دس سالوں سے مغربی بنگال کے اقتدار پر قابض ترنمول کانگریس کی انتخابی مہم صوبے کے سب سے اہم مدعوں سے بے خبر ہے۔ اس کے بجائے پارٹی کی کوشش بی جے پی کی ہی طرح بٹوارے کی سیاست کرنا نظر آتی ہے۔
الیکشن کمیشن کے ذریعے پابندی عائد کیے جانے کے بعد دھرنے پر بیٹھیں ممتا بنرجی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: مغربی بنگال کے گاؤں اورقصبوں میں یکساں خواہش جوصاف نظر آتی ہے وہ ہے نوکری اور ایک محفوظ مستقبل کی امید۔ دی وائر نے پچھلے دنوں صوبے کے کئی اضلاع کا دورہ کیا، جہاں بدلاؤ چاہنے والوں کی امیدیں بی جے پی پر ٹکی ہیں۔
بانکرا کے مہاجر مزدوروں سے لےکرمغربی میدنی پور کے ایک نوجوان گریجویٹ اور بیربھوم کے سن رسیدہ کسان تک سبھی بی جے پی کی سربراہی والی سرکار کو اس ممکنہ سیاسی طاقت کےطور پر دیکھ رہے ہیں جو مقتدرہ پارٹی کےتشدد اور بدعنوانی کی گردش سے انہیں نجات دلا سکتی ہے۔
کئی دہائیوں سے صوبے کی مقتدرہ پارٹی کے مبینہ محدود مفادات کی وجہ سے بنگال کافی پیچھے چھوٹ چکا ہے اور دیہی علاقوں کے ووٹر ان کےلیے اپنائے گئے اس رویے کو لےکر بے جھجھک بولتے ہیں۔ اس حقیقت سے کہ بنگال ہندوستان میں سب سے اعلیٰ سماجی اورپبلک بنیادی ڈھانچے والے صوبوں میں سے ایک ہے اور لگاتاریہاں کی سرکاروں نے غریبوں کے لیے ایک فلاحی ماڈل کو مضبوط کرنے پر اپنی توانائی صرف کی ہے، اس کے باوجود بنگال کا اوسط ووٹر اورزیادہ پانے کی چاہت رکھتا ہے اور مانتا ہے کہ صرف ہر پانچ سال میں سرکاریں بدلنے سے سیاسی پارٹیاں عوام کے لیے جوابدہ ہوں گی۔
بیربھوم کے سرل گاؤں کے ایک دلت ووٹر کا کہنا تھا، ‘سی پی آئی ایم نے 34 سال راج کیا، پھر ہم نے دیدی کو دس سال دیے، اب نئی پارٹی کو موقع دینے کی باری ہے۔’یہ دلیل صوبے کے جنوبی اضلاع میں جنگل کے آگ کی طرح پھیلی ہے، یہ وہی علاقے ہیں جو مقتدرہ ترنمول کانگریس(ٹی ایم سی)کا گڑھ مانے جاتے تھے۔
یہ کہے جانے پر کہ روزگار پیدا کرنے میں مرکز میں بی جے پی کا مظاہرہ اوسط کے نیچے رہا ہے اور اس وقت ہندوستان بےروزگاری کی اعلیٰ شرح کا سامنا کر رہا ہے، لوگوں کے پاس بنے بنائے جواب تیار ہیں۔ جھارگرام کے ایک آدی واسی مزدور نے کہا، ‘سی پی آئی ایم اور ٹی ایم سی کے الٹ بی جے پی صنعت کی حمایتی ہے۔ اگر یہ اقتدار میں آتی ہے اور یہاں کوئی صنعت لگانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ہمیں کہیں باہر نوکری کرنے کےبجائے اپنے ہی صوبے میں کام مل جائےگا۔’
اسی طرح سنگور کے ایک کسان، جو سال 2007-08 میں یہاں ٹاٹا کے نینو پلانٹ کے احتجاجی مظاہرہ کا حصہ تھے، نے کہا کہ ٹاٹا کو یہاں سے بھگا دینا بھول تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہاں فیکٹری لگنے دینی چاہیےتھی سالوں سے آلو، کسان کے طور پر ہو رہی بےحد کم آمدنی کی وجہ سے ان کی یہ سوچ اور گہری ہوئی ہے۔
ٹی ایم سی سرکار کی جانب سےلڑکیوں کی پڑھائی کے لیے لائے گئے مختلف وظیفوں نے مغربی میدنی پور کی ایک نوجوان گریجویٹ خاتون کو کم ہی متاثر کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ‘پوراشونا کورے کی لابھ، کو نو چاکری تو پاچھی نہ۔’ (پڑھنے لکھنے کا کیا فائدہ، کوئی نوکری تو ملنے والی ہے نہیں مجھے)
