حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ سلیٹ، قاعدہ، تختی، سکول کی پیتل کی گھنٹی، چھٹی کے وقت زور دے دے کر پہاڑے یاد کرنا، اونچے شملے والے ہیڈ ماسٹر صاحب اور بہت کچھ ایسا ہے جسے عمر بھر یاد رکھا جا سکتا ہے۔ میں ان یادوں سے ہمیشہ توانائی کشید کرتا رہا ہوں۔
تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک
ابا جان اُن لوگوں میں سے نہیں تھے جو بلاسبب بولے چلے جاتے ہیں ۔ ہاں، چھوٹے چچا ایسے تھے ۔ اس کا مجھے یوں اندازہ ہےکہ کئی مرتبہ انہیں داداجان نے ڈانٹتے ہوئے کہا تھا؛ ‘ بولتے رہتے ہو ، سوچتے نہیں ہو۔ بات کرنی ہے یانہیں کرنی ، اُگل دیتے ہو۔’
مجھے اب لگتا ہے کہ ہمارےچھوٹےچچا جان کو داداجان سے مطلب نکلوانے کے لیے بہت جتن کرنا پڑتے تھے۔ سانگ تماشے انہیں پسند تھے ادھر ادھر نکل جاتے۔ واپسی پر بہانے گھڑنا پڑتے ۔ انہیں جو کہا گیا ہوتا وہ نہ کرپاتے تو بھی بہانہ درکار ہوتا ۔ اس سب کے لیے بولنا پڑتا تھا ۔ وہ دادا جان کے آس پاس چلتے چلتے باتیں کیے جاتے ۔ بے کار لفظوں کی قطار لگ جاتی حتیٰ کہ دادا جان اُکتا جاتے۔ چچاجان جیسے اسی لمحے کے منتظر ہوا کرتے تھے ۔
وہ جان جاتے تھے کہ داداجان اپنا پیچھا چھڑانے کو یوں تیار ہیں جیسے وتر میں آئی زمین بیج قبول کرنے کو تیار ہوتی ہے۔ فوراً اپنےمطلب یا بہانے کے بیج کا چھٹا پھینک دیتےتھے ۔
میرے ہوش سنبھالنے تک منجھلے چچا ، بہت کچھ سنبھال کر سیٹھ ہو چکے تھے۔ وہ چھوٹے چچا کی طرح داداجان کی مدد یا کفالت کے محتاج نہ تھے لہٰذا اُن کا رویہ دادا جان اور اباجان کے ساتھ بھی ایسا ہوتا چلا گیا تھا جیسا ایک بھرے ہوئے پیٹ والے شخص کا ہوتا ہے۔ پڑھنا لکھنا دونوں کو اچھا نہ لگتا تھا۔بنیاد میں ٹیڑھ تو دیوار ترچھی۔ دونوں کی اولادیں بھی اس طرف کچھ زیادہ توجہ نہ دے سکیں۔
ہمارے ہاں پڑھنا لکھنا تو گویا موت اور زندگی جیسا مسئلہ ہو گیا تھا۔ بیمار ہوتے تو بھی اسکول سے چھٹی نہ کرپاتے تھے۔ اباجان کا دِل نرم پڑ جاتا تو بھی امی جان کہا کرتیں :’ چلو چلو، نکلو۔اسکول جاؤ گے دوستوں میں بیٹھو گے تو خود بہ خود ٹھیک ہو جاؤ گے۔’ مزے کی بات یہ ہے کہ اسکول جاکر ہم ساری بیماری بھول جایا کرتے تھے۔
میں پنڈی گھیب کے محلہ مولا کے سرکاری اسکول میں پانچویں تک پڑھتا رہا۔جب مجھےپہلی جماعت میں داخل کروایا گیا تھا تو یہ اسکول محلہ ملکاں ہی میں تھا؛ ہمارے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر، ایک کرائے کی عمارت میں ۔ میں گھر سے نکلتاتو فوراً چوک سے دائیں ہاتھ مڑ جاتا۔ تین چار گھر چھوڑ کر بائیں ہاتھ میرا اسکول تھا۔ چوتھے سال یہ اسکول محلہ مولا میں منتقل ہو گیا تھا۔
