تلنگانہ میں ہار کے بعد نریندر مودی کی بی جے پی کے لیے جنوب کے دروازے بند ہو گئے ہیں اور چند ماہ بعد عام انتخابات میں ان کو شمالی ہندوستان میں ہی داؤ لگانے پڑیں گے۔وہیں ، ان انتخابات میں جس طرح کانگریس کا شمالی ہندوستان سے صفایا ہوگیا، اس سے یہ صاف ہے کہ وہ خو د اکیلے بی جے پی کو شکست دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
(تصویر بہ شکریہ: بی جے پی اور کانگریس فیس بک پیج)
ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی سے بذریعہ ٹرین جنوبی ہندوستان کے شہروں کی طرف سفرکرنا ایک ایڈونچر سے کم نہیں ہے۔ چنئی یعنی مدراس تک یا پھر کیرالہ تک پہنچنے کے لیے تقریباً پچاس یا اس سے بھی زیادہ گھنٹے مسلسل ٹرین میں بیٹھ کر کئی نئے تجربات تو ہوتے ہی ہیں، مگر مہاراشٹر کے آخری ٹرین اسٹیشن بلارپورکراس کرنے کے بعد ایک عجب طرح کا کلچرل شاک بھی ہوتا ہے۔
لگتا ہے کہ بالکل ایک نئی دنیا شروع ہو رہی ہے۔ شمالی ہندوستان کے شور شرابہ کی جگہ ایک عجیب سی خاموشی چھا جاتی ہے۔ٹرین کے ڈبے اور اس کا فرش بھی اب صاف و شفاف نظر آنے لگتا ہے۔ راستے میں جو چھاپڑی فروش ٹرین میں سوار ہوکر چیزیں بیچتے تھے اور اکثر مسافروں کی چیزیں ہی ہوا کردیتے تھے، وہ اب نظر آنا بند ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کا طرز عمل، بات چیت کا طریقہ غرض ہر چیزتبدیل ہو جاتی ہے۔
اس تبدیلی کا مطلب ہے کہ ٹرین وندھیا چل کے پہاڑوں کو عبور کرکے سطح مرتفع دکن یا جنوبی ہندوستان میں داخل ہو گئی ہے اور اب چند لمحوں میں تلنگانہ صوبہ کا کریم نگر یا ورانگل کا اسٹیشن آنے والا ہے۔
ابھی حال ہی میں ہندوستان میں ہوئے پانچ صوبوں کے انتخابات کے نتائج نے بھی واضح طور پر شمال اور جنوب کی تقسیم کو ظاہر کیا ہے۔ان پانچ ریاستوں میں شمالی ہندوستان کے راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے جیت حاصل کی، جنوبی ہندوستان کی تلنگانہ ریاست میں کانگریس نے کامیابی حاصل کی، وہیں شمال مشرق کی چھوٹی ریاست میزورم میں ایک مقامی پارٹی کو اقتدار حاصل ہوگیا۔
کئی ماہ قبل جنوبی ہندوستان کے ایک اور صوبہ کرناٹک میں بھی کانگریس نے کامیابی حاصل کی تھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق تلنگانہ میں ہار کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی بی جے پی کے لیے جنوب کے دروازے بند ہو گئے ہیں اور چند ماہ بعد عام انتخابات میں ان کو شمالی ہندوستان میں ہی داؤ لگانے پڑیں گے۔543 رکنی پارلیامنٹ میں جنوبی ہندوستان کی 132، جبکہ شمالی ہندوستان کی 411نشستیں ہیں۔
جنوب کی پانچ ریاستوں کی حکومتوں کی قیادت—تامل ناڈو میں دراوڑ منیترا کزگم یعنی ڈی ایم کے، کیرالہ میں کمیونسٹ فرنٹ، آندھرا پردیش میں مقامی وائی ایس آر کانگریس پارٹی، تلنگانہ، اور کرناٹک میں کانگریس کرتی ہیں۔ پچھلے نو سالوں میں، اپنی مقبولیت کی چوٹی پر پہنچنے کے باوجودمودی جنوبی قلعے کو سر کر نہیں سکے۔
دونوں اطراف میں سمندر اور اس کے باشندوں کی محنت، لیاقت اور تعلیم کی وجہ سے جنوبی ہندوستان پورے جنوبی ایشیاء کی اقتصادیات کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے۔
