راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم کی 679 سیٹوں میں سے بی جے پی نے 643 اور کانگریس نے 666 سیٹوں کے لیے امیدواروں کا اعلان کیا ہے۔ ان میں سے بی جے پی نے صرف 80 خواتین امیدوار کھڑے کیے ہیں اور کانگریس نے 74 خواتین امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ 230 رکنی مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے 28 اور کانگریس نے 30 خواتین کو میدان میں اتارا ہے۔
(علامتی تصویر بہ شکریہ: فیس بک/بھارتیہ جنتا پارٹی)
نئی دہلی: پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے موجودہ دور میں بی جے پی اور کانگریس کی جانب سے میدان میں اتارے گئے امیدواروں میں خواتین کی تعداد 12 فیصد سے بھی کم ہے۔ یہ پارلیامنٹ سے منظور شدہ خواتین کے ریزرویشن بل میں طے شدہ 33.33 فیصد کے ہدف سے بہت کم ہے، جو اگلی مردم شماری اور حد بندی کے عمل کے بعد لاگوہوگا۔
ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، پانچ ریاستوں – راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم کی679 سیٹوں میں سے بی جے پی نے 643 اور کانگریس نے 666 سیٹوں کے لیے امیدواروں کا اعلان کیا ہے۔ ان میں سے بی جے پی نے صرف 80 خواتین امیدوار کھڑے کیے ہیں اور کانگریس نے 74 خواتین امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 230 رکنی مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے 28 اور کانگریس نے 30 خواتین کو میدان میں اتارا ہے۔ 2018 میں یہ تعداد بالترتیب 24 اور 27 تھی۔ یہاں 17 نومبر کو انتخابات ہوں گے۔
راجستھان کی 200 رکنی اسمبلی کے لیے انتخابات 25 نومبر کو ہوں گے۔ یہاں بی جے پی اور کانگریس نے بالترتیب 20 اور 28 خواتین امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ 2018 میں متعلقہ تعداد 23 اور 27 تھی۔
چھتیس گڑھ میں دو مرحلوں کے انتخابات (7 اور 17 نومبر) میں بی جے پی نے 14 خواتین امیدواروں کا اعلان کیا اور کانگریس نے 3 خواتین امیدواروں کا اعلان کیا۔ یہاں اسمبلی کی 90 سیٹیں ہیں۔
تلنگانہ میں بی جے پی نے 14 خواتین امیدواروں کا اعلان کیا ہے اور کانگریس نے 11 خواتین امیدواروں کا اعلان کیا ہے۔ یہاں 30 نومبر کو ووٹنگ ہونی ہے۔ اسی طرح میزورم کی 40 رکنی اسمبلی کے لیے ووٹنگ 7 نومبر کو ہوئی تھی۔ کانگریس نے یہاں 2 اور بی جے پی نے 4 خواتین کو میدان میں اتارا تھا۔
بی جے پی نےگزشتہ ستمبر میں ایک خصوصی اجلاس کے دوران لوک سبھا اور اسمبلیوں میں خواتین کے لیے 33 فیصد نشستیں محفوظ کرنے والے ناری شکتی وندن ایکٹ بل کی منظوری کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی تھی۔ تاہم خواتین کو ٹکٹ دینے کے معاملے میں ان کا ہاتھ تنگ رہا۔ کانگریس نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ پارٹی نے یو پی اے کے دور حکومت میں بل پاس کرانے کی کوشش کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی تھی۔
بی جے پی کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اس کی وجہ ‘جیتنے کی اہلیت’ ہے۔ انہوں نے کہا، ‘بی جے پی خواتین کو زیادہ ٹکٹ دینے کے لیے پرعزم ہے، لیکن ساتھ ہی ہم امیدوار کی جیتنے کی صلاحیت کو بھی دیکھتے ہیں، خاص طور پر اگر الیکشن میں قریبی مقابلہ ہو۔’
تاہم، کئی بار الیکشن لڑ چکی بی جے پی کی ایک خاتون لیڈر نے اعتراف کیا کہ صنفی تعصب کی وجہ سے خواتین کو کردار اور ٹکٹ سے محروم رکھا جاتا ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا، ‘خواتین کو پنچایت انتخابات میں ریزرویشن دیا جاتا ہے، لیکن آج تک ایک خاص رکاوٹ ہے، جسے وہ عبور نہیں کر سکیں۔ ملک کے کئی حصوں میں اب بھی خواتین کو مرکزی کردار ملنے کی مخالفت جاری ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘جب میں نے پہلی بار الیکشن لڑا تو شروع میں میرے اور میری ٹیم کے لیے انتخابی مہم چلانے والے کارکنوں کے درمیان تناؤ تھا۔ ہم نے کئی سالوں میں اس طرح کی رکاوٹوں پر قابو پالیا ہے لیکن اگر پارٹی کارکنان اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی خواتین امیدواروں کی حمایت نہیں کرتے تو ووٹ حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔’
کانگریس کے ایک سینئرلیڈر نے کہا کہ پارٹی 2010 میں خواتین کے ریزرویشن بل کو نے راجیہ سبھا منظوری دلانے والی پہلی پارٹی تھی۔
انہوں نے کہا، ‘ہم نے اپنی اعلیٰ ترین ایگزیکٹو باڈی ورکنگ کمیٹی میں خواتین کا کوٹا بھی متعارف کرایا ہے۔ ہم انتخابات میں بھی خواتین امیدواروں کو زیادہ جگہ دیتے رہیں گے۔ یہ تناسب یقینی طور پر بہتر ہوگا۔’
تاہم، ایک اور کانگریسی لیڈر نے بی جے پی لیڈر کی بات کا اعادہ کیا ‘امیدواروں کے انتخاب’ میں سب سے اہم عنصر کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا، ‘جب اہم انتخابات کی بات آتی ہے تو ہمیں جیت کی اہلیت کو دیکھنا ہوتا ہے۔’