جو لوگ یقین کرتے ہیں کہ ہندوستان اب بھی ایک جمہوریت ہے، انہیں گزشتہ چند مہینوں میں منی پور سے مظفر نگر تک رونما ہونے والے واقعات پر نگاہ کرنی چاہیے۔ وارننگ کا وقت ختم ہو چکا ہے اور ہم اپنے عوام الناس کے ایک حصے سے اتنے ہی خوفزدہ ہیں جتنے اپنے رہنماؤں سے۔
(علامتی تصویر بہ شکریہ: Alisdare Hickson/Flickr CC BY SA 2.0)
(ارندھتی رائے کو 12ستمبر 2023 کو لوزان، سوئٹزرلینڈ میں2023 کےیورپین ایسسے پرائز فار لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ہے، ذیل میں ان کے خطبے کا مکمل متن پیش کیا جا رہا ہے)
یورپین ایسسے ایوارڈ 2023 سے سرفراز کرنے کے لیے میں چارلس ویلیوں فاؤنڈیشن کا شکریہ ادا کرتی ہوں ۔ یہ شاید ابھی ظاہر نہ ہو کہ مجھےیہ اعزاز حاصل کر تےہوئے کتنی خوشی ہو رہی ہے۔عین ممکن ہے کہ میں مسرت اور شادمانی کے جذبے سے سرشار ہوں۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات سے ہورہی ہے کہ یہ ایوارڈ ادب کے لیے ہے۔ امن کے لیےنہیں۔ ثقافت یا ثقافتی آزادی کے لیے نہیں، بلکہ ادب کے لیے۔لکھنے کےلیے۔اور اس قسم کے مضامین لکھنے کے لیے جو میں لکھتی ہوں اور پچھلے 25 سالوں سے لکھتی آرہی ہوں۔
یہ مضامین قدم بہ قدم ہندوستان کی اکثریت پسندی میں اور پھر بالکلیہ فاشزم میں رو بہ زوال کا نقشہ پیش کرتے ہیں(حالاں کہ کچھ لوگ اسے ترقی کے طور پر دیکھتے ہیں)۔ ہاں، ہمارے یہاں ابھی بھی انتخابات ہوتے ہیں، اور اسی کے باعث، ایک بھروسے مند عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ہندو بالادستی کے پیغام کو بڑی بے رحمی سے 1.4 ارب لوگوں کی اس آبادی کے درمیان پہنچایا گیا ہے۔
نتیجتاً، الیکشن ہمارے ملک میں ایک موسم ہے- قتل کا موسم، سڑکوں —گلیوں میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیے جانے کا موسم، اشاروں میں زہریلے پیغامات کی تشہیر کا موسم۔ یہ ہندوستان میں اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیےسب سے خطرناک وقت ہوتاہے۔ اب ہم صرف اپنے لیڈروں سے نہیں، بلکہ اپنی آبادی کے ایک پورے حصے سے ڈرتے ہیں۔ اب ہماری سڑکوں پر، ہمارے کلاس روم میں، اور بہت سے دوسرے عوامی مقامات پر، ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ برائی کس طرح معمولی اور روزمرہ کی چیز بنا دی گئی ہے۔
مین اسٹریم میڈیا کو، 24 گھنٹے چلنے والے سینکڑوں نیوز چینلوں کو فاشسٹ اکثریت پسندی کی مہم میں شامل کر لیا گیا ہے۔ ہندوستان کے آئین کو دراصل ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ انڈین پینل کوڈ کو از سرنو لکھا جا رہا ہے۔ اگر موجودہ حکومت 2024 کے انتخابات میں اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو بہت ممکن ہے کہ ہم ایک نئےآئین کا مشاہدہ بھی کریں۔
یہ بھی عین ممکن ہے کہ جسے حد بندی کہتے ہیں اس پر عملدرآمد کیا جائے۔ یہ انتخابی حلقوں کی نئی حدیں کھینچنے کا عمل ہے، جسے امریکہ میں جیری مینڈرنگ کہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ حد بندی کا استعمال کرتے ہوئےشمالی ہندوستان میں ہندی بولنے والی ریاستوں کو زیادہ پارلیامانی نشستیں دےدی جائیں، جہاں بی جے پی کا ایک ووٹ بینک ہے۔ اس سے جنوبی ریاستوں میں شدید ناراضگی پیدا ہوگی۔ یہ ایسا قدم ہے جو ہندوستان کو ایک ایسے ملک میں تبدیل کر سکتا ہے جہاں مختلف خطوں کے درمیان اختلاف اور تصادم کی صورتیں پیدا ہوجائیں۔
انتخابات میں ان کی شکست کا امکان کم ہی ہے۔ لیکن وہ ہار جائیں تب بھی احساس برتری کا زہر معاشرے میں بہت اندر تک پھیل چکا ہے۔ اس نے لگام لگائے رکھنے کے لیے ذمہ دار ہر عوامی ادارے کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ ابھی تو نگرانی اور کنٹرول برقرار رکھنے کے لیےکوئی ادارہ نہیں بچا ہے، سوائےایک کمزور اور کھوکھلا کر دیے گئے سپریم کورٹ کے۔
میں اس انتہائی باوقار ایوارڈ کے لیے، اور میری تحریر کو اس طرح سے شرف قبولیت بخشنے کے لیےپھر سےآپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں – لیکن میں یہ ضرور کہوں گی کہ ایک لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کسی شخص کو بوڑھا محسوس کراتا ہے۔ مجھے یہ دکھانا بند کرنا ہوگا کہ میں بوڑھی نہیں ہوں۔ یہ بہت بڑی ستم ظریفی ہے کہ میں یہ ایوارڈ پچیس سالوں کی ایسی تحریروں کے لیے حاصل کر رہی ہوں، جن میں کہی گئی باتوں کی صرف ان سنی کی جاتی رہی ہے۔ اس کے بجائے اکثر لبرل اور خود کو ‘ترقی پسند’ سمجھنے والے لوگوں نے بھی اس تحریر کوتمسخر اور تنقید کا نشانہ بنایا۔
