آج جب ہمیں ایسے خطرات کا سامنا ہے جہاں ہم یقینی طور پر اپنی جمہوریت سے محروم ہو سکتے ہیں،تو یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم اس بات پر یقین کریں کہ ہم اس تباہی سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں۔
(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
یہ مضمون 15 اپریل 2022 کو براؤن یونیورسٹی میں سدھارتھ وردراجن کی طرف سے پیش کیا گیا او پی جندل ڈسٹنگوش لیکچر ہے، جس میں قدرے ترمیم کی گئی ہے تاکہ اس مکالمے میں شریک اسکالرز ایڈ لوس، پاؤلا چکرورتی اور سلیل ترپاٹھی کے ساتھ– ساتھ آشوتوش وارشنیہ کے تجویزکردہ نکات کو شامل کیا جاسکے۔ مصنف ان دانشوروں اور براؤن یونیورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ میں سامعین کے تبصروں، مشوروں اور سوالات کے لیے شکر گزار ہیں۔
ہندوستانی جمہوریت میں خامیاں ہمیشہ سے رہی ہیں اور یہاں کا میڈیا ان کو آئینہ دکھانے کا کام کرتا رہا ہے۔ لیکن آج میں نے جمہوریت اور میڈیا کے موضوع پر بات کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ ہم ان دونوں کی زندگی کے انتہائی خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔
بلاشبہ، آج جب ہم تمام ‘جمہوری ستونوں’ کی فیصلہ کن طور پر حالت زارکے شاہد ہیں، تو یہاں اس غفلت، بے حسی اور تخریبی رویے کو یاد کرنا مفید ہو گا جس نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا ہے۔ یہ بات بالکل صاف ہے کہ
ہم ایک دن میں اس صورتحال کو نہیں پہنچے اور جس صورتحال سے آج ہماری جمہوریہ دوچار ہے وہ نہ تو کسی ایک فرد یا پارٹی کی کارستانی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل کے مؤرخین جب کہیں گے کہ نئی دہلی ایک دن میں تباہ نہیں ہوئی تھی، تو وہ بالکل حق بہ جانب ہوں گے۔ لیکن ہمارے اندر اس بات کو تسلیم کرنے کی ایمانداری بھی ہونی چاہیے کہ ہندوستانی جمہوریت کے تانے بانے کو نریندر مودی، ان کی پارٹی اور ان کی حکومت نے اس بری طرح سے – اور جان بوجھ کر – نقصان پہنچایا کہ آج ہم ایک ایسے موڑ پر ہیں، جہاں سےنجات حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہو گاجتنا 1977 میں تھا۔
یہ وہ سال تھا جب ملک پر دو سال کی طویل ‘ایمرجنسی’ تھوپنے کے بعد انتخابات میں اندرا گاندھی کو اقتدار سے باہر کر دیا گیا۔
میں ایسا کیوں کہہ رہا ہوں؟ ایک تو یہ کہ آج کی غیر اعلانیہ ایمرجنسی کسی ایک لیڈر کی خواہش یا عدم تحفظ کی پیداوار نہیں ہے بلکہ ہندوتوا کے منصوبے پر 1925 سے عمل میں لائے جارہے منصوبے کا ایک اہم پڑاؤ یا سنگ میل ہے۔
لیکن چوں کہ یہ لیکچر میڈیا کے بارے میں بھی ہے تو اس امر پر غور کریں کہ 1977 تک اکثر میڈیا گھرانےمسز گاندھی کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں سے ناخوش تھے، یہاں تک کہ وہ گھرانے بھی خو ش نہیں تھے جو جھکنے کے لیے کہے جانے پر رینگنے کے لیے بدنام تھے۔ لیکن آج میڈیا کے ایک بڑے حصے نے نہ صرف اپنے آپ کو اقتدار کے ساتھ ملا لیا ہے بلکہ وہ ہر ممکن کرشش کر رہا ہے کہ جمہوریت کی جاری تباہی کو مزید تیزگام کیا جا سکے۔مسلمانوں کو فرقہ وارانہ طور پر نشانہ بنانا بھی اس عمل کا ایک لازمی حصہ ہے۔
میڈیا کا ایک اور بڑا حصہ اس کے لیے آمادہ نہیں ہےکہ وہ اپنی آزادی کا استعمال کرکے زمینی صورتحال کی خبر دے۔ ہندوستانی جمہوریت کو درپیش بحران میں میڈیا کی اس بے حسی کاغیر معمولی رول ہے۔
چونکہ ہم یہاں کروڑوں لوگوں کی قسمت کے بارے میں بات کر رہے ہیں، اس لیے ہمارے پاس افسردہ اور ملول ہونے کی تمام تر وجوہات ہیں کہ آگے کیا ہے۔ اس کے باوجود، جب ہم ایسے خطرات کا سامنا کررہے ہیں جہاں ہم یقینی طور پر اپنی جمہوریت ے محروم ہو سکتے ہیں، تو ہمارے لیے انتہائی ضروری کہ ہم یقین کریں کہ ہم اس تباہی سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں، اورہم اس میں صد گونہ کامیاب ہوں گے۔
اس لیے میں اپنے لیکچر میں اِس اداسی اور مایوسی سے کہیں آگے بڑھ کر امید کی اُن کرنوں کے بارے میں باتیں کروں گا جو ابھی تک جگمگا رہی ہیں۔
جمہوریت کسی عجائب گھر میں نمائش کے لیے رکھی جانے والی شے نہیں ہے، بلکہ ایک طرزِ حیات ہے، جس کے تحفظ، استحکام اور توسیع کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں یہ المیہ ہی ہے کہ نریندر مودی جمہوریت کا مقبرہ بنا رہے ہیں، اور یہ اسی عمارت میں ہوگا جہاں ابھی ہندوستان کی پارلیامنٹ موجود ہے۔
نہرو میموریل کو نظرانداز کرنے کے لیےہندوستان کے ثقافتی ورثہ کے تحفظ کے قوانین کو چیلنج کرتے ہوئے دہلی میں نو تعمیر شدہ اور بدصورت نظر آنے والے ‘وزرائے اعظم کے میوزیم’ کا پہلا ٹکٹ خریدنے کے بعد مسٹر مودی کو امید ہے کہ 2025 میں وہ اپنی ‘ہندوستانی جمہوریت کےمیوزیم’ کا افتتاح کریں گے۔
اسی سال ہندو بالادستی کا دعویٰ کرنے والی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی صد سالہ تقریب بھی ہے، جس کے ممبر وزیر اعظم اور ان کے کئی بڑے رہنما ہیں۔ یہ لوگ اپنی صد سالہ تقریب کو دیگر بڑی کامیابیوں کے ساتھ منانا چاہیں گے۔ اور ان کے حصول کے لیے کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔
کام جاری ہے
ریاستہائے متحدہ کے سکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن جب جولائی 2021 میں ہندوستان کے دورے پر آئے تو ان کے ہندوستانی ہم منصب کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ان سے پوچھا گیا تھا کہ وہ ‘انسانی حقوق کے معاملوں پر ہندوستانی حکومت کے پیچھے ہٹنے کو’ کس طرح دیکھتے ہیں۔
اس سوال کا تعلق براہ راست جموں اور کشمیر میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور جبر کے معاملوں سے تھا، جو ریاست کی خود مختاری اور ریاستی حیثیت کو چھیننے کے ساتھ شروع ہوا تھا، یہ ان لوگوں کے جبر کا بھی حوالہ تھا جو متنازعہ شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) اور نئے زرعی قوانین کے خلاف لڑ رہے تھے، یہ مسلمانوں اور عیسائیوں پر ہندوتوا تنظیموں کے حملے اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کا بھی حوالہ تھا – ملک بھر میں 50 سے زائد صحافیوں کو اپنی خبروں کے لیے
قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بلنکن اپنے جواب میں
انتہائی محتاط تھے اور بہت سنبھل کر بول رہے تھے۔ ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں اپنی رائے کو نرمی کے ساتھ پیش کرتے ہوئے انہوں نے اسے ‘جمہوریت کا بحرانی دور’ قرار دیا۔ ان کے مطابق یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا سامنا امریکہ بھی کر رہا ہے:
ہرجمہوریت، ہماری اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے، ہر جمہوریت ایک جاری و ساری عمل ہے… ہم نےان چیلنجز کو دیکھا ہے جن کا سامنا ہماری جمہوریت نے ماضی میں کیا ہے اور آج بھی کر رہی ہے۔ لیکن ایک لحاظ سے یہ تمام جمہوریتوں میں مشترک ہے۔ ہم … اپنے بانی دستاویز میں ایک کامل اتحاد کی تلاش کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہم کامل نہیں ہیں اور ہماری تمام تر جستجو ان نظریات کے زیادہ سے زیادہ قریب جانا ہے جو ہم نے اپنے لیے مرتب کیے ہیں… اور آخر کار، میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جمہوریتوں میں اپنی اصلاح کا ایک نظام ہے، جو (نظام) مختلف پس منظرسے ، مختلف عقائدوالے آزاد شہریوں سے، ایک آزاد میڈیا سے، آزاد عدالتوں سے مل کر بنا ہے اور جسے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات سے تقویت ملتی ہے۔
بلنکن کی ان باتوں پر ہندوستان کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے جواب دیا، اور میں یہاں ان کی بات کو من وعن نشان زد کروں گا کیونکہ یہ جمہوریت کے تئیں مودی حکومت کے رویے کو جدید سیاسی زبان میں واضح طور پر پیش کرتا ہے۔ ڈاکٹر جے شنکر نے کہا کہ انہوں نے مسٹر بلنکن کو اس معاملے پر تین باتیں کہی ہیں:
اول یہ کہ کامل اتحاد کی تلاش کا اطلاق ہندوستانی جمہوریت پر اتنا ہی ہوتا ہے جتنا امریکی جمہوریت پر – بلکہ تمام جمہوریتوں پر۔ دوسرے یہ کہ ہر طرح کی حکومت کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ جب بھی کوئی غلط بات ہوتو اس کی اصلاح کی جائے ، جس میں تاریخی غلطیاں بھی شامل ہیں۔ اور آپ نے پچھلے چندسالوں میں جن فیصلوں اور پالیسیوں کا مشاہدہ کیا ہے ، ان میں سے اکثر اسی زمرے میں آتے ہیں۔
اور تیسرے یہ کہ آزادی اہم ہے، ہم اس کی قدر کرتے ہیں، لیکن ہم کبھی بھی نان–گورننس یا گورننس کے فقدان یا خراب گورننس کو آزادی کے مساوی نہیں رکھ سکتے۔ یہ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔
اس سے پہلے کہ میں ڈاکٹر جے شنکر کے ان تین نکات پر تفصیل سے بات کروں ، میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ 12 اپریل کو بلنکن کے ساتھ ان کی ملاقات میں کیا کچھ ہوا تھا۔
اس بار امریکی وزیر خارجہ نے ہندوستانی جمہوریت کی صورتحال پر ان کے نقطہ نظر کے بارے میں سوال پوچھے جانے کا انتظار نہیں کیا۔ بلکہ واشنگٹن میں ہندوستانی وزرائے خارجہ اور دفاع کے ساتھ 2+2 میٹنگ میں اپنے
ابتدائی کلمات میں انہوں نے یہ بات کہی:
ہمارے درمیان کی مشترک باتوں؛ مثلاً انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بھی ہم اپنے جمہوری اقدار کے لیےکمٹ منٹ رکھتے ہیں۔ ہم ان مشترکہ اقدار پر اپنے ہندوستانی اتحادیوں کے ساتھ باقاعدگی سے بات چیت کرتے ہیں، اور اس مقصد کے لیے ہم ہندوستان کی حالیہ پیش رفتوں کی نگرانی کر رہے ہیں، جن میں بعض حکومت، پولیس اور جیل حکام کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں اضافہ بھی شامل ہے۔
یہ براہ راست سرزنش تھی، اور یہ اس بات سے مزید شدید ہو گئی کہ بلنکن نے نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیا بلکہ خود ہندوستانی حکومت پر بھی انگلی اٹھائی۔
ڈاکٹر جے شنکر کا جواب ایک دو دن بعد آیا۔
انہوں نے کہا کہ ان کے امریکی ہم منصب نے ہندوستان کے بارے میں جوباتیں کہی ہیں، وہ ‘مفادات، لابی اور ووٹ بینک’ سے ترغیب شدہ ہیں اور یہ بھی کہ امریکہ سمیت دیگر جگہوں پر جو کچھ ہو رہا ہے اس پر ہندوستان بھی اپنا موقف رکھتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب انسانی حقوق کی بات آتی ہے تو پچھلی انتظامیہ کی طرح بائیڈن انتظامیہ بھی دنیا بھر میں اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ان میں سے کون سی خلاف ورزی پر کارروائی کرنی ہے اور کس کو نظر انداز کرنا ہے۔
مودی کے دور اقتدار میں اوباما اور ٹرمپ حکومت میں رہے ہیں۔ ہندوستانی ‘افسروں’ کی کارروائیوں کو ‘انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی خلاف ورزیوں’ سے جوڑنے کا بلنکن کا دعویٰ اگر
امریکی محکمہ خارجہ کے اپنے دستاویز پر مبنی ہے تو ایسی رپورٹس میں پہلے بھی تعریف کاکوئی پلندہ نہیں باندھا گیا تھا۔
تو اگر صدر اوباما اور ٹرمپ نے ہندوستان کے بگڑتے ہوئے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر چپ رہنا پسند کیا تو کیا یہ اس لیے تھا کہ وہ صدر بائیڈن سے الگ طرح کے ‘مفادات، لابیوں اور ووٹ بینکوں’ سے متاثر تھے؟ یا پھر اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اس پیمانے پر ہونے لگی ہیں کہ واشنگٹن کے نقطہ نظر میں تبدیلی آئی ہے،جس میں یوکرین میں روسی حملے کی مذمت کرنے سے نئی دہلی کےانکارنے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے؟
میرے لیکچر کا موضوع خارجہ پالیسی اور جغرافیائی سیاست نہیں ہے، اس لیے میں اس بارے میں بات نہیں کروں گا اور ہندوستانی جمہوریت اور میڈیا کی صورتحال پر واپس آؤں گا۔ اور ڈاکٹر جے شنکر کے ان تین نکات کے بارے میں بات کروں گا جن سے انہوں نے مودی حکومت کا دفاع کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم سے انسانی حقوق اور جمہوریت کے بارے میں بات نہ کریں، کیونکہ جیسا کہ بلنکن نے خود اعتراف کیا ہےکہ، ایک ‘کامل اتحاد’ کی تلاش تو ہندوستان اور امریکہ دونوں ہی کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر جے شنکر نے دوسری بات یہ کہی کہ مودی حکومت پر تاریخی غلطیوں کو سدھارنے کی ‘اخلاقی ذمہ داری’ ہے، اور وہ ‘اپنے بہت سے فیصلوں اور پالیسیوں’ کے ذریعے ایسا کر رہی ہے۔ انہوں نے کسی خصوصی فیصلے کا ذکر نہیں کیا، لیکن کشمیر کی خودمختاری کے خاتمے، امتیازی شہریت (ترمیمی) ایکٹ کی منظوری، اور ایودھیا میں رام مندر کے لیے ان کی حکومت کی کوششوں کو – جس کو انہوں نے ایک
دوسری جگہ ‘ایک عہد کی تکمیل، اور وراثت پر دعویٰ’ کہا ہے- شاید اس زمرے میں رکھا جائے جسے بی جے پی ‘تاریخی غلطیوں’ کو ٹھیک کرنا مان سکتی ہے۔
یہ اور بات ہے کہ ان فیصلوں اور پالیسیوں کے نتیجے میں عوام کے حقوق کو غیر معمولی طور پر پامال کیا گیا ہے۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو دن بہ دن عدم تحفظ اوربے چارگی کے احساس میں مبتلا کرنے میں اپنا بیش بہاحصہ ڈالا ہے۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تاریخی غلطیوں کو درست کرنے کا شور ہندوتوا کے آزمائے ہوئے ہتھیاروں میں سے ایک ہے، جس کا موقف ہے کہ ہندوستان کی آزادی کی کوششیں برطانوی استعمار کی آمد سے شروع نہیں ہوئی تھی، بلکہ آٹھ صدیاں پہلے، ان کے لفظوں میں ‘مسلم اقتدار’ کی آمد کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔
مودی خود 1200 سال کی غلامانہ ذہنیت کی بات کرتے ہیں، اس طرح عربوں کے سندھ پر فتح حاصل کرنے کے چند سو سال بعد نویں صدی میں پہنچتے ہیں۔
تیسری بات ذرا پراسرار ہے، جس میں ڈاکٹر جے شنکر نے کہا کہ مودی سرکار جمہوریت اور انسانی حقوق جیسی ‘آزادی’ کو اہم سمجھتی ہے، ان کو گورننس کی عدم موجودگی کے مساوی نہیں سمجھا جانا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان کے وزیر خارجہ ان افسوسناک باتوں کا تذکرہ کر رہے تھے جو بلنکن نے اسی دن دہلی میں سول سوسائٹی کے کارکنوں کے ساتھ
ایک بات چیت کے دوران سنی تھیں۔ ہندوستانی حکومت نے پہلے ہی گلوبل فریڈم اور حکمرانی کے اشاریوں پر ‘دنیا کے خود ساختہ سرپرستوں’ پر
طنز کیے ہیں، جس میں ہندوستان کی درجہ بندی حالیہ برسوں میں تیزی سے گری ہے۔
یہ کہتے ہوئے کہ آزادی کا مطلب خراب گورننس نہیں مانا جانا چاہیے، ڈاکٹر جے شنکر خود مختار آمریت کے وہی گھسے پٹے محاورے دہرا رہے تھے، جن میں دعویٰ کیا جاتا تھا کہ ٹرینیں وقت پر چل رہی ہیں۔ ان کا پیغام یہ ہے کہ گڈ گورننس وہی ہے جو مودی حکومت دے رہی ہے، چاہے اس کے لیے آزادی کی تھوڑی سی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔
گزشتہ نومبر میں مودی حکومت کے خفیہ معاملوں کے سربراہ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے اس تیسرے نکتے کی توسیع پیش کی، جب انہوں نے
ٹرینی پولیس افسران کو وارننگ دی کہ ، جنگ کا نیا مورچہ سول سوسائٹی ہے، جسے ہم چوتھی نسل کی لڑائی کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ سول سوسائٹی ‘گمراہ کی جا سکتی ہے، اس کو محکوم بنایا جا سکتا ہے، جو ایک بکھرا ہوا خیال ہو سکتا ہے، جس کو ایک نیشن کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے بھٹکایا جا سکتا ہے۔
مسٹرڈوبھال اور جے شنکر جو کہہ رہے ہیں اس کو ملاکر دیکھاجائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سول سوسائٹی کے کارکن، انسانی حقوق کے کارکن، ماہرین ماحولیات، کسان تنظیمیں، دلت اور آدی واسی کارکن، طلباء اور آزاد میڈیا، ان سب کو اس طرح ورغلایا جا سکتا ہے کہ یہ ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے لگیں۔ اور یہ کہ اس محکومیت اور آزادی کے اس غلط استعمال کے خلاف کھڑا ہونا ہی گڈ گورننس ہے اور یہی قانون کی حکمرانی ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ سول سوسائٹی شدید طور پر (اور فطری طور پر) غیر مہذب ہے۔
سرکاری کہانی اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ اس کے باوجود غلط استعمال کا مسئلہ ممکن ہے – بہر حال جمہوریت ایک جاری و ساری عمل ہے، تمام جمہوریتوں میں مسلسل یہ کشکمش چلتی رہتی ہے- لیکن ہندوستان کے آئینی ادارے ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں۔ یہی وہ دعویٰ ہے جس پر بات کی جانی چاہیے، اور جو ہندوستانی جمہوریت کی صورتحال کے بارے میں ہمارے جائزے کا کلیدی نکتہ ہے۔
‘کامل اتحاد کی تلاش’
بلنکن نے جب ‘کامل اتحاد’ کے لیے ‘مشترکہ تلاش و جستجو’ کی بات کی، تب وہ کوشش کررہے تھے کہ بین الاقوامی تعلقات کے رشتوں کے لحاظ سے شائستگی اور سفارتی تحمل کو برقرار رکھیں۔ لہذا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ڈاکٹر جے شنکر نے بھی اسی بات کو پکڑ لیا۔
لیکن ہم میں سے غیر سفارتی لوگوں کے لیے یہ واضح ہونا چاہیے کہ ‘مشترکہ تلاش’ کی کوئی بھی بات رائی اور پہاڑ کا موازنہ کرنےجیسا ہے۔
ہندوستان کی طرح امریکہ میں بھی عوام کے درمیان سیاسی علیحدگی بہت شدید ہے۔ اور یہ سچ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے آخری چند ہفتوں میں امریکہ غیرمعمولی ہنگامہ آرائی سے گزرا، جس میں بڑے پیمانے پر افراتفری انتہا پر تھی۔ اسی طرح ہندوستانی عوام کے بنیادی حقوق کو کمزورکردینے والی متعدد کارروائیاں سیاست کی چوٹی سےشروع ہوتی ہیں، لیکن ہندوستان اور امریکہ کے حالات کی یہ مماثلتیں یہیں ختم ہوجاتی ہیں۔
میں امریکی محکمہ انصاف (جسٹس ڈپارٹمنٹ)، ایف بی آئی، ملک بھر کے انتخابی عہدیداروں اور امریکی میڈیا کے کردار پر حتمی طور پر تبصرہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ لیکن میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان میں جمہوریت کو جس خطرے کا سامنا ہے، اس میں اس خطرے سے نمٹنے کی ذمہ داری میڈیا سمیت جن اداروں پر ہے، ان کا رول یہی رہا ہے کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور انہوں نے اس جرم میں حصہ لیا۔
اور یہی بات سب سے اہم ہے۔ بلنکن نے ‘خود کو درست کرنے والا نظام’ کے طور پرجمہوریت کے بنیادی اجزا کے نام لیے، (مذہبی) عقائد سے الگ شہریوں کی برابری، ایک آزاد میڈیا، ایک آزاد عدلیہ اور ایک منصفانہ انتخابی عمل- یہ سب ہندوستان میں نمایاں طور پر خستہ حال اور اور بکھرے ہوئےہیں۔ آگے میں یہی دکھانے کی کوشش کروں گا۔
شہریوں کی برابری کی بات میں اگلے سیکشن میں کروں گا، لیکن یہاں میں عدلیہ، میڈیا اور انتخابات کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا، تاکہ میں اس پر روشنی ڈال سکوں کہ مسئلے کی جڑیں کہاں تک پیوست ہیں۔
ہندوستانی آئین میں عدلیہ کا تصور جمہوریت کے ایک آزادانہ ستون کے طور پر کیا گیا ہے، جو ایگزیکٹو اور مقننہ سے الگ ہے۔ درحقیقت، جب بنیادی حقوق کا مسئلہ داؤ پر ہو تو ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ نچلی عدالتیں حکومت سے ٹکراتی ہیں۔ اور جب یہ عدالتیں حکومتوں کے خلاف جاتی بھی ہیں تو ان کے فیصلے آسانی سے پلٹ دیے جاتے ہیں۔
آکار پٹیل ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سابق سربراہ ہیں اور انہوں نے حال ہی میں مودی کے ہندوستان پر ایک کتاب دی پرائیڈ آف دی مودی ایئرز لکھی ہے۔ گزشتہ دنوں جب وہ وسکونسن یونیورسٹی میں لیکچر دینے کے لیے ملک سے باہر جا رہے تھے تو انھیں روک دیا گیا۔ ایک ٹرائل کورٹ، سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کی خصوصی عدالت نے حکومت کے ذریعےپیٹل کو اس طرح من مانے طریقے سے روکے جانے پر سرزنش کی اور حکم دیا کہ انہیں باہر جانے کی اجازت دی جائے۔
اس کے باوجود سی بی آئی نے اس فیصلے کو نظر انداز کیا اور پٹیل کو
دوسری بار ایئرپورٹ پر روکا گیا۔ میں میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا، لیکن اس معاملے کا ایک پہلو قابل ذکر ہے کہ آپ اس سرکاری من مانی کا اندازہ لگا سکیں، جو آج ہندوستانیوں کے بنیادی حقوق سلب کر رہا ہے۔
سی بی آئی نے امیگریشن حکام سے کہا کہ وہ پٹیل کو ہوائی اڈے پر روک دیں، اوردعویٰ کیا کہ وہ ایک مجرمانہ معاملے میں پوچھ گچھ کے لیے مطلوب ہیں۔ لیکن خود پٹیل کو کبھی براہ راست نہیں بتایا گیا کہ سی بی آئی ان سے پوچھ گچھ کرنا چاہتی ہے!
جوزف کے کو پٹیل کی اس کہانی میں اپنی کہانی کی جھلک بھی ملے گی۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ مسئلہ صرف نچلی عدالتوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ کو ابھی بھی مودی حکومت کے کچھ اہم فیصلوں کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی مختلف عرضیوں کو دیکھنے کا وقت نہیں مل پایا ہے۔ ان میں سب سے اہم عرضی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے طریقے سے متعلق ہے۔
یہ قدم جموں و کشمیر کے لوگوں کو دی گئی خود مختاری کی ضمانت اور ریاستی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے اٹھایا گیا تھا۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی وادی کشمیر میں شہریوں پر سخت ترین اور طویل ترین جبر اور لاک ڈاؤن مسلط کیا گیا: ریاست کے تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت مرکزی دھارے کے درجنوں لیڈروں کو گرفتارکیا گیا،حراست میں لیا گیا، کئی مہینوں تک انٹرنیٹ بند کر دیا گیا اور میڈیا کے کام کو تقریباً ناممکن بنا دیا گیا۔
جموں و کشمیر کے لوگوں کو تقریباً پانچ سالوں سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا ہے، سپریم کورٹ نے اپنی مداخلت کو کم سے کم رکھا ہے۔ جس کرتب بازی کے ساتھ آرٹیکل 370 کو ختم کیا گیا، وہ شاید ہی جوڈیشل کسوٹی پر کھڑی اترے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے کے لیے ریاست کے منتخب نمائندوں کی رضامندی ضروری تھی، جسے مرکزی حکومت کی جانب سے مقرر گورنر کی رضامندی سے بدل دیا گیا۔ اس لیے عدالت کی سماعت میں اس تاخیر سے بی جے پی حکومت بہت خوش ہے۔
اگر کبھی اس معاملے کا فیصلہ ہو جاتا ہے، اور جب بھی لیا جاتا ہے، کافی وقت گزر چکا ہوگا، اور عدالت آسانی سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتی ہے کہ – ہندوستانی ججوں کے پسندیدہ انداز میں کہیں تو – حکومتی فیصلے کو چیلنج کرنا اب بے معنی ہو چکا ہے۔
یہیں پر مجھے یہ بات بھی کہنی چاہیے کہ مودی نے جو کارنامہ انجام دیا وہ صرف جموں و کشمیر کی خود مختاری پر حملہ نہیں تھا، بلکہ یہ ہندوستان کے وفاقی ڈھانچے پر حملہ تھا۔
ہندوستان درحقیقت ایک وفاقی ہندوستان ہے، اور اگر وفاقی حکومت قومی پارلیامنٹ میں اپنی طاقت کے بل بوتے پر کسی بھی ریاست کی ریاستی حیثیت کو اتنی آسانی سے ختم کر سکتی ہے، تو یہ وفاقی اصول کا مذاق ہے۔ اس نے کل جموں و کشمیر کے ساتھ جو کیا، کیا یہ تمل ناڈو کے ساتھ کر سکتی ہے؟ یقیناً یہ سوال ڈی ایم کے کے ذہن میں ضرور رہا ہوگا، جو اس سوال پر کشمیریوں کے دفاع میں بولنے والی چند علاقائی جماعتوں میں سے ایک تھی۔
سپریم کورٹ نے بے نامی انتخابی بانڈز کی آئینی حیثیت سے متعلق ایک اور کیس کی سماعت سے سختی سے انکار کر دیا ہے۔ مودی حکومت کے ذریعے 2017-18 میں لائے گئے اس قانون کی مدد سے کل انتخابی چندےکا تین چوتھائی مسلسل بی جے پی کی جیب میں گیا ہے۔ 2019-2020 میں، یہ رقم
2555 کروڑ روپے تھی، جو تقریباً 320 ملین ڈالر ہوتے ہیں۔
بانڈز کارپوریٹ کمپنیوں کی طرف سے سیاسی جماعتوں کو دیا گیا چندہ ہوتا ہے، جن کی شناخت عوام اور الیکشن کمیشن سے پوشیدہ رکھی جاتی ہے۔ اور مودی حکومت کی طرف سے انتخابی فنڈز جمع کرنے کے اس طریقے کو شفافیت کی سمت میں اٹھائے گئے ایک قدم کے طور پر پیش کیا گیا تھا!
بے نامی بانڈز کو چیلنج کرنے والی ایک پٹیشن ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رائٹس (اے ڈی آر) نے ستمبر 2017 میں دائر کی تھی۔ اب تقریباً پانچ سال ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے بھی اس اسکیم کی مخالفت کرتے ہوئے ایک
حلف نامہ داخل کیا اور کہا کہ یہ اسکیم ‘سیاسی چندے میں شفافیت کے مقصد کے خلاف ہے۔’
اس معاملے پر آخری بار مارچ 2021 میں غور کیا گیا تھا، جب اے ڈی آر نے ان بانڈز کی فروخت پر عبوری روک کی مانگ کی تھی، جس کو منظور کرنے سے سپریم کورٹ نے انکار کر دیا۔ اس وقت تک الیکشن کمیشن کا
ذہن بھی بدلتا دکھائی دیا۔ اس نے پابندی کے مطالبے کی مخالفت کی اور یہ بھی کہا کہ وہ انتخابی بانڈز کی حمایت کرتا ہے، صرف یہ چاہتا ہے کہ وہ زیادہ شفاف ہوں۔
پانچ اپریل کو چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے کہا کہ وہ انتخابی بانڈز کے معاملے کو فوری طور پر لسٹ کرنے کی اجازت دیں گے۔ لیکن ہمیں بہت زیادہ توقع نہیں ہے۔
بے نامی انتخابی بانڈز آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے جو خطرہ پیش کرتے ہیں وہ بالکل واضح ہیں – ایک سیاسی جماعت کسی کارپوریٹ کمپنی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ان سے بھاری چندہ وصول کر سکتی ہے اور بدلے میں ان کے لیے سازگار پالیسیاں بنا سکتی ہے۔ عوام کو اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ نے اس اہم معاملے کی سماعت میں تیزی لانے سے انکار کیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے جس انداز میں اپنا موقف تبدیل کیا ہے وہ انتخابی قوانین کے نفاذ کے معاملے میں اس کے متعصبانہ رویےسے واضح طور پر میل کھاتا ہے۔ یہ رویہ اس وقت بہت واضح ہوتا ہے جب مودی حکومت کے اہم ارکان کی جانب سے انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے۔
سال 2019 کے عام انتخابات کے دوران مودی کے مسلم مخالف بیانات کی شکایات پر کمیشن خاموش رہا۔ مثال کے طور پر، مودی نے کیرالہ کے وایناڈ سے الیکشن لڑنے پر کانگریس لیڈر راہل گاندھی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک ایسا حلقہ ہے جہاں ‘اقلیتوں کی اکثریت ہے۔’ جب عرضی گزاروں نےسپریم کورٹ سے کہا کہ وہ کمیشن کو شکایات کو حل کرنے کے لیے کہے، تب جاکر تین رکنی ادارہ حرکت میں آیا اور 2-1 کے ووٹ سے یہ فیصلہ کیا کہ مودی کے خلاف شکایتیں بے بنیاد تھیں۔
اس فیصلے سے اختلاف کرنے والےالیکشن کمشنر اشوک لواسا کو قاعدے سےاگلا چیف الیکشن کمشنر بننا تھا،لیکن اس فیصلے سے اختلاف کرنے کے ساتھ ہی انہوں نے خود کوبدعنوانی کے الزامات سےگھرا ہوا پایا۔ لیکن یہ الزامات بڑے ہی پراسرار طریقے سے اس وقت غائب ہو گئے جب وہ کمیشن سے استعفیٰ دے کر ایشیائی ترقیاتی بینک میں چلے گئے۔
مجھے یہاں یہ بھی کہنا چاہیے کہ جب دی وائر نے ہندوستان میں پیگاسس اسپائی ویئر کے استعمال کی جانچ کی ، تو ہم نے پایا کہ لواسا کا نمبر بھی ان ممکنہ لوگوں کی فہرست میں شامل تھا جن کو نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔
حکومت کی طرف سے جمہوری اصولوں کو مسخ کرنے اور پٹری سے اتار دینے پر سپریم کورٹ کی بے حسی اور الیکشن کمیشن کی ملی بھگت کافی نہیں تھی کہ ایک انتہائی اہم انتخابی مہم کے درمیان اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف جاسوسی سافٹ ویئر پیگاسس کا استعمال یہ دکھاتا ہے کہ انتخابی عمل میں کتنی جانبداری سے کام لیا جارہا ہے؟
یہ امریکہ میں واٹر گیٹ اسکینڈل سے بھی بدتر ہے، کیونکہ ہندوستان میں اس میں حکومتی اہلکاروں کی ملی بھگت تھی جنہوں نے حکومتی پیسے سے جاسوسی سافٹ ویئر کی خریداری کی تاکہ اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کی سیاسی جاسوسی کی جا سکے۔
‘آزادی نقصاندہ ہے’: میڈیا پر نشانہ
پچھلے سال دی وائر نے ایک بڑی خبر کو منظر عام پر لانے میں مدد کی ، جو ہندوستان میں گمنام سرکاری کلائنٹ کے ذریعےایک اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کے ملٹری گریڈ کے جاسوسی سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہوئے بڑی تعداد میں لوگوں کی جاسوسی کے بارے میں تھی۔
ہم جن 300 کے قریب فون نمبروں کی تصدیق کر سکے، ان میں سے 40 کا تعلق صحافیوں سےتھا۔ ان میں سے پانچ ان صحافیوں کے تھے جو دی وائر کے لیے کام کرتے ہیں یا بنیادی طور پر ہمارے لیے لکھتے ہیں۔ میرے اور دی وائر کے شریک بانی مدیر ایم کے وینو کے معاملے میں فارنسک جانچ سے ثابت ہوا کہ پیگاسس ہمارے اسمارٹ فون میں موجود تھا۔
جن دوسرے لوگوں کے فون کواس سافٹ ویئر کے ذریعے نشانہ بنایا گیا، ان میں انسانی حقوق کے کارکن، وکیل، سیاسی حکمت عملی ساز پرشانت کشور اور راہل گاندھی کے ساتھ ساتھ وہ نوجوان خاتون بھی شامل تھیں جس نے رنجن گگوئی کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات لگائے تھے۔ بتادیں کہ اس وقت گگوئی چیف جسٹس آف انڈیا تھے۔
مودی حکومت نے پیگاسس کے استعمال کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ کوئی تفصیلی حلف نامہ داخل نہیں کرے گی۔ لیکن سپریم کورٹ نے مودی حکومت کی جانب سےقومی سلامتی کی بنیاد پر اس کی تحقیقات کرانے سے بچنے کی کوشش کو مسترد کر دیا۔
ایک سابق جج کی نگرانی میں تکنیکی کمیٹی کا قیام امید کی ایک کرن ہے جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا تھا۔ اس کمیٹی کا کام اس بات کی تحقیقات کرنا ہے کہ پیگاسس کو کس حد تک استعمال کیا گیا ہے اور اس بات کی نشاندہی کرنا ہے کہ کس نے کس کے حکم پر اس اسپائی ویئر کا استعمال کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کمیٹی کو نظر انداز کر دے گی اور گیند واپس چیف جسٹس کے پاس آ جائے گی۔ اس وقت انہیں یا تو کوئی بولڈ قدم اٹھانا پڑے گا – جیسا کہ آئین انہیں کرنے کا اختیار دیتا ہے – یا پھر وہ اپنی ناراضگی کا اظہار کرکے رہ جائیں گے۔ اس معاملے میں بہت سی قیمتی چیزیں داؤ پر لگی ہوئی ہیں – حکومت کے لیے، انتخابات کے منصفانہ ہونے کے لیے، شہریوں کے پرائیویسی کے حق کے لیے، اور بلاشبہ پریس کی آزادی کے لیے۔
پیگاسس کے بارے میں یہ بات اب سامنے آئی ہے، لیکن پچھلے چھ سالوں میں مودی حکومت نے میڈیا کے خلاف لگاتار عداوت بھرا رویہ ہی دکھایا ہے۔ اس دوران یہ دیکھا گیا کہ وزیر اعظم اور ان کے دفتر نے منظم اور شفاف انداز میں پریس کے سوالات کا جواب دینے سے انکار کیا ہے – ان سے پہلے کے وزرائے اعظم نے کبھی ایسا نہیں کیا۔
مودی اور ان کے دیگر وزراء صحافیوں یا ایسے فورموں پر انٹرویو دینےکو راضی نہیں ہوتے جن کے آزاد ہونے کاذرا سا بھی گمان ہو اور جہاں ان کے جوابات پر پلٹ کر سوال کیا جا سکتا ہو۔ وزراء صحافیوں کے خلاف باقاعدگی سے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو انہیں لگتا ہے کہ توہین آمیز ہیں، جیسے ‘پریسٹی ٹیوٹ’۔ پارٹی کے آئی ٹی سیل کی قیادت میں بی جے پی کے حامی صحافیوں کو ٹرول کرتے ہیں اور ان کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔
اس سال دی وائر نے بی جے پی کےایک طاقتور، خفیہ ایپ، ٹیک فاگ کے استعمال کرنےکی خبر شائع کی تھی،جو بڑے پیمانے پرسوشل میڈیاٹریند کو من مانے طریقے سےبدلنے، غیر فعال وہاٹس ایپ اکاؤنٹس کو ہیک کرنے اور حکومت کے ناقدین کو ٹرول کرنے کی قوت رکھتا ہے۔اس میں پیسے لے کرکام کرنے والےلوگوں کے لیے ایک ڈراپ ڈاؤن مینو بھی ہے جو ان خواتین صحافیوں کی جسمانی خصوصیات کا خاکہ پیش کرتا ہے، جن کے ساتھ وہ خصوصی طور پر بدتمیزی کرنا چاہتے ہیں۔
ان سب کے باوجود یہ ممکن تھا کہ میڈیا ان کا سامنا کرنے کا اہل ہوتا، جیسا کہ ہم برسوں تک بے بنیاد ہتک عزت کے مقدمات کے معاملےمیں کرتے آئے ہیں۔ لیکن فرق یہ ہے کہ بی جے پی اور اس کی حکومتوں نے اپنا حملہ تیز کر دیا ہے۔
نیوز کلک، دینک بھاسکر، دی کوئنٹ اور این ڈی ٹی وی پر مالیاتی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے جیسا کہ
تہلکہ کے ساتھ 2002 میں ہوا تھا۔ لیکن اب کےرجحان کہیں زیادہ پریشان کن ہیں: اب یہ اتر پردیش اور مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر جیسی ریاستوں میں ایک معمول بن گیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف ان کی رپورٹس پر فوجداری کےمقدمات درج کیے جائیں۔یہاں تک کہ یہ مقدمے ان خبروں پر بھی دائر کیے جاتے ہیں جنہیں لکھا ہی نہیں گیا، بلکہ لکھنے کی کوشش کی جارہی تھی۔
صدیق کپن ایک سال سے زیادہ سے اتر پردیش کی جیل میں بند ہیں، ان پر دہشت گرد ہونے کا الزام ہے، کیونکہ وہ ہاتھرس قصبے میں ایک دلت خاتون کے ریپ اور قتل کے بارے میں خبرلکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کشمیر میں فہد شاہ اور سجاد گل کویواے پی اے اور پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔
آصف سلطان کو یو اے پی اے کے تحت جیل میں بند ہوئے چار سال ہو چکے ہیں۔ ان پر لگائے گئے الزامات کے بارے میں ریاست کو بھی معلوم ہے، وہ کبھی ثابت نہیں کر پائے گی۔ گزشتہ اپریل میں انہیں بالآخر جب عدالت نے ضمانت دی تو انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔
منی پور میں ٹی وی صحافی کشور چندر وانگ کھیم نے فیس بک پوسٹ کے لیے دو بار جیل کاٹی ہے۔ ان میں سے ایک پوسٹ میں یہ لکھا گیا تھا کہ گائے کا پیشاب اور گوبر کس طرح کسی کو کووڈ-19 سے بچا سکتا ہے۔ انڈمان سے تعلق رکھنے والے صحافی زبیر احمد کو ہائی کورٹ کی جانب سے ان کے خلاف سنگین جرائم کے الزامات کو مسترد کرنے میں 17 ماہ کا عرصہ لگا، یہ تب ہوا جب انہوں نے ٹوئٹ کرکے صرف یہ پوچھا کہ پولیس نے کیوں ایک خاندان کو صرف اس لیے کورنٹائن میں ڈال دیاہے کہ انہوں نے ٹیلی فون پر ایک کورونا وائرس کے مریض سے بات کی تھی۔
ایسی پریشان کن اورعاجز کردینے والی خبروں کی ایک بہت لمبی فہرست ہے جو میں آپ کے ساتھ شیئر کر سکتا ہوں۔ اور آپ کہیں یہ نہ سوچنے لگیں کہ یہ دور دراز کے علاقوں مسائل ہیں، تو یہ نہ بھولیں کہ