شہریت قانون: یہ ہیں احتجاج اور مظاہرہ کے دوران ملک بھر میں مارے گئے 25 لوگ

متنازعہ شہریت قانون کے خلاف چل رہے مظاہرے میں اب تک ملک بھر میں 25 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ 18 لوگوں کی موت اکیلے اتر پردیش میں ہوئی ہے، جس میں ایک آٹھ سال کا بچہ بھی شامل ہے۔ وہیں،آسام میں پانچ لوگوں کی موت ہوئی ہے جبکہ منگلور میں دو لوگوں کی موت ہوئی ہے۔

متنازعہ شہریت قانون کے خلاف چل رہے مظاہرے میں اب تک ملک بھر میں 25 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ 18 لوگوں کی موت اکیلے اتر پردیش میں  ہوئی ہے، جس میں ایک آٹھ سال کا بچہ بھی شامل ہے۔ وہیں،آسام  میں پانچ لوگوں کی موت ہوئی ہے جبکہ منگلور میں دو لوگوں کی موت ہوئی ہے۔

Kanpur: A vehicle torched allegedly by protestors during a demonstration against the Citizenship Amendment Act (CAA), in Kanpur, Saturday, Dec.21, 2019. (PTI Photo)

Kanpur: A vehicle torched allegedly by protestors during a demonstration against the Citizenship Amendment Act (CAA), in Kanpur, Saturday, Dec.21, 2019. (PTI Photo)

نئی  دہلی: متنازعہ شہریت قانون کے خلاف چل رہے مظاہرے میں اب تک ملک بھر میں 25 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، 18 لوگوں کی موت اکیلے اتر پردیش میں ہوئی ہے جس میں ایک آٹھ سال کا بچہ بھی شامل ہے۔ وہیں،آسام میں پانچ لوگوں کی موت ہوئی ہے جبکہ منگلور میں دو لوگوں کی موت ہوئی ہے۔

آسام :

سیم اسٹیفرڈ

12 دسمبر کوپھالگنی رابھاہائی سکول کے 17سالہ اسٹوڈنٹ سین اسٹیفرڈ کی پولیس گولی باری میں موت ہو گئی تھی۔ان  کے ایک رشتہ دار پنکج ہزاریکا نے کہا،اسٹیفرڈ، ان کے رشتےدار اور دوست لتاسیل فیلڈگئے تھے، جہاں پر کرفیو کے باوجود آل آسام ا سٹوڈنٹ یونین نے مظاہرہ کی اپیل کی تھی۔ وہ اپنے پسندیدہ سنگیت کار اور آئیڈیل زبین گرگ کو دیکھنے گئے تھے اور وہاں وہ  صرف نعرے لگا رہے تھے۔ اسی دوران اسٹریٹ لائٹس بند کر دی گئی اور پولیس نے گولی باری شروع کر دی۔

اپنے گھر کے باہر گولی باری ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ہزاریکا نے دعویٰ کیا کہ سکیورٹی فورسز نے آنسو گیس یا ربر بلیٹ کا استعمال نہیں کیا۔ انہوں نے کوئی وارننگ  بھی نہیں دی۔ایک دوسرے رشتہ دار نے کہا، سرکار نے اس کی موت پر افسوس کا اظہار بھی نہیں کیا۔ ہم ابھی بھی انتظار کر رہے ہیں۔ شٹل بس چلانے والے سیم کے والدبیجو اور ان کی ماں ممونی صدمے میں ہیں۔

 دیپانجل داس

12 دسمبر کو راج گڑھ روڈ واقع  آرمی بلڈنگ  کی کینٹین میں کام کرنے والے ایک 19سالہ  مقامی ملازم  دیپانجل داس کی پولیس گولی باری میں موت ہو گئی تھی۔ کامروپ(دیہی) ضلع کے چائےگاؤں کے باشندہ داس بھی لتاسیل کے ہی مظاہرے میں گئے تھے۔ مظاہرہ سے واپس لوٹنے کے دوران وہ  لچت ناہر میں ہو رہے ایک مظاہرہ میں شامل ہو گئے، جہاں مظاہرہ  کے پر تشددہونے پر پولیس نے گولی چلا دی۔ ان کے پیٹ میں گولی لگی جس کے بعد انہیں گوہاٹی میڈیکل کالج اورہاسپٹل لے جایا گیا جہاں ان کی موت ہو گئی۔

 دیپانجل کے دوست سچن داس نے کہا کہ وہ مالی اعتبارسے کمزور گھر سے آتا تھا اور آرمی بلڈنگ میں ویٹر کے طور پر کام کرتا تھا۔