یہ اس نوع کی تحریر ہے جس میں ہم کس سمت جا رہے تھے، اس کے بارے میں تنبیہ کی گئی ہے۔ لیکن اب وارننگ کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ اب ہم تاریخ کے ایک دوسرے دور میں ہیں۔ ایک قلمکارکے طور پر میں صرف یہی امید کر سکتی ہوں کہ میری تحریریں اس انتہائی خوفناک اور تاریک دور کی گواہی دیں گی جو آج میرے ملک پر حاوی ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ میرے جیسے دوسرے لوگوں کا کام جاری رہے گا، تاکہ آنے والی نسلوں کو پتہ چل سکے کہ جو کچھ بھی ہو رہا تھا اس سے سارے لوگ متفق نہیں تھے۔
ایک کالم نگار کے طور پر میری زندگی کسی منصوبے کا حصہ نہیں تھی۔ یہ بس شروع ہوگئی۔
میری پہلی کتاب دی گاڈ آف اسمال تھنگ( ناول) تھی جو 1997میں شائع ہوئی۔ اتفاق سے، اسی سال برطانوی استعمار سے ہندوستان کی آزادی کی پچاسویں سالگرہ بھی تھی۔ سرد جنگ کو ختم ہوئے آٹھ سال ہو چکے تھے۔یہ امریکہ کے زیر تسلط یک قطبی دنیا کی شروعات تھی، جس میں سرمایہ داری کے سامنے اس کی کوئی مخالف قوت نہیں بچی تھی۔ ہندوستان نے رخ بدلا اور امریکہ کے کیمپ میں شامل ہو گیا، اس نے کارپوریٹ سرمائے کے لیےاپنا بازار کھول دیا۔
نجکاری اور اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ فری مارکیٹ کے نعرے تھے۔ہندوستان کی واہ واہی ہورہی تھی۔ لیکن پھر 1998 میں بی جے پی کی قیادت میں ہندو قوم پرست حکومت برسراقتدار آئی۔ اس نے سب سے پہلا کام جو کیا وہ تھا— سلسلے وار جوہری تجربات ۔ زیادہ تر لوگوں نےزہریلی اور اندھی عقیدت سےلبریز قوم پرست زبان میں اس کاخیرمقدم کیا، اس میں مصنف، فنکار اور صحافی سب شامل تھے۔ یہ بات اچانک ہی بدل گئی کہ آپ عوامی طور پرکس طرح کی باتیں کر سکتے ہیں۔
تب مجھے اپنے ناول کے لیےابھی ابھی بکر پرائز ملاتھا، اور مجھے خواہی نخواہی اس نئے ہندوستان کا ثقافتی سفیر بنا دیا گیا۔ میں بڑے میگزین کےکور پر چھپ رہی تھی۔ میں جانتی تھی کہ اگر میں نے کچھ نہیں کہا، تویہ مان لیا جائے گا کہ ان سب سے میرا اتفاق ہے۔ تب میری سمجھ میں آیا کہ خاموش رہنا اتنا ہی سیاسی ہے جتنا بولنا۔ میں سمجھتی تھی کہ بولنا ادبی دنیا کی شہزادی کے طور پر میرے کیریئر کاخاتمہ کر دے گا۔ اس سے بھی زیادہ میں سمجھتی تھی کہ میں جن باتوں میں یقین رکھتی تھی ان کو اگر میں نے نتائج کی پرواہ کیے بغیر قلمبند نہیں کیا تو میں خود اپنی سب سے بڑی دشمن بن جاؤں گی، اور شاید میں دوبارہ کبھی نہیں لکھ پاؤں گی۔
اس طرح میں نے لکھا،اپنے قلمکار کو بچانے کے لیے۔ میرا پہلا مضمون دی اینڈ آف امیجینیشن (تخیل کا خاتمہ) دو اہم اور مؤقر رسالوں —آؤٹ لک اور فرنٹ لائن میں شائع ہوا۔یکبارگی ہی مجھے غدار اور ملک دشمن قرار دیا گیا۔ میں نے ان توہین آمیز کلمات کو تعریف وتحسین کی طرح قبول کر لیا، وہ بکر پرائز سے کم باوقار نہیں تھے۔
اس نے میرے لیے ایک لمبے سفرکی شروعات کی، یہ سفر باندھوں، دریاؤں، نقل مکانی، ذات پات، کان کنی اور خانہ جنگی کے بارے میں تھا۔ یہ ایسا سفر تھا جس نے میری سمجھ کو گہرا کیا، اور میری افسانہ نگاری اور مضمون نگاری کو آپس میں اس طرح ہم آہنگ کردیا کہ اب انہیں الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
میں اپنی کتاب سےآزادی کے ایک مضمون کامختصراقتباس پڑھوں گی، جو اس بارے میں ہے کہ یہ مضمون کس طرح اس دنیا میں زندہ ہے۔ یہ اقتباس’ادب کی زبان’ سے ماخوز ہے۔
جب یہ مضامین پہلی بار شائع ہوئے تھے (پہلے مؤقر جریدوں میں، پھر انٹرنیٹ پر اورپھر کتابی شکل میں)، تو ان کوخدشات کے ساتھ شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ کم از کم کچھ حلقوں میں تو ایسا ہی ہوا، اور ایسا اکثر ان لوگوں کی طرف سے ہوا جو ضروری نہیں کہ سیاسی طور پر اختلاف ہی رکھتے ہوں۔ روایتی طور پر جس کوادب سمجھا جاتا ہے، یہ تحریر اس کے لیے ایک آزمائش تھی۔
جولوگ خصوصی طور پر چیزوں کو الگ الگ ناموں میں بانٹ کردیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں ، ان کا خدشہ قابل فہم تھا۔ کیونکہ وہ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ یہ کس نوع کی تحریر ہے – پرچہ یا بحث، اکیڈمک یا اخباری، سفرنامہ، یا پھر کوئی ادبی مہم جوئی؟
