کورٹ نے کہا کہ ان عرضیوں میں کوئی میرٹ نہیں ہے۔ کئی مسلم فریق، 40 کارکن، ہندو مہاسبھا اور نرموہی اکھاڑا نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایودھیا-بابری مسجد معاملے میں دئے گئے اس کے 9 نومبر کے فیصلے کےخلاف دائر تمام 18ریویو کی عرضیوں کو خارج کر دیا۔ کورٹ نے کہا کہ ان عرضیوں میں کوئی میرٹ نہیں ہے۔ چیف جسٹس ایس اےبوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، اشوک بھوشن، عبدالنذیر اور سنجیو کھنہ کے ذریعے ایک چیمبر میں ان عرضیوں پر غور کیا گیا۔
لائیو لاء کے مطابق، ان درخواست گزاروں میں کئی مسلم فریق، 40 کارکن، ہندو مہاسبھا اور نرموہی اکھاڑا شامل ہیں۔ ان لوگوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔ پہلی عرضی دو دسمبر کواصل فریقوں میں شامل ایم صدیق کے وارث اور اتر پردیش جمیعۃ علماء ہند کےصدر
مولانا سید اشہد رشیدی نے دائر کی تھی۔
اس عرضی میں 14نکات پرنظرثانی کی گزارش کرتے ہوئے کہا گیا کہ بابری مسجد کی تعمیرنو کی ہدایت دےکر ہی اس معاملے میں’پورا انصاف ‘ہو سکتا ہے۔ اس عرضی میں کہا گیاہے کہ اگرچہ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے گنبدوں کو نقصان پہنچانےاور اس کو گرانے کا اقرار کیا، پھر بھی متنازعہ زمین اسی فریق کو سونپ دیا، جس نے کئی غیر قانونی کارناموں کی بنیاد پر اپنا دعویٰ کیا تھا۔
اس فیصلے پر نظرثانی کے لئے پانچ عرضیاں-مولانا مفتی حسب اللّہ، محمد عمر، مولانا محفوظ الرحمان، حاجی محبوب اور مصباح الدین نے دائر کی ہیں، جن کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی حمایت حاصل ہے۔ چھٹی عرضی محمد ایوب نے دائر کی ہے۔ یہ تمام پہلے مقدمےمیں فریق تھے۔ان عرضیوں میں سے ایک میں کہا گیا ہے کہ یہ عرضی دائر کرنے کا مقصد اس عظیم ملک کے امن کو خراب کرنا نہیں ہے لیکن اس کا مقصد ہے کہ انصاف کے لئے امن خوشگوار ہونا چاہیے۔
اس معاملے کے متعلق عرضی میں کہا گیا ہے کہ مسلم کمیونٹی ہمیشہ ہی امن بنائے رکھتی ہے لیکن مسلم اوران کی جائیدادیں تشدد اور ناانصافی کا شکار بنی ہیں۔ یہ عرضی انصاف کی امیدمیں دائر کی گئی ہیں۔ان تمام پانچ عرضیوں کو سینئر وکیل راجیو دھون اور ظفریاب جیلانی نے آخری شکل دی اور ان کو وکیل ایم آرشمشاد کے ذریعے دائر کیا گیا۔
ایودھیا میں چھ دسمبر،1992 کو ‘ کار سیوکوں’کے ذریعے مسجد گرائے جانے کے واقعہ کے بعد ملک میں بڑےپیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے۔ مولانا مفتی حسب اللہ نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ مالکانہ حق کے اس تنازعے میں ان کی کمیونٹی کے ساتھ ‘شدیدناانصافی’ ہوئی ہے اور عدالت کو اس پر پھر سے غور کرنا چاہیے۔ عرضی میں کہا گیا تھاکہ مکمل زمین کا اس بنیاد پر مالکانہ حق ہندو فریقوں کو نہیں دیا جا سکتا تھا کہ یہ پوری طرح ان کے قبضےمیں تھا جبکہ کسی بھی موقع پر یہ ہندوؤں کے پاس نہیں تھا اوریہ بھی ایک قابل قبول حقیقت ہے کہ دسمبر، 1949 تک مسلم اس مقام پر آتے تھے اورنماز پڑھتے تھے۔
اس میں آگے کہا گیاتھا کہ مسلم کمیونٹی کو بعد میں ایسا کرنے سے روک دیا گیا کیونکہ اس کو قرق کر لیاگیا تھا جبکہ غیرقانونی طریقے سے داخلے کی وجہ سے نامناسب طور پر ہندوؤں کو عبادت کرنےکی اجازت دی گئی تھی۔عرضی میں کہا گیا کہ 9 نومبر کے فیصلے نے مسجد کو نقصان پہنچانے اور آخرکار اس کو مسمار کرنے سمیت قانون کی حکومت کی خلاف ورزی کرنے، مسمار کرنے کی غیرقانونی کارروائی کو معاف کردیا۔
اس کے علاوہ اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا نے ایودھیا میں مسجد کے لئے سنی وقف بورڈ کو پانچ ایکڑ زمین مختص کرنے کے لئے دی گئی ہدایت کے خلاف عرضی دائر کی تھی۔مہاسبھا کے علاوہ سماجی کارکنان سمیت 40 لوگوں نے مشترکہ طور پر عدالت کا رخ کر ایودھیامعاملے میں اس کے فیصلے پر نظرثانی کی گزارش کی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ فیصلےمیں حقائق اور قانونی خامیاں ہیں۔
ان لوگوں میں مؤرخ عرفان حبیب، ماہر اقتصادیات اور سیاسی تجزیہ کار پربھات پٹنایک،سماجی کارکن ہرش مندر، نندنی سندر اور جان دیال شامل تھے۔ان کارکنان نے اپنی عرضی میں کہا کہ وہ عدالت کے فیصلے سے بہت مایوس ہیں۔ ان کی جانب سےسینئر وکیل پرشانت بھوشن نے عرضی دائر کی ہے۔
واضح ہو کہ آئینی بنچ نے ایودھیا میں 2.77 ایکڑ کی متنازعہ زمین سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑا اوررام للا وراجمان کے درمیان برابر برابر بانٹنے کے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ستمبر،2010 کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں پر9 نومبر کو اپنا متفقہ فیصلہ سنایا تھا۔9 نومبر کو سپریم کورٹ نے بابری مسجد-رام جنم بھومی اراضی تنازعے پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ زمین پر مسلم فریق کا دعویٰ خارج کرتے ہوئے ہندو فریق کو زمین دینے کو کہا۔
ایک صدی سے زیادہ پرانے اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ رام جنم بھومی ٹرسٹ کو2.77 ایکڑ زمین کا مالکانہ حق ملےگا۔ وہیں، سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی پانچ ایکڑ زمین دی جائےگی۔ مندر تعمیر کے لئےمرکزی حکومت کو تین مہینے کے اندر ٹرسٹ بنانا ہوگا اور اس ٹرسٹ میں نرموہی اکھاڑاکا ایک ممبر شامل ہوگا۔ عدالت نے کہا کہ متنازعہ 2.77 ایکڑ زمین اب مرکزی حکومت کےریسیور کے پاس رہےگی، جو اس کو حکومت کے ذریعے بنائے جانے والے ٹرسٹ کو سونپیںگے۔