تعطل میں پڑا حاصل

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ تایا جی بہت دلچسپ شخصیت کے مالک تھے ہنستے مسکراتے بات کرتے اورباتوں میں ہنستے مسکراتے ہی گالیوں کے پیوند بھی لگاتے جاتے۔اپنازیادہ وقت شکارپور، خیرپور یا سکھر میں گزارتے تھے جہاں اُن کے ارادت مندوں کا حلقہ تھا۔ کئی سال بعد وہ مجھے اپنے مریدوں سے ملوانے وہاں لے گئے تھے ۔ مجھے تب یوں لگا تھا جیسے مردوں کے مقابلے میں عورتیں اُن کی زیادہ مرید تھیں۔ وہ اُن پر نذرانوں کی بارش کردیتیں اور اپنے لیے دم دُعا کرواتی تھیں۔

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛  تایا جی بہت دلچسپ شخصیت کے  مالک تھے ہنستے مسکراتے بات کرتے اورباتوں میں ہنستے مسکراتے ہی گالیوں کے پیوند بھی لگاتے جاتے۔اپنازیادہ وقت شکارپور، خیرپور یا سکھر میں گزارتے تھے جہاں اُن کے ارادت مندوں کا حلقہ تھا۔ کئی سال بعد وہ مجھے اپنے مریدوں سے ملوانے وہاں لے گئے تھے ۔ مجھے تب یوں لگا تھا جیسے  مردوں کے مقابلے میں عورتیں اُن کی زیادہ مرید تھیں۔ وہ اُن پر نذرانوں کی بارش کردیتیں اور اپنے لیے دم دُعا کرواتی تھیں۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

وہ جہاں بیٹھتے،وہیں ڈھیر ہو جاتے تھے۔ اُٹھنے کے لیے اُنہیں کئی کئی بار آگے پیچھے جھول کر اپنا وزن نچلے دھڑ پر جمانا ہوتا تھا مگر جوں ہی ہمیں لگتا کہ اس ہلے میں وہ کھڑے ہو جائیں گے اُن کے کندھے کو آگے سے پچھلی سمت دبا دیتے۔ جھولتا ہواگوشت کا پہاڑ وہیں ٹھہرجاتا ۔ گویاان کے اٹھنے کاارادہ ملتوی ہوا۔ جاپان کے سومو پہلوانوں جیسےبھاری بھرکم جسامت والے اور توندیل حافظ دین محمد کو ہم سب تایا ڈھڈو کہتے تھے۔

وہ بہت دلچسپ شخصیت کے  مالک تھے ہنستے مسکراتے بات کرتے اورباتوں میں ہنستے مسکراتے ہی گالیوں کے پیوند بھی لگاتے جاتے۔  پھولے ہوئے گالوں پر بالشت بھر سفید داڑھی، اوپر کے ہونٹ کی لکیر کے ساتھ ساتھ ترشی ہوئی مونچھیں اورسرپربھاری پگڑ۔ وہ بیٹھتے تو اُن کا بے باک سینہ آگے کو جھولنے لگتا اورباہر کو نکلا پیٹ کچھ اور پھول کر موٹی موٹی گول شہتیر جیسی رانوں کو ڈھانپ لیتا تھا۔

ان کے بازو بھی کسی درخت کے تنے کی طرح موٹے تھے اور ہمیشہ کرتے کے بازوؤں میں پھنسے نظر آتے۔ تایا جی کا ہمارے ہاں آنا جانا نہ ہونے کے برابر تھا مگر اچانک اُن کا آنا جانا بڑھ گیا۔ اُن کی رہائش ہمارے آبائی گاؤں چکی میں تھی۔

وہیں اچھی خاصی زمینوں کے مالک تھے مگر اپنازیادہ وقت شکارپور، خیرپور یا سکھر میں گزارتے تھے جہاں اُن کے ارادت مندوں کا حلقہ تھا ۔ کئی سال بعد وہ مجھے اپنے مریدوں سے ملوانے وہاں لے گئے تھے ۔ مجھے تب یوں لگا تھا جیسے  مردوں کے مقابلے میں عورتیں اُن کی زیادہ مرید تھیں۔ وہ اُن پر نذرانوں کی بارش کردیتیں اور اپنے لیے دم دُعا کرواتی تھیں۔ میں ساتھ گیاہوا تھا تو کچھ نذرانے میرےبھی حصہ ہوئے تھے۔ یہ میرا اندرون سندھ کا پہلا دورہ تھا۔