کچھ لوگوں کے لیے تو یہ تحریر ہی نہیں تھی؛’ارے آپ نے لکھنا کیوں چھوڑ دیا؟ ہم آپ کی اگلی کتاب کا انتظار کر رہے ہیں۔‘ کچھ اور لوگوں کا خیال تھا کہ میں ایک کرایے کی قلم ہوں۔ ہر قسم کی پیش کش مجھےکی گئی؛ ‘ڈارلنگ، باندھوں پر تم نے جو لکھا تھا وہ مجھے بہت پسند آیا، کیا تم میرے لیے بچوں کے ساتھ بدسلوکی (چائلڈ ابیوز)پر کوئی مضمون لکھ سکتی ہو؟’ (ایسا سچ مچ ہوا تھا۔) مجھے سخت نصیحتیں دی گئیں (زیادہ تر اشرافیہ مرد حضرات کی طرف سے ) کہ کیسے لکھا جاتا ہے، مجھے کن موضوعات پر لکھنا چاہیے اور میرا لہجہ کیا ہونا چاہیے۔
لیکن ان کشادہ شاہراہوں سے دور، دوسری جگہوں پر ان مضامین کو تیزی سے دوسری ہندوستانی زبانوں میں منقلب کیا گیا، یہ پرچوں کی صورت میں چھپے، جنگلوں اور ندی وادیوں میں مفت تقسیم کیے گئے، ان دیہاتوں میں جہاں حملے ہو رہے تھے۔ یونیورسٹی کیمپس جہاں طلباء مسلسل جھوٹ سے عاجز آچکے تھے۔ کیونکہ مورچے پر موجود یہ قارئین پھیلتی ہوئی آگ سے جھلسنے لگے تھے اور اس پر ان کی رائے بالکل مختلف تھی کہ ادب کیا ہے یااس کوکیسا ہونا چاہیے۔
میں اس کا تذکرہ اس لیے کر رہی ہوں کہ اس نے مجھے سکھایا کہ ادب کی جگہ کو ادیب اور قاری دونوں مل کر تخلیق کرتے ہیں۔کئی معنوں میں یہ ایک نازک سی جگہ ہے، لیکن اسے مٹایا نہیں جا سکتا۔ اگر یہ زمین دوز کردی جائے، تو ہم اسے دوبارہ تخلیق کرلیتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں ایک پناہ چاہیے۔ ادب کو ایک ضرورت کے طور پر دیکھنے والا نقطہ نظر مجھے بہت پسند ہے ۔ وہ ادب جو پناہ دے۔ ہر قسم کی پناہ ۔
آج یہ سوچنا بھی محال ہے کہ ہندوستان میں مرکزی دھارے کا کوئی میڈیا ہاؤس اس طرح کے مضامین شائع کرے گا۔ وہ سب کارپوریٹ اشتہارات پر زندہ ہیں۔ گزشتہ بیس سالوں میں آزاد منڈیوں، فاشزم اور نام نہاد آزاد صحافت نے مل کر ہندوستان کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں اسے کسی بھی لحاظ سے ایک جمہوریت نہیں گردانا جا سکتا ہے۔
اس جنوری میں دو ایسی چیزیں ہوئیں جو اس صورت حال کو اس خوبی سے بیان کرتی ہیں کہ کوئی اور چیزشاید ہی کرپائے۔ بی بی سی نے انڈیا: دی مودی کویسچن نام سے دو حصوں میں ایک ڈاکیومنٹری دکھائی۔ اور اس کے کچھ دنوں بعد ہنڈنبرگ ریسرچ نامی ایک چھوٹی امریکی کمپنی نے اپنی رپورٹ شائع کی جسے اب ہنڈنبرگ رپورٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ہنڈنبرگ ریسرچ اس میں مہارت رکھتی ہے جسے ایکٹیوسٹ شارٹ سیلنگ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کی سب سے بڑی کارپوریٹ کمپنی اڈانی گروپ کی حیرت انگیز دھاندلیوں کو تفصیل سے اجاگر کیا۔ بی بی سی—ہنڈنبرگ معاملے کو ہندوستانی میڈیا نے اس طرح پیش کیا کہ یہ ہندوستان کے ٹوئن ٹاورز پر کسی حملے سے کم نہیں تھا۔ یہ ٹاورز ہیں وزیر اعظم نریندر مودی، اور ہندوستان کے سب سے بڑے صنعتکار گوتم اڈانی، جو ابھی حال تک دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص تھے۔ ان دونوں کے خلاف لگائے گئے الزامات ہلکے نہیں ہیں۔
بی بی سی کی ڈاکیومنٹری اشارہ کرتی ہے کہ مودی نے قتل عام کے لیے اکسایا۔ ہنڈنبرگ رپورٹ نے اڈانی پر ‘کارپوریٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ’ کرنے کا الزام لگایا ہے۔ 30 اگست کو، گارڈین اور فنانشل ٹائمز نے جرائم کے شواہد فراہم کرنے والےدستاویز پر مبنی مضامین شائع کیے، جنہیں آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ نے جمع کیا تھا۔ ان میں بھی ہنڈنبرگ رپورٹ کی مزید تصدیق کی گئی۔ ہندوستانی تحقیقاتی ایجنسیاں اور زیادہ تر ہندوستانی میڈیا اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ ان کی چھان بین کر سکیں یا ان مضامین کوشائع کرسکیں۔ جب غیر ملکی میڈیا انہیں شائع کرتا ہے، تب یہ آسان ہو جاتا ہے کہ ایک کھوکھلی جارحانہ قوم پرستی کے موجودہ ماحول میں اسے ہندوستان کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا جائے۔
بی بی سی کی فلم دی مودی کویسچن کا پہلا حصہ 2002 میں ریاست گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں ہے۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا جب مسلمانوں کو ایک ریلوے کوچ کو جلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا جس میں 59 ہندو تیرتھ یاتری زندہ جل گئے تھے۔ مودی اس قتل عام سے چند ماہ قبل ہی ریاست کے وزیر اعلیٰ نامزد کیے گئے تھے، اس وقت وہ الیکشن جیت کر وزیر اعلیٰ نہیں بنے تھے۔ فلم صرف ہلاکتوں کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ کچھ متاثرین کےاس 20 سالہ طویل سفر کے بارے میں بھی ہے، جسے انہوں نے ہندوستان کے قانونی نظام کی بھول بھلیاں میں، اپنے یقین کو سینے سے لگائے،انصاف اور سیاسی احتساب کی امید میں طے کیا ہے۔
