بطورفوجی شمس الحق احمد نے پینتیس سال تک مختلف جگہوں مثلاً کشمیر، گو ہاٹی، راجستھان، گجرات، ممبئی وغیرہ میں ملک کی خدمت کی ہے۔انہوں نے اپنی ڈیوٹی کے دوران بہتیرے پر خطر دن گزارے، اور آخر 2015میں سبکدوش ہو گئے۔حیرت کی بات ہے کہ ملک کے دفاعی محکمہ میں اپنی خدمات انجام دینے کے بعد بھی انکی شہریت کو شک کے دائرہ میں ڈال دیا گیا۔
1979اور1985کے درمیان کا زمانہ وہ دورتھاجب’آسام ایجی ٹیشن‘نے پوری ریاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس مہم کا مین ٹار گٹ تھے ریاست میں مقیم ”باہری“ (”باہیراگاتا“) لوگ ۔ ایجی ٹیشن کی پہلی اور آخری مانگ تھی کہ ’باہری‘ لوگوں کو ریاست سے نکال باہر کیا جائے۔ان چھ سالوں میں کئی ہزار لوگوں نے اپنی جان گنوا ئی۔ بڑے پیمانہ پر لوگوں کی جائیداد کا نقصان ہوا۔ بہر حال، ان سب کے باوجود مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلا۔ نیلی(Nellie)،چاولکھووا(Chwalkhowa)اور گاہ پورندد مکاللموا (GahpurandMukalmua)قتل عام کے متاثرین ابھی تک انصا ف کی راہ دیکھ رہے ہیں،گرچہ دور تک امید کی کرن نہیں دکھائی دے رہی ہے۔
اس وقت کے جونئیر وزیر داخلہ کے ذریعہ پارلیا منٹ میں دئے گئے بیان کے مطابق اگست1979اورجنوری 1980کے درمیان 78 لوگ ’ا ٓ سام ایجی ٹیشن‘کے شکار ہو گئے تھے اور اپنی جان گنوا بیٹھے تھے۔ آگ زنی کے 120واقعات پیش آئے۔ 127ایسے حملے کیے گئے جن میں ہتھیار کا استعمال ہوا۔اس کے علاوہ 40 گاﺅں کے32ہزار گھر اجڑ گئے۔نتیجتاًپندرہ ہزار لوگ بے گھر ہو گئے۔1980 میں قتل کے 198، حملے کے 654 اور آگ زنی کے259واقعات پیش آئے۔ سرکاری رپورٹ کے مطا بق کل 1613 ایسے جرائم کے واقعات پیش آئے جن کا تعلق اس ایجی ٹیشن سے تھا۔ اسی طرح 1981میں قتل کے 51اور آگ زنی کے 193 واقعات پیش آئے ۔کل واقعات کی تعداد تھی 387، جن کا تعلق اسی ایجی ٹیشن سے تھا۔ 1982میں قتل کے 18واقعات اور آگ زنی کے 22 واقعات پیش آئے۔ کل واقعات کی تعداد تھی 386، جن کا تعلق اسی ایجی ٹیشن سے تھا۔ تشدد کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جنوری 1983تک جاری رہا، مگر اس برس اس نے اور بھیانک رخ اختیار کر لیا کیونکہ اسی سال عام انتخاب ہونا تھا۔
سرکار نے جو کمیشن آف انکوائری(زیر صدارت شری تری بھو بھن پرساد تیواری ) مقرر کی تھی اسی کے سامنے اپنی ایک رپورٹ پیش کی۔ اسی رپورٹ کے مطابق جنوری اور اپریل (1983) کے درمیان قتل کے 302واقعات پیش آئے،1513رہائشی مکان اور 455دفتروں کی عمارتیں جلا کر خاک کر دی گئیں۔ 99 ایسے واقعات پیش آئے جن میں گاڑیوں کو نقصان پہنچا یا گیا۔اس کے علاوہ ریاست آسام کے قریب 545 پلوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔(Advocate Mustafa Khaddam Hussain, The Citizen Times, page 28-29)
