اٹارنی جنرل نے سینٹری پینلس نام کے ایک ویب کامکس پیج پرشائع ایک کارٹون کو لےکر کارٹونسٹ رچتا تنیجہ کے خلاف کارروائی کو منظوری دی ہے۔اس کارٹون میں ارنب گوسوامی کی ضمانت پر تبصرہ کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے کامیڈین کنال کامرا کے خلاف اسی سلسلے میں کارروائی کی اجازت دی گئی تھی۔
اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سپریم کورٹ میں ارنب گوسوامی کی ضمانت عرضی پرشنوائی کے دوران کیے گئے ٹوئٹ پر کامیڈین کنال کامرا کے خلاف عدالت کی توہین کی کارروائی شروع کرنے کو منظوری دیے جانے کے ایک مہینے سے بھی کم مدت میں ہندوستان کے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے ایک اور ااپیل کو قبول کر لیا ہے، جس میں کارٹونسٹ رچتا تنیجہ کے خلاف ہتک عزت کی کارر وائی کی مانگ کی گئی تھی۔ یہ معاملہ بھی ارنب گوسوامی اور سپریم کورٹ سے متعلق ہے۔
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق،
سینٹری پینلس نام کے ایک ویب کامکس پرشائع کارٹون پر غور کرنے کے بعد وینوگوپال نے کارٹونسٹ تنیجہ کے خلاف کارروائی کے لیے قانون کے اسٹوڈنٹ آدتیہ کشیپ کی اپیلوں پررضامندی دے دی۔
سینٹری پینلس کے ٹوئٹر پر 14400فالوور ہیں جہاں باقاعدگی سےسرکار، سرکاری بدعنوانی اور عورتوں سے تعصب کی تنقیدکی جاتی ہے۔
مبینہ توہین آمیز کارٹونوں میں سے ایک بیچ میں کھڑے ارنب گوسوامی بی جے پی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ‘تو جانتا نہیں میرا باپ کون ہے؟’ یہ ٹوئٹ اسی دن کیا گیا تھا جس دن اٹارنی جنرل نے کامرا کے خلاف ہتک کی کارر وائی کو منظوری دی تھی۔
کشیپ کو دیے گئے اپنے جواب میں اٹارنی جنرل کہتے ہیں کہ اگر مذکورہ کارٹون سینٹری پینلس کے ٹوئٹر ہینڈل سے ٹوئٹ کیا گیا تو ایسا ماننا پڑےگا کہ انہوں نے اس بنیاد پر اسے آگے بڑھایا ہے کہ بی جے پی کسی بھی طرح سے ارنب گوسوامی کو بچانے کی خواہش مند ہے اور ایسا کرنے کے لیے سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالا۔ اس لیے صاف مطلب یہ ہوگا کہ ہندوستان کی سپریم کورٹ مقتدرہ سیاسی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیےجانبدار ہے اور مقتدرہ پارٹی کےفائدہ کے لیے فیصلہ کرےگا۔
بتا دیں کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں سال 2018 میں خودکشی کے لیے اکسانے کے ایک معاملے میں ری پبلک ٹی وی کے ایڈیٹر ان چیف ارنب گوسوامی کو عبوری ضمانت دے دی تھی۔ شنوائی کے دوران جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہا تھا کہ بامبے ہائی کورٹ نے گوسوامی کو ضمانت دیتے ہوئے نجی آزادی کے معاملے میں دخل اندازی نہیں کی تھی۔
اس پر کئی سوشل میڈیا صارف نے کہا تھا کہ بی جے پی مقتدرہ سرکاروں کے ذریعےجیل بھیجے گئے دیگر کئی صحافیوں اور کارکنوں کو اس طرح کی ترجیح نہیں دی گئی۔بار اینڈ بنچ کی جانب سے ٹوئٹ کیے گئے اٹارنی جنرل کے خط سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اس دوران سینٹری پینلس کے ذریعے سپریم کورٹ کو سنگھی کورٹ آف انڈیا کہے جانے کو بھی عدالت کی ہتک مانا۔
وینوگوپال نے کہا، ‘ارنب گیٹس بیل، ریئل جرنلسٹس گیٹ جیل، اندی پینڈنٹ جیوڈشیری از فیل نعرے کے ساتھ آر ایس ایس کا تذکرہ ملک کی سپریم کورٹ کے خلاف شدید طور پر توہین آمیز ہے اور یہ دکھاتا ہے کہ ہندوستان کی سپریم کورٹ ملک کی ایک غیرجانبدار باڈی نہیں رہ گئی ہے۔’
اٹارنی جنرل لکھتے ہیں کہ ٹوئٹ صاف طور پر عوام کی نظر میں سپریم کورٹ کی آزادی اور غیرجانبداری کو کم کرکے دکھاتا ہے۔حالانکہ، حال ہی میں سپریم کورٹ کی غیرجانبداری پر نہ صرف ٹوئٹر صارف نے بلکہ دہلی اور مدراس ہائی کورٹ کے جسٹس اےپی شاہ جیسے ریٹائرڈ ججوں نے بھی سوال اٹھایا ہے۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق، اپنے خط میں قانون کے اسٹوڈنٹ آدتیہ کشیپ نے سینٹری پینلس کے ایک اور ٹوئٹ کا ذکر کیا تھا، جس میں ایودھیا زمینی تنازعہ کا فیصلہ دینے میں عدلیہ(بالخصوص ریٹائرڈ چیف جسٹس رنجن گگوئی)اورمرکزی حکومت کے بیچ لین دین کو دکھاتا ہے۔
اس سے پہلے خودکشی کے لیے اکسانے کے سلسلے میں گرفتار کیے گئے ری پبلک ٹی وی کے ایڈیٹران چیف ارنب گوسوامی کی عرضی پرمبینہ طور پر فوراً شنوائی کر ضمانت دینے کو لےکر کچھ ٹوئٹ کے ذریعے سے سپریم کورٹ کا مذاق اڑانے کے سلسلے میں اسٹینڈاپ کامیڈین کنال کامراکے خلاف گزشتہ 12 نومبر کو ہتک کی کارر وائی شروع کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