فلم میں عینی شاہدین کی شہادتیں شامل ہیں، جن میں سب سے زیادہ لرزہ خیزگواہی امتیاز پٹھان کی ہے، جنہوں نے ‘گلبرگ سوسائٹی قتل عام’ میں اپنے خاندان کے دس افراد کو کھو دیا تھا۔ اس قتل عام میں ایک ہجوم نے ساٹھ افراد کو ہلاک کر دیا تھا، جس میں ایک سابق ایم پی احسان جعفری بھی شامل تھے۔جن کے جسم کے اعضاء کاٹ کاٹ کر زندہ جلا دیے گئے ۔ وہ مودی کے سیاسی حریف تھے اور انہوں نے ایک حالیہ انتخاب میں مودی کے خلاف مہم چلائی تھی۔ گلبرگ سوسائٹی میں ہونے والا قتل عام ان چند دنوں میں گجرات میں ہونے والےاسی طرح کے بہت سے خوفناک قتل عام میں سے ایک تھا۔
دوسرے قتل عام میں سے ایک میں– جس کا فلم میں ذکر نہیں کیا گیا – 19 سالہ بلقیس بانو کےکا گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے 14 افراد کو قتل کر دیا گیا۔ اس میں ان کی 3 سالہ بیٹی بھی شامل ہے۔ گزشتہ اگست میں یوم آزادی کے موقع پر جب مودی خواتین کے حقوق پر قوم سے خطاب کر رہے تھے، ان کی حکومت نےٹھیک اسی دن بلقیس اور ان کے خاندان والوں کےان ریپسٹ اور قاتلوں کو معافی دے دی، جنہیں عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔ ویسے بھی ان لوگوں نے قید کے اکثر ایام پیرول پر باہر گزارے تھے۔ اور اب وہ آزاد لوگ تھے۔ جیل کے باہر ان کا استقبال پھولوں سے کیا گیا، اب وہ سماج کے معزز افراد ہیں اور بی جے پی کے سیاست دان عوامی پروگراموں میں ان کے ساتھ اسٹیج پر آتے ہیں۔
بی بی سی کی فلم نے اپریل 2002 میں برطانوی دفتر خارجہ کی تیارکردہ ایک اندرونی رپورٹ کو اجاگرکیا، جس کے بارے میں عوام کو ابھی تک علم نہیں تھا۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیاتھا کہ ‘کم از کم 2000 ‘افراد کو قتل کیا گیا تھا۔اس رپورٹ میں کہا گیا کہ نسل کشی کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی اور اس میں ‘نسلی تطہیر کی تمام اہم نشانیاں’ نظر آتی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ باوثوق ذرائع نے انہیں بتایا کہ پولیس کو خاموش رہنے کے حکم صادر کیے گئے تھے۔ رپورٹ بہت سیدھے سیدھے مودی کی طرف انگلی اٹھاتی ہے۔ گجرات کے قتل عام کے بعد امریکہ نے انہیں ویزا دینے سے منع کر دیا تھا۔اس کے بعد مودی نے یکے بعد دیگرے تین انتخابات جیتے اور 2014 تک گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے رہے۔ ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ان پر عائد پابندی ہٹا دی گئی۔
(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/دی وائر)
مودی سرکار نے فلم پر پابندی لگا دی ہے۔ ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے اس پابندی کی پیروی کی اور اس کے تمام لنکس اور حوالہ جات کو ہٹا دیا۔ فلم کی ریلیز کے چند ہفتوں کے اندر ہی بی بی سی کے دفاتر کو پولیس نے گھیر لیا اور ٹیکس حکام نےان پر چھاپے مارے۔
ہنڈنبرگ کی رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ اڈانی گروپ ‘ اسٹاک کی بھاری ہیرا پھیری اور اکاؤنٹنگ فراڈ کی اسکیم’ میں ملوث رہا ہے، جس نے آف شور شیل کمپنیوں کا استعمال کرتے ہوئے،(شیئر بازار میں) لسٹڈ اپنی بڑی کمپنیوں کی قیمت کو فرضی طریقے سے بڑھا چڑھا کر دکھایا۔ اس کی وجہ سے اس کے صدر کی مجموعی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق، اڈانی کی لسٹڈ کمپنیوں میں سے سات کو ان کی اصل قیمت سے 85 فیصد زیادہ قیمت پر دکھایا گیا ہے۔ مودی اور اڈانی کی شناسائی دہائیوں پرانی ہے۔ ان کی دوستی 2002 میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد مضبوط ہوئی۔ اس وقت زیادہ تر ہندوستان، جس میں کارپوریٹ انڈیابھی شامل ہے، گجرات کے قصبوں اور دیہاتوں میں جارح ہندو ہجوم کے ہاتھوں ‘بدلے’ میں مسلمانوں کے کھلے عام قتل اورریپ کے خوف سے سہم گیا تھا۔ گوتم اڈانی مودی کے ساتھ کھڑے رہے۔ گجراتی صنعتکاروں کے ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ انہوں نے تاجروں کا ایک نیا پلیٹ فارم بنایا۔ انہوں نے اپنے ناقدین کو مسترد کر تے ہوئے مودی کی حمایت کی، جنہوں نے ‘ہندوہردیہ سمراٹ’ کے طور پر اپنے نئے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔ اس طرح اس چیز کا جنم ہوا جسے’وکاس’ کے گجرات ماڈل کے نام سے جانا جاتا ہے؛ کارپوریٹ دنیا کی بے پناہ دولت کے زورپرمضبوط ہوتی پرتشدد ہندو قوم پرستی۔