اب میں اس دورانئے کے بارے میں سوچتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے وہ وقت ایک خوب صورت تتلی کی مانند تھا جسے پکڑنے کی چاہ میں میں بھاگا کرتا تھا، مسلسل بھاگتا تھا مگر لطف یہ کہ تھکن بالکل نہیں ہوتی تھی۔ وہ تتلی نہ تب ہاتھ آتی تھی نہ اب ہاتھ آتی ہے مگر تب جیسے میں اُسے چھو لیا کرتا اور اُس کے پروں کے کچے ملائم رنگ میرے ہاتھ کی انگلیوں کی پوروں پر منتقل ہو جایا کرتے تھے ۔ وہ رنگ ہی اب میری یادوں کا مصحف ہو گئے ہیں۔
سلیٹ، قاعدہ، تختی، سکول کی پیتل کی گھنٹی، چھٹی کے وقت زور دے دے کر پہاڑے یاد کرنا، اونچے شملے والے ہیڈ ماسٹر صاحب اور بہت کچھ ایسا ہے جسے عمر بھر یاد رکھا جا سکتا ہے۔ میں ان یادوں سے ہمیشہ توانائی کشید کرتا رہا ہوں۔
جیسے اب ہے اُن دِنوں ڈے کئیرمیں بچوں کو ڈالنے کی سہولت نہیں تھی اور نہ ہی پری اسکول یا نرسری کے چونچلے تھے۔ جب تک بچہ ٹھیک ٹھاک اُٹھنے بیٹھنے نہ لگتا گھرہی میں رہتا ، وہیں اودھم مچاتایا پھر گھر سے باہر گلی میں ہمسایوں کے بچوں کے ساتھ ایک قمیض میں بھاگتا دوڑتا رہتا۔ جی ، ایک قمیض میں اور اگر کہیں پائجامہ پہنایا بھی جاتا تو بچے کے اس پہناوے کے آسن کا تروپا نہ بھرا جاتاتھا۔ ایسا کرنے کی حکمت یہ تھی کہ وہ کہیں بیٹھتا تھا تو ترپائی نہ ہونے کی وجہ سے آسن خود بہ خود کھل جاتا اور پائجامہ گنداہونے سے بچ جاتا تھا ۔
یہ بات آج کل کے والدین اور بچوں کو عجیب لگتی ہوگی کہ بدن کے جس حصے کا ننگ ڈھانپنے کے لیے پائجامہ پہنایا جاتا ہے وہی ننگا رہ جائے مگر تب یہ معمول کی بات تھی اورماؤں کی جانب سے برتا گیا ایک طرح کا سگھڑپن ۔ ابھی وہ زمانہ نہیں آیا تھا کہ جنس بولائے ہوئے کتوں کی طرح گلیوں میں بھاگتی پھرے ، ۔ تب بچے اور عزتیں سانجھی ہوتی تھیں اور ایسا نہیں تھا کہ اسکول میں جاتی بچیاں اورگلیوں میں کھیلتے بچے اٹھا لیے جائیں اور پھر اُن کی لاشیں کسی کچرا کنڈی، بے آباد مکان یا بربادکنویں سے ملیں۔
شلوار کا آسن سلنے کی عمر ہوتی تو اسکول جانے کے دِن بھی آ جاتے تھے ۔ پہلی جماعت ہی سے ملیشیے کی شلوار قمیض ہمارا یونیفارم تھا اور یہی ملیشیا دسویں جماعت تک چلا۔ آج کل کے بچے نئے نئے اور قیمتی اسکول بیگز کے دیوانے ہیں مگر ہم ایسے بیگز کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ تب اسکول جانے سے پہلے کتابوں اور کاپیوں کا بستہ باندھا جاتا تھا جس کے لیے کپڑے کا ایک چوکور ٹکڑا کافی ہوتا۔ مجھے یاد ہے بستہ باندھنے کے لیے میں زمین کی کسی ہموار سطح پراکڑوں بیٹھ جاتا اور اپنے سامنے کپڑابچھا کر اُس کی ساری سلوٹیں نکال لیا کرتا تھا۔
کپڑے کے عین وسط میں سلیٹ رکھتا، یوں کہ اُس کی لمبائی اور چوڑائی والے چاروں رُخ کپڑے کے چاروں کونوں کی طرف رہتے۔ سلیٹ کے اوپر قاعدے ۔ان کے پہلو میں سلیٹی،گاچی اور سرکنڈے کی قلمیں ۔ قاعدوں کے اوپر عین وسط میں سیاہی کی دوات ۔ چھوٹی جماعت میں کاپیاں نہیں ہوتی تھیں۔ پین یا پنسل سے لکھنے کی ممانعت تھی کہ ِان سے بچے بدخط ہو سکتے تھے۔