تایاجی اگر وہاں سے دیسی گھی کے کنستراوراناج کی بھری ہوئی بوریوں کے ساتھ لوٹے تھے تو میری خدمت بھی کچھ کم نہ ہوئی تھی۔ عورتیں مجھے اپنے ساتھ لے جاتیں، کھانے کومانڑی کھیرجوہوتا لے آتیں۔ مجھے وہیں پتہ چلا تھا کہ سندھی میں روٹی کو مانڑی اور دودھ کو کھیر کہتے ہیں۔ میرے پاس کئی اجرکیں اور سندھی ٹوپیاں جمع ہو گئی تھیں۔ میں نےاس دورےمیں پہلی باربھت پلاؤ، بھجی چاول، مصالحے والی پلا مچھی کھائی تھی۔

تایاجی کی اپنی بیوی یعنی رشتے میں ہماری تائی اماں اپنے شوہر کے مقابلے میں اتنی کمزوراورلاغرتھیں کہ ان پر بیمار ہونے کا گمان گزرتا تھا۔ انہیں وہم رہتا کہ کوئی ان پر جادو کرتا ہے۔ وہ اپنے شوہر کی مریدنیوں کی طرف سے بدگمانی کا شکار بھی تھیں ۔

وہ چکی اپنے گھر میں ہی مقید تھیں اور جب تک تایا جی سندھ سے گاؤں نہ آتے تھے ان کے ہاں کوئی کم کم آیا کرتا تھا جیسے وہاں تائی نہ رہتی تھیں کوئی آسیب رہتا تھا۔تایا جی کی ایک ہی اولاد تھی: حافظ مشتاق احمد۔ اس آمد ورفت کا نتیجہ باجی زرینہ کے ان کے اسی بیٹے سے رشتہ طے ہونے کی صورت میں نکلا۔

بھائی مشتاق خوب صورت آدمی تھے۔انگریزی میں ماسٹرکیا ہوا تھا۔ مجھے کوئی مشکل پیش آتی تو ان سے مدد لیتا ۔ اس زبان پران کی دسترس کمال درجے کی تھی۔ اگروہ کالج یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہوتے تو بہت ترقی کرتے مگر واہ آرڈنینس فیکٹری میں کم تر درجے کی جو نوکری انہیں ابتدا میں مل گئی تھی، اسی پر قناعت کرلی اور وہیں عمربتادِی۔ انہوں نے اپنی زندگی اوراس کی ضرورتوں کو ہمیشہ ایک محدود دائرے میں رکھا اور مجھے یوں لگتا ہے کہ ان کے بچے جوں جوں بڑے ہوئے انہوں نے اپنی ذاتی ضرورتوں کے دائرے کواوربھی سکیڑلیا تھا۔

بھائی مشتاق کے ماں باپ اپنے وقت پر رخصت ہوگئے توانہیں بھاری بھرکم وراثت ملی۔ کچھ عرصہ بعدایک بیوہ چچی لاولد مر گئی، اس کا بھی کوئی بھائی تھا نہ بہن،گھر کے بڑے تو مدت ہوئی گزر چکے تھے، لہٰذا اُس کی زمین بھی اُن کے نام لگی۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی ساری زندگی انتہائی سادگی میں گزار دی تھی۔ سادگی نہیں ، میں تو اسے عسرت اور تنگ دستی والی زندگی کہوں گا۔ واہ کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہے۔ بسوں رکشوں میں سفر کیا، سائیکل پرکام پر جاتے رہے۔

بچے بڑے ہوئے تو ان کے اصرار پرموٹرسائیکل رکھ لی اس پر وہ کئی بار واہ سے پنڈی گھیب آئے اور گاؤں تک سے اسی پر ہو آتے تھے۔ مہینے دو مہینے بعدوہ زمینوں کی دیکھ بھال اورحساب کتاب کے لیے ضرور گاؤں جاتے تھے مگر وہاں سے جو حاصل وصول ہوتا ان کی زندگیوں میں کسی تبدیلی کا سبب نہ ہورہا تھا۔ ہم نے اپنی بہن کو ساری عمردِن رات کی پروا کیے بغیرسلائی کڑھائی والی مشین پردیکھااوریقین کیے بیٹھے تھے کہ گزر اوقات کو بھائی صاحب کی تنخواہ ہے اور بہن کی سلائی کڑھائی والی آمدن اور بس۔