گجرات کے وزیر اعلی کے طور پر تین میعاد کے بعد مودی 2014 میں ہندوستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ دہلی میں حلف برداری کی تقریب کے لیے وہ ایک پرائیویٹ جیٹ میں آئے، جس پر اڈانی کا نام بڑے حروف میں جگمگا رہا تھا۔ مودی کے نو سالہ دور میں اڈانی دنیا کے امیر ترین آدمی بن گئے۔ ان کی دولت 8 ارب ڈالر سے بڑھ کر 137 ارب ڈالر ہوگئی۔ صرف 2022 میں انہوں نے 72 ارب ڈالر بنائے، جو دنیا میں ان کے ٹھیک نیچےکےنو ارب پتیوں کی مشترکہ دولت سے بھی زیادہ ہے۔
اب اڈانی گروپ ایک درجن تجارتی بندرگاہوں کو کنٹرول کرتا ہے، جس کے ذریعے ہندوستان میں مال کی مجموعی نقل و حرکت کا 30 فیصد کام کرتا ہے۔ ان کے ہاتھ میں سات ہوائی اڈے ہیں،جہاں سے ہندوستان کے 23 فیصد ہوائی مسافر آتے جاتے ہیں۔ ہندوستان کے کل اناج کا 30 فیصد اڈانی کے زیر کنٹرول گوداموں میں جمع ہے۔ وہ ہندوستان میں سب سے بڑے پرائیویٹ سیکٹر کے پاور پلانٹس کے مالک ہیں یا انہیں چلاتے ہیں۔
جی ہاں، گوتم اڈانی دنیا کے امیر ترین آدمیوں میں سے ایک ہیں، لیکن اگر آپ انتخابات کے دوران بی جے پی کی چمک دمک کو دیکھیں تو وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ شاید دنیا کی سب سے امیر ترین سیاسی جماعت نکلے گی۔ بی جے پی نے 2016 میں الیکٹورل بانڈ اسکیم کو لاگو کیا، جس میں کارپوریٹ کمپنیوں کو اپنی پہچان عام کیے بغیرسیاسی جماعتوں کو فنڈ فراہم کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ بی جے پی اب تک سب سے زیادہ کارپوریٹ فنڈنگ حاصل کرنے والی پارٹی بن گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ٹوئن ٹاورز کا تہہ خانہ ایک ہی ہے۔
جس طرح مودی کی ضرورت کے وقت اڈانی ان کے ساتھ کھڑے رہے، مودی حکومت بھی اڈانی کے ساتھ کھڑی ہے اور اس نے پارلیامنٹ میں اپوزیشن ممبران پارلیامنٹ کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کا بھی جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ اس حد تک چلی گئی کہ پارلیامنٹ کے ریکارڈ سے ان کی تقاریر بھی نکال دی ہیں۔
جہاں بی جے پی اور اڈانی نے اپنی اپنی دولت بٹوری ہے، آکسفیم نے ایک تنقیدی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ہندوستانی آبادی کے سب سے اوپر کے10فیصد لوگوں کے پاس ملک کی کل دولت کا 77فیصد ہے۔ 2017 میں پیدا ہونے والی دولت کا 73فیصد حصہ امیر ترین 1فیصد لوگوں کے پاس چلا گیا، جبکہ 67 کروڑ ہندوستانیوں نے، جو ملک کے غریب ترین نصف ہیں، پایا کہ ان کی دولت میں صرف 1فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
جہاں ہندوستان کو ایک عظیم الشان مارکیٹ کے ساتھ ایک اقتصادی طاقت کے طور پر پہچانا جاتا ہے، اس کی زیادہ تر آبادی تباہ کن غربت میں زندگی گزار رہی ہے۔ لاکھوں لوگ گزارے کے لیے ملی راشن کی تھیلیوں پر جیتے ہیں، جو مودی کے چھپے ہوئےچہرے ساتھ تقسیم کی جاتی ہے۔ ہندوستان انتہائی غریب عوام کا بہت امیر ملک ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ غیر مساوی معاشروں میں سے ایک۔ آکسفیم انڈیا کو اپنی محنت کا ثمرہ بھی ملا، اس کے دفاتر پر بھی چھاپے مارے گئے۔اور مسائل پیدا کرنے والے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور کچھ دوسرے این جی اوز کو اتنا ہراساں کیا گیا کہ انہوں نے کام کرنا بند کر دیا۔
ان میں سےکسی بھی بات کا مغربی جمہوریتوں کے لیڈروں پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ ہنڈنبرگ-بی بی سی کے معاملات کے کچھ ہی دنوں کے اندر، ‘گرمجوشی سے بھری اور نتیجہ خیز’ ملاقاتوں کے بعد، وزیر اعظم مودی، صدر جو بائیڈن اور صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا کہ ہندوستان 470 بوئنگ اور ایئربس طیارے خریدے گا۔ بائیڈن نے کہا کہ اس معاہدے سے 10 لاکھ سے زائد امریکی نوکریاں پیدا ہوں گی۔ ایئربس کا انجن رولز رائس کا ہوگا۔ وزیر اعظم رشی سنک نے کہا، ‘برطانیہ کے ابھرتے ہوئے ایئر کرافٹ مینوفیکچرنگ سیکٹر کے لیے آسمان ہی حد ہے۔’
جولائی میں مودی نے امریکہ کا سرکاری دورہ کیا اور باستیل ڈے پر مہمان خصوصی کے طور پر فرانس گئے۔ کیا آپ اس بات پر یقین کریں گے؟ میکرون اور بائیڈن انتہائی شرمناک طریقوں سے ان کی خوشامد کرتے رہے، یہ جانتے ہوئے کہ وہ 2024 کی انتخابی مہم میں منھ مانگی مراد کا کام کرے گا، جب وہ ایک تیسری مدت کے لیے میدان میں اتر رہے ہیں۔ جس آدمی کو وہ گلے لگا رہے ہیں، اس کے بارے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جسے وہ جانتے نہیں ہوں گے۔