ایشورنایک

14 دسمبر کو پولیس گولی باری میں آسام  میں 25 سالہ ایشور نایک کی موت ہو گئی تھی۔ ہزاروں دوسرے مظاہرین کی طرح وہ بھی لتاسیل سے لوٹ رہے تھے۔شام 6 بجے کے آس پاس وہ اپنے روم میٹ بورو کے ساتھ اپنے کرایہ کے کمرے کے پاس تھے۔ دونوں ایف بی بی کے اسٹور میں کام کرتے تھے۔ بورو نے کہا، ہم کچھ سبزی خریدناچاہتے تھے اور اے ٹی ایم بھی جانا چاہتے تھے۔

نایک  نے اچانک ڈاؤن ٹاؤن ہاسپٹل کے سامنے ایک مظاہرہ ہوتے دیکھا۔ ان کے پیچھے پولیس آئی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اس کے سینے میں گولی لگی ہے لیکن پہلے تو مجھے یقین نہیں ہوا کیونکہ وہ ایک مذاقیہ  انسان تھا لیکن پھر میں نے خون دیکھا۔ گوہاٹی میڈیکل ہاسپٹل میں اس کی موت ہو گئی۔

 عبدالعالم

15 دسمبر کو آسام  میں پولیس گولی باری میں 23 سالہ عبدالعالم کی موت ہو گئی۔ آسام کے بارپیٹا ضلع کے رہنے والے عالم کی موت گوہاٹی میڈیکل ہاسپٹل میں ہو گئی۔ بنگالی نژاد مسلمان عالم کچھ دن کے لیے گوہاٹی آیا تھا۔عالم کے چچامظفر علی نے کہا کہ اس نے کچھ سال پہلے بارہویں پاس کی تھی۔ دو مہینے پہلے اس کی شادی ہوئی تھی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس کی بیوی  پر کیا گزر رہی ہوگی۔

ایک  دکان چلانے والےعالم کے دوست رمضان علی نے کہا، جمعرات کو لتاسیل میں بڑی تعدادمیں لوگوں کی بھیڑ جمع ہو نے کے باوجود مظاہرین لوکھرا علاقے میں اکٹھےہوئے۔ وہاں انہوں نے ٹائرجلاکرنعرے لگائے۔ پولیس کے پہنچنے کے بعد وہاں  جھڑپ  ہوا۔

عزیزالحق

ٹینکر ڈرائیورعزیزالحق ایک پٹرول پمپ پر کام کرتے تھے۔ گولاگھاٹ ضلع میں جب وہ اپنا ٹینکر لےکر جا رہے تھے، تب دو تین پہیوں والی گاڑیوں  میں آئے چھ لوگوں نے پٹرول بم پھینک دیا۔اس  حادثے میں عزیزالحق  بری طرح زخمی  ہو گئے اور گوہاٹی کے ایک ہاسپٹل میں دم توڑ دیا۔

کرناٹک:

جلیل کدرولی

مچھلی بازار میں کام کرنے والے ایک 49 سالہ جلیل کدرولی کی موت19 دسمبر کو آنکھ میں گولی لگنے سے ہوئی جس کی تصدیق  ہائی لینڈہاسپٹل نے کی ہے۔جلیل  کے دوستوں اور رشتہ داروں  کے مطابق، وہ  اپنے بچوں 14سالہ شفانی اور 10 سالہ سبیل کے گھر لوٹنے کا انتظار کر رہے تھے اور مظاہرہ  کا حصہ نہیں تھے۔ حالانکہ، پولیس کا دعویٰ ہے کہ جلیل پر تشدد مظاہرے کا حصہ تھے۔

نوشین  بینگر

ویلڈنگ کا کام کرنے والے نوشین بینگر کی موت بھی 19 دسمبر کے مظاہرہ  کے دوران ہوئی تھی۔ نوشین کے گھر میں ان کے والدین  کے ساتھ دو بھائی نوفل اور نوشاد ہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ نوشین پر تشدد مظاہرے  کا حصہ تھے۔

اتر پردیش:

محمد وکیل

19 دسمبر کو لکھنؤ میں مظاہرہ کے دوران دولت گنج باشندہ  آٹوڈرائیور33سالہ محمد وکیل کی پولیس کی گولی سے موت ہو گئی تھی۔پوسٹ مارٹم  کی رپورٹ کے مطابق، .32 بور کے اسلحہ  سے محمد وکیل کو سٹاکر گولی ماری گئی تھی۔ گولی اس کی کمر کے اوپر داہنی طرف کڈنی کے پاس سے ہوتے ہوئے ریڑھ کی ہڈی میں پھنس گئی تھی۔

وکیل کے بھائی توفیق کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی کو بھیڑ کو دوڑاتے وقت پولیس نے گولی ماری۔ اہل خانہ  نے بتایا کہ اس وقت محمد وکیل کام ختم کرکے گھر لوٹ رہا تھا۔

محمد راشد

فیروزآباد میں تھانہ رام گڑھ کے 24 سالہ محمد راشد ابن  کلو کی لاش شام سات بجے نیمی گلاس تکیہ کے پاس ملی  تھی۔ کلو نے بتایا کہ راشد جمعہ کی صبح کو  کارخانے میں کام کرنے کی بات کہہ کر گھر سے نکلا تھا۔ سات بجے گھروالوں  کو اطلاع ملی کہ راشد کی لاش نیمی گلاس کے پاس پڑی  ہوئی ہے۔ کلو کا کہنا ہے کہ راشد کے سر سے خون بہہ رہا تھا اور سر میں پیچھے کی طرف چوٹ تھی۔ لوگوں نے اس کو بتایا کہ تشدد کے دوران ہائی وے پر بھگدڑ مچی تھی اور اسی دوران راشد کی موت ہو گئی۔فیروزآباد  کے ایس پی سچندرا پٹیل نے کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے تصدیق ہو گئی کہ راشد کی موت گولی لگنے سے زخمی  ہونے کے بعد ہوئی۔

نبی جہاں

فیروزآباد میں ہی 24 سالہ نبی جہاں کی موت بھی نال بند علاقے میں مظاہرہ  کے دوران گولی لگنے سے ہوئی۔

محمد صغیر

وارانسی میں20 دسمبر کو مظاہرہ  کے دوران پولیس کی لاٹھی چارج کے بعد مچی بھگدڑ میں دبنے سے آٹھ سال کے محمدصغیر  کی موت ہو گئی۔ اس کے والد محمد وکیل نے کہا کہ صغیر اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔اس  دوران پولیس کی لاٹھی چارج سے خود کو بچانے کے لیے ایک بھیڑ آئی۔ اس کو بچانے کی کوشش کرنے والا 15 سالہ محمد تنویربی ایچ یو میں آئی سی یو میں بھرتی ہے۔ وکیل کا کہنا ہے کہ پرامن مظاہرے  پر پولیس کے  لاٹھی چارج کی وجہ سےمیرے بیٹے کی موت ہوئی۔

فیض خان

رام پور میں 24 سالہ فیض  کے بھائی فراز خان نے کہا، ‘اس کے پیٹ میں گولی لگی تھی۔ وہاں درجن بھر سے زیادہ جشم دید تھے اور پولیس جانتی ہے کہ سامنے سے کون گولی مار سکتا ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ ملنے کے بعد ہم جان جا ئیں گے کہ اس کی پولیس کی فائرنگ میں موت ہوئی یا نہیں۔’رام پور کے ضلع مجسٹریٹ آنجنےکمار سنگھ نے آٹوپسی رپورٹ کا حوالہ دےکر کہا کہ کی موت گولی لگنے سے ہوئی۔

میرٹھ :

ایس  ایس پی اکھیلیش نارائن سنگھ نے کہا کہ 20 دسمبر کوپر تشدد مظاہرے کے دوران گولی لگنے سے 33 سالہ ظہیر ، 28 سالہ محسن، 20 سالہ آصف اور 20 سالہ عارف کی موت ہوئی۔

بجنور:

ایس پی  سنجیو تیاگی نے کہا کہ وہاں ناہتور علاقے میں جھڑپ کے دوران گولی لگنے سے 21 سالہ انس اور 35 سالہ سلیمان کی موت ہوئی۔

کانپور:

سرکل آفیسر منوج کمار گپتا نے تصدیق  کی کہ گولی لگنے سے 22 سالہ آفتاب عالم اور 25 سالہ محمد سیف کی موت ہوئی۔ آفتاب کے رشتہ دار محمد رضوان کا کہنا ہے، ‘آفتاب نے بتایا تھا کہ پولیس نے اس کو گولی ماری۔’سیف کے بھائی محمدذکی نے کہا، ‘چشم دیدوں  نے بتایاکہ میرے بھائی کو پولیس نے گولی ماری۔’