این آرسی آسام کےکنوینرہتیش دیو شرمانےتمام ڈپٹی کمشنروں اورسول رجسٹریشن کے رجسٹراروں کو لکھے خط میں کہا ہے کہ حتمی فہرست میں قرار دیے گئے غیرملکی، ڈی ووٹرس اور غیرملکی ٹریبونل میں زیرالتوازمرے کےلوگوں کےنام ہیں اوران کی پہچان کرکےانہیں حذف کیا جائے۔
نئی دہلی: این آرسی اہلکاروں کے ذریعے ریاست میں حتمی این آرسی سے ‘نااہل’افراد اور ان کے کنبے کے تقریباً10000 نام ہٹانے کو کہا ہے۔قابل ذکر ہےکہ31اگست2019کو جاری ہوئی حتمی فہرست میں3.3کروڑدرخواست گزاروں میں سے 19 لاکھ سے زیادہ لوگوں کے نام نہیں آئے تھے۔
فہرست جاری ہونے کے بعد سے ہی مقتدرہ بی جے پی سے لےکر اس معاملے میں سپریم کورٹ پہنچے عرضی گزاروں نے بھی اس کے اعتبار پر سوال اٹھائے تھے۔آسام سرکار تب سے لگاتار مانگ کر رہی ہےکہ اس رجسٹر کو ‘صحیح’ کرنے کے لیے شامل ہوئے لوگوں کا 10-20فیصد ری ویری فیکیشن کیا جانا چاہیے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، 13 اکتوبر کو این آرسی آسام کے کنوینر ہتیش دیو شرما نے تمام ڈپٹی کمشنروں اور سول رجسٹریشن کے رجسٹراروں (ڈی آرسی آر)کو لکھے خط میں انہیں‘نااہل’ لوگوں کے نام ہٹانے کے لیے آرڈرجاری کرنے کو کہا ہے۔
شرما نے کہا،‘ویب فارم کے توسط سے آپ کی طرف سے موصولہ رپورٹس کے مطابق ڈی ایف(ڈکلییرڈفارینرس یعنی غیر ملکی قرار دیے گئے)/ڈی وی(ڈاؤٹ فل ووٹریعنی مشکوک ووٹر)/پی ایف ٹی(پینڈنگ ایٹ فارینرس ٹربیونل یعنی غیرملکی ٹریبونل میں زیرالتوا) زمرے کے نااہل لوگ اور ان کے کنبے کے کچھ نام این آرسی میں پائے گئے ہیں۔’
این آرسی تیار کرنے کے لیے طے قوانین کے مطابق ان زمروں میں آنے والے لوگوں کو این آرسی میں شامل نہیں کیا جا سکتا ہے۔
شرمانے اضلاع کےافسروں کو ہدایت دی کہ شہریت(سول رجسٹریشن اور قومی شناختی کارڈ جاری کرنا)ایکٹ، 2003 کے تحت شیڈول کےحصہ4(6)کےمطابق خصوصی طریقے سے لوگوں کی پہچان کرنے کے بعد ایسے نام ہٹانے کا آرڈرجاری کیا جائے۔
ضابطہ اور کچھ دیگر متعلقہ اہتماموں کی توضیح کرتے ہوئے شرما نے کہا کہ متعلقہ افسر حتمی این آرسی کی اشاعت سے پہلے کسی بھی وقت کسی بھی نام کی تصدیق کر سکتے ہیں اور اسے شامل کر سکتے ہیں یا ہٹا سکتے ہیں۔انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے شرما نے تصدیق کی کہ مذکورہ زمروں میں آنے والے لوگوں کے نام این آرسی سے ہٹانے کی کارروائی شروع کی جا چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بارے میں کوئی متعین تعداد نہیں بتائی جا سکتی ہے کیونکہ ابھی کئی اضلاع سے ایسے ناموں کی فہرست آ رہی ہیں، ایسے میں ایکسکلوشن(نام ہٹانے)کی کوئی تعداد بتانا صحیح نہیں ہوگا۔افسران کےمطابق ان زمرے کے لوگوں کا نام فہرست میں اس لیے آ سکا کیونکہ اس بارے میں کوئی ریئل ٹائم ڈیٹا موجود نہیں ہے، جس سے اس بارے میں موجودہ جانکاری حاصل ہو سکے۔
