بی جے پی لیڈر اننت کمار ہیگڑے اور جیوتی مردھا کے بعد اب فیض آباد سے بی جے پی کے موجودہ ایم پی للو سنگھ نے کہا ہے کہ پارٹی 2024 کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ آئین میں ترمیم کرسکے۔
فیض آباد سے بی جے پی ایم پی للو سنگھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)
نئی دہلی: اتر پردیش کے فیض آباد سے بی جے پی کے موجودہ ایم پی للو سنگھ، جو پھر سے اسی سیٹ سےالیکشن لڑ رہے ہیں، نے پارٹی کے دیگر لیڈروں کی طرح کہا ہے کہ ان کی پارٹی 2024 کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہےتاکہ وہ آئین میں ترمیم کر سکے۔ گزشتہ دو ماہ میں یہ بات کہنے والے وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے تیسرے رہنما ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، سنگھ نے مبینہ طور پر 13 اپریل کو ملکی پور اسمبلی حلقہ میں ایک جلسہ عام میں یہ تبصرے کیے تھے اور یہ تبصرہ اب سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ پروگرام کے ایک ویڈیو میں سنگھ کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ایک پارٹی 272 لوک سبھا سیٹیں جیت کر حکومت بنا سکتی ہے، لیکن 272 سیٹوں کے ساتھ بننے والی حکومت آئین میں ترمیم نہیں کر سکتی۔
سنگھ کا مزید کہنا ہے کہ، ‘اس کے لیے یا یہاں تک کہ نیا آئین بنانا بھی پڑے تو دو تہائی سے زیادہ اکثریت کی ضرورت ہے۔’
فیض آباد لوک سبھا حلقہ میں ایودھیا اسمبلی حلقہ بھی شامل ہے۔ ایم پی بننے سے پہلے وہ ایودھیا سے پانچ بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔
دی پرنٹ کی رپورٹ کے مطابق، سنگھ نے بعد میں اپنے بیان کو ‘زبان کی پھسلن’ قرار دیتے ہوئے واپس لینے کی کوشش کی – لیکن ‘آئین میں ترمیم’ کی اپنی بات پر قائم رہے۔
انہوں نے کہا، ‘میں آر ایس ایس کا کارکن رہا ہوں اور مجھے ملک کی بھلائی کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرنے کی عادت ہے۔ میں صرف یہ کہہ رہا تھا کہ اپنے ملک کو عظیم بنانے کے لیے ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ پی ایم مودی دوبارہ اقتدار میں آئیں اور ہمیں ایک آئینی ترمیم کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے جس کے لیے ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہمیں دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل ہو۔’
اسی دوران میرٹھ لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی امیدوار ارون گوول نے بھی آئین میں ترمیم کی بات کہی۔
گوول نے کہا، ‘جب ہمارے ملک کا آئین بنایا گیا تو اس میں حالات کے مطابق آہستہ آہستہ تبدیلی آتی گئی۔ تبدیلی ترقی کی علامت ہے، اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ تب حالات مختلف تھے، آج کے حالات مختلف ہیں۔ آئین کسی ایک شخص کی مرضی سے نہیں بدلتا، یہ تب بدلتا ہے جب اتفاق رائے ہو، ایسا کچھ ہوا تو کیا جائے گا۔’
اس سے پہلے بی جے پی لیڈران اننت کمار ہیگڑے اور جیوتی مردھا نے آئین میں ترمیم کی بات کہی تھی۔
حالیہ بیانات پر حزب اختلاف کے رہنماؤں نے ایک بار پھر کہا کہ نریندر مودی کی قیادت والی پارٹی ہندوستانیوں کے حقوق کو کم کرنے کے اپنے منصوبے کی تصدیق کر رہی ہے – خاص طور پر پسماندہ لوگوں کے۔
سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے ایکس پر کہا، ‘بی جے پی نیا آئین بنا کر پسماندہ طبقات، دلتوں اور اقلیتوں کو دیے گئے ریزرویشن کو ختم کرنا چاہتی ہے… بی جے پی جیتنا چاہتی ہے، عوام کی خدمت یا اس کی فلاح و بہبود کے لیے نہیں، بلکہ یہ بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کے بنائے ہوئے آئین کو بدل سکے۔’
ایک اور
پوسٹ میں اکھلیش یادو نے ارون گوول کا ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا، ‘دراصل بی جے پی آئین کو الٹ کر غریبوں، محروموں،کسانوں، نوجوانوں اور خواتین کے حقوق اور ریزرویشن کو تباہ کر رہی ہے اور سرمایہ داروں کے حق میں پالیسیاں بنا کر وہ تمام منافع اپنے خیمے میں چند منتخب ارب پتیوں کو دینا چاہتی ہے۔ جو انتخابی چندوں کے نام پر اپنے بے پناہ منافع کا ایک حصہ بی جے پی کو دیتے ہیں۔ صحیح معنوں میں یہ عوام سے وصولی کا طریقہ ہے کیونکہ کوئی بھی سرمایہ دار اپنی جیب سے نہیں دیتا، وہ عوام سے ہی وصول کر بی جے پی اور ان کی ذاتی تجوریاں بھرتا ہے۔’
وہیں، کانگریس نے اتوار کو کہا کہ بی جے پی امیدواروں کی انتخابی مہم صاف طور پر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکر کے تیار کردہ آئین کو مرکز میں حکمراں جماعت کی جانب سے وجودی خطرہ لاحق ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، کانگریس کے ترجمان جئے رام رمیش نے کہا، ‘آج بابا صاحب امبیڈکر کی جینتی ہے۔ بی جے پی واضح طور پر ان کے بنائے ہوئے آئین کو تباہ کرنے کی سازش کر رہی ہے۔ لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے پی ایم خود اسٹیج سے کچھ اور کہتے ہیں اور اپنے لیڈروں سے کچھ اور کہنے کے لیے کہتے ہیں۔ مقصد صاف ہے- اگر اس بار اسے موقع ملا تو سب سے بڑا خطرہ بابا صاحب کے آئین کو ہو گا۔’
کانگریس لیڈر پون کھیڑا نے کہا، ‘آج امبیڈکر جینتی ہے اور بی جے پی نے اپنا مقصد واضح کر دیا ہے۔ انہوں نے آئین کو تبدیل کرنے کے آر ایس ایس-بی جے پی کے ارادے کو بے نقاب کیا ہے۔ جس نے بھی یہ کہا ہے، یہ آر ایس ایس اور مودی کے مقصد کی نمائندگی کرتا ہے۔ انہوں نے شروع سے ہی امبیڈکر کے آئین کی مخالفت کی ہے اور یہ بے بنیاد الزام نہیں ہے کہ آر ایس ایس نے آئین کے اجرا کے وقت اس کی کاپیاں جلائی تھیں۔’