وزیر اعلیٰ وائی ایس جگن موہن ریڈی نے سی جےآئی ایس اے بوبڈے کو لکھے خط میں سپریم کورٹ کے جسٹس این وی رمنا پر بدعنوانی اور ٹی ڈی پی رہنما چندر بابو نائیڈو کی جانب سے ان کی سرکار گرانے کی سازش کےالزام لگائے ہیں۔ جگن کا یہ بھی الزام ہے کہ جسٹس رمنا ریاست کی عدلیہ کو متاثر کر رہے ہیں۔
جگن ریڈی، جسٹس این وی رمنا اور این چندر بابو نائیڈو۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
آنداھر پردیش کے وزیر اعلیٰ وائی ایس جگن موہن ریڈی کے عدلیہ کے ساتھ
جاری تصادم نےسنیچر کو اس وقت ڈرامائی رخ اختیار کرلیا جب جگن نے ہندوستان کے چیف جسٹس(سی جےآئی)ایس اے بوبڈے کو خط لکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس این وی رمنا (اگلے سی جےآئی بننے کی ترتیب میں پہلے)سمیت آندھر پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سمیت کچھ دیگر ججوں پرسنگین الزام لگائے۔
ایسا شاید ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک وزیر اعلیٰ نے رسمی طور پر عدلیہ کے ایک ممبر پرسیاسی جانبداری اور بدعنوانی کےالزام لگائے ہیں۔یہ قدم جگن ریڈی کے 6 اکتوبر کو نئی دہلی میں
وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ سے ملاقات کے بعد اٹھایا گیا ہے۔
گزشتہ10اکتوبر کو ہوئی پریس کانفرنس کے بعد وزیر اعلیٰ کے چیف صلاح کار اجئے کلم نے 6 اکتوبر 2020 کو لکھے گئے اس خط کی کاپیاں تقسیم کیں اور ساتھ ہی ایک نوٹ پڑھ کر سنایا، جس میں وزیر اعلیٰ نے الزام لگایا تھا کہ جسٹس رمنا نے ریاست کی پچھلی چندر بابو نائیڈوتیلگودیشم پارٹی(ٹی ڈی پی)سرکار میں اپنے اثرورسوخ کا استعمال اپنی بیٹیوں کے حق میں کیا۔
چونکہ یہی الزام پچھلے مہینے امراوتی میں ایک زمینی تنازعہ کے معاملے میں درج ایف آئی آر میں تھے، جس کے بارے میں میڈیا رپورٹنگ کو لےکرآندھرا ہائی کورٹ کے
ذریعے پابندی لگا دی گئی تھی، اس لیے دی وائر ان کے بارے میں کوئی تفصیلی جانکاری نہیں دے سکتا۔
ایک دیگر آرڈر میں ہائی کورٹ نے جگن موہن ریڈی سرکار کی ایک کابینہ سب کمیٹی کے ذریعے پچھلی ٹی ڈی پی سرکار کی مختلف گڑبڑیوں کو لےکر پیش کی گئی ایک رپورٹ کو روک دیا تھا۔کلم کے مطابق جگن ریڈی نے یہ بھی کہا کہ جسٹس رمنا نے ریاست کی عدالتوں میں تقرریوں کو متاثر کرنے میں اہم رول نبھایا ہے، جو جگن کےمطابق بدعنوانی کے کئی الزامات کا سامنا کر رہے ٹی ڈی پی رہنماؤں کےحق میں فیصلہ لینے کے لیے کیے گئے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی سرکار نے ایک جانچ کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ نائیڈو اور ان کی پارٹی سے وابستہ کئی دیگر لوگوں نے ‘غیرقانونی طریقوں’ سے ‘بڑی ملکیت’ حاصل کی تھی۔کلم نے جگن کی بات دوہراتے ہوئے کہا کہ جسٹس رمنا اور ان کے ساتھی مبینہ طور پرجگن کی سرکار کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ سپریم کورٹ جج رمنا کے ٹی ڈی پی رہنما نائیڈو سے نزدیکی رشتے ہیں۔ جگن نے اپنے نوٹ میں جسٹس رمنا کی نائیڈو سے نزدیکی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے، ‘میں بےحد ذمہ داری کے ساتھ یہ بیان دے رہا ہوں۔ میں آپ کے دھیان میں لانا چاہتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے ایک سابق جج جسٹس چیلمیشور نے اس بات کو شواہد کے ساتھ ریکارڈ پر رکھا تھا۔’
