ملک میں آر ٹی آئی کارکنوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے بیچ احتسابی قانون کی ضرورت

05:22 PM Jan 07, 2022 | ارونا رائے | مینک لابھ | میرا ایم پانیکر

گزشتہ21 دسمبر کو کسان اور آر ٹی آئی کارکن امرارام گودارا کو باڑمیر سے اغوا کیا گیا اور بے رحمی سے پیٹنے کے بعدقریب قریب موت کے گھاٹ اتار کران کے گھر کےپاس پھینک دیا گیا۔ لگاتارآر ٹی آئی اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر بڑھتے ہوئے حملے احتسابی قانون سازی کی ضرورت کو نشان زدکرتےہیں۔

(السٹریشن: دی وائر)

نئی دہلی: آر ٹی آئی طویل عرصے سے ملک میں بدعنوانی  کی صورتحال کو بے نقاب کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ بنا ہوا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ حال میں راجستھان میں پیش آیا۔

کسان اور آر ٹی آئی کارکن امرارام گودارا کو 21 دسمبر کو باڑمیر سے سفید اسکارپیو میں اغوا کرلیا گیا۔انہیں بے دردی سے مارا پیٹا گیا اور قریب قریب موت کے گھاٹ اتار کران کے گھر کے پاس پھینک دیا گیا۔

انہیں کئی زخم آئے۔ان کا ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا۔ ان کے پاؤں میں کیلیں ٹھونک دی گئی تھیں اور ان کو زبردستی پیشاب پینےکو مجبور کیا گیا۔

دراصل گودارا نے مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ(منریگا)، رین واٹر ہارویسٹنگ ٹینک(بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے والے ٹینک)بنانے والے مزدوروں کو کم ادائیگی کرنے، پی ایم آواس یوجنا(گرامین)کے تحت من مانے الاٹمنٹ اور گاؤں میں شراب کی غیر قانونی تجارت سے متعلق کئی سوال  کمپالیہ گرام پنچایت سے پوچھےتھے۔

انہوں نے یہ مسائل راجستھان حکومت کی طرف سے گاؤں کی سطح پر شروع کیے گئے خصوصی پروگرام ‘پرشاسن گاؤں کے سنگ ابھیان’کے دوران اٹھائے تھے۔ ان مسائل کوایک جائز فورم پر اٹھایا گیا تھا، لیکن پھر بھی گودارا پر حملہ کیا گیا۔

اس معاملے میں چار لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے،لیکن گودارا کے لیے انصاف ابھی بہت دور ہے۔ انہیں پوری طرح سے صحت یاب ہونے اور ایک بار پھر سےاپنے خاندان کی دیکھ بھال کرنے میں کافی وقت لگے گا۔

جس بے رحم اور غیر انسانی طریقے سےگودارا پر حملہ ہوا اور جس طرح سے آر ٹی آئی کارکنوں اور دیگر انسانی حقوق کے کارکنوں پر ملک میں حملے بڑھے ہیں اس نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے۔

گودارا واقعہ کے بعد ایک اور آر ٹی آئی کارکن پر باڑمیر میں حملہ ہوا، جس کے بعد ایک تیسرے شخص کوآر ٹی آئی کے لیے درخواست دینے پر وہاٹس ایپ پر دھمکی دی گئی۔

ان دونوں واقعات کی ایف آئی آر درج کر لی گئی،لیکن پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے ایسے حملوں کی روک تھام کے لیے کی جانے والی کارروائی ناکافی نظر آتی ہے۔

اب تک 100 سے زیادہ آر ٹی آئی کارکنوں اور صارف نےآرٹی آئی کے لیے لڑتے ہوئے 2011 کے بعد سےاپنی جانیں گنوا دی ہیں۔کم بدعنوان حکومت اور اخلاقی معاشرہ کی چاہت رکھنے والے کئی لوگوں پر پورے ملک میں حملہ کیے گئے۔

اخلاقی حکومت کا مطالبہ کرنے والے آر ٹی آئی اوردوسرے کارکنوں کو خطرات کا سامنا ہے، صرف اس لیےنہیں کہ انہوں نے حکومت میں بدعنوانی کو بے نقاب کیا ہے بلکہ اس لیے کہ وہ انقلاب کے قائد ہیں کیونکہ وہ شراکتی جمہوریت میں اقتدار کی منتقلی کا مطالبہ کرتے ہیں، جہاں ہر کوئی قادر مطلق ہو۔

اس سماجی و سیاسی منظر نامے میں ان لوگوں کا تحفظ ضروری ہے جو اقتدار کے سامنے سچ بولنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ4 متعلقہ حکام پر یہ ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ وہ حکومت کے کام کاج سے متعلق تمام معلومات کو عوامی طور پر فراہم کریں اور اسے اپنی ویب سائٹ پر بھی پوسٹ کریں۔