آخرکار اس وقت کے وزیر اعظم اور آل آسام اسٹوڈنٹس یونین( لیڈرپرفلا کمار مہنتا) کے لیڈران نے The Assam Accord, 1985 پر دستخط کیے،اور پھر موومنٹ تھما۔ اس معاہدےمیں یہ طے ہوا کہ 24 مارچ 1971 کی شب سے پہلے پہلے تک تمام وہ لوگ جو باہر سے ہجرت کر کے یہا ں آئے ہیں انہیں شہریت دے دی جائے گی۔گرچہ اس معاہدے کے نتیجے میں ایجی ٹیشن کا خاتمہ ہو گیا، لیکن اس کے اہم نکات آج بھی عمل میں نہیں لائے گئے ہیں۔ریاست آسام میں’باہری‘کے نام پر اصل شہریوں پر جو مظالم ہو رہے تھے، یا انہیں ہراساں کیا جاہا تھا، اسے ر وکنے کے لئے پارلیامنٹ نے IM (DT) ایکٹ پاس کیا ۔ اس قانون کے نافذ ہونے سے قدرے راحت ضرور ملی تھی۔مگر،سپریم کورٹ نے (W.P C No. 131/2000, SorbanandaSonowal Vs Union of India &Ors) اپنے 12 جولائی 2005کےآرڈر کے ذریعہ اس قانون کو مسترد کر دیا۔ عدالت عظمیٰ نے یہ بھی حکم جاری کیا کہ وہ تمام معاملات جوIM (D) Tribunal میں زیر سماعت ہیں انہیںForeigners Tribunal میں منتقل کیا جائے۔
یہ بھی حکم ہوا کہ ایسے ناموں کے ساتھ Electoral Roll میں حرف D درج کیے جائیں جو یہ اشارہ کریگا کہ انکی شہریت doubtful/disputed ہے۔اور آخر کار،الیکشن کمیشن نے اپنے لیٹر نمبر 23/AS/96 Vol.III،بتاریخ 6.12.1997 کے ذریعہ یہ حکم جاری کیا کہ 9دسمبر1997کو آسام کے126اسمبلی حلقے کے Electoral Rolls شائع کیے جا ئیں گے جس میں ان ناموں کے ساتھ حرف D درج ہوگا،جن کی شہریت مشکوک ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس لیٹر کی تعمیل ہوئی اور ریاست آسام میں اس طرح کا ووٹر لسٹ پہلی بار شائع ہوا۔شروع میں D ووٹرس کو سبھی انتخاب میں ووٹ دینے کی اجازت تھی۔ مگر الیکشن کمیشن نے 5 جنوری 1998(vide letter No. 23/A/96 Vol. III) کو یہ حکم جاری کیا کہ وہ لوگ جن کے ناموں کے ساتھ حرف D لگا ہوا ہے، ووٹ نہیں کر سکیں گے۔(Advocate Mustafa Khaddam Hussain, The Citizen Times, pages-31)
الیکشن کمیشن کے مندرجہ بالا حکم کے ذریعہ ان تمام ووٹرس کے بنیا دی حقوق چھین لئے گئے،جن کی شہریت شک کے زمرے میں رکھ دی گئی تھی،، خواہ بنیاد کچھ بھی ہو۔ کمیشن کے گائڈ لائن کے مطابق شروع میں قریب 12,31,466 لوگوں کی شہریت شک کے دائرہ میں تھی۔مگر، دسمبر 2016تک ، کل 4,68,934 معاملات مختلف ٹریبیونلز میں زیر سماعت تھیں۔مارچ2016 تک آسام میں 1,36,448 D ووٹرس تھے۔ انکی شہریت کا معاملہ پردیس کے مختلف ٹریبونلز میں زیر سماعت ہے۔
لفظ D کی نشاندہی کسی معقول بنیاد پر نہیں کی گئی تھی۔دانشواروں کا ماننا ہے کہ ایسا ایک خاص کمیونٹی کے لوگوں کے خلاف ، انکے ناموں کی شناخت کر کے کیا گیا تھا۔چند ثبوت جو حال کے دنوں میں سامنے آئے ہیں، ان سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ بہتیرے وطن پرست اور اصل باشندوں کو بھی حرفD سے نشان زد کر دیا گیا اور عدالت میں گھسیٹا گیا اور کہا گیا کہ وہ اپنی شہریت ثابت کریں۔ ہم یہاں چند لوگوں کی کہانی پیش کر رہے ہیں ۔اس سے آپ کو اس مہم کے پیچھے کی عصبیت کا اندازہ لگ جائے گا۔یہ بات صاف ہو جائے گی کہ لوگوں کو حرف D سے نوازے جانے کا اصل مقصد کیا ہے۔