جس ثبوت کے بارے میں جگن کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ 2017 میں اس وقت سی جے آئی کو لکھے ایک خط میں جسٹس رمنا نےآندھرا پردیش ہائی کورٹ کے لیے
جن ججوں کی افادیت کے بارے میں لکھا تھا، وہ نائیڈکے ذریعے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے اس بارے میں دی گئی رائے سے ملتی جلتی تھی۔
کلم، جو نائیڈو سرکار میں چیف سکریٹری تھے،انہوں نے صحافیوں سے کہا، ‘سرکار نے یہ یقینی بنانے کے لیے کہ ریاست کے تمام اداروں کاوقاربنا رہے، اس بارے میں بولنامناسب سمجھا۔’وزیر اعلیٰ کا یہ بیان پڑھنے کے بعد کلم نے میڈیا سے کوئی سوال لیے بنا ہی اس کانفرنس کو ختم کر دیا۔ شروع میں ایسا بتایا گیا تھا کہ وزیر اعلیٰ بات کریں گے، لیکن آخری وقت میں یہ ذمہ داری کلم کو سونپی گئی۔
سی جےآئی کو لکھے خط میں جگن ریڈی نے مثال دےکر بتایا ہے کہ کیسے نائیڈو ریاست کی عدلیہ میں اپنے ‘ساتھیوں’ کی مدد سے جانچ اور کام کاج کو مبینہ طور پر بگاڑ رہے تھے۔جگن کے نوٹ میں یہ الزام بھی لگایا ہے کہ جسٹس رمنا نے سرکار کو ہائی کورٹ بار کے 11رکنی پینل سے چھ کو چننے میں مدد کی، جنہیں بعد میں جج کے طور پر پروموٹ کیا گیا۔
جگن کے نوٹ میں یہ لکھتے ہوئے کہ اس کے ساتھ جسٹس رمنا، ٹی ڈی پی اور ہائی کورٹ کے کچھ ججوں کے ‘نیکسس’ ثابت کرنے کے دستاویز منسلک ہیں، کہا گیا،‘مسٹرجسٹس این وی رمنا کے ذریعے ہائی کورٹ کی بنچ کو متاثر کرنے کے ساتھ ہی کچھ قابل احترام ججوں کے روسٹر کو بھی متاثرکیا گیا اور اس بات کی بھی مثال ہے کہ کس طرح ٹی ڈی پی کے لیے اہم مدعوں کو کچھ ججوں کو مختص کیا گیا… ‘
جگن ریڈی نے آگے کہا، ‘عدالت عظمیٰ کے موجودہ جج کے توسط سے مسٹراین چندر بابو نائیڈکے ذریعےذاتی طور پر کیےجا رہے ادارو ں کی سیاست پر افسوس کے ساتھ، حقائق یہ صاف دکھا رہے ہیں کہ ہائی کورٹ جیسے قابل احترام ادارے کو آندھرا پردیش کی جمہوری طریقےسے چنی گئی سرکار کوغیرمستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے… جہاں جسٹس رمنا کے ذریعے کی گئی مسٹر نائیڈو کی براہ راست اور بالواسطہ کارروائیوں کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔’
جگن ریڈی کی جانب سے جاری کیے گئے میڈیا نوٹ میں کچھ دیگر الزام بھی لگائے گئے:
‘جب سے نئی سرکار نے نائیڈو کے 2014-2019 کی مدت کار میں کیے گئے اقدامات کے بارے میں انکوائری شروع کی،یہ صاف ہے کہ جسٹس رمنا نے چیف جسٹس جتیندر کمار ماہیشوری کے توسط سے ریاست کی عدلیہ کو متاثر کرنا شروع کر دیا۔’
‘قابل احترام ججوں کا روسٹر، جہاں چندر بابو نائیڈو کے مفاد سے وابستہ پالیسی اور سلامتی کے اہم معاملے پیش کیے جانے تھے،وہ کچھ ہی ججوں کو ملے جسٹس اےوی شیشا سئی، جسٹس ایم ستیہ نارائن مورتی، جسٹس ڈی وی ایس یس سومیا جلو اور جسٹس ڈی رمیش۔
ہائی کورٹ نے گزشتہ18مہینوں میں جگن موہن ریڈی سرکار کے کئی اہم فیصلوں کی ان دیکھی کرتے ہوئے
