ایگزٹ پول کی شکل میں جو قیاس آرائیاں مشتہر کی جارہی ہیں ان کی سب سے بڑی ٹریجڈی یہ ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی اپنے طریقہ کار کی سائنس اور معروضیت پر اتنا یقین نہیں ہے کہ اسے قیاس آرائیوں سے زیادہ کچھ سمجھا جائے۔
گزشتہ منگل کو اتر پردیش کے نو اضلاع کی 54 سیٹوں پر جاری ساتویں اور آخری مرحلے کی ووٹنگ ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ نیوز چینلوں پر ایگزٹ پول کی بہار سی آگئی!
ان چینلوں کی اس ‘اسپیڈ’ پر قربان ہو جانے کو جی چاہتا ہےکہ شام کو ووٹ ڈالنے آئے آخری مرحلےکے ووٹر،جن کی بوتھوں پر لمبی لمبی قطاریں تھیں، وہ ووٹ ڈالنے کے بعد اپنے بوتھوں سے باہر بھی نہیں نکلے کہ انہوں نےانہیں اپنا فیصلہ سنادیا۔ ! ایک سینئر سابق ایڈیٹر کے اس سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ انہوں نے اپنے نتائج میں اتنے کم وقت میں آخری مرحلے کے ووٹروں کے ووٹوں کو کیسے شامل کیا؟
تاہم اب ان ایگزٹ پول میں بھروسہ رکھنے والےاپنی پارٹی کی سہولیات کے لحاظ سے خوش اور ناخوش ہو رہے ہیں، اوربھروسہ نہ رکھنے والےگزشتہ انتخابات کی مثالیں سامنے لا کر آئینہ دکھا رہے ہیں، جن میں ووٹر خود کو ان ایگزٹ پول سے اوپر ثابت کرکےایگزٹ پول والوں کو اوندھے منھ گرا چکے ہیں!
ایسے لوگ یہ پول کرنے اور کرانے والوں کو بھی اس کڑوے سوال کے سامنے کھڑا کر رہے ہیں کہ پچھلی بار کس الیکشن میں ان کے نتائج درست ثابت ہوئے تھے؟
لیکن سچ پوچھیں تو ایگزٹ پول کی سچائی سے پردہ اٹھانے کے لیے ماضی میں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے تازہ ترین نتائج میں ہی مثالیں موجود ہیں –کئی معاملوں میں تو ان میں سو نشستوں تک کا فرق ہے – جو ان کے تضادات کو بخوبی بے نقاب کرتے ہیں۔ اور اس سچائی کو بھی کہ ان کے ایگزٹ پول کی بنیاد کچھ بھی ہو یہ معروضیت پر مبنی قطعی نہیں ہیں۔
ایسے میں ووٹوں کی گنتی کے بعد تین میں سے کوئی ایک بات ناگزیر ہے۔ پہلا، جس کا ان میں سے اکثر کو انتظار ہے، وہ یہ ہے کہ وہ سراسر غلط ثابت ہوجائیں۔ دوسرا یہ کہ ان میں سے کچھ آدھے سچ اور آدھے جھوٹ کی صورت اختیار کرلیں۔
اور تیسرا یہ کہ ایک یا-دو کے سچے نتائج انہیں اپنی پیٹھ ٹھونکنے کی سہولت فراہم کرا دیں۔ اس پیشین گوئی کی بنیاد یہ ہے کہ اس طرح کی قیاس آرائیوں کا کوئی چوتھا نتیجہ نہیں نکلتا۔
اس پر ایگزٹ پول کی شکل میں مشتہر کی جانے والی ان قیاس آرائیوں کے ساتھ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی اپنے طریقہ کار کی سائنس اور معروضیت پر اتنا یقین نہیں کہ انہیں قیاس آرائیوں سے بڑھ کر بھی کچھ سمجھا جا سکے۔
رائے شماری کے بارے میں بہت سے ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے ہی رائےشماری کی جاتی ہے۔بطرز ‘گندہ ہے پر دھندہ’ ہے۔
اس لیے ‘لگ گیا تو تیر،نہیں تو تکا’ کی طرز پر کبھی ایگزٹ پول میں سے کوئی ایک درست ثابت ہوتاہے، توکبھی دوسرا اور کبھی تیسرا۔ لیکن یہ ویسے ہی ہوتا ہے جیسے یہ سوچنا کہ کسی گھڑی کو بندکرکے رکھ دیں توبھی وہ چوبیس گھنٹے میں دو بار صحیح وقت دکھا دیتی ہے۔
حالاں کہ ایسا وقت کے ہیر پھیرکی وجہ سے ہوتا ہے اور اس میں اس کااپنا کوئی رول نہیں ہوتا۔ ایسےمیں ادیب و شاعر راکیش اچل کی مانیں تو جو انتخاب کبھی جمہوریت کا تہوار ہوا کرتے تھے، ان ایگزٹ پول کی وجہ سے جوئے جیسے معلوم ہوتے ہیں۔
ہماری بے صبری کی تسکین کے لیےزبردستی ہم پرتھوپی گئی قیاس آرائیوں نےہم سے ان انتخابات کی اصلیت ہی کو چھین لیا ہے۔ اب ان کے نتائج کے بارے میں سٹے بازی ہوتی ہیں اور شرطیں لگائی جاتی ہیں، شیئر بازار سے بھی انہیں سلامی دلوائی جاتی ہے۔