وہ گجرات کے قتل عام میں مودی کے رول کے بارے میں جانتے ہوں گے۔ جس گھناؤنے طریقے اور باقاعدگی کے ساتھ مسلمانوں کو سرعام پیٹا جا رہا ہے، جس طرح مودی کی کابینہ کے ایک رکن پھولوں کا ہار لےکر مسلمانوں کے قاتلوں سے ملے، جس طرح مسلمانوں کو ہر ممکن طریقے سے الگ تھلگ اور اکیلا کر دینے کا تیزگام عمل جاری ہے، انہیں ان سب کی جانکاری رہی ہوگی۔انہیں پرتشدد ہندو گروہوں کے ذریعے سینکڑوں چرچ کو جلا دیے جانے کی بھی جانکاری ہوگی۔
انہیں اپوزیشن رہنماؤں، طلباء، انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلاء اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے بارے میں بھی خبر رہی ہوگی، جن میں سے کچھ کو طویل قید کی سزائیں تک مل چکی ہیں؛ پولیس اور ہندو قوم پرست ہونے کے اندیشے والےلوگوں کے ذریعے یونیورسٹیوں پر حملوں کی؛ تاریخ کی کتابوں کو دوبارہ لکھے جانے کی ؛ فلموں پر پابندیاں لگائے جانے کی؛ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے بند ہونے کی؛ بی بی سی کے ہندوستانی دفاتر پر چھاپوں کی؛ کارکنوں، صحافیوں اور سرکار کے ناقدین کو پراسرار نو فلائی لسٹوں میں ڈالنے کی؛ اور ہندوستانی اور غیر ملکی مصنفین اور مفکرین پر دباؤ کی جانکاری بھی رہی ہوگی۔
انہیں معلوم ہو گا کہ ہندوستان اب ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک میں 161 ویں نمبر پر ہے، کہ ہندوستان کے بہت سے بہترین صحافیوں کو مین اسٹریم میڈیا سے باہر کر دیا گیا ہے، اور یہ کہ صحافیوں کو جلد ہی سنسر کے ایسے نظام کا سامنا کرنا پڑے گا، جس میں حکومت کی طرف سے قائم کردہ تنظیم کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہو گا کہ آیا حکومت کے بارے میں میڈیا کی خبریں اور تبصرے جعلی اور گمراہ کن ہیں یا نہیں۔ اور وہ نئے آئی ٹی قانون سے بھی آگاہ ہوں گے، جسے سوشل میڈیا پر اختلاف رائے کو دبانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
انہیں تلواریں لہرانے والی پرتشدد بھیڑکے بارے میں بھی پتہ ہوگا، جو مسلمانوں کے خاتمے اور مسلم خواتین کےریپ کی مسلسل اور کھلم کھلااپیل کرتے ہیں۔
وہ کشمیر کی صورت حال سے واقف رہے ہوں گے، 2019 میں جس کا رابطہ مہینوں تک دنیا سے منقطع کر دیا گیا– ایک جمہوریت میں انٹرنیٹ کو بند کرنے کا یہ سب سے بڑا واقعہ تھا۔ اس کشمیر کے صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، گرفتار کیا جاتا ہے اور پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ 21ویں صدی میں کسی کی بھی زندگی ویسی نہیں ہونی چاہیے، جیسی ان کی ہے—اپنی گردن پر بوٹوں کے سایے میں۔
(السٹرین : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
وہ 2019 میں پاس کیے گئے شہریت ترمیمی ایکٹ سے واقف ہوں گے، جو مسلمانوں کے خلاف واضح طور پر امتیازی سلوک کرتا ہے۔ وہ ان بڑی تحریکوں سے بھی واقف ہوں گے جو اس کے نتیجے میں پیدا ہوئیں۔ اور یہ بھی کہ وہ تحریکیں اسی وقت ختم ہوئیں جب اس کے اگلے سال دہلی میں ہندو ہجوم کے ہاتھوں درجنوں مسلمانوں کو ہلاک کر دیا گیا (جو اتفاق سے اس وقت ہوا جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سرکاری دورے پر شہر میں تھے اور جس کے بارے میں انہوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا)۔
انہیں اس بات کی بھی جانکاری رہی ہوگی کہ کس طرح دہلی پولیس نے سڑک پر پڑے شدید طور پر زخمی نوجوان مسلمانوں کو ہندوستانی قومی ترانہ گانے پر مجبور کیا،اور اس دوران انہیں زدوکوب کرتے رہے۔ اس کے بعد ان میں سے ایک نوجوان کی موت ہو گئی۔
ممکن ہے کہ انہیں اس بات کی جانکاری بھی ہو کہ جس وقت وہ مودی کو گلے لگا رہے تھے، اسی وقت شمالی ہندوستان کے ایک چھوٹے سے قصبے سے مسلمان اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہے تھے، جب خبروں کے مطابق، حکمران جماعت سے وابستہ ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے دروازے پرکراس کے نشان لگائے ور انہیں چلے جانے کو کہا تھا۔’مسلم فری‘ اتراکھنڈ کی کھلے عام باتیں ہو رہی ہیں۔
انہیں معلوم ہو گا کہ مودی کی حکمرانی میں ہندوستان کی شمال—مشرقی ریاست منی پور وحشیانہ خانہ جنگی کی آگ میں جل رہی ہے۔ ایک طرح کی نسلی تطہیر کا کام انجام دیا جا چکا ہے۔ اس میں مرکزی حکومت کی ملی بھگت ہے، ریاستی حکومت اس کی شراکت دار ہے، سیکورٹی فورسز دو حصوں میں بٹی ہوئی ہیں،جن میں ایک طرف پولیس ہے اور دوسری طرف کوئی سسٹم نہیں ہے۔ انٹرنیٹ بند ہے۔ خبروں کو منظر عام پر آنے میں ہفتے لگ جاتے ہیں۔