شمس الحق احمد اور انکی اہلیہ کو FT COURT (5th), Barpetaکی جانب سے ایک نوٹس ملی جس میں یہ حکم تھا کہ انہیں اپنی شہریت ثابت کرنا ہوں گی۔اس خبر سے با لکو ری (NC) حلقہ (کل گچھیہ پولیس اسٹیشن، ضلع بار پیٹا، آسام) کی عوام سکتےمیں آگئی۔سب کی زبان پر یہی جملہ تھا،” کیا ایک شہری جس نے اپنی عمر کے 35 سال فوج میں گزارے، اسے بھی اپنی شہریت ثابت کرنی ہوگی؟ “
ویڈیو: آسام میں شہریت کا مسئلہ اور سپریم کورٹ
شمس الحق احمدپسر مرحوم فجر علی نے 1978میں کاڈونگ ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ 1979میں انہوں نے بنگلور میں انڈین ایر فورس جوائن کیا۔ انکی شادی نور جہاں(پیدائش:1966،دختر عبدالحامد و آدر جان نسائی)سےسال 1983میں ہوئی۔انکے دو بچے ہیں۔ ایک کی پیدائش گوہاٹی میں ہوئی جبکہ دوسرے کی دلی میں۔انہوں نے 1997تک اپنے electoral right کا استعمال کیا۔ مگرپھر انہیں D Voter کی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔تیس سال پہلے جب سیلاب کی زد سے زمین کا بہا ﺅ واقع ہوا تو و ہ حسن پور سے تاپا جولی کو منتقل ہو گئے۔ انہوں نے اپنا نام بھی وہاں کے ووٹر لسٹ میں منتقل کر وایا۔
بطورفوجی انہوں نے پینتیس سال تک مختلف جگہوں مثلاً کشمیر، گو ہاٹی، راجستھان، گجرات، ممبئی وغیرہ میں ملک کی خدمت کی ہے۔انہوں نے اپنی ڈیوٹی کے دوران بہتیرے پر خطر دن گزارے، اور آخر 2015میں سبکدوش ہو گئے۔حیرت کی بات ہے کہ ملک کے دفاعی محکمہ میں اپنی خدمات انجام دینے کے بعد بھی انکی شہریت کو شک کے دائرہ میں ڈال دیا گیا۔نتیجتاً وہ 1997 سے ووٹ ڈالنے کے حق کا استعمال نہیں کر پا رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں،”ایک شخص جس نے 35 سال تک ملک کے فوج میں اپنی خدمات انجام دیں، اسکی شہریت پر کیسے شک کیا جا سکتا ہے؟“
گرچہ انہیں ا س بات کا علم تھا، کہ انہیں D ووٹر کے زمرے میں رکھ دیا گیا ہے، مگر چونکہ انکی چھٹیاں مختصر ہوا کرتی تھیں، وہ زیادہ کچھ نہیں کر سکے تھے۔جب وہ اپنے آبائی گاؤں میں مستقل طور پر رہنے لگے،انکی پریشانیاں شروع ہو گئیں۔ سرکاری محکموں سے ضروری کاغذات وغیرہ کی فراہمی میں انہیں پریشانیاں پیش آنے لگیں۔ انہیں پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس کے لئے نا اہل قرار دیا گیا۔ انکے بچے جو امریکہ میں رہتے ہیں، انہیں اپنا پاسپورٹ رینیو کروانا تھا۔ مگر یہ بھی ممکن نہ ہو پایا، کیونکہ انکے والد کا نام D ووٹرس کی فہرست میں شامل ہے۔ FTکورٹ میں وہ اب تک 26 ایسے ثبوت فراہم کر چکے ہیں، جنکا تعلق 1938اور آگے کے سالوں سے ہے۔
ماہر الدین : دائیں سے پہلے
