حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سے مقتبس؛ ملک یار محمد، نیزہ بازی اور گھڑ سواری سے شہرت پانے والے کوٹ فتح خان والے ملک عطا محمد خان کے والد تھے؛ تاہم یہ بات مجھے بہت بعد میں پتہ چلی تھی۔ ملک عطا محمد خان کی شہرت ہندوستان میں ہونے والے ایشیائی کھیلوں میں پاکستان کو چاندی کا تمغہ دلانے کی وجہ سے ہوئی اور پھر اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جنہیں نیزہ بازی یا گھڑ سواری میں دلچسپی نہ تھی وہ پی ٹی وی کے مشہور ڈرامے ‘الفا، براوو ،چارلی’ کی وجہ سے انہیں پہچاننے لگے تھے۔ اس ڈرامے میں انہوں نے کیپٹن فراز کے جاگیردار والد کا کردار ادا کیا تھا۔
تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک
لفظ تو جیسے میرے ہونٹوں پر پپڑی ہو کر جم گئے تھے۔ اس کا ہاتھ میرے کندھے پر تھا اور اس کے انگوٹھے سمیت سوکھی انگلیاں جیسے ماس میں چبھی ہوئی تھیں ۔ یہ وہی شخص تھا جو اس سے پہلے بھی ہمیں اوپر والے احاطے کی سیڑھیوں سے ہو کر پپیل والے احاطے میں کودنے پر جھاڑ پلا چکا تھا۔ اس کے دائیں ہاتھ پر میں نےہمیشہ چمڑے کا دستانہ چڑھا دیکھا تھا جس پر ایک خونخوار باز بیٹھا ہوتا۔
میں نے باز کو خونخواریوں کہا ہے کہ کئی مرتبہ وہ ہمارے سامنے گوشت کا لوتھڑا اسی دستانے والے ہاتھ میں تھام کر اس باز سے نُچواتے ہوئے گزرتا تھا ۔ ایک مرتبہ تو اس نے ہمیں دھمکانے کے لیے یہ تک کہہ دیا تھا کہ اگر کوئی بچہ اوپر والے احاطے کی طرف آیا تو وہ اس پر باز چھوڑ دِے گا ۔
اتنے قریب سے میں نے اُس شخص کو پہلی بار دِیکھا تھا۔ اُس کے گال اندر کویوں دھنسے ہوئے تھے جیسے وہ گڑ کی ڈلی چوس رہا ہو اور آنکھیں باہر کو کچھ اس طرح اُبھری ہوئی تھیں جیسے ابھی ان کے اندر سے سیاہ کوڈا اُچھل کر باہر جاگرے گا۔ اس کی بھنویں بھرویں تھیں اورناک کا بانساکچھ زیادہ ہی اُٹھا ہوا کہ ہوا میں جھولتے ہوئے لگتاتھا۔ اُس کے نتھنوںسے کھچڑی بال نکل کر مونچھوں کے چمکدار بالوں میں شامل ہو کر بھی الگ سے نظر آتے تھے۔
اگر اس کے چہرے پر کوئی چیز چمکدار تھی تویہ تیل میں چپڑی ہوئی اور گہرے سیاہ خضاب میں رنگی ہوئی مونچھیں تھیں جو کناروں سے قدرے اُٹھی ہوئی تھیں۔
جس چوک سے متصل احاطے میں ہم کھیلتے تھے وہ دو حصوں پر مشتمل تھا؛اُچا تھلا اور نچلا تھلا۔ ملک یار محمد خان کے بنگلے سے متصل اُچے تھلےمیں داخل ہونے کے لیے مشرقی سمت سے سات سیڑھیاں چڑھنا پڑتی تھیں اور وہاں سے ہم اتنی ہی سیڑھیوں کے برابر اونچائی سے چھلانگ لگا کر نچلے تھلے میں پہنچ جاتے تھے جس میں پیپل کا بہت بڑا پیڑ تھا۔
اُچا تھلا مشرق کی طرف جامع مسجد شیعان کی عقبی دیوار کے ساتھ جالگتا تھا۔ اس دیوار کے ساتھ ساتھ تنگ سی سیڑھیاں کئی منزلہ بلندی لیے بنگلے کے ایک اتنے ہی تنگ دروازے تک جاتی تھیں جس کا محض ایک پٹ تھا۔ اس جانب سے میں کئی بار اس شخص کو سیڑھیاں چڑھ کر بنگلے میں داخل ہوتے دیکھ چکا تھا۔
