ایڈورڈ تیرتھرکشنی وویچنی کمیٹی بنائی گئی تھی۔
اس نے ایک ہزار روپے چندہ اکٹھا کیا اور چندے کے اسی پیسے سے ایودھیا میں مندروں، کنڈوں کی نشاندہی کرتے ہوئے گلابی رنگ کے پتھر پر ان مقامات کا نام کھدوا کر (میل کے پتھر جیسے شیلاپٹ)مندروں اور کنڈوں کے سامنے لگائے گئے۔
بابری مسجد احاطہ کے اندر رام چبوترے پر 20ویں صدی کی شروعات میں لگایا گیا 1 اور جنم بھومی لکھا ہوا شیلاپٹ۔
بابری مسجد سے رام چبوترہ اور سیتارسوئی کو الگ کرنے والی لوہے کی ریلنگ والی دیوار سے سٹاکر پہلا پتھر ‘ایک نمبر ‘جنم بھومی’ کے نام سے تھا ایڈورڈ کمیٹی نے 1901 میں اسے لگا دیا۔ اسے لگائے جانے پر مسلمانوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ بابری مسجد کے سامنے پتھر لگایا گیا ہے۔
معاملہ عدالت میں پہنچا تو 1903 میں عدالت نے مسلمانوں کے اعتراض کو خارج کرتے ہوئے یہ آرڈر دیا کہ یہ پتھر بابری مسجد کے گیٹ پر نہیں بلکہ رام چبوترہ کے پاس ہے۔اگر کوئی اس پتھر کو اکھاڑتا ہے تو اسے تین ہزار روپے جرمانہ یا تین سال جیل کی سزا ہوگی۔
اس طرح جنم بھومی کے ‘ایک’ نمبر کا پتھر عدالت کے آرڈر کے بعد ہی مکمل طور پرقائم ہو سکا جبکہ ایودھیا میں دیگر مندروں اور کنڈوں کی نشاندہی کرتے ہوئے 1901-1902 میں ہی قائم ہو گئے تھے۔ ان میں جنم استھان کا پتھر بھی تھا۔تیرتھ رکشنی کمیٹی نے پوری ایودھیا میں ایسے 103 مقامات کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے نام لکھے پتھر کے شیلاپٹ لگائے تھے۔
رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ نے جنم استھان کو بھلے ہی منہدم کردیا لیکن جنم بھومی کا شیلاپٹ جہاں لگا تھا، اسے ابھی بھی محفوظ رکھا ہے۔یہاں یہ ذکر کرناضروری ہے کہ جنم بھومی کے پتھر لگائے جانے کے بعد بھی بابری مسجد میں 22/23 دسمبر 1949 کے پہلےجمعہ تک جمعہ کی نماز پڑھی جاتی رہی جبکہ مسجد میں جانے کا راستہ رام چبوترے کے پاس سے ہوکر جاتا تھا۔
رام چبوترہ اور سیتارسوئی پر 6 دسمبر 1992 تک انہدام کے پہلے تک پوجا ہوتی رہی۔ 22/23 دسمبر 1949 کے پہلے تک مسجد کے اندر نہ کوئی مورتی تھی اور نہ پوجا پاٹ ہی ہوتا تھا۔ایودھیا کی ایک ساتھ رہنے باہمی میل جول کی پرانی تہذیب کی یاد دلاتے ہوئے جنم استھان جیسےقدیمی مقامات کے انہدام سے اس کی تاریخ کا ایک پورا روشن باب ختم ہو گیا۔
اس سے یہی لگتا ہے کہ ہندوتوا کی سیاست نے رام کے نام پر گنگا جمنی تہذیب کی علامتوں سے لےکر ایودھیا کو ملک تقسیم کی سیاست میں بدل دیا ہے۔
(مضمون نگارسینئر صحافی ہیں اور ایودھیا سے شائع ہونے والے جن مورچہ اخبار سےوابستہ ہیں۔)