ماہر الدین پسر بشیرالدین کی پیدائش 1964 میں کھبلار بھیٹا گاﺅں(کایا کوچی آﺅٹ پوسٹ، ضلع بار پیٹا، آسام) میں ہوئی تھی۔ ماہر نے 1980 میں اپنا HSLC امتحان کایاکوچی ہائر سیکنڈری اسکول سے پاس کیا اور پھر انہوں نے آندھرا پردیش کے سکندرآباد میں واقع Army Ordinance Corp جوائن کیا۔ انکی شادی حسن آرا حمد( دختر مرحوم سر بیش علی، کومو مولی پا رہ،ضلع بار بیٹا) سے 1989میں ہوئی۔ وہ جب سبکدوش ہوئے، تب انکی پوسٹنگ بھٹنڈا، پنجاب میں تھی۔ انہوں نے فوج میں اپنے طویل اٹھارہ سال گزارے۔ وہ سبکدوش ہونے کے بعد بھی 1996 تک پنجاب کے ایک آرمی پبلک اسکول میں کام کرتے رہے۔گزشتہ 29 ستمبر 2017 کو وہ دنگ رہ گئے جب انکے گھر یہ نوٹس آئی جس میں یہ ذکر تھا کہ انکی شہریت مشکوک ہے۔
بلاشبہ انکے والد ایک ہندوستانی ہیں۔ انکے ایک بھائی جلال الدین ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ سے اسسٹنٹ جج کے عہدہ سے سبکوش ہوئے ہیں۔دوسرے بھائی علاءالدین احمد مرکزی حکومت کے ملازم ہیں۔ ماہر جذباتی ہوکر بولنے لگے،”عام آدمی کا کیا ہوگا جب ہم لوگ جنہوں نے آرمی میں اپنے دن گزارے ہیں انہیں Foreigners’ Tribunal کی طرف سے یہ نوٹس آئی ہے کہ ہم اپنی شہریت کی تصدیق کر وائیں۔ اس نوٹس سے مجھے گہرا صدمہ پہنچاہے۔ یہ با الکل غیر قانونی ہے۔ اگر میں ایک انڈین نہیں ہوں،تو پھر میں انڈین آرمی کیسے جوائن کر پایا۔ آپ جانتے ہیں آرمی میں بھرتی کے ضوابط کتنے سخت ہیں۔ وہاں ایک غیر ملکی شہری کی بھرتی کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔
ماہر کی اہلیہ حسین آرا احمد کی پیدائش1971میں ہوئی تھی۔ انکے والد کا نام 1966 کے Electoral Roll میں درج ہوا تھا۔گرچہ اپنے خاوند کی نوکری کے سبب وہ ملک کے مختلف جگہوں پر رہیں، مگر انہوں نے ہمیشہ اپنا ووٹ ڈالا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ انہیں بھی ایسی ہی نوٹس بھیجی گئی ہے۔
اسی طرح کی ایک نوٹس
محمد اجمل حق کو بھی بھیجی گئی۔ مگر عوام کی ناراضگی اور میڈیا میں اٹھی آواز کو دیکھتے ہوے، پولیس نے اس کیس کو واپس لے لیا۔ انہوں نے یہ بہانہ لگا یا کہ شناخت میں غلطی ہو گئی تھی۔محمد اجمل تیس سال تک انڈین آرمی میں رہے ہیں۔اجمل( پسر مقبول حسین و رحیمن النساء)کی پیدائش 1968میں ہوئی تھی۔ اپنے زمانہ میں وہ ایک ہونہارطالب علم تھے۔ انہوں نے 1985 میں فرسٹ ڈویژن سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔اجمل نے ہمیشہ آرمی میں کام کرنے کا خواب دیکھا تھا۔لہذاوہ بحیثیت کرافٹس مین آرمی میں داخل ہوئے۔ انکی ذہانت کی وجہ سے انہیں کئی بار پروموٹ کیا گیا۔اپنے ریٹائرمنٹ کے وقت وہ آرمی میں Junior Commission Officer تھے۔ انکی قابلیت کی وجہ سے انہیں میجر پربین کنورنے ’ماسٹر آف کرافٹس‘ کہہ کر مخاطب کیا۔انکی بہادری کی وجہ سے، اس وقت کے صدر اے پی جے عبدالکلام نے بھی انکوتعریفی کلمات سے نوازا تھا۔
محمد اجمل کے والد کا نام 1966 کے Electoral Roll میں درج ہے۔ انکی والدہ کا نام 1951 کے NRC میں درج ہے۔ یہ بات بلا شبہ حیران کن ہے کہ شہریت کی تصدیق کے لئے نوٹس ایک ایسے شخص کو آئی ہے، جو ہونہار اور بہادر جوان رہا ہے۔گزشتہ 2012 میں اجمل کی اہلیہ کو بھی انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔مگر اجمل کو یہ با لکل بھی گمان نہیں تھا کہ چند سال بعد انہیں بھی ایسی ہی نوٹس کا سامنا کرنا پڑیگا۔