باجی محنت مشقت سے جو کماتی تھیں،اپنی اولاد پرخرچ کرنا بھی جانتی تھیں۔ جیسی زندگی وہ گزار رہی تھیں اس کی کبھی شکایت نہ کی۔ مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے انہیں بھی خبر نہ تھی کہ وہ کتنے حیثیت والے تھے۔خیر، اگر انہیں پتہ بھی تھا تو محنت مشقت کی انہیں عادت پڑ چکی تھی، وہ مشقت میں پڑی رہیں۔ یوں، جیسے یہی اُن پر فرض تھا۔ ایثار اور قربانی کا جذبہ اُن کے لہو میں گردش کرتا تھا،بچوں کے لیے اوراس گھر کے لیے،وہ یہ سب کرتی رہیں۔

جب میں یونیورسٹی میں پڑھتا تھا تو مجھے بھی کچھ روپے بھیج دیتی تھیں اس ہدایت کے ساتھ کہ اس ماہ گھر سے نہ منگواؤں۔ مشین چلاتے چلاتے انہیں کمر میں درد ہونے لگا۔ سروائیکل کی پٹی چڑھ گئی ۔ پٹھوں کے درد کی شکایت کرتیں، پھیپھڑوں میں پانی پڑ گیا اور بدن گھلتا چلا گیا تھا۔

میں دوسرے شہروں سے ہوتا ہواتا اِسلام آباد میں تعینات ہوچکا تھا جب انہیں ہسپتال میں داخل کروانے یہاں لایا گیا تھا۔ وہ ہمارے جی ایٹ والے گھر میں آئی تھیں اپنے قدموں پر چل کر اور ہمارے سامنے موت تک کا سفرکیا ۔ امی جان ہسپتال میں باجی کے سرہانے بیٹھی رہتیں،اُن کا ہاتھ تھام کر۔ اُن سے بیٹی کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی، مگر دیکھتی تھیں اور آنکھیں پونچھتی تھیں۔باجی کے پھیپھڑوں سے پانی نکالا جاتا پھربھرجاتاوہ لاغرہوتی چلی گئیں حتیٰ کہ موت نے انہیں اچک لیا۔

کچھ سال بعدبھائی مشتاق موٹرسائیکل کے حادثے میں ایسے گرے کہ پھربسترسے اُٹھ نہ سکے۔ ہسپتالوں کے چکر لگنے لگے مگر وہاں سے بھی جواب مل گیا۔ جس تکلیف اوراذیت سے وہ گزر رہے تھے وہ ناقابل برداشت تھی۔ اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا سب موقوف ہو گیا تھا۔بستر پرکروٹ تک نہ لے سکتے تھے۔ بڑا بیٹا اور اس کی دلہن ساتھ رہتے تھے اوران کی سب سے چھوٹی بیٹی؛ جنہوں نے حددرجہ خدمت گزاری کی مثال قائم کی۔ درمیان والے دونوں بیٹے اوردونوں بیٹیاں یا تو ملک سے باہر ملازمت کر رہے تھے یا شہر سے باہرمگرسب گھر کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔

بھائی مشتاق کی رحلت کے بعدوراثت تقسیم ہوئی تو سب بچوں کی زندگیاں بدلی بدلی نظر آنے لگیں۔ اب وہ اپنے حصے کی زمین اپنے مصرف میں لا سکتے تھے۔ سب کا رہن سہن بدلا ۔ گاڑیوں میں آتے جاتے کہ اب یہ سب عیاشی نہیں ضرورت تھی۔ خود بھی اچھی ملازمتوں میں تھےجس نے ان کی زندگیوں کو سنبھالا دیا مگر وہ سب جو بھائی مشتاق اور باجی زرینہ کی زندگیوں میں کہیں اوجھل پڑا تھا اب بچوں کی زندگیوں کو بہت تیزی سے بدل چکا تھا۔