بنگلور، کرناٹک کا دارالحکومت دوسرا سلیکن ویلی ہے اور ہندوستان کی سافٹ ویئر کی برآمدات میں اس کا ایک تہائی حصہ ہے۔ تامل ناڈو ناڈو مینوفیکچرنگ اور زراعت کے لیے جانا جاتا ہے۔ نہ صرف یہ خوراک میں خود کفیل ہے، بلکہ ہندوستان سے ذاتی گاڑیوں کی دو تہائی برآمدات صرف اسی صوبہ سے ہوتی ہے۔آندھرا پردیش اور تلنگانہ دواسازی کے مرکز کے طور پر جانے جاتے ہیں۔کیرالہ نہ صرف ہندوستان کی سب سے تعلیم یافتہ ریاست ہے، بلکہ سیاحت کے مرکز کے بطور اس کا خاصا نام ہے۔ اس کا انسانی ترقی کا انڈیکس امریکہ کے برابر ہی ہے۔
چاہے خلائی لیبارٹری ہو یا دفاعی یا کوئی اعلیٰ تکنیکی ادارہ، یہ سبھی جنوبی ہندوستان میں ہی ہیں۔ یعنی یہ کہنا بجا ہوگا کہ جنوبی ہندوستان ہی پورے ہندوستان کو پالتا ہے۔اگر یہ صوبے نہ ہوتے، تو ہندوستان کا حال برونڈی اور صومالیہ سے بھی بدتر ہوتا۔
اعداد و شمار کے مطابق اگراتر پردیش سے مرکزی حکومت کو ایک روپے بطور ٹیکس ملتا ہے، تو اس کے بدلے اس کو ایک روپے پچاس پیسے واپس کرنے پڑتے ہیں، جبکہ تامل ناڈو سے ایک روپے کا ٹیکس لےکر وہاں بس چالیس پیسے واپس دینے پڑتے ہیں۔ یعنی یہ صوبے آمد ن کے حوالے سے خود کفیل ہیں اور مرکزی حکومت کے بجٹ کا بھار بھی اٹھاتے ہیں۔
چونکہ یہ علاقہ شمالی ہندوستان سے بالکل ہی مطابقت نہیں رکھتا ہے، بیسوی صدی کے اوائل میں پیریار ای وی راما سوامی کی قیادت میں جسٹس پارٹی نے ایک علیحدہ وطن دراوڈ ناڈو کا مطالبہ کیا تھا۔ دراصل اس تصور کی جڑ تامل ناڈو میں برہمنیت مخالف تحریک میں تھی، جس کی قیادت پیریار کرتے تھے اور انہوں نے سماجی مساوات اور حکومتی انتظامیہ میں زیادہ نمائندگی کی تحریک بھی شروع کی تھی۔ بعد میں یہ تحریک دم توڑ گئی، کیونکہ ان صوبوں کو لگا کہ نئی دہلی میں بر سر اقتدار پارٹیوں کے ساتھ سانٹھ گانٹھ سے ان کو زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
شمالی ریاستوں کے مقابلے جنوبی ریاستوں میں آبادی میں اضافے کی شرح میں تیزی سے کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں، جنوب میں غیر ہنر مند مزدوروں کی کمی ہے جو اس وقت شمالی حصوں سے ہی مہیا ہوتے ہیں۔ مگر ماہرین کا اب کہنا ہے کہ شمالی ہندوستان میں ہندوتوا یاہندو انتہا پسندی کے عروج سے جنوبی ہندوستان میں جوابی دباؤ بڑ ھ رہا ہے، کیونکہ ان صوبوں میں نچلی ذات کے ہندووں میں بیداری ہے اور وہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں۔
خیر ذکر ان صوبائی انتخابات کا ہو رہا تھا۔ گو کہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ان کے نتائج کا اثر چند ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات پر نہیں پڑتا ہے، مگر سیاسی جماعتیں ان سے نتیجہ اخذ کرکے اپنے بیانہ کو ترتیب دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر، دسمبر 2018 میں ہوئے ان ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو شکست ہو گئی تھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت میں 30پوائنٹ کی کمی واقع ہو گئی تھی۔ جس کی وجہ سے بی جے پی نے ایک پاکستان مخالف بیانیہ ترتیب دےکر قومی سلامتی کو ایشو بناکر چند ماہ بعد عام انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی۔
کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر سینٹرل پولیس فورس کے اہلکاروں کی ہلاکت نے اس میں انکو مدد دی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ اب شمالی ہندوستان میں بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی ہے، اس لیے اب اس کو پاکستان مخالف بیانیے یا قومی سلامتی کو ایشو بنانے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور معاشی ایشوز کو لےکر ہی میدان میں اترے گی۔