اس بنگلے کے مالک کو میں نے کبھی اس راستے سے آتے جاتے نہیں دیکھا تھا۔ وہ اُچے تھلے کی داخلی سیڑھیوں سے آگے گزر جاتے اور سخی بھور کے عقب سے کہیں بنگلے میں داخل ہوتے تھے کہ وہاں ایک چھتی ہوئی گلی تھی جس میں جب تک داخل نہ ہوں وہ تاریکی میں ڈوبی ہوئی نظر آتی تھی۔ مجھے اس تاریک گلی سے خوف آتا تھا، کیوں ؟اس کی وجہ میں نہیں جانتا۔میں شروع سے اندھیری جگہوں پر زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتاتھا شاید اس کا سبب بھی یہ رہا ہوگا ۔
ملک یار محمد والا بنگلہ کئی منزلہ ہونے اور ہمارے گھر کے ایک کونے سے لگ بھگ متصل ہونے کی وجہ سے چھت پر چڑھتے ہی نظر میں آجاتاتھا۔ ان دنوں گھروں میں فلش سسٹم کا رواج نہ پڑا تھا۔ طہارت خانے گھروں کی چھتوں پرہوتےتھے۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی تھا۔ چھت پر ایک سمت چاردیواری بنا کر اس کا آدھا حصہ ٹین کی چادر سے ڈھک دیا گیا تھا کہ بارش سے بچا جاسکے ۔ اس ٹین کی چادر کے نیچے دو دیواروں کے درمیان لکڑی کے بالے رکھ کر انہیں چار خانوں میں یوں بانٹ لیا گیا تھا کہ وہاں فراغت کے لیے بہ سہولت بیٹھا جا سکتا تھا ۔
طہارت خانے کی صفائی کے لیے ہمارے ہاں مراد مسیح آیا کرتا تھا۔ یقیناً اُس بنگلے کی سب سے اوپر والی چھت پر بھی کوئی ایسا ہی انتظام ہوگا جبھی توجب کوئی وہاں کھڑا ہوتاتھا توچاردیواری کے اند رسے باہر نکلتا ہوا اور جھولتا ہوا شملہ نظر آتا تھا۔ مجھے یہ بات عجیب لگتی تھی کہ کوئی دستار پہن کر وہاں اوپر جاتا تھا ۔
اس چوک میں دو ہی بنگلے تھے۔ ایک یہی ملک یار محمد والا بنگلہ اور دوسرا چوک کے جنوب مغرب میں نواب زادہ سرفراز والا۔ اس دوسرے نواب زادے والے بنگلےمیں داخلے کا راستہ سامنے سے تھا اور وہاں آنے جانے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا ۔
ملک یار محمد، نیزہ بازی اور گھڑ سواری سے شہرت پانے والے کوٹ فتح خان والے ملک عطا محمد خان کے والد تھے؛ تاہم یہ بات مجھے بہت بعد میں پتہ چلی تھی۔ ملک عطا محمد خان کی شہرت ہندوستان میں ہونے والے ایشیائی کھیلوں میں پاکستان کو چاندی کا تمغہ دلانے کی وجہ سے ہوئی اور پھر اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جنہیں نیزہ بازی یا گھڑ سواری میں دلچسپی نہ تھی وہ پی ٹی وی کے مشہور ڈرامے ‘الفا، براوو ،چارلی’ کی وجہ سے انہیں پہچاننے لگے تھے۔ اس ڈرامے میں انہوں نے کیپٹن فراز کے جاگیردار والد کا کردار ادا کیا تھا۔
کئی سال بعد جب میری تعیناتی فتح جنگ میں ہوئی تھی تو میری ملک عطا محمد خان سے کوٹ فتح خان میں ملاقات ہوئی تھی۔ اُن کی شخصیت متاثرکن تھی اور ملنے والوں سے بہت تکریم سے پیش آتے تھے۔ کم از کم میرا تجربہ تو یہی تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے کچھ اصول بنا رکھے تھے اور اُن پر سختی سے کاربند تھے۔ صبح صبح اُٹھ کر خوب دوڑنا، ورزش کرنا، کلہاڑا اٹھا کر لکڑیوں کا ڈھیر کاٹنا اور گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھ کر اسے دوڑانا اُن کے معمولات کا حصہ تھا۔