جب بی جے پی کی سرمایہ کاری کی پالیسی کو لےکرٹی ایم سی کی مہم کی بات کی گئی، تب ہلدیا پورٹ کے ڈاک پر کام کرنے والے ایک مزدور، جنہوں نے انٹر پاس کیا تھا، نے پورٹ کی نجکاری کی زبردست پیروی کی۔ ان کا کہنا تھا، ‘اب یہاں بہت کرپشن اور داداگیری ہے۔ ہم ٹھیکے پر کام کرنے والے دہاڑی مزدور ہیں۔ ہم محنت کریں یا نہ کریں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کوئی ہماری عزت نہیں کرتا۔ اگر کوئی کمپنی آ جاتی ہے، تو مجھے لگتا ہے کہ پورٹ اور اچھے سے کام کرےگا۔ اور ہمیں ہمارے ہنر اور محنت کے لحاظ سے پرموشن بھی ملےگا۔’
‘پری بورتن’ کی وکالت کرنے والے اکثرلوگوں کو لگتا ہے کہ اگربی جے پی اپنے وعدوں پر کھری نہیں اتری تو وہ پانچ سال بعد پھر ووٹ دےکر سرکار بدل سکتے ہیں۔
اگر بنگال کے اس دوطرفہ انتخابات کی کسوٹی بنگال کو محفوظ مستقبل دینے والے کی امیج ہوتی توبی جے پی مقتدرہ ٹی ایم سی سے کہیں آگے ہے۔ ‘وکاس’ اور ‘اشول پوری بورتن’پر ٹکی بی جے پی کی انتخابی مہم دیہی علاقے کے نچلے اورمتوسط طبقے کے انہی مدعوں کی بات کر رہی ہے۔ مقتدرہ ٹی ایم سی اور لیفٹ پارٹی کے مقابلے یہ خود کو ‘انڈسٹری نواز پارٹی’ دکھانے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔
بی جے پی کی صوبے کی آبادی کے ایک طبقہ جس میں ایس سی ایس ٹی اور او بی سی کے کھیتی کرنے والاطبقہ شامل ہیں، کے بیچ کی اپیل بنیادی طور پر اسی امید پر مبنی ہے کہ نریندر مودی کی سربراہی والی یہ پارٹی روزگار کے نئے ذرائع کو کھولےگی۔
جہاں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سمیت بی جے پی کی قومی قیادت انہی مدعوں کے بارے میں بات کر رہی ہے، وہیں مقامی بی جے پی رہنماٹی ایم سی کی زیادتیوں پر نشانہ سادھتے ہوئے اپنے رہنماؤں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ایک بات جو لگاتار بنگال کے دیہی علاقوں میں باربار سنائی دیتی ہے وہ ہے کہ ٹی ایم سی کے رہنما بدعنوان اور جابرانہ ہیں اور کسی بھی احتجاج کا جواب تشدد سے دیتے ہیں۔ یہی بی جے پی کی انتخابی مہم بھی کہتی ہے۔
باہری بنام مقامی
اس کے برعکس بی جے پی کو روکنے کے لیے ٹی ایم سی کی انتخابی مہم روایتی بنیادوں پر ٹکی ہے۔ چاہے یہ بنگالی بنام بہرگتو (باہری)کا مدعا ہو یا ‘بانگلا نجیر میییکے چائے’ (بنگال کو چاہیے اپنی بیٹی)کا نعرہ،مقتدرہ پارٹی کی سب سے ضروری مہم بہ مشکل ہی اشتہارات سے آگے بڑھی ہے۔
اسمبلی حلقوں کا ایک فوری سروے ہی دکھا دیتا ہے کہ بی جے پی سے جڑا نیاپن اور ان کی اپیل اسی امیج پر مبنی ہے کہ انہیں بنگال کا حصہ نہیں مانا جاتا ہے۔ ٹی ایم سی کی مہم ان کے گلے بھی نہیں اتری ہے جو کھلے طور پروزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کےحمایتی مانے جاتے ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا بنگالی بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے؛کوئی ٹی ایم سی حامی بھی بتا دےگا کہ معاملہ یہ نہیں ہے۔ ٹی ایم سی کی مہم ایک ایسی بائنری پر مبنی ہے، جو پڑھے لکھے لوگوں کے ایک بہت چھوٹے سے طبقے سے آگے کوئی وجود ہی نہیں رکھتی ہے۔ سال 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں بی جے پی کے 40 فیصدی سے زیادہ ووٹ شیئر کے ساتھ صوبے کی 42 میں سے 18 سیٹیں جیتنے سے یہ بات واضح ہو گئی تھی۔