دن میں ایک سے زائد بار تختی لکھوائی جاتی۔ جب میں سلیٹ ،قاعدے اور دوات وغیرہ رکھ چکتا تو کپڑے کے دائیں ہاتھ والے کونے کو اُٹھا کر دوات کے اوپر سے گزار کر تان لیتا۔ ایک ہاتھ سے اس کونے کو اپنے تناؤ کے ساتھ پکڑے پکڑے سامنے والے کونے کو اُس کے اوپر سے کھینچ کر جماتا اور بائیں پاؤں کے انگوٹھے سے اس کونے کو دبا کر اورکپڑے کا تناؤ برقرار رکھتے ہوئےباقی رہ جانے والے آمنے سامنے کے دونوںکونوں کو باہم یوں گرہ لگاتا کہ پورا بدن اس مشقت میں شریک ہو جاتا تھا۔
ہم بچوں میں صفائی سے بستہ باندھنے کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ تختی پر کون نفاست سے گاچی پھیرتا ہے۔ کس کے پاس سرکنڈے کے چھوٹے اور بڑے قط والے عمدہ قلم ہیں۔ کون اپنے قلم سے لفظوں کی گولائیاں خوب صورت بناتا ہے۔ نقطے کیسے لگانے ہیں اور کہاں لگانے ہیں۔ کون جھوم جھوم کر اونچی آواز میں گنتی، پہاڑے اور نظمیں سنا سکتا ہے۔ یہ ہمارے اولین ہم جماعتوں کے ساتھ مشاغل تھے۔
سرکنڈے کو چھیل تراش کر قلم بنالینا ہمیں بہت مشکل لگتا تھا ۔ میری یہ مشکل اباجان نے اپنے ذمے لے رکھی تھی۔ سرکنڈے کو ہم کانا کہتے تھے اور قلم کو کانی۔ یہ کانے نالہ سیل کے کنارے کنارے سروٹوں کے اندر دور تک اُگے ہوئے تھے ؛ہمارے گھر اس مقصد کے لیے وہیں سےلائے جاتے تھے۔ اباجان جب کانیاں بنا رہے ہوتے تو اُن کاا نہماک دیدنی ہوتا۔ اُن کے پاس ایک چاقو تھا۔ پہلے وہ اس کا پھل پتھری پر رگڑ تے ،ترچھا رکھ کر اور دونوں رُخ سے، یہاں تک کہ انہیں اس کی دھار کی تیزی کا یقین ہو جاتا ۔ اس تیزی کی مزید جانچ کے لیے وہ کانا اٹھا تے اورایک جھٹکے سے اس کی پاند کاٹ کر الگ کر دیتے ۔ پاند سے مراد کانے کا اوپر والا باریک سراہوتا جو اتنا باریک اورکمزور ہوتا تھا کہ کانی نہیں بنائی جا سکتی تھی ۔ کانے کا جو ٹکڑا بچ رہتا اباجان اس کی ہر گانٹھ کو صاف کرتے تا کہ استعمال کے دوران اس کی کوئی چھدل لکھنے والے کا ہاتھ نہ چھیدڈالے۔ کانے کی گانٹھوں پر موجود خشک چبھنے والے ریشوں اور جھوترے کو ہم چھدلیں کہتے تھے۔ اباجان یوں صاف ہو چکے کانے کو بالشت بھر لمبے ٹکڑوں میں کاٹ لیتے ۔ان ٹکڑوں کی تین ڈھیریاں بنائی جاتیں ۔ موٹے، درمیانی موٹائی والے اور قدرے باریک۔ کانیوں کی اسی موٹائی سے موٹا، درمیانہ، اور باریک لکھنے والی کانیاں بنانے کا فیصلہ ہوتا ۔