اجمل آسام پولیس کے اس کارنامہ پر اپنی خفگی کا اظہار کر تے ہوے کہتے ہیں،”کسی باشندہ کو مشکوک شہری کے دائرہ میں رکھنے سے قبل ایک ابتدائی تحقیق تو ہونی ہی چاہئے۔کسی بھی شخص کو بس اس بنیاد پر کہ اس کے نام کے ساتھ ’علی‘ او ر ’حق‘ لگا ہوا ہے،ایسی نوٹس بھیجنا سراسر غیر قانونی اور آئین کی خلاف ورزی ہے۔“
ڈی جی پی مکیش سہائے نے کہا ہے کہ، وزیر اعلیٰ سربا نندا سونو وال نے معاملہ کی تفتیش کا حکم دے دیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ انکے پاس کسی اجمل حق پسر مقبول حسین سے متعلق خبر آئی تھی، جو بھارت اور بنگلہ دیش بارڈر کراس کر کے بوکو میں رہ رہا ہے۔مگر اجمل حق نے کہا ہے کہ ڈی جی پی سہائے جھوٹ بول رہے ہیں، تاکہ اس پولیس آفیسر کو بچایا جاسکے جس نے انہیں یہ نوٹس کسی سازش کے تحت بھیجی ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بوکو پولیس اسٹیشن علاقہ میں واقع کلاہیکاکھ گاﺅں میں انکا ہم نام (اجمل حق پسر مقبول حسین )کوئی نہیں ہے۔اجمل نے یہ بھی کہا کہ انکی اہلیہ ممتاز بیگم کو بھی سال 2012 میں نوٹس بھیج کر اپنی شہریت ثابت کرنے کو کہا گیا تھا۔یہ غلطی سر زد ہوجانے کا معاملہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ حال ہی میں انکے ایک بھتیجے کو بھی ایسی ہی نوٹس بھیجی گئی ہے۔اجمل حق کے وکیل امان ودود نے کہا ہے کہ، ”بغیر کسی ابتدائی تحقیق کے نو ٹس کیسے بھیجی جاسکتی ہے“۔اجمل حق کے کیس میں جب ملکی پیمانہ پر چہ می گو ئیاں ہوئیں،تو ترون گو گوئی، سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آرمی آفیسر کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے نوٹس صرف اس لئے بھیجی گئی ہے، کیونکہ وہ ایک مسلم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آسام کے مسلمان غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔
شاہ عالم بھویان آسام پولیس میں اے ایس ائی ہیں۔ انہیں بیس سال کے لئے ووٹ دینے کے حق سے محروم کر دیا گیا تھا۔1979میں بغیر کسی تفتیش کے الیکشن کمیشن نے انہیں Dووٹر کے زمرے میں اس بنیاد پر ڈال دیا تھا کہ وہ ایک غیر قانونی مہاجر ہیں۔
شاہ کے والد ایک فریڈم فائٹر رہ چکے ہیں۔ وہ سابق وزیر اعلیٰ مہندرا موہن چودھری کے بہت قریبی رہے ہیں۔ وہ برطانوی سامراج کے خلاف جدو جہد آزادی میں بھی حصہ لے چکے ہیں،مگر بد قسمی کہیےکہ انہیں بھی 1980 میں “Quit India” کا نوٹس ملا۔ آسام موومنٹ ((1979-1985 کے دوران عالم کے گھر کو آگ کی نذر کر دیا گیا تھا۔گزشتہ 28 مارچ2017 کو Tribunal نے
شاہ عالم بھویان کو ہندوستانی شہری مان لیا ہے۔