ملک عطا محمدکی ایک اور پہچان اُن کی مونچھیں تھیں جنہیں گالوں پر سے داڑھی کے بال شامل کرکےخوب گھنا کر لیا گیاتھا۔ لگ بھگ ایسی ہی مونچھیں اُن کی ٹیم کے ہر شخص کی تھیں۔ ملک عطا محمد جب کہیں نیزہ بازی یا گھڑ سواری کے مقابلے میں شرکت کے لیے نکلتے تو اُن کی ٹیم کے ہر رکن کا حلیہ ایک سا ہوتا۔ بھاری اور اٹھی ہوئی مونچھیں، بڑا سا پگڑ اور ایسے ویسٹ کوٹ جن کی گردن والی پٹی پر کڑھائی ہوتی تھی، تاہم ملک عطا محمد اپنے قدرے چھوٹے قد کے باوجود اپنی گوری رنگت اوربڑھے ہوئے اعتماد کی وجہ سے سب سے جدا لگتے تھے۔وہ کالاباغ کے نواب ملک امیر محمد خان کے دامادتھے جنہیں اُن کے بیٹے اسداللہ خان نےکسی بات پر ناراض ہو کر پے در پے پانچ گولیاں داغ کر قتل کر دِیا تھا۔
یہیں ملک امیر محمد خان کے حوالے سے اُس وقت کے دو واقعات یاد آتے ہیں جب ون یونٹ تھا اور وہ گورنر مغربی پاکستان تھے۔ ایک واقعہ مسعود مفتی کا سنایا ہوا ہے اور دوسرا جسٹس جاوید اقبال نے اپنی کتاب ’اپنا گریباں چاک‘ میں لکھا ہے۔
مسعود مفتی نے یہ واقعہ اکادمی ادبیات پاکستان کے اُس وقت کے صدر نشیں ڈاکٹر قاسم بوگھیو کی طرف سے19 اکتوبر 2017 کو’ اووَر اِے کپ آف ٹی ‘کے سلسلے کی اُس تقریب میں سنایا تھا جس میں مجھ سے مکالمہ کیا جانا مقصود تھا۔ اس تقریب میں پروفیسر فتح محمدملک،کشور ناہید، مسعود مفتی،ڈاکٹر احسان اکبر،محمداظہارالحق اور جلیل عالی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔
اِظہار الحق سکول کے زمانے میں پنڈی گھیب میں پڑھتے رہے تھے ۔ انہوں نے میرے اباجان، چچاگل محمد اور میرے شہر پنڈی گھیب کے اس زمانے کو یاد کیا تو مسعود مفتی نے بھی اپنی گفتگو میں اپنی ملازمت کے ابتدائی زمانے کو یاد کیا جب وہ پنڈی گھیب میں ڈویژنل مجسٹریٹ ہو کر گئے تھے۔
اُن کے مطابق ایک روز جب وہ کوئی مقدمہ سن رہے تھے کہ ایک گھبرایا ہوا اور ڈرا ہوا شخص بھاگتا ہوا کمرہ عدالت میں داخل ہوا۔ سب لوگ اس کی طرف متوجہ ہوگئے تو وہ کہنے لگاکہ ابھی ابھی وہ پولیس اسٹیشن گیا تھا وہاں کوئی مدد کوتیار نہیں۔ آپ خدا کے لیے مدد کریں۔ مفتی صاحب کے حوصلہ دلانے پر اُس شخص نے جو بتایا وہ کچھ یوں تھا کہ صدر ایوب خان کی زرعی اصلاحات میں ضبط کی گئی زمین سے چھوٹے سے گاؤں میں چند مزارعوں کو زمین کا کچھ حصہ ملا تھامگر چند روز سے جاگیردار نے اس شخص سمیت بیس پچیس ایسے نئے مالکان کو اپنی نجی جیل میں ڈال رکھا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ سب انہیں ایسے کاغذوں پر انگوٹھے لگادِیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہوں نے برضا ورغبت زمین واپس بیچ دِی ہے۔ وہ کسی طرح وہاں سے نکل بھاگا تھا اور رہائی کے لیے مدد طلب کرتے ہوئے بتا رہا کہ وہاں بہت ظلم ہورہا تھا۔
اس کی دہائی سن کر مفتی صاحب نے اُس کا بیان قلم بند کروایا اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کے نام تحریری حکم جاری کر دیا کہ شکایت درست ہونے کی صورت میں مقدمہ درج کیا جائے اور کسانوں کو نجی جیل سے رہا کروایا جائے ۔ مفتی صاحب کے مطابق دوچار روز تک تو پولیس والوں کی طرف سے کوئی رپورٹ نہ آئی ، ایک رات پچھلے پہر گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان کی طرف سے یہ حکم آگیا تھا کہ میں فوراً چارج چھوڑ دوں۔ مفتی صاحب کے مطابق انہیں چارج چھوڑ دینا پڑا تھا۔