جب کسی آر ٹی آئی کارکن پر حملہ ہوتا ہےتو انفارمیشن کمیشن کو اس شخص کی طرف سے مانگی گئی تمام معلومات کو اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنا چاہیے۔ اگر حملہ آور کو پتہ ہوگا کہ اس طرح کے حملے  سے معلومات کو دبایا نہیں جاسکے گا تو کسی حد تک تشدد کوکم کیا جا سکتا ہے۔

پارلیامنٹ کےذریعہ 2014 میں  منظور کیے گئے وِہسل بلوور ایکٹ کو ابھی تک مرکزی حکومت نےنوٹیفائی نہیں کیا ہے۔وِہسل بلوور کاتحفظ ایک بڑا چیلنج ہےبالخصوص ہندوستان جیسے ملک میں۔

آر ٹی آئی ایکٹ نے ہر آر ٹی آئی صارف کو ایک ممکنہ وِہسل بلور میں تبدیل کر دیا ہے اور ان میں سے ہر ایک کی حفاظت کرنا یا ان کی حفاظت کے لیے انہیں گمنامی میں رکھنا تقریباً ناممکن کام ہے۔ اس طرح کے ٹارگیٹیڈ حملوں کو روکنے کے لیے نئے طریقوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

سال 2012 میں ان سلسلہ وار حملوں کے بعد راجستھان میں آر ٹی آئی مہم میں ایک پروٹوکول شروع کیا گیا تھا، جہاں آر ٹی آئی کارکنوں پر کسی بھی قسم کے حملے اور کسی کی طرف سے بدعنوانی کی شکایت دائر کرنے پر ریاستی حکومت کی طرف سے فوراً لازمی جواب ملنے کا نظم کیا گیا۔

اس عمل کے تحت ریاستی حکومت کی طرف سے ایک ٹیم کو اس ادارے کا آڈٹ کرنے کے لیے بھیجاجانا طے ہوا، جہاں اصل آر ٹی آئی  اور شکایت درج کی گئی تھی۔ اس سے بڑے پیمانے پر بدعنوانی کےمعاملےاجاگر ہوئے اور یہ پیغام دینے میں مدد ملی کہ کسی بھی طرح کے جسمانی حملے پر اس پورے ادارے کے خلاف اور زیادہ  سخت کارروائی کی جائے گی ۔

گودارا پر حالیہ حملہ اسی  آرڈر  کا نتیجہ ہے، جو27 دسمبر کو پاس ہوا، جس کے تحت اس معاملے کی جانچ کے لیے تین رکنی کمیٹی بنائی  گئی۔

آر ٹی آئی کارکنوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات نے احتسابی قانون کے مطالبہ کو تیز تر کردیا ہے، جو سرکاری ملازمین کو کام کرنے کے لیے جوابدہ بنا سکے۔ اس کے لیے سوشل آڈٹ سمیت شکایات کے ازالے کے ایک آزاد طریقہ کار کی ضرورت ہے۔ اس کے ذریعےجوابدہی کی عدم موجودگی میں کرپشن کے خلاف تنہا لڑ رہےگودارا جیسے کارکنوں کو تحفظ ملے گا۔

یہ واقعہ تشدد کے ایک بڑے کلچر کے اندر ہوا ہے، جہاں حکومت ان واقعات پر خاموش ہے۔ ہری دوار میں حالیہ دھرم سنسد پر مرکزی حکومت کی خاموشی اس کا ثبوت ہے، جہاں ہندوتوا لیڈروں نے کھلے عام مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل کی تھی۔ یہاں حکومت تشدد کے لیے بھڑکانے والوں کے خلاف قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا آئینی فرض پورا کرنے سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔

جب ہم ایگزیکٹو اور منتخب نمائندوں سے سوال پوچھتے ہیں تو ہمیں اپنے آپ سے بھی سوال کرنا چاہیے۔ ہم نے تشدد کے اس کلچر کو کیسے اور کیوں پنپنے دیا؟

اس تشدد کو سماجی طورپرملی قبولیت سے عام شہریوں میں بے حسی اور ہر حال میں خود کوصحیح بتانے کاجذبہ پیدا ہوا، جو اب تشدد کا استعمال کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہیں۔

اس طرح کا خیال غیر منطقی ہے اور اس کی بہت بھاری سماجی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔جب حکومت کا کردار کمزور ہوتا ہے تو لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں لیکن اگر لوگ ان واقعات کو نظر انداز نہیں کریں گے تو تشدد کا یہ رجحان نہیں بڑھے گا۔

قانون، عدم تشدد اور ہمدردی پر مبنی ملک کی تعمیر کے لیےاپنا جائزہ لینے اور فوری اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔

افریقی نژاد امریکی حقوق نسواں کی کارکن بیل ہُک نے درست کہا ہے کہ ، محبت کی سیاست تسلط کی سیاست کا سب مؤثر تریاق ہے۔

(اس  رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)