ابو طاہر احمد آسام پولیس میں ایک کانسٹبل ہیں۔ انکا تعلق ڈھو بری ضلع کے ساﺅتھ سلمارا پولیس اسٹیشن سے ہے۔5ویں فارین ٹرائیبیونل کامروپ،گوہاٹی میٹرو کی جانب سے طاہر کو بھی ایک نوٹس ملی جس میں یہ کہا گیا کہ وہ ایک غیر قانونی مائیگرنٹ ہیں۔اس پولیس آفیسر کو،جو پچھلے دس سال سے نوکری میں ہے،اپنے کاغذات کے ساتھ کورٹ میں حاضر ہوکر اپنی شہریت ثابت کرنے کو کہا گیا۔’میں تو سکتے میں تھا، جب مجھے نوٹس ملی تھی، اس وقت مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا جواب دوں۔ آسام پولیس میں رہتے ہوے مجھے دس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔جوائن کرنے سے قبل میرے سارے کاغذات کئی دفعہ چیک ہو چکے تھے“، ۔ نوٹس میں احمد سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ کورٹ میں حاضر ہوں اور اپنی شہریت کو ثابت کریں۔ ”مجھے قانون کی پیروی کرنی ہے۔ کورٹ نے جو کہا ہے میں اس کی پیروی کروں گا۔ میں ایک عام شہری ہوں۔ مجھے امید ہے، بہت جلدی سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘احمد نے یہ باتیں دی سیٹیزن کو بتائیں تھیں۔
احمد کے والد کا نام 1951 کے NCR اور 1966 کے Electoral Roll میں درج ہے۔ احمد کے پاس برتھ سرٹیفییکیٹ اور PRC بھی ہے۔ ان سب کے باوجود انکی شہریت پر شک کیا گیا۔ گزشتہ 21 ستمبر2017 کو Tribunal نے انہیں انڈین قرار دیا ہے۔D ووٹر کے معاملہ پر مختلف اداروں، سیاسی پارٹیوں اور میڈیا نے بہت کچھ لکھا اور کہاہے۔ لیکن اس مسئلے کا ابھی تک کوئی حل نہیں نکلا ہے۔ اس بات کا انکشاف ہو چکا ہے کہ اس پورے معاملے میں جتنے بھی لوگوں کی شہریت پر شک کیا گیاہے، ان میں سے زیادہ ترانڈین ہیں۔ دوسرے لفظوں میں Dووٹرس کے طور پر نشاندہی کر کے لوگوں کو صر ف اور صرف ہراساں کیا جا رہا ہے۔
2014سے پہلے Foreigners Tribunal کی تعداد صرف 34 تھی۔ یہ ٹریبیونلزایسے معاملات کی شنوائی کرتے ہیں۔ فی الحال انکی تعداد قریب 100ہے۔ وقتاً فوقتاً یہ شکایت آتی رہتی ہے کہ یہ ٹریبونلز اسٹاف ممبرز کی کمی اور مالیاتی وجوہات کے سبب ٹھیک ٹھیک کام نہیں کر پا رہی ہیں۔یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ بارپیٹا، ڈھوبری، کاچر، کریم گنج، ہیلا کنڈی، کمروپ ایسے چند اضلاع ہیں جہا ں ڈی ووٹرس کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ پچھلے بیس سالوں سے انکے بنیادی حقوق سلب کیے جارہے ہیں۔ وہ تذبذب بھر ی زندگی گزار رہے ہیں۔ جو واقعی’باہری‘ہیں انہیں ڈپورٹ کیا جائے، مگر جو وہاں کے اصلی باشندہ ہیں، اگر انکو غیر ملکی قرار دیا جائے، تو گمان کریں انکے لئے یہ کتنا بھیانک ہوتا ہوگا۔ وہ لوگ جنہیں ڈی ووٹرس کے زمرے میں ڈالا جاتا ہے، انہیں کورٹ کے چکر کاٹنے میں کس قدر جسمانی اور مالیاتی ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(رفیق الاسلام اوراشرف الحسین آسام میں مقیم سماجی کارکن اور صحافی ہیں/انگریزی سے ترجمہ ؛سید کاشف)
The post
آسام: ہندوستانی فوج میں اپنی خدمات دینے والےفوجیوں کو کیوں دینا پڑ رہا ہے اپنی شہریت کا ثبوت ؟ appeared first on
The Wire - Urdu.