جسٹس جاوید اقبال نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ انہیں گورنر مغربی پاکستان اپنا وزیر قانون بنانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے صدر ایوب خان کے وزیر قانون خورشیدمیر کے ذریعے پیغام بھجوایا اور آکر ملنے کو کہا۔ جسٹس جاوید اقبال نے مناسب یہ سمجھا کہ پہلے صدر ایوب خان کو اعتماد میں لے لیں۔ صدرصاحب کا اس پر کیا رد عمل تھا، لفظ بہ لفظ مقتبس کردیتا ہوں؛
جنرل صاحب لمحہ بھر کے لیے گہری سوچ میں ڈوب گئے ۔پھر فرمایا;’میں حیران ہوں کہ نواب صاحب کو آپ کے نام کا خیال کیوں آیا؟ہم تو راسکلز (بدمعاشوں)کی تلاش میں رہتے ہیں ۔لیکن آپ تو ماشااللہ اپ رائٹ مین (دیانتدار آدمی)ہیں۔۔۔’ مجھے ان کی یہ بات بالکل پسند نہیں آئی ۔ میں نے دکھ بھرے طنز سے کہا؛’سر! کیا نوبت اب یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کے لیے ہمیں راسکلز (بدمعاشوں) کی تلاش ہے۔
ملک عطامحمدکو نواب آف کوٹ فتح خان کہا جاتا تھا۔ میں نے جس ملاقات کا ذِکر کیا ہے اُن سے وہیں ہوئی تھی مگر کچھ برس بعدجب فتح جنگ میں میری ایک بار پھر پوسٹنگ ہوئی تھی۔ اس ملاقات کا وہی زمانہ بنتا ہے جب فتح جنگ کے ایک گاؤں پاگھ کے ایک شخص ملک ممریز خان کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔ اس قتل کا یوں بہت چرچا ہوا تھا کہ وہ شخص صحافی تھا اور روزنامہ ‘خبریں’سے وابستہ تھا۔ جس بنک میں میری تعیناتی تھی وہ ممریز خان ہی کی ملکیت تھی لہٰذا گاہے گاہے اُس سے ملاقات رہتی تھی۔ اخبارات میں اٹھنے والا شور جلد دَب گیا۔ اُس کے قاتلوں کا آج تک پتہ نہ چل سکا تھا۔
اُس زمانے میں کئی بار میں نے ملک عطا محمد کو فتح جنگ میں تو دیکھا تھا لیکن اپنے بچپن میں انہیں اپنے والد کے بنگلے میں آتے جاتے نہیں دیکھا تھا۔ میں نےاس بنگلے کی کسی منزل کے کمروں کی کھڑکیاں شاید ہی کبھی کھلی ہوئی دیکھی ہوں گی، سوائے اُس کمرے کے جس میں وہ شخص مجھے کندھے سے پکڑے پکڑے سیڑھیاں چڑھاتا میرے عقب میں داخل ہوا تھا۔
کمرہ زیادہ روشن نہ تھا۔ مجھے اندر کے ماحول سے مانوس ہونے میں کچھ وقت لگا۔ کمرہ کچھ زیادہ بڑا نہ تھا۔ اس میں آمنے سامنے کی دیواروں سے لگی بان سے بُنی گئی دوچارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ ان کے بیچ محض اتنی جگہ بچی تھی کہ اس میں اونچی پشت والی ایک کرسی پھنسا کر رکھ لی گئی تھی۔ کرسی اس ماحول سے میل نہ کھاتی تھی اور یوں لگ رہا تھا جیسے اسے ابھی ابھی وہاں رکھا گیا تھا۔ ایک چارپائی پر ایک بزرگ پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے ۔ ہم دونوں اندر داخل ہوئے تو انہوں نے مجھے نظر بھر کر دیکھا اور کہا؛
‘ہاں ٹھیک ہے ۔ ایسا ہی لڑکا چاہیے تھا۔’
میں پہلے ہی خوف زدہ تھا۔ یہ سن کر مزید ڈرا اور مٹر کر دروازے کی سمت دیکھا جس کے سامنے سے سیڑھیاں نیچے اُتر رہی تھیں۔ وہ شخص جو مجھے اوپر لایا تھا اس کے ہاتھ کی گرفت میرے بازو پر بڑھ گئی۔ وہ بزرگ جو میرا جائزہ لے چکے تھے ، مجھے پاس بلایا اور سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے کہا؛
‘ڈرو مت بیٹا! ہم ایک کھیل کھیلیں گے ۔ تمہیں اس کھیل میں مزہ آئے گا۔ بس تم نے یوں کرنا ہے کہ جو تمہیں نظر آئے بتا تے جانا۔’
انہوں نے مجھے بازو سے تھاما اور کہا؛
‘سمجھ گئے نا!’