اس کے باوجود عالمی طاقتیں مودی کو وہ سب کچھ فراہم کر رہی ہیں جو انہیں ہندوستان کے سماجی تانے بانے کو تباہ کرنے اور جلانے کے لیے درکار ہے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو یہ ایک قسم کی نسل پرستی ہے۔ یہ قوتیں جمہوری ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، لیکن وہ نسل پرست ہیں۔ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے جن ‘اقداروں’ پر عمل کرنے کا وہ دعویٰ کرتے ہیں، ان کا اطلاق سیاہ فام ممالک پر ہونا چاہیے۔ یقیناً یہ ایک پرانی کہانی ہے۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم اپنی جنگ لڑیں گے – اور بالآخر اپنے ملک کو واپس حاصل بھی کریں گے۔ لیکن اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان میں جمہوریت کو پرزے پرزے کرنے کا کوئی اثر سے پوری دنیا پرنہیں پڑنے والا ہے، تو یقیناً وہ خام خیالی میں جی رہے ہیں۔
جو لوگ یہ مانتے ہیں کہ ہندوستان اب بھی ایک جمہوریت ہے،ان کے لیےیہ کچھ ایسے واقعات ہیں جو صرف پچھلے چند مہینوں میں رونما ہوئے ہیں۔ جب میں نے کہا کہ ہم ایک الگ ہی دور میں داخل ہوچکے ہیں تو میں اسی کی بات کر رہی تھی۔ وارننگ کا وقت ختم ہو چکا ہے اور ہم اپنے لوگوں کے ایک حصے سے اتنے ہی خوفزدہ ہیں جتنے اپنے لیڈروں سے۔
منی پور میں، جہاں خانہ جنگی جاری ہے، اس میں ایک فریق بن چکی پولیس نے دو خواتین کو ایک ہجوم کے حوالے کر دیا جس نے انہیں برہنہ کر کے گاؤں میں گھمایا اور پھر ان کے ساتھ گینگ ریپ کیا۔ ا ن میں سےایک خاتون نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے چھوٹے بھائی کو قتل ہوتے دیکھا۔ ریپسٹ جس کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے،اس کمیونٹی کی خواتین ریپ کرنے والوں کے ساتھ کھڑی رہیں اور اپنے مردوں کو ریپ کرنےکے لیے اکسایا بھی۔
مہاراشٹر میں آرمڈ ریلوے پروٹیکشن فورس کے ایک اہلکار نے ٹرین کے ایک ڈبے میں مسلمان مسافروں پر کھلے عام فائرنگ کی، اور لوگوں سے مودی کو ووٹ دینے کی اپیل کی۔
ایک انتہائی مقبول اور جارح ہندو شخص، جو اعلیٰ سیاست دانوں اور پولیس اہلکاروں کے ساتھ تصویر کھنچواتا رہا ہے، ہندوؤں سے ایک گنجان آبادی والی مسلم بستی سے ہوکر مذہبی جلوس نکالنے کی اپیل کرتا ہے۔ یہ شخص فروری میں دو مسلم نوجوانوں کو ایک گاڑی سے باندھ کر زندہ جلانے کے معاملے کا کلیدی ملزم ہے۔ لیکن وہ اب بھی آزاد ہے۔
نوح قصبہ گڑگاؤں سے متصل ہے، جہاں بڑی بین الاقوامی کارپوریٹ کمپنیوں کے دفاتر واقع ہیں۔ جلوس میں شریک ہندوؤں نے مشین گن اور تلواریں لے رکھی تھیں۔ مسلمانوں نے اپنا دفاع کیا۔ جیسا کہ توقع کی جا سکتی ہے، جلوس کا اختتام تشدد پر ہوا۔ چھ افراد مارے گئے۔ ایک 19 سالہ امام کو ان کے بستر پر بے دردی سے قتل کیا گیا، ان کی مسجد کوتہس نہس کرکے جلا دیا گیا۔ اس پر ریاست کا ردعمل یہ تھا کہ مسلمانوں کی تمام غریب بستیوں کو بلڈوزر سے مسمار کر دیا گیا اور سینکڑوں مسلم خاندانوں کو اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑا۔
وزیراعظم کے پاس ان سب پر کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ یہ الیکشن کا موسم ہے۔ آئندہ مئی تک عام انتخابات ہونے ہیں۔ یہ سب انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ ہم مزید خونریزی، بڑے پیمانے پر قتل و غارت، منصوبہ بند جھوٹے حملے، نقلی جنگیں اور ایسی کسی بھی چیز کی توقع کرنے کے لیے تیار ہیں جو پہلے سے ہی منقسم آبادی کو مزید تقسیم کردیں گی۔
حال ہی میں میں نے ایک خوفناک ویڈیو دیکھا جو ایک چھوٹے سے اسکول کے کلاس روم میں بنائی گئی تھی۔ ٹیچر نے ایک مسلمان بچے کو اپنی میز کے قریب کھڑا کیا اور باقی ہندو لڑکوں کو ایک ایک کر کے آنےاور اسے پیٹنے کو کہا ۔جو طالبعلم زور سے نہیں مارتے تھےوہ انہیں ڈانٹتی ہیں۔ اس پر جو کارروائی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ گاؤں کے ہندوؤں اور پولیس نے مسلم خاندان پر دباؤ ڈالا کہ کوئی الزام عائد نہ کیا جائے۔ مسلم بچے کی اسکول کی فیس واپس کردی گئی ہے اور اسے اسکول سے نکال لیا گیا ہے۔
ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کوئی ہلکے پھلکے انداز کا انٹرنیٹ فاشزم نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقی چیز ہے۔ ہم نازی بن چکے ہیں۔ صرف ہمارے رہنما ہی نہیں، صرف ہمارے ٹی وی چینل اور اخبارات ہی نہیں، بلکہ ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ بھی۔ امریکہ، یورپ اور جنوبی افریقہ میں مقیم ہندوستانی ہندو آبادی کی ایک بڑی تعداد سیاسی اور مادی طور پر فسطائیوں کی مدد کرتی ہے۔ اپنے ضمیر، اور اپنے بچوں کے ضمیر، اور اپنے بچوں کے بچوں کے ضمیر کے لیے، ہمیں اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم ناکام ہوتے ہیں یا کامیاب۔ یہ ذمہ داری صرف ہم ہندوستانی لوگوں کی نہیں ہے۔ جلد ہی، اگر مودی 2024 میں جیت جاتے ہیں، تو اختلاف کے تمام راستے مسدودکر دیے جائیں گے۔ اس ہال میں آپ میں سے کسی کو بھی یہ دکھاوا نہیں کرنا چاہیے کہ جو کچھ بھی ہورہا تھا آپ اس کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔
اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنی تقریرکا اختتام اپنے پہلے مضمون دی اینڈ آف امیجینیشن کا ایک اقتباس پڑھ کر کرنا چاہوں گی۔ یہ ایک دوست کے ساتھ ناکامی کے بارے میں ہونے والی بات چیت ہے- اور بطور مصنف میرا ذاتی منشور؛
میں نے کہا کہ جو بھی ہو، چیزوں کے بارے میں اس کا نظریہ باہری تھا، یہ اندازہ لگانا کہ انسان کی خوشی، یا کہیے کہ اطمینان کا سفر اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے (اور اب اسے نیچے ہی جانا ہوگا)کیونکہ کسی اتفاق سے اسے ‘کامیابی’ مل گئی ہے۔یہ اس دھندلے عقیدے پر مبنی تھا کہ دولت اور شہرت ہر آدمی کے خواب کی سب سے ضروری چیزیں ہیں۔
تم نے نیویارک میں بہت زیادہ رہ لیاہے، میں نے اسے کہا۔ اور بھی دنیا ہیں۔ دوسری طرح کے خواب ہیں۔ ایسے خواب جن میں ناکامی ممکن ہے۔ اور عزت کے قابل بھی۔ کبھی کبھی اس کے لیے کوشش کرنا بھی اہم ہے۔ ایسی دنیا ہیں جن میں شہرت ہی قابلیت اور انسانی قدر کا واحد پیمانہ نہیں ہے۔
میں ایسے بہت سے جنگجوؤں کو جانتی ہوں اور ان سےپیار کرتی ہوں جو مجھ سے کہیں زیادہ بیش قیمتی ہیں، جو ہر دن لڑائی جاری رکھتےہیں،یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ناکام ہو جائیں گے۔ یہ سچ ہے کہ ایسے لوگ اس لفظ کے مقبول معنوں میں کم ’کامیاب‘ ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کم مطمئن ہیں۔
میں نے اس سے کہا، تمنا کرنے کے قابل صرف ایک ہی خواب ہے، وہ خواب کہ جب تک تم زندہ ہو تب تک جیو، اور مرو تبھی جب موت آ جائے۔ (مستقبل کااندیشہ؟ شاید۔)
‘ مطلب کیا ہے اس کا ؟’ (تنی ہوئی بھنویں، ہلکی سی خفگی)۔
میں نے سمجھانے کی کوشش کی، لیکن اچھی طرح سے کہہ نہیں پائی۔ کبھی کبھی سوچنے کے لیے مجھے لکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لیے اس کو میں نے اپنی بات کاغذکے ایک نیپکن پرلکھ دی ۔ یہ لکھا تھا میں نے، پیار کرنا۔ پیار پانا،اپنی بے قدری کو کبھی نہ بھولنا۔ اپنے اردگرد کی زندگی کے ناقابل بیان تشدد اور وسیع پیمانے غیر برابری کا کبھی بھی عادی نہ ہو جانا۔سب سے اداس جگہوں میں بھی خوشی تلاش کرنا۔ خوبصورتی کو اس کی پوشیدہ جگہوں پر بھی دریافت کرنا۔ جو بات پیچیدہ ہے،اس کو کبھی بھی آسان نہیں بنانا اور جو بات بہت سادہ اورآسان ہے اس کو کبھی بھی پیچیدہ نہ بنانا۔مضبوطی کا احترام کرنا، اقتدار کا کبھی نہیں۔ اور سب سے زیادہ، دیکھنا، سمجھنے کی کوشش کرتے رہنا۔ کبھی بھی نظریں نہ پھیرنا۔ اور بھولنا کبھی نہیں، کبھی بھی نہیں۔
مجھے یہ ایوارڈ دے کر عزت بخشنے کے لیے ایک بار پھرآپ شکریہ۔ ایوارڈ دیتے ہوئے میرے بارے میں جو کچھ کہا گیا، اس کا وہ حصہ مجھے بہت پیارا لگا، جس میں کہا گیاہے، ’ارندھتی رائے مضمون کا استعمال لڑائی کی طرح کرتی ہیں۔‘
ایک ادیب کے لیےاس بات پریقین رکھنا ایک گستاخی اور حتیٰ کہ تھوڑی سی بیوقوفی بھی ہوگی کہ وہ اپنی تحریر سے دنیا کو بدل سکتی ہے۔ لیکن اگر اس نےاس کی کوشش تک نہ کی تو یہ واقعی افسوس کی بات ہوگی۔
جانے سے پہلے…میں بس یہ کہنا چاہتی ہوں؛ بہت سارےپیسےاس انعام کا حصہ ہیں۔ یہ پیسےمیرے پاس نہیں رہیں گے۔ اسے ان بہت سے کارکنوں، صحافیوں، وکلاء، فلمسازوں کے ساتھ شیئر کیا جائے گا جو بغیر کسی وسائل کے ایک ناممکن ہمت کے ساتھ اس حکومت کے خلاف ابھی کھڑے ہیں۔ حالات کتنے ہی سنگین کیوں نہ ہوں،آپ جان لیں کہ ان کے خلاف سخت لڑائی جاری ہے۔
آپ سب کا شکریہ۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں اور ہندی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)