پارٹی کا نعرہ لانچ کرتے ممتا کے بھتیجے ابھیشیک بنرجی۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/@BangalGorboMB)
ایسے وقت میں جب انتخابی مہم کی پالیسیوں میں صوبے کی بڑے پیمانے پر بےروزگاری اور زرعی بحران کی تشویش کوایڈریس کرنا چاہیے اور ٹی ایم سی کو ایک فرنٹ رنر پارٹی ہونے کی امید پیش کی جانی چاہیے، یہ حیران کن ہے کہ ٹی ایم سی نے اسمبلی انتخاب کو اس کے اوربی جے پی کے بیچ وقار کی لڑائی کے طور پر پیش کیا۔
علاقائیٹ کی بنیاد پر ووٹرس کے پولرائزیشن کی زوردار کوشش کا نتیجہ یہ ہے کہ صوبےمیں ایک کروڑ سے زیادہ ہندی بولنے والے الگ ہو گئے ہیں۔
صوبے کے سیاسی بات چیت میں‘دیدی’ اور ان کےویلفیئرمنصوبوں کا ذکر ہے۔ اس بارے میں بات کریں تو ٹی ایم سی کا انہیں آگے رکھ کر انتخابی لڑائی میں اترنے کے فیصلے نے زمینی سطح پر ہلچل تو پیدا کی ہے، لیکن بی جے پی ٹی ایم سی رہنماؤں کی بدعنوانی اورزیادتی کو آگے رکھتے ہوئے بہت حد تک وزیر اعلیٰ کی اس اپیل کو درکنار کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے جس طرح اکثر لوگوں نے اس ڈر کے احساس کو نشان زد کیا کہ دیدی کو پھر سے چننے سے ٹی ایم سی کی تنظیمی مشینری پر ان کاانحصار بڑھ سکتا ہے، یہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ دیدی سے دھیان ہٹانے کے لیےبی جے پی کی پالیسی کافی حد تک کامیاب رہی ہے۔
لوگوں میں پھیلے اس غصےکی وجہ سے ہی بی جے پی نے انتخاب کو ‘دیدی بنام دادا(مودی)’کی طرح پیش کیا ہے، لیکن اس بات کا بھی دھیان رکھا گیا ہے کہ حملے کا سیدھا نشانہ وزیر اعلیٰ کو نہ بنایا جائے۔
‘دیدی کولکاتہ سے ہمارے لیے پیسہ(فنڈ)بھیجتا ہے۔ ان کی پارٹی کارہنما انہیں ہم تک نہیں پہنچنے دیتا،’ لوگوں کے ذریعےیہ بات لگاتار دہرائی جاتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی بی جے پی نےسبھی مخالف آوازوں کو ایک ساتھ لانے پر بھی اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔ وہ سابق لیفٹ حامیوں کو ایک ساتھ لانے میں کامیاب ہوئے ہیں جن میں سے کئی ٹی ایم سی رہنماؤں دکے ذریعے ستائے ہوئے ہیں ساتھ ہی ٹی ایم سی سے نکلے ہوئے ان لوگوں کو بھی، جو ٹی ایم سی کے رہنماؤں کی طاقت کا خمیازہ بھگت چکے ہیں۔
اور آخرکار اس نے وہ کیا ہے، جس میں وہ ماہر ہیں ان علاقوں میں جہاں اس کے لیے امکانات تھے، وہاں آستھاکی بنیاد پر ووٹر کے پولرائزیشن کے لیے مذہبی کشیدگی پیدا کرنا۔ اسی وقت وہ مودی کی امیج اور وکاس والی بات بھی کرتے رہے۔
اقتدارمخالف لہر
وہیں دوسری طرف، ٹی ایم سی کی مہم کسی بھی اصل مدعے کا ذکر نہیں کرتا ہے، جس کی وجہ سےاقتدارمخالف لہر اور تیز ہوتی نظر آتی ہے۔
اپنی ‘بدنام زمانہ’ کلب ہاؤس چیٹ اور اس کے بعد دیے گئے انٹرویو میں ٹی ایم سی کے پالیسی میکر پرشانت کشور جو پارٹی کےذرائع کے مطابق گزشتہ دو سالوں سے پارٹی سے جڑے فیصلے لے رہے ہیں، نے بڑے پیمانےپر اینٹی ان کمبینسی، ہندو مسلم پولرائزیشن ، مودی کے کلٹ اور 25 فیصدی ایس ٹی کمیونٹی کےبی جے پی کا ساتھ دینے کی بات قبول کی ہے۔
