کشمیر میں لگی پابندی پر عرضی داخل کرنے والوں کی جانب سے پیش ایک وکیل نے جب کہا کہ ہردن ہو رہے احتجاجی مظاہروں کے باوجود ہانگ کانگ ہائی کورٹ نے مظاہرین پر سے سرکاری پابندی ہٹا لینے کی مثال دی ۔ اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کو بنائے رکھنے میں ہندوستان کا سپریم کورٹ کہیں زیادہ بہترہے۔
نئی دہلی : سپریم کورٹ نے جموں وکشمیر انتظامیہ کو کہا کہ آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد ریاست میں عائد پابندیوں سے متعلق ایک ایک سوال کا جواب دینا ہوگا۔جسٹس این وی رمن کی قیادت والی بنچ نے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ سے کہا کہ ریاست میں عائد پابندیوں سے متعلق ایک ایک سوال کا جواب آپ کو دینا ہوگا۔قابل ذکر ہے کہ جموں کشمیر سے آرٹیکل370 ہٹائے جانے کے بعد وہاں لگی پابندیوں سے متعلق ایک معاملے کی شنوائی سپریم کورٹ میں چل رہی ہے۔ جموں وکشمیر میں لگی پابندیوں سے متعلق اس معاملے پرشنوائی کے دوران عدالت نے جمعرات کو ریاستی انتظامیہ سے کہا کہ ‘انہیں ہر سوال کا جواب دینا ہوگا۔’
شنوائی کے دوران جسٹس این وی رمن کی قیادت والی بنچ میں شامل جسٹس آر سبھاش ریڈی اور بی آرگوی نے کہا کہ عرضی گزاروں نے وہاں لگی پابندیوں کو چیلنج کیا ہے اس لئے تمام سوالوں کے جواب آپ کو دینے ہوں گے۔ عدالت نے کہا کہ ‘مسٹر مہتہ، جو سوال عرضی گزاروں نے اٹھائے ہیں ان سبھی سوالوں کا آپ کو تفصیلی جواب دینا ہوگا۔ آپ کے ایفیڈیوٹ سے ہم کسی بھی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ اس طرح کا تاثر مت دیجیے کہ آپ اس مقدمہ پر زیادہ دھیان نہیں دے رہے ہیں۔’
اس کے بعد سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے شنوائی کے دوران کہا کہ عرضی گزاروں کی جانب سے پابندیوں کے بارے میں دیے گئے زیادہ تر دلائل غلط ہیں۔ انہوں نے کہا،جب کورٹ میں وہ دلیل دیں گے، اس وقت وہ ہر پہلو پر جواب دیں گے۔ سالیسٹر جنرل نے کہا کہ ان کے پاس اسٹیٹس رپورٹ ہے لیکن انہوں نے یہ عدالت میں داخل نہیں کیا ہے کیونکہ ریاست میں حالات روز بدل رہے ہیں۔ جب وہ دلیلیں دیں گے، تب صحیح اسٹیٹس رپورٹ پیش کریں گے۔
جسٹس این وی رمن کی قیادت والی بنچ نے انتظامیہ کی جانب سے عدالت میں پیش سالیسٹر جنرل سے صاف کہا ہے کہ پابندیوں کو چیلنج دینے والی عرضیوں میں بڑے پیمانے پر دلائل دیے گئے ہیں اور انہیں سبھی سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔
بنچ نےواضح کیا کہ ایک عرضی کو چھوڑکر کسی میں بھی حراست کے معاملے اس کے پاس التوانہیں ہیں۔ کورٹ نے کہا کہ ہم جموں کشمیر سے متعلق حراست کا کوئی معاملہ نہیں سن رہے ہیں۔ ہم اس وقت انورادھا بھسین اور غلام نبی آزادکی جانب سے دائر کی گئی دو عرضیوں پرشنوائی کر رہے ہیں۔ یہ عرضیاں آنے جانے اور پریس کی آزادی پر پابندیوں کے بارےمیں ہیں۔ صرف ایک عرضی حراست کے بارے میں ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، کچھ دوسرے عرضی گزاروں کی جانب سے پیش ہوئیں سینئروکیل میناکشی اروڑہ نے چہرےپر ماسک پہننے والے مظاہرین پر سرکار کے ذریعے لگائی گئی پابندی کو ہٹانے کے ہانگ کانگ ہائی کورٹ کے حکم کاذکر کیا۔ انہوں نے کہا، ‘ہم نے کشمیر میں جتنی دیکھی، ہانگ کانگ کی حالت اس سے کہیں زیادہ خراب تھی۔ وہاں روز احتجاجی مظاہرےہو رہے تھے۔’اس پر جسٹس رمن نے کہا، ‘شہریوں کے بنیادی حقوق کو بنائے رکھنے میں ہندوستان کاسپریم کورٹ کہیں زیادہ بہتر ہے۔’
اس کے بعد، جسٹس گوی نے اروڑہ سے پوچھا کہ کیا ہانگ کانگ نے سرحد پار دہشت گردی کے مدعے کا سامنا کیا ہے۔ اس پر اروڑہ نے کہا ‘اگر یہ حقیقت میں سرحد پار دہشت گردی کا مدعا ہوتا، تو پابندی صرف چنندہ علاقوں میں ہوتی پوری ریاست میں نہیں ۔’وہیں، مہتہ نے کہا کہ جموں کشمیر کے لوگوں سے حقوق نہیں چھینے گئے، بلکہ 70 سال میں پہلی بار دیے گئے۔
انہوں نے کہا، ‘تعلیم کے حقوق سے متعلق ایکٹ جموں کشمیر پر نافذ نہیں تھا۔ لیکن کوئی بھی عوامی نمائندہ عدالت میں نہیں آیا اور کہا کہ ہمارے بچے پڑھائی نہیں کر سکتے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر پابندی کی وجہ سے بولنے اور اظہار رائے کی آزادی پرپابندی ہے۔’انہوں نے آگے کہا، ‘5 اگست کو بھی سات اضلاع میں موبائل پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ جن مقامات پر نظم و نسق کا مسئلہ نہیں تھا ان جگہوں پر 917 اسکول 5 اگست کو بند نہیں ہوئے تھے۔ یہ دکھاتا ہے کہ حکام نے حالات کے مطابق کام کیا۔’
بدھ کووزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ گھاٹی میں حالات بالکل نارمل ہیں۔ انہوں نے پولیس کی گولی سے ایک بھی فرد کی جان نہیں جانے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔انہوں نے راجیہ سبھا کو بتایا تھا کہ رات کے 8 بجے سے صبح کے 6 بجے کے بیچ چھوڑکر جموں کشمیر کے 195 پولیس اسٹیشنوں میں سے کسی میں بھی دفعہ 144 نافذ نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اسکولوں میں حاضری 98 فیصدی ہے اور جموں کشمیر انتظامیہ کے مطمئن ہونے پر ہی انٹرنیٹ خدمات کوشروع کیا جائےگا۔
وہیں،مرکزی وزیر جی کشن ریڈی نے راجیہ سبھا میں بتایا تھا کہ 4 اگست سے کشمیر گھاٹی میں رہنماؤں ، علیحدگی پسندوں اور پتھربازوں سمیت 5161 لوگوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ اس میں سے 218 پتھربازوں کے ساتھ 609 لوگوں کو فی الحال حراست میں رکھا گیا ہے۔
(خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے ان پٹ کے ساتھ)