ابا جان بالشت بھر کٹے ہوئے کانے کا ایک سرا اپنے بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے سے تھام کر ہتھیلی پر یوں جما لیتے کہ اُس کا دوسرا سرا اُن کی طرف ہوتا تھا۔ جی وہی سرا جسے تراشا جاناہوتا ۔ دائیں ہاتھ میں چاقو لے کر وہ کانے کے سرے کو پور بھر ترچھا چھیلتے جاتے حتی کہ یہ سرا کانٹے کی طرح نوک دار ہو جاتا۔ اباجان چاقو کی تیز دھار کو تراشے گئے حصے پرکھڑے رُخ دیر تک رگڑتے رہتےتا کہ وہ صاف ہوجائے۔ وہ صاف ہو جاتا، اتنا کہ وہاں اُنگلی رکھی جاتی تو وہ نوک تک پھسلتی چلی جاتی تھی۔ اب کانی تیار تھی، بس اسے قط دینا تھا۔ قط سے مراد کانی کا وہ حصہ تھاجہاں سے لکھتے ہوئے اُسے تختی پر بٹھایا جاتاتھا؛ ایک کونے سے دوسرے کونے تک بلکہ اباجی کے لفظوں میں اُنسی سے وحشی تک۔ کانی کے قط کی وہ نوک جو لکھنے والے کی طرف رہتی اور تختی کو پہلے چھوتی تھی، اُسے وہ اُنسی کہتے اور دوسری طرف والی کو وحشی۔ اباجی تراشا گیا سرا پتھر پر رکھ کرچاقو سے مناسب قط دیتے۔ یہ قط تھوڑا سا ترچھا ہوتا تھا ؛ اتنا کہ کانی کو لکھنے کے لیے جب دائیں ہاتھ کی چٹکی میں لے کر شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کی بغل میں سہارا دیا جاتا تو وہ اُنسی سے وحشی تک پوری طرح تختی پر بیٹھ کر چلتا تھا۔
کمال درجے کی محبت اور ریاضت سے تراشی گئی یہی وہ کانیاں تھیں جن سے میں نے تختی لکھنا آغاز کی تھی۔تختی کے ایک طرف ہم اردو کے حروف تہجی لکھتے اور دوسری طرف اردو ہی میں گنتی کے ہندسے ۔انگریزی پڑھنے کی باری کہیں چھٹی جماعت میں پہنچ کر آئی تھی۔ ابھی میں نے اسکول جانا شروع نہیں کیا تھا کہ اباجان نے تختی لکھوانا شروع کر دِی تھی۔
تختی کو گاچی پوچے سے تیار کرنا مجھے میری بڑی بہن زرینہ نے سکھایا تھا۔ ہم انہیں باجی کہتے اور ہم بھائیوں پر اگر امی جان کے بعد سب سے زیادہ حکم چلتا تھا تو وہ باجی ہی تھیں ۔ میں نے اپنی شرارتوں کی وجہ سے اسی تختی سے اُن سے محبت بھری مار بھی کھائی تھی۔ وہ مجھے کھینچ کھینچ کر پاس بٹھاتیں، متوجہ کرتیں اور بتاتی تھیں کہ تختی دھوتے ہوئے کپڑے گیلے ہونے سے کیسے بچانے ہیں، کیسے گاچی لگانی اور ہتھیلی کے نرم دباؤ سے اس کی سطح کو ہموار کرنا ہے۔تختی جلد خشک کرنے کے لیے اس کو منے سے پکڑ کر کیسے ہوا میں لہرانا ہے ۔ میں نے ایک بار اپنے چچا زاد بھائی سعید کو تختی سکھانے کے لیے اکڑوں بیٹھ کر اسے رانوں اور پنڈلیوں کے بیچ رکھتے ہوئے یہ گنگناتے سنا تھا:
‘تختی تختی دو دانڑیں
نہیں سُکنی تاں چل تھانڑیں’ (دانڑیں/ دانے، تھانڑیں/تھانے)
مجھے تختی سکھانے کا یہ طریقہ بہت اچھا لگا تھا ۔ گاچی پوچا کرکے جھٹ کولہوں کے نیچے تختی کو دبا لیا اور زور زور سے گانے لگا:
تختی تختی دو دانڑیں
باجی نے یہ منظر دیکھا تو لپک کر مجھ تک پہنچیں، کان سے پکڑ کر مجھے اٹھا یا اور گھما کر وہاں نگاہ کی جہاں گیلی تختی سے سارا پوچا اُتر کر ان نئے کپڑوں پر نشان چھوڑ گیا تھا جو اُس روز صبح پہلی بار پہنے تھے ۔ باجی نے تختی اُٹھا کر وہیں رسید کی جہاں پہلے سے تختی اپنا نشان چھوڑ گئی تھی۔