وہیں آسام سرکار بنگلہ دیش کی سرحدسے سٹے اضلاع میں20فیصدنام اور باقی حصہ میں10 فیصدناموں کے ری ویری فیکیشن کی مانگ پر قائم ہے۔آسام کے پارلیامانی امورکے وزیر چندر موہن پٹواری نے اس سال 31 اگست کو اسمبلی میں بتایا تھا کہ ریاستی سرکار نے اس بارے میں سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا ہے۔
پچھلے سال 31 اگست کو حتمی این آرسی جاری کی گئی تھی، جس میں کل 1906657 لوگوں کے نام ہٹائے گئے تھے۔
حتمی این آرسی کی اشاعت کے بعد کئی فریقوں اور سیاسی پارٹیوں نے اسے خامیوں سے پر دستاویز بتاتے ہوئے اس کی تنقید کی تھی۔ انہوں نے اس میں سے اصل باشندوں کو ہٹائے جانے اورغیرقانونی مہاجرین کو شامل کرنے کا الزام لگایا تھا۔
غورطلب ہے کہ اس وقت این آرسی کی کارروائی ٹھپ سی پڑی ہے۔
این آرسی کی حتمی فہرست سےباہر کیے جانے والے لوگوں کےپاس 120دنوں کے اندر غیرملکی ٹریبونل[فارینرس ٹربیونل(ایف ٹی]میں اپیل داخل کرنے کا موقع ہوتا ہے، جس کی بنیاد پرغیرملکی ایکٹ، 1946 اور غیرملکی ٹریبونل آرڈر، 1964 کے تحت ان کی شہریت کا فیصلہ ہوتا ہے۔
اگر وہ یہاں ہوئے فیصلے سے بھی مطمئن نہیں ہیں، تب وہ اوپری عدالتوں میں جا سکتے ہیں۔ لیکن اب این آرسی کی حتمی فہرست جاری ہونے کے ایک سال بعد ایف ٹی میں جانے کی بات تو دور، این آرسی کی کارروائی ہی ڈھنگ سے پوری ہی نہیں ہوئی ہے۔
ایک سال گزرنے کے بعد باہر رہے لوگوں کو ‘ری جیکشن سلپ’ تک نہیں ملی ہے، جس کی بنیاد پر وہ کسی ٹربیونل میں آگے اپیل کر سکتے ہیں۔
گوہاٹی میں واقع این آرسی ڈائریکٹریٹ کے مطابق کاغذی کارروائی میں ہوئی گڑبڑیوں کی وجہ سے ری جیکشن سلپ بانٹنے کی کارروائی میں دیری ہوئی۔ ساتھ ہی اسٹاف کی کمی، کورونا اور لاکڈاؤن نے بھی مشکلات بڑھا دیں۔
اس بارے میں پوچھے جانے پر شرما نے اگست میں ایک اخبار کو بتایا کہ حتمی فہرست سے باہر رہے ہر شخص کو ری جیکشن آرڈر دیا جانا ہے، لیکن اس کے ساتھ ایک اور دستاویز جڑتا ہے، جسے ‘اسپیکنگ آرڈر’ کہتے ہیں۔ اسپیکنگ آرڈر میں اس شخص کے فہرست سے باہر رہنے کی وجہ درج ہوتی ہے۔
ان کےمطابق، انہوں نے کئی ری جیکشن آرڈر چیک کیے، تب انہیں کئی گڑبڑیاں نظر آئیں، جس کی وجہ سےانہوں نے اسے دوبارہ چیک کیے جانے کا آرڈر دیا۔ لیکن کووڈکی وجہ سے اکثر سرکاری اہلکار اس سے جڑی سرگرمیوں میں لگے ہیں، اس لیے اس کام میں دیری ہو رہی ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)