ان ریاستوں کے انتخابی نتائج نے یہ بھی صاف کردیا کہ اپوزیشن کانگریس کی شروعات کافی اچھی ہوتی ہے لیکن بیچ دوڑ میں وہ بی جے پی کے بچھائے جال میں پھنس کر دوڑ ہار جاتی ہے۔ پچھلے کئی صوبائی انتخابات میں کانگریس کے لیڈران بھی ہندوووٹروں کو لبھانے کے لیے مندروں کے دورے کرکے، مفت ہندو یاتراؤں کا نظم کرکے اپنے آپ کو بی جے پی سے زیادہ ہندو منوانے کے چکر میں ہندو تو کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں۔
ان کی سمجھ میں اب تک نہیں آرہا ہے کہ جو ووٹر ہندوتوا کی بنیاد پر ووٹ دےگا ہے، وہ بی جے پی کے بجائے کانگریس کو کیوں ووٹ دےگا؟
ویسے تو راجستھان میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان پانچ سال کے وقفہ کے بعد حکومتیں بدل جاتی تھیں،مگر اس بار کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ گجرات اور مدھیہ پردیش کے بعد ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آرایس ایس) اس صوبہ کو ہندوتو کی لیبارٹری بنانے پر کمر بستہ ہے۔ اس صوبہ میں ورنہ بی جے پی اور کانگریس میں نظریاتی فرق موجود نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ اس صوبہ میں بی جے پی کے اعلیٰ لیڈران یعنی بھیروں سنگھ شیخاوت، جسونت سنگھ، وسندھرا راجے، جے پور اور دیگر راجواڑوں کے جان نشین سیکولر ہوتے تھے اور مسلمانوں کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑاتے تھے۔
پچھلے بی جے پی حکومتوں میں یونس خان، حبیب الرحمان وغیرہ تو وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ مگر اس بار بی جے پی نے کسی مسلمان کو میدان میں نہیں اتارا۔ الوار سے بے جے پی کے امیدوار بابا بالک ناتھ، جن کا مد مقابل کانگریس کا امیدوار عمران خان تھا، نے انتخابات کو بھارت اور پاکستان کی جنگ بنادیا تھا۔ سرحدی ضلع جسلمیر کے شہر پوکھران سے پاکستان میں سکھر کے گدی نشین پیر پگاڑہ کے خلیفہ صالح محمد بھی اس بار الیکشن ہار گئے ہیں۔ ان کے خلاف بی جے پی نے تاراتارا مٹھ کے مہنت سوامی پرتاپ پوری مہاراج کو ٹکٹ دےکر انتخابی جنگ کوہندو بنام مسلمان بنا دیا تھا۔
خیر جنوبی ہندوستان کی اہم ریاست تلگانہ پر قبضہ کرکے کانگریس نے کسی حد تک اپنے وقار کو بچایا۔ چونکہ اب ا س کے پاس دو اہم ریاستیں کرناٹک اور تلنگانہ ہیں، اس لیے اپریل-مئی 2024 میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے اس کو کسی حد تک وسائل مہیا رہیں گے۔
ان انتخابات میں جس طرح کانگریس کا شمالی ہندوستان سے ایک طرح سے صفایا ہوگیا، اس سے یہ صاف ہوگیا کہ وہ خو د اکیلے بی جے پی کو شکست دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ گاندھی خاندان کے افراد راہل یا ان کی ہمشیرہ پرینکا گاندھی ہجوم تو جمع کرسکتی ہیں، مگر اس کو ووٹوں میں تبدیل کرنے سے قاصر ہیں۔ہندوستان کا ووٹر اب ان کے نام پر ووٹ نہیں کرتا ہے اور اس کو ایک واضح ایجنڈہ چاہیے۔ مگر اس کے لیے کانگریس کو دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اتحاد کو ترجیح دیکر اور سیٹوں کی تقسیم کے وقت وسیع القلبی کامظاہرہ کرنا ہوگا۔تب ہی عام انتخابات میں مودی کو ٹکر دے پائیں گے۔