میں نے یوں ہی سر اثبات میں ہلا دیاتھا ۔ مطمئن ہو کر انہوں نے مجھے اپنے سامنے پائینتی کی طرف بیٹھنے کو کہا۔ میں سہما ہوا ہر حکم کی تعمیل کو جیسے تیار ہو چکا تھا فوراً اُن کے سامنے اکڑوں بیٹھ گیا۔ بزرگ جن کی داڑھی اور سر کے بال روئی کی طرح سفید تھے، میری فرماں برداری پر مسکرائے اور اُس شخص کی طرف دیکھا جو مجھے وہاں پکڑ کرلایا تھا؛
‘ملک صاحب کو اطلاع کر دو۔’
ملک صاحب تو جیسے اندر والے دروازے کے پاس ہی کہیں کھڑے تھے وہ شخص گیا اور مُطلاکُلاہ پر اونچے شملے والی مکلف سفید دستار، سفید شلوار اور بوسکی کی ڈھلکنے والی قمیض میں ملبوس ملک صاحب اندر داخل ہو گئے۔ پہلی نظر میں مجھے لگا تھا جیسے اُن کا چہرہ بھی بوسلکی کا تھا، ڈھلکا ہوا۔ میں نے سر گھما کر انہیں اطلاع دینے والا شخص کو دیکھا جو ان کے پیچھے اندر داخل ہواتھا اور کھسکتا کھسکتا سیڑھیوں کی طرف کھلنے والے دروازے کے سامنے یوں کھڑا ہو گیا تھا جیسے وہاں پہرہ دِے رہا ہو۔
میرے سامنے بان کی ڈھیلی چارپائی میں دوزانو بیٹھے بزرگ نے خود کو مؤدب ظاہر کرنے کے لیے اپنے گھٹنوں پر بوجھ ڈالا، اوپر والا بدن ہوا میں جھٹکا جیسے کھڑا ہوناچاہتےتھے مگر اپنی جگہ پرجھول کر رہ گئے تھے۔اُن کے لیےچارپائی پر کھڑا ہونا ممکن ہی نہ تھا۔ دو چارپائیوں کے بیچ کھڑا ہوا جاسکتا تھا مگر وہا ں سے ملک صاحب اِدھر اُدھر دیکھے بغیر گزر کر کرسی پر آکر بیٹھ گئے تھے۔
‘حساب کیا کہتا ہے قاضی صاحب ! کس کے پاس ہے ہمارا باز؟’
قاضی صاحب کے ماتھے پر جیسے عین اسی لمحے پسینہ پھوٹ بہا تھا۔ لڑکھڑاتی زبان کے ساتھ کہا؛
‘جی ، جی ۔۔۔ابھی حساب لگاتا ہوں۔’
قاضی صاحب نے اپنے پہلومیں پڑے تھیلے میں سے ایک تختی نکالی اور اسے میرے سامنے رکھ دیا ۔اسی تھیلے کے اندر ہاتھ ڈال کر سیاہی کی دوات اور ایک سرکنڈے والی کانی نکالی اور دونوں کو تختی پر جما کر تھیلا وہیں ایک طرف رکھ دیا اور مجھے دایاں ہاتھ آگے کرنے کو کہا۔ میں نے ہتھیلی ان کے سامنے پھیلا دی تو انہوں نے میرا ہاتھ تھام کر ہتھیلی کا رُخ نیچے کی طرف کر دیا۔ پھر سیاہی کی دوات کھولی ، کانی اس میں ڈبو کرسیاہی میرے انگوٹھے کے ناخن پر ملنے لگے۔
‘تمہیں اس انگوٹھے کے اندر دیکھنا ہے ۔ اسی میں وہ شخص نظر آئے گا جس نے بازچرایا ہے۔’
یہ قاضی صاحب نے کہا تھا۔ میں نے متجسس ہو کر انگوٹھے کے ناخن میں دیکھا جس پر کالی سیاہی کی گیلی تہہ چڑھی ہوئی تھی۔ انگوٹھے پر سیڑھیوں والے دروازے سے آنے والی روشنی پڑ رہی تھی۔