لگ بھگ 100 آرڈر پاس کیےہیں۔جن فیصلوں کو ہائی کورٹ کی جانب سے روکا گیا ہے ان میں امراوتی سے راجدھانی کےٹرانسفر کے ذریعے سے انتظامیہ کا ڈی سینٹرلائزیشن،آندھر اپردیش کونسل کو ختم کرنے اور آندھر اپردیش ریاستی الیکشن کمیشن کے کمشنر این رمیش کمار کو عہدے سے ہٹانے کے فیصلے شامل ہیں۔
جگن ریڈی کے میڈیا نوٹ میں آگے کہا گیا،‘سرکار نے ندی کی ایکولوجی کو محفوظ کرنے کے لیے اس کی سطح میں ہوئے تجاوزات کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن عدالت کے ذریعے اس کو روک دیا گیا۔’
جگن کے خلاف مقدمے
اپوزیشن ٹی ڈی پی کا کہنا ہے کہ جگن موہن ریڈی،جنہوں نے 30 مئی، 2019 کو وزیر اعلیٰ کاعہدہ سنبھالا تھا، ان کے اپنے کیس کی جلد ہونے والی آخری شنوائی کے مد نظر عدلیہ کےسربراہ کو نشانے پر لے رہے ہیں۔ایک ٹی وی بحث کے دوران ٹی ڈی پی کے اسٹیٹ پلاننگ بورڈ کے سابق نائب صدر سی کٹمبھا نے کہا کہ ریڈی اپنے ‘گناہوں’کے لیےاپوزیشن اور عدلیہ کو الزام دےکر شہید بن کر دکھانا چاہتے ہیں۔
ٹی ڈی پی نے کہا کہ وائی ایس آر کانگریس چیف سی بی آئی اور ای ڈی کی خصوصی عدالتوں میں زیر التوا مقدموں میں اپنی ممکنہ گرفتاری سے بچنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
پارٹی نے یہ بھی الزام لگایا کہ اس کارروائی میں ریڈی جسٹس رمنا کے سی جےآئی بننے کے امکانات کو بگاڑنے کے لیے انہیں اور ان کے اہل خانہ کو امراوتی کے ‘تصوراتی’زمین گھوٹالوں میں گھسیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے ذریعےہائی کورٹس کے چیف جسٹسوں کو موجودہ اورسابق ایم پی کے خلاف زیر التوا4000 مجرمانہ معاملوں میں فیصلہ دینے کے آرڈر کے مد نظر تلنگانہ ہائی کورٹ نے سی بی آئی کی خصوصی عدالت کو جگن کے خلاف غیر متناسب اثاثےکے معاملے کو جلد سے جلد پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔
سی بی آئی اور ای ڈی کے ذریعےریڈی کو آمدنی سے زیادہ ملکیت اور منی لانڈرنگ سے متعلق معاملوں میں کلیدی ملزم بتایا گیا تھا۔سال 2012 میں سی بی آئی نے ریڈی کے خلاف ان کےآنجہانی والد وائی ایس راج شیکھر ریڈی، جو اس وقت غیرمنقسم آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ تھے، ان کے دفتر کا غلط استعمال کرکے 1 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی جائیداد کے حصول کا الزام لگایا تھا۔
ریڈی کو مئی 2012 میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ 16 مہینوں بعد ضمانت پر چھوٹے تھے۔ ضمانت پر رہتے ہوئے جگن نے 2014 اور 2019 کے عام انتخابات لڑے۔آندھرا پردیش کانگریس کمیٹی لیگل سیل کے ترجمان وی گرنادھم نے کہا کہ جس طرح جگن ریڈی سرکار عدالتوں اور عدلیہ سے ٹکراؤ کے لیے آگے بڑھ رہی ہے، وہ آندھرا پردیش کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا ہے۔
جگن ریڈی کی جانب سے سی جے آئی کو لکھے گئے مکمل خط کو یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
Andhra CM Jagan Mohan Reddy… by
The Wire
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)