خصوصی رپورٹ : این آر سی کا پہلا مسودہ جاری ہونے کے بعد سے امت شاہ سمیت کئی بی جے پی رہنما ‘گھس پیٹھیوں’ کو نکالنے کے لئے پورے ملک میں این آر سی لانے کی پیروی کر رہے تھے۔ اب آسام میں این آر سی کی اشاعت سے پہلے بی جے پی نے اس کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے۔
وزیر داخلہ اور بی جے پی صدر امت شاہ کے ساتھ آسام کے وزیراعلیٰ سربانند سونووال (فائل فوٹو : پی ٹی آئی)
‘ بی جے پی کے لئے ملک کی سلامتی پہلی ترجیح ہے۔ آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ این آر سی کی کارروائی رکنے والی نہیں ہے۔ ہم نے آسام میں حکومت بننے کے بعد این آر سی کو نافذ کیا۔ ہندوستان کے شہریوں پر رجسٹر بنتے ہی غیر قانونی گھس پیٹھیوں کی فہرست بن جائےگی۔ پورے ملک سےگھس پیٹھیوں کو نکالنے کی شروعات آسام سے کی جائےگی۔این آر سی پر کانگریس پارلیامنٹ میں کاؤں-کاؤں کرنے لگی جیسی نانی مر گئی ان کی۔ آسام میں این آر سی میں ابتدائی طور پر40 لاکھ گھس پیٹھیے نشان زد ہو گئے ہیں۔ اب ان کوووٹر لسٹ سے بھی ہٹایا جائےگا۔ ‘
وزیر داخلہ اور بی جے پی صدر امت شاہ نے مدھیہ پردیش اسمبلی انتخاب سے پہلے ستمبر 2018 میں بھوپال میں بی جے پی کارکن مہاکنبھ ریلی میں
یہ بات کہی تھی۔آسام میں این آر سی’غیر ملکیوں’کی شناخت کے لئے سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہو رہی ہے، لیکن اس کا ذکر اکثر بی جے پی رہنماؤں کی انتخابی تقریر میں ان کی حصولیابی کے طورپر ہوتا رہا ہے۔31 دسمبر 2017-1 جنوری 2018 کی درمیانی رات میں این آر سی کے پہلے ڈرافٹ کے جاری ہونے کے بعد سے این آر سی کو لےکرنہ صرف بی جے پی صدر، بلکہ ریاست سے لےکر ملک بھرکے کئی بی جے پی رہنما بولڈ ہوکر’گھس پیٹھیوں’کو نکالنے کے لئے این آر سی کو ملک بھر میں لانے کی
وکالت کرتے نظر آئے۔
حالانکہ اب جب این آر سی کی اشاعت میں محض ایک دن باقی ہے، بی جے پی کے سُر این آر سی کو لےکر بدلے ہوئے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ این آر سی میں اصل باشندوں اور اصلی ہندوستانیوں کے نام چھوٹ گئے ہیں اور ‘غیر قانونی مہاجروں ‘کے نام شامل ہیں۔ریاستی بی جے پی کی طرف سے این آر سی کی کارروائی کو لےکر تو سوال اٹھ ہی رہے ہیں، ساتھ ہی این آر سی کنوینر پرتیک ہجیلا ان کے نشانے پر ہیں۔26 اگست کو بی جے پی کے ریاستی صدر رنجیت داس نے گوہاٹی میں نامہ نگاروں سے کہا کہ لوگوں نے ان کی پارٹی کے ممبروں کا کہنا ہے کہ ان کے نام 2017 میں شائع پہلا فہرست میں تھے، لیکن گزشتہ سال جولائی میں آخری مسودہ سے ہٹا دیا گیا۔
داس نے دعویٰ کیا کہ این ار سی کنوینرپرتیک ہجیلا خود کی رائے اور دو-تین تنظیموں کی بنیاد پر تصدیق کر رہے ہیں۔ حالانکہ، داس نے ان تنظیموں کا نام نہیں بتایا جن کا انہوں نے ذکر کیا۔داس نے یہ بھی کہا، ‘ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک ایسا این آر سی پائیںگے جس میں غیر قانونی غیر ملکیوں کے نام ہوںگے اور اصل ہندوستانی اس سے باہر ہوںگے۔ ‘انہوں نے دعویٰ بھی کیا کہ پارٹی اس کارروائی سے مطمئن نہیں ہے۔رنجیت داس اکیلے بی جے پی رہنما نہیں ہیں، جو این آر سی کو لےکر ناراض ہیں۔ آسام کے پارلیامی امور کے وزیر اور ترجمان چندر موہن پٹواری بھی ایسا ہی مانتے ہیں۔
انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے پٹواری نے کہا، ‘اصل میں جب سے این آر سی کا آخری مسودہ شائع ہوا، ہمیں پتہ چلا کہ کاربی آنگلانگ اور دھیماجی ضلعوں کے بہت سارے اصل باشندوں اور اصلی شہریوں کے نام این آر سی میں نہیں تھے۔ وہیں جن اضلاع میں ہمیں امید تھی کہ ایکسکلوشن (لسٹ میں نام نہ ہونا) سب سے زیادہ ہوگا، ویسا نہیں تھا۔ ‘غور طلب ہے کہ گزشتہ اسمبلی سیشن میں پٹواری نے این آر سی کی ایکسکلوشن لسٹ کی ضلع وار تفصیل ایوان میں پیش کی تھی۔ یہ بات اور ہے کہ این آر سی کو لےکع سپریم کورٹ کی ہدایات
اس کی اجازت نہیں دیتے۔
فوٹو: پی ٹی آئی/nrcassam.nic.in
ان اعداد و شمار کو پیش کرتے وقت ریاستی حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ تین سرحدی اضلاع-کریم گنج، جنوب سلمارا اور دھبری-جہاں مسلم آبادی کا فیصد زیادہ ہے، وہاں سے این آر سی کے مسودہ میں چھوٹے لوگوں کی تعداد نسبتاً کم ہے۔ مقابلہ کا پیمانہ تنسکیا جیسے ضلعوں کو بتایا گیا، جہاں 88 فیصدی ہندو آبادی ہے۔؎دھبری (79.6 فیصد)، کریم گنج (56 فیصد) اور جنوب سلمارا (95 فیصد) مسلم اکثریتی علاقہ ہیں۔ حکومت کے ذریعے پیش ڈیٹا کے مطابق جنوب سلمارا میں این آر سی مسودہ سے 7.22 فیصدی لوگ باہر رہے ہیں، وہیں دھبری اور کریم گنج میں یہ اعداد و شمار بالترتیب 8.26 فیصد اور 7.67فیصد کا رہا۔
پٹواری نے اس بات کی طرف بھی دھیان دلایا کہ این آر سی مسودہ میں نام چھوٹنے کی شرح کاربی آنگلانگ (14.31 فیصدی)اور تنسکیا (13.25 فیصدی)ہے، جہاں آسام کے ‘بھومی پتر’سالوں سے رہتے آئے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق ہوجائی ضلع میں ایکسکلوشن شرح سب سے زیادہ 32.99فیصد ہے، وہیں سب سے کم ایکسکلوشن-1.62 فیصد ماجولی ضلع میں ہوئے ہیں۔ریاستی بی جے پی صدر رنجیت داس کا الزام ہے کہ مسلم اکثریت دھبری اور بارپیٹا میں کئی لوگوں نے این آر سی میں آنے کے لئے دستاویزوں میں ہیرپھیر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان اضلاع میں این آر سی میں اپنی شناخت بتانے کے لئے دئے گئے پیدائشی تصدیق نامہ جیسے دستاویز فرضی ہیں اور این آر سی اہلکاروں نے ان کو صحیح سے نہیں جانچا ہے، جس کی وجہ سے’غیر قانونی طور پر رہ رہے غیر ملکیوں’کے نام این آر سی میں جڑ گئے ہیں۔
این آر سی کو لےکر فرقہ پرستی پھیلانے اور ووٹ بینک کی سیاست کرنے کے الزام جھیل رہی بی جے پی کے این آر سی پر بدلے رویے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے۔گزشتہ دو مہینوں میں مرکز اور آسام حکومت کے ذریعے سپریم کورٹ میں تین بار این آ سی مسودہ کو ری ویرفائی کرنے کی مانگ اٹھائی گئی تھی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ سرحدی اضلاع سے این آر سی میں جڑے ناموں میں 20 فیصد ری ویری فکیشن اور باقی جگہوں پر 10 فیصد توثیق ہونی چاہیے، لیکن عدالت نے اس کو خارج کر دیا۔
این آر سی کنوینر پرتیک ہجیلا، فوٹو: نارتھ ٹوڈے
عدالت کا کہنا تھا کہ ان کو این آر سی کنوینر پرتیک ہجیلا کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ مسودہ کی اشاعت کے بعد شہریت کے دعووں/اعتراضات کی کارروائی کے دوران 27 فیصدی ری ویری فکیشن ہو چکے ہیں۔ہجیلا کے بی جے پی کے نشانے پر ہونے کی وجہ یہی ہے۔گزشتہ سال بھی مسودہ کی اشاعت کے بعد شہریت سے متعلق دعوے اور اعتراضات کی کارروائی کے لئے ضروری دستاویزوں کے تعین کے لئے بھی ہجیلا کو مقامی رہنماؤں کی