اس کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ انتخابات کی مہم سے لے کر ان کے تجزیوں، پیشین گوئیوں اور نتائج تک بگ منی کے زیر کنٹرول یہ مارکیٹ سسٹم کا حصہ بن چکے ہیں اور ان میں حقیقت کے کم، مینجمنٹ کے داؤ زیادہ چلتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کئی چینلوں کے ایگزٹ پول کو متعلقہ حکومت کی جانب سے انتخابات سے قبل دیے گئے اشتہارات کا رٹرن گفٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ تحفہ دینے والوں کو یقین ہے کہ سرکاری نتائج آنے تک ان کے نتائج کا بازار گرم رہے گا اور ان کے بعد کیا ہوگا، پبلک میموری از شارٹ کے پیروکاروں میں کون اس کی پرواہ کرتاہے؟
راکیش اچل اس سلسلے میں ایک اہم سوال پوچھتے ہیں کہ: ایگزٹ پول ہوں یا اوپنین پول، وہ اتنے غیر سائنسی کیوں ہو گئے ہیں کہ گورکھ دھندہ لگتے ہیں؟ ان سے ہماری جمہوریت کا کتنا بھلا ہورہا ہے؟ یہ پول کرنے، کروانے اور دکھانے والوں کو ان کے نتائج کے لیے جوابدہ کیوں نہیں ہونا چاہیے اور اگر غلط ثابت ہو جائیں تو ان کے خلاف لوگوں کو گمراہ کرنے یا ذہنی تناؤ پیدا کرنے کا مقدمہ کیوں نہیں چلایا جانا چاہیے؟ آخر وہ کن اقدار اور اخلاقیات کے لیے کام کر رہے ہیں؟
یہ سوال اپنی جگہ درست یا غلط ہو سکتے ہیں۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اکھل بھارتیہ کسان سبھا کے جنرل سکریٹری حنا مولاہ جو آٹھ بار لوک سبھا کے لیے منتخب ہو چکے ہیں، نے اتر پردیش کے ایگزٹ پول کے نتائج کے حوالے سے ایک یوٹیوب چینل پر بحث کے دوران پوچھا: فسطائی قوتیں جمہوریت کے لبادے میں اقتدارپر قابض ہو جائیں تو کیا انہیں شکست دینا اتنا آسان ہوتاہے؟
اگر اتر پردیش کے ایگزٹ پول کے نتائج میں تبدیلی آتی ہے تو یہ سوال اس وجہ سے بھی جواب طلب کرے گاکہ اس ریاست میں میڈیا اور الیکشن کمیشن سمیت شاید ہی کوئی جمہوری ادارہ حکومت اسپانسرڈ فسطائیت کی گرفت میں آنےسے بچ پایا ہو۔
یہی وجہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران یہ کہنے والے مبصرین کی کمی نہیں تھی کہ حکمران جماعت کو تو صرف اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ اپوزیشن کو حکمران جماعت کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن اور میڈیا کے سوتیلے پن کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بات اتنی ہی ہوتی تو بھی غنیمت ہوتی۔ لیکن اسٹریٹجک اپوزیشن کی عدم موجودگی نے یہ طے کرنے کا، کہ کون سا رخ اس کے لیے کم نقصان دہ ہے اور جمہوری اقدار کو کیسے بچانا ممکن ہوگا، سارا تکیہ عوام کی یاد داشت پر ہی رکھ دیا تھا،جبکہ یہ عوام پہلے سےہی طرح طرح کی کمیونٹی میں بنٹے ہونے کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر پولرائزیشن جھیلنے اور فائدہ اٹھانے والی مخلوق وغیرہ بننے کوملعون تھی۔
اسے یوں ہی ملعون ہونے کے لیے چھوڑ کر اگر کوئی اس کے پاس صرف اس کا مینڈیٹ مانگنے آئے تو اسےاس کے نہ ملنے کا رونا رونےکا بھلا کیا حق ہے؟ خاص طور پر جب ماہرین پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جمہوری اصولوں اور فلسفے پر امن کے وقت میں ہی بات کی جاسکتی ہے اور سنی جا سکتی ہے، جنگ کے وقت حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے بغیر عوام بھروسے پر کھری نہیں بھی اتر سکتی ہے۔
باباصاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے کہا ہے کہ کوئی بھی خیال لافانی نہیں ہوتا۔ اسے زندہ رکھنے کے لیے اس کی جڑوں میں کھاد ڈالنا پڑتا ہے اوراس کو سیراب کرنا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ کام صرف انتخابات کے وقت اپنےخیالات کے ساتھ عوام کے پاس جانے سے یا محض انتخاب سے انتخاب کی سوچ سے کیا جا سکتاہے؟ وہ بھی اس وقت جب فاشسٹ ‘جمہوری’ قوتیں عوام کو اپنے حصار میں لانے کے لیےہر طرح کا حربہ اپنانے کو تیار ہوں۔
ایگزٹ پول کے نتائج درست ہوں یا غلط ،یہ سوال جواب طلب کریں گے،کیونکہ جمہوریت کے خیر خواہوں کے لیے دونوں کا مطلب ایک ہی ہوگا کہ:آگے اور لڑائی ہے۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)