پھر بھی یہ حیران کرنے والی بات ہے کہ انتخابی لڑائی میں اس اقتدارمخالف لہر کے بارے میں جانتے ہوئے بھی انہوں نے ایسی مہم تیار کی جو لوگوں کے سرکار سے ناراضگی والے مسئلوں پر بات تک نہیں کرتی اور انتخابات کو ایک آر یا پار کے جنگ کی طرح پروجیکٹ کرتے ہوئے لوگوں کا دھیان اصل مدعوں سے بھٹکانے کی کوشش کرتی ہے۔
ایسےوقت پر جب بی جے پی صوبے میں ایک جگہ بنا چکی ہے، تب ایسا غصہ جیسی امید کی گئی تھی، اس کے الٹ اثر کرتا دکھتا ہے۔ ووٹرس کا ایک بڑا طبقہ مان رہا ہے کہ وزیر اعلیٰ کی مرکز کی لگاتار مخالفت کی وجہ سے صوبے کی ترقی متاثر ہو رہی ہے اور (مودی کے دعوے کے مطابق) ‘ڈبل انجن’ کی سرکار بنگال کے لیے بہتر ثابت ہوگی۔
ٹی ایم سی کے اعلیٰ رہنماؤں کےمودی کی تقاریر کو لےکر دیے گئےمذموم ردعمل کو لےکر بھی عام لوگوں میں ناراضگی ہے۔ ‘دیدی کومرکز کے ساتھ کام کرنے کا کوئی طریقہ نکالنا چاہیے تھا،’ دیہی علاقوں میں ہندو مسلم دونوں ہی یہ بات کہتے ہیں۔
کیا روزگار لانے والی صنعتوں اور غریبوں کو عزت کے ساتھ جینے دینے کے وعدے پر مبنی ایک مہم بہتر ہوتی؟ اس بات کا جواب تو سیاسی منیجر پرشانت کشور اور ٹی ایم سی کی موجودہ مہم کو منظوری دینے والے پارٹی کے دوسرے لوگ ہی بتا سکتے ہیں۔
حالانکہ، غلط سمت میں جاتی نظر آ رہی انتخابی مہم ہی ٹی ایم سی کی تشویش میں شامل نہیں ہے۔ د ی وائر نے پارٹی کے کئی ایسےرہنماؤں سے بات کی، جنہیں مختلف شعبوں سےمبینہ طور پر کشور کی سفارش پر آخری وقت میں ہٹایا گیا۔
پارٹی سے بدعنوان عناصر کو الگ کرنے کی قواعد میں کشور نے پارٹی کی نچلی سطح پر تبدیلی کی پیروی کی تھی۔ ان میں سے کئی کو بیتے فروری میں ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا، تو ایسے میں متعلقہ علاقوں میں اچھا نیٹ ورک رکھنے والے یہ رہنمایا توبی جے پی کے لیے پرچار کر رہے ہیں یا پھر ٹی ایم سی کو ہارتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔
کولکاتہ کے بریگیڈ گراؤنڈ میں ہوئی ریلی میں نریندر مودی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
پارٹی کو ‘شدھ’کرنے کے اس طرح کے حالیہ فیصلوں نے ٹی ایم سی کو نچلی سطح پر توڑکر رکھ دیا ہے۔ بچا کھچا نقصان بی جے پی نے ٹی ایم سی کے اہم رہنماؤں میں سیندھ لگاکر پورا کر دیا ہے، جس کے بعد دیدی اور ان کے حامی ایک طرح سے انتخاب کے اس میدان میں اکیلے ہی بچے ہیں۔
اس سوال کہ جس تبدیلی کی تلاش ووٹرکو تھی،بی جے پی وہ متبادل کیسے بن سکتی ہے جب ٹی ایم سی کے کئی نام نہادبدعنوان رہنمابی جے پی میں شامل ہو گئے، ڈھیروں ووٹر آپ کو بتاتے ہیں،‘یہی لوگ سی پی آئی ایم میں تھے، پھر یہ ٹی ایم سی میں آ گئے اور اب انہیں بی جے پی میں موقع دکھ رہا ہے، تو وہ وہاں چلے گئے۔ ہمیں نئے نظریے والی پارٹی اور دس سال سے راج کر رہی پارٹی کے بیچ میں ایک چننا ہے۔ اسی لیے یہ ایک دم کانٹے کا مقابلہ ہے۔’
انتخابی نتائج سے الگ یہ تو صاف ہے کہ بنگال کے لوگوں سامنے دو ناقص متبادل ہیں اور ان میں سے جس کی امیج کم بےایمان کی ہوگی، اسے ہی ظاہری طور فائدہ ہوگا۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)