ناراضگی جھیلنی پڑی تھی، لیکن اس بار ان کو بی جے پی کے ذریعے’این آر سی میں ہوئی گڑبڑیوں’کے لئے سیدھے ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔گزشتہ 18 اگست کو آر ایس ایس کی طلبا اکائی اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے ان کے دفتر کے باہر مظاہرہ کرتے ہوئے ری ویری فکیشن کی مانگ کی تھی۔
اے بی وی پی کے اسٹیٹ جوائنٹ سکریٹری
دیب آشیش رائے کا کہنا تھا کہ بہت سے اصل باشندوں کے نام این آر سی میں نہیں آئے ہیں، بجائے اس کے غیر قانونی مہاجروں کے نام اس میں جڑ گئے۔ انہوں نے یہ بھی جوڑا کہ ہجیلا نے ری ویری فکیشن کے نام پر ایسی این آر سی بنائی ہیں، جس میں غیر قانونی مہاجروں کے نام ہیں اور یہ منظور نہیں کیا جائےگا۔آسام کی براک گھاٹی کے سلچر لوک سبھا سیٹ سے رکن پارلیامان راج دیپ رائے بھی این آر سی کے مسودہ اور پرتیک ہجیلا سے ناراض ہیں۔
انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے
راج دیپ نے کہا، ‘ہم خاص طورپر یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ہم این آر سی سے مطمئن نہیں ہیں۔ ہم ہجیلا کی بھی تنقید کر چکے ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے کہا کہ 27 فیصدی ری ویری فکیشن ہو چکا ہے۔ وہ کس بنیاد پر یہ کہہ رہے ہیں؟ کیا کسی تھرڈ پارٹی کو ری ویری فکیشن نہیں کرنا چاہیے؟ جو کام انہوں نے ہی کیا ہے، وہ خودہی کیسے اس کو دوبارہ ویری فائی کر سکتے ہیں؟ ہم ناراض ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ بڑی تعداد میں اصل باشندوں کے نام چھوٹ جائیںگے۔ ‘ہجیلا کے 27 فیصدی ری ویری فکیشن کے دعوے سے پٹواری بھی اتفاق نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کسی بھی ہندوستانی کا نام این آر سی سے نہ چھوٹے اور کسی بھی غیر ملکی کا نام اس میں نہ آنے پائے۔
پٹواری ہجیلا سے ناراضگی کی ایک اور وجہ بتاتے ہیں۔ این آر سی کے مسودہ میں تقریباً 40 لاکھ لوگوں کا نام چھوٹا تھا، جس میں سے تقریباً 36 لاکھ سے اوپر لوگوں نے اپنے دعوے اور اعتراضات درج کروائے۔
ان کا کہنا،’یعنی کہ 3 لاکھ سے زیادہ لوگ ایسے تھے جنہوں نے کوئی دعویٰ پیش نہیں کیا۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہیں اور اس کی دو وجہیں ہیں۔ پہلا، اگر وہ لوگ اس کارروائی کے بارے میں جانتے ہی نہیں ہیں، تو حکومت ان کی مدد کرنا چاہےگی۔ دوسرا، اگر وہ اس سے آگاہ ہیں اور پھر بھی درخواست نہیں کر رہے ہیں، تو وہ غیر ملکی ہیں اور ان کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ نے ہجیلا سے کہا تھا کہ وہ ریاستی حکومت کو اس کی لسٹ دیں-لیکن اب تک انہوں نے ایسا نہیں کیا ہے۔ لوگ ان سب سے ناراض ہیں اور لوگوں کی تشویش کو اٹھانا ہمارا فرض ہے۔
حالانکہ سابق وزیراعلیٰ اور
کانگریسی رہنما ترن گگوئی اس کو بی جے پی حکومت کی ناکامی مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت ‘ بنگلہ دیشیوں کو نکال پھینکنے’کے اپنے وعدے میں ناکام رہی ہے۔انہوں نے کہا، ‘وہ ایک صحیح این آر سی بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ حکومت ہند کے لئے شرم کی بات ہے کہ پانچ سال سے زیادہ وقت میں بھی وہ اس کو نہیں کر پائے۔ میرا سوال ہے کہ نئے قانون کی کیا ضرورت ہے۔ جب یہ صاف ہے کہ این آر سی گڑبڑ ہے تو نیا قانون لانے سے کیا ہو جائےگا۔ ‘