‘ناخن کے اندر دیکھو وہاں ایک باز ہے ۔’
میں نے گردن گھما کر اُس شخص کو دِیکھا جو مجھے وہاں لایا تھا، جو ہمیشہ چرمی دستانے پر باز بٹھائے نظر آتا رہا تھا ۔ اس نے نہ تو دستانہ پہنا ہوا تھا اور نہ وہاں کوئی باز تھا۔
‘اُدھر نہیں اِدھر۔ اپنا سارا دھیان ناخن پر رکھو۔یہاں باز نظرآ رہا ہوگا۔’
قاضی صاحب نے زور دِے کر کہا تھا کہ مجھے اپنی نظر اپنے انگوٹھے کے ناخن پر جمانا پڑی۔ انہوں نے وہاں سیاسی کی ایک اور گیلی تہہ چڑھا دِی تھی۔
‘یہاں، اس کے اندر باز ہے۔’
میں نے ابھی ابھی مڑ کر دیکھا تھا۔ باز وہاں نہیں تھا۔ اگر وہاں نہیں تھا تو یہاں ہوگا ۔ ناخن کے اندر ۔
‘غور سے دیکھو۔ یہاں ایک باز ہے۔’
میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ مجھے وہاں کوئی باز نظر آیا تھا ۔ تاہم مجھے یقین سا ہو چلا تھا کہ جب تک میں اپنے ناخن میں باز نہیں دیکھ لوں گا مجھے یہاں سے جانے نہیں دِیا جائے گا۔ میں نے گردان اوپر نیچے ہلا دی؛
‘جی ہے ۔ بیٹھا ہوا ہے۔’
‘شاباش۔۔ کہاں؟’
میں نے باز کو ہمیشہ اُس شخص کے ہاتھ پر بیٹھے دیکھا تھا۔ کہا؛
‘اُس کے ہاتھ پر۔’
قاضی صاحب قدرے پرجوش ہو گئے۔ مڑ کر ملک صاحب کی طرف دیکھنا چاہا مگر دیکھے بغیر واپس سر گھمایا اور کانی دوات میں ڈبو دی۔
‘بس اب اس شخص کا چہرہ دیکھو جس کے پاس باز ہے۔’
ناخن پر گیلی سیاہی کی ایک اور تہہ چڑھ چکی تھی۔ ناخن کے چوکٹھے میں اُس دروازے سے آنے والی روشنی کا چوکٹھا تھا جس کے سامنے مجھے لانے والا شخص کھڑا تھا۔۔۔ اُس کے پاس باز نہیں تھا۔
‘تمہیں کوئی شخص نظر آیا ؟’
میں نے اندازہ لگایا وہاں وہی شخص تھا جس کے پاس اب باز نہیں تھا۔ میں نے اثبات میں گردن ہلا دی ۔
‘کیسا ہے وہ شخص؟ اونچا لمبا یا چھوٹے قد والا۔۔ ۔ ؟’
وہ پوچھتے گئے اور جو مجھے سوجھا بتاتا گیا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے چور تک پہنچ گئے تھے؛ اسی لیے تو مجھے وہاں سے جانے کی اجازت مل گئی تھی۔ میں تیزی سے چارپائی سے اترااس شخص کے پاس سے گزرا جو مجھے وہاں لایا تھا اور اب ہاتھ باندھے کھڑا تھا اور میں دھپ دھپ سیڑھیاں اترتا چلا گیاتھا۔
میں نہیں جانتا ملک صاحب کو اپنا باز ملا تھا یا نہیں۔ بعد میں بھی میں نے اپنی چھت سے کئی بار بنگلے کے اوپرچاردیواری سےنکلے ہوئے شملے کو جھولتے دِیکھا تھا اور ہر بار اُس شخص کے بارے میں سوچا تھا جو چرمی دستانے والے ہاتھ میں گوشت کا لوتھڑا تھام کر ملک صاحب کے باز سے نُچوایا کرتا تھا۔ وہ شخص جو پھر کبھی وہاں نظرنہ آیا تھا۔