ٹی وی اینکر نے سیکولرازم کو بیماری  بتایا تو فوج  نے ٹوئٹر سے افطار کے اہتمام سے متعلق پوسٹ کو ہی ہٹا دیا

03:32 PM Apr 26, 2022 | دی وائر اسٹاف

ہندوستانی فوج میں جموں کے تعلقات عامہ کے افسر کے ٹوئٹر ہینڈل نے فوج کی طرف سے منعقد افطار پارٹی کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے سیکولرازم کی بات کہی تھی، جس کو نشانہ بناتے ہوئے سدرشن نیوز کے سریش چوہانکے نے کہا کہ سیکولرازم کی بیماری ہندوستانی فوج میں بھی گھس گئی ہے۔ اس کے فوراً بعد پی آر او نے یہ ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دیا۔

سریش چوہانکے۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی: ہندوستانی فوج میں بھی شدت  پسند ہندوتوا کامسلم مخالف ایجنڈہ  مسلط کرنے کی ایک مثال اس وقت دیکھی گئی جب فوج کے تعلقات عامہ کے افسر کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے اس کی طرف سے منعقد افطار پارٹی کے بارے میں ایک ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ اس پوسٹ کو دائیں بازو کے ایک ٹی وی اینکر نے تنقیدکا نشانہ بنایا تھا۔

گزشتہ 20 اپریل کو فوج کی جموں یونٹ کے پبلک ریلیشن آفیسر (پی آر او) لیفٹیننٹ کرنل دیویندر آنند کے ٹوئٹر ہینڈل سے ڈوڈہ ضلع میں فوج کی طرف سے منعقد افطار پارٹی کی کچھ تصویریں پوسٹ کی گئی تھیں۔

تصویروں میں افطار پارٹی میں فوج کی راشٹریہ رائفلز کی ڈیلٹا فورس کے جنرل آفیسر کمانڈنگ مقامی مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اور وردی میں ملبوس ایک شخص شہریوں کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے نظر آرہا تھا۔

اس کے ساتھ انگریزی زبان میں لکھا گیا تھا، سیکولرازم کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے، ہندوستانی  فوج کی جانب سے ڈوڈہ ضلع کے ارنوڑہ میں افطار کا اہتمام کیا گیا تھا۔

اگلے دن ٹوئٹ پر تنقید کرتے ہوئے سدرشن نیوز کے سریش چوہانکے نے ہندی میں لکھا، اب یہ بیماری ہندوستانی فوج میں بھی داخل ہو گئی ہے۔ افسوسناک…

ڈیلیٹ کیے گئے ٹوئٹ اور اس پر اظہار خیال کیے گئے  ردعمل کا اسکرین شاٹ۔

چوہانکے کے ٹوئٹ کے فوراً بعدہی پی آر او نے ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کر دیا اور اس کے بعد سے اس معاملے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

متعدد ٹوئٹر صارفین نے پی آر او کے اس قدم پر بات کی، صحافی مان امن سنگھ نے کہا، سیکولرازم کا آخری گڑھ لڑکھڑا رہا ہے۔

دی انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے شمالی کمان کے سابق جی او سی لیفٹیننٹ جنرل ایچ ایس پناگ (ریٹائرڈ) نے کہا کہ اس ٹوئٹ کا دفاع کرنے میں ناکامی اور پھر تنقید کی وجہ سے اسے ہٹانا  ‘بزدلی’ تھی۔

انہوں نے کہا، متعلقہ پی آر او اور فوج میں رمضان کے دوران  افطار کے انعقاد کی روایت کے تحفظ کی ہمت ہونی چاہیے تھی۔ اس میں کچھ بھی  غلط نہیں ہے۔ یہ مقامی آبادی کے دل و دماغ کو جیتنے کی فوج کی پالیسی کا حصہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ،ہم مقامی آبادی کے لیے آرمی گڈ ول اسکول بھی چلاتے ہیں اور یہ تمام اقدامات مقامی آبادی کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے ہیں، کیونکہ ہم غیر ملکی اسپانسرڈ دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہیں اور مقامی لوگ ان کوششوں کو سراہتے ہیں۔ بہرحال جموں و کشمیر میں افطار کا اہتمام کوئی نئی بات نہیں ہے اور یہ کئی سالوں سے رائج ہے۔

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، اس واقعے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مغربی کمان کے سابق جنرل آفیسر کمانڈنگ ان چیف، لیفٹیننٹ جنرل تیج سپرو (ریٹائرڈ) نے ٹوئٹ کو ہٹانے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس نے نگروٹا کور کی کمان سنبھالی ہے، جس کے تحت ڈوڈا آتا ہے۔

انہوں نے کہا، ٹوئٹ میں کچھ بھی غلط نہیں تھا۔ اس کا بھرپور دفاع کیا جانا چاہیے تھا۔ فوج عسکریت پسندی سے متاثرہ علاقوں میں افطار کا اہتمام کرتی ہے کیونکہ مقامی آبادی تک پہنچنا دہشت گردوں سے لڑنے کا ایک لازمی حصہ ہے اور جموں و کشمیر کے اس حصے کے مسلمان آپ یا مجھ سے زیادہ ہندوستانی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا، فوج کسی دوسرے مذہب کے لیے بھی یہی کرے گی اگر اس علاقے میں کوئی تصاد م ہو رہا ہوتا اور جس سے وہ نمٹ رہی ہوتی ۔ درحقیقت ہم شمال مشرقی ریاستوں میں بھی عیسائی آبادی تک پہنچنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ اس کا مذہب یا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ خالصتاً لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر دہشت گردی سے لڑنے کاایک وسیلہ ہے۔

چوہانکے کی تنقید پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سابق آرمی میجر جنرل یش مور نے ٹوئٹ کیا، ہندوستانی فوج بین المذاہب ہم آہنگی میں سب سے آگے رہی ہے۔ ہم بطور افسر اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارا کوئی مذہب نہیں ہے۔ ہم اس فوج کے مذہب کو اپنالیتے ہیں جس کا حکم ہمیں دیا جاتا ہے۔

چوہانکے اپنی فرقہ وارانہ بیان بازی اور مسلم مخالف ہیٹ اسپیچ کے لیے بدنام ہیں۔ ابھی گزشتہ سال دسمبر میں ہندو یووا واہنی کی طرف سے منعقد ایک تقریب میں وہ اسی طرح کا تبصرہ کرنےکی وجہ سے ایک مفاد عامہ کی عرضی میں سماعت کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس وقت  انہوں نے ہندوؤں سے ہندوستان کو ہندو راشٹربنانے کے لیے لڑنے، مرنے اور  مارنے کی اپیل کی تھی۔

حال ہی میں چوہانکے نے دہلی کے براڑی میں منعقدہندو مہاپنچایت میں ‘مہمان خصوصی’ کے طور پر ایک بیان دیا تھا، جہاں پانچ صحافیوں (جن میں سے چار مسلمان تھے) پر حملہ کیا گیا تھا۔ واقعہ کے بعد دہلی پولیس کی طرف سے درج ایف آئی آر میں چوہانکے کا نام بھی تھا۔

اس ایف آئی آر میں متنازعہ شدت پسندہندوتوا لیڈر نرسنہانند اور مہاپنچایت کے منتظم پریت سنگھ کے نام بھی شامل ہیں۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