گگوئی کا اشارہ وزیراعلیٰ سربانند سونووال کے اس بیان کی طرف تھا جہاں انہوں نے کہا تھا کہ غلط ناموں کے فائنل این آر سی کے جڑنے پر حکومت قانونی راستے تلاش کرےگی۔کانگریس اس کو بی جے پی کا سیاسی پینترا مان رہی ہے۔ گگوئی کا کہنا ہے، ‘اگر غلط نام جڑے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ بی جے پی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ غیر ملکیوں کی شناخت کر کے ان کو واپس بھیجیںگے،لیکن اب وہ مان رہے ہیں کہ این آر سی میں غیر ملکی کے نام ہیں۔ گزشتہ چار سالوں سے وہ این آر سی اہلکاروں پر کوئی الزام نہیں لگا رہے تھے لیکن گزشتہ تین مہینوں میں انہیں پر الزام لگائے جا رہے ہیں۔ ‘
انہوں نے آگے کہا، ‘اس کے لئے وزارت داخلہ ذمہ دار ہے۔ اور ان کا ہندوتوا کارڈ بیچ میں آ رہا ہے۔ ہمارا بھی یہی سوال ہے کہ ڈھیروں بنگالی ہندوؤں کے نام لسٹ میں نہیں ہیں۔ وہ بی جے پی کے حمایتی ہیں، پھر بھی ہم چاہتے ہیں کہ ان کا نام لسٹ میں آئے۔ لیکن ہم مذہب کو سیاسی مدعا نہیں بنا رہے ہیں۔ ‘
کیا شہریت ترمیم بل بنےگا سہارا؟
جہاں ایک طرف آسام میں ہندوستانی شہریوں کی شناخت کے لئے این آر سی اپ ڈیٹ کئے جانے کو لےکے تنازعہ کھڑے ہوئے، وہیں شہریت ترمیم بل کو لےکر بھی شمال مشرق میں خاصا غصہ دیکھا گیا۔غور طلب ہے کہ این آر سی اپ ڈیٹ کے لئے مذہب کوئی معیار نہیں ہے۔ کوئی بھی آدمی جو یہ تصدیق کر سکےگا کہ وہ یا اس کے آباواجداد 24 مارچ 1971 سے پہلے آسام میں رہ رہے ہیں، وہ ہندوستانی شہری مانا جائےگا۔اس کے الٹ شہریت ترمیم بل میں لازمی طور سے تین پڑوسی ممالک، بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کے 6 کمیونٹیز اقلیتوں (ہندو، جین، عیسائی، سکھ، بدھ اور پارسی یعنی غیرمسلم) پناہ گزینوں کو سات سال تک ہندوستان میں رہنے کے بعد ہندوستانی شہریت دینے کی تجویز ہے۔
نومبر 2018 میں شہریت ترمیم بل کے خلاف گوہاٹی میں ہوا ایک مظاہرہ (فوٹو : پی ٹی آئی)
موجودہ اہتماموں کے تحت یہ معینہ مدت 12 سال ہے۔ ان ممالک کے اقلیت پناہ گزینوں کو طےشدہ وقت تک ہندوستان میں رہنے کے بعد بنا کسی دستاویزی ثبوت کی شہریت دینے کا اہتمام ہے۔مودی حکومت کی پچھلی مدت میں لوک سبھا میں منظور اس بل کو لےکر بی جے پی کونارتھ ایسٹ میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور آسام تحریک کے مکھیا اور موجودہ آسام حکومت میں بی جے پی کے معاون آسام گن پریشد نے اتحاد توڑ دیا تھا۔راجیہ سبھا میں نہ پہنچنے کی وجہ سے پچھلی مدت کار میں یہ بل غیرمؤثر ہو گیا تھا، لیکن لوک سبھا انتخاب 2019 کے لئے جاری بی جے پی کے منشور میں کہا گیا تھا کہ پارٹی کی اقتدار میں واپسی پر بل کو واپس لایا جائےگا۔
ریاست میں اس بل کو 1985 کے آسام معاہدہ کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ حالانکہ جنوری 2019 میں آسام کے وزیر خزانہ ہمنتا بسوا شرما نے اس کی
پیروی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ بل منظور نہیں کیا جاتا ہے، تو آسام ‘جناح ‘کے راستے چلا جائےگا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آسام معاہدہ کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو ہونے دیں، لیکن ہم جناح کی طرف نہیں جائیںگے۔ آپ کو آسام معاہدہ اور جناح کے درمیان کسی ایک کو چننا ہے۔جب این آر سی میں بڑی تعداد میں ہندوؤں کے نام نہ ہونے کے قیاس لگائے جا رہے ہیں، ایسے میں شہریت ترمیم بل کو اکثریت کی حمایت ملنے کا امکان ہے اور بی جے پی کو اس کو واپس لانے کا مفید وقت اور وجہ مل سکتی ہے۔