شرجیل امام کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 13 دسمبر 2019 اور اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں16جنوری 2020 کو شہریت قانون کے خلاف مبینہ طور پرمتنازعہ بیانات دینے کا الزم ہے ۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر دھمکی دی تھی کہ آسام اور بقیہ شمال مشرقی صوبوں کو ‘ہندوستان سے الگ’کر دیا جائے۔
شرجیل امام، فوٹو بہ شکریہ ، فیس بک
نئی دہلی:دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالبعلم شرجیل امام نے اپنے مبینہ متنازعہ بیانات میں سے ایک کی شروعات السلام علیکم سے کی تھی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک خاص کمیونٹی کو مخاطب کیا گیا تھا۔
معاملے میں پولیس کی جانب سے پیش اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر(ایس پی پی)امت پرساد نے یہ تبصرہ شرجیل امام کے ذریعے 2019 میں دو یونیورسٹی میں دیے گئے بیانات کو لےکر ان کے خلاف درج سیڈیشن کے معاملے میں بحث کے دوران کیا۔
اس دوران شرجیل نے اپنی تقریر میں مبینہ طور پر آسام اوربقیہ شمال مشرقی صوبوں کو ہندوستان سے الگ کرنے کی بات کہی تھی۔
شنوائی کے دوران پرساد نےایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کو بتایا کہ امام نے پوری طرح سے انارکی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی اور شہریت قانون (سی اےاے)اوراین آرسی کےخلاف تفرقہ انگیز تقریر کی ۔
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر نے شرجیل امام کی 16 جنوری کی
تقریرکو پڑھتے ہوئے کہا، ‘انہوں نے (شرجیل امام)اس تقریرکا آغاز السلام علیکم سےکیا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تقریر صرف ایک خاص کمیونٹی کے لیے ہی تھی۔’
پرساد نے کہا، ‘یہ تقریر یقینی طور پر تفرقہ انگیز تھی ۔ یہ بڑے پیمانے پر عوام کے لیے نہیں بلکہ ایک خاص کمیونٹی کے لیے تھی۔ وہ پوری طرح سے انارکی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔’
بتا دیں کہ شرجیل امام نے یہ مبینہ متنازعہ بیانات 13 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اور 16 دسمبر 2019 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دیے تھے۔ وہ جنوری 2020 سےعدالتی حراست میں ہیں۔
تین گھنٹے کی طویل شنوائی میں اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر
امت پرساد نے زور دیا،‘شرجیل امام کوئی معمولی جیب کترا نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی معمولی ڈرگ پیڈلر ہیں، بلکہ بہترین مقرر ہیں، جنہوں نے دنگا بھڑ کانے میں تھیسس لکھی ہے اور جنہیں بھیڑ کو متحد کرنے کی پوری جانکاری ہے۔’
احتجاجی مظاہروں کے دوران شرجیل امام کے متنازعہ بیانات کو ورچوئل شنوائی کے دوران استغاثہ نےحرف بہ حرف پڑھا۔
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹرکی جانب سے پڑھے گئے اس بیان میں ایک جگہ کہا گیا،‘آسام کو ملک کے باقی حصہ سے الگ کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ سرکار صرف تبھی ہماری بات سنےگی، جب آسام کو ملک کے باقی حصہ سے الگ کر دیا جائےگا۔ آپ آسام میں مسلمانوں کی حالت سے واقف ہیں۔’
شرجیل امام پر آئی پی سی کے تحت سیڈیشن، مذہب ، ذات، نسل، مقام پیدائش کی بنیاد پر مختلف طبقوں کے بیچ تعصب کو بڑھاوا دینے اور یواے پی اےکے تحت غیرقانونی سرگرمیوں میں شامل ہونے کا الزام ہے۔
اس معاملے میں دہلی پولیس نے امام کے خلاف چارج شیٹ داخل کی ہے، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے مرکزی حکومت کے خلاف نفرت، توہین اور عدم اطمینان کوبڑھانے کے لیے اور لوگوں کو اکسانے کے لیے مبینہ طور پر یہ اشتعال انگیز بیانات دیے، جس سے دسمبر 2019 میں تشددبرپا ہوا۔
چارج شیٹ میں کہا گیا،‘شرجیل امام نے شہریت ترمیم قانون کے خلاف احتجاج کی آڑ میں ایک خاص کمیونٹی کے لوگوں کو سڑ ک بند کرنے کے لیے اکسایا اور ‘چکہ جام’ کیا۔ سی اےاے کی مخالفت کے نام پر انہوں نے کھلے عام آسام اور نارتھ ایسٹ کے باقی صوبوں کو ملک سے الگ کرنے کی دھمکی دی۔’
اس سے پہلے گزشتہ23 اگست کو دہلی کی ایک عدالت میں شرجیل امام کی جانب سے دلیل دی گئی تھی کہ ان پر سیڈیشن کاالزام نہیں لگایا جا سکتا، کیونکہ انہوں نے
بیان میں تشددکرنے کے لیے نہیں کہا تھا۔
امام کی طرف سے پیش وکیل تنویر احمد میر نے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کو بتایا تھا کہ ان کے موکل کے بیان کے کسی بھی حصہ میں کسی بھی طرح کےتشدد کرنے کی بات نہیں کہی گئی۔
میر نے کہا تھا، ‘جب شرجیل امام نے کہا کہ قانون کا یہ حصہ (سی اےاے/این آرسی)غیرآئینی ہے، مانگ کی کہ سرکار اس پر دوبارہ غور کرے اور کہا کہ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو ہم سڑکوں پر اتر آئیں گے، ایسا کہنے پر ان پر سیڈیشن کا معاملہ نہیں بنتا ہے۔’
انہوں نے کہا تھا کہ احتجاج کا حق ، ناکےبندی کا حق اور ملک کو ٹھپ کرنے کا حق سیڈیشن کے برابر نہیں ہے۔
میر نے کہا، ‘بیان میں تشددکرنے کو نہیں کہا گیا۔ انہوں نے صرف سڑکیں بند کرنے کو کہا۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ نارتھ ایسٹ کو الگ صوبہ بنایا جانا چاہیے اور آزاد کردینا چاہیے۔ سیڈیشن یہ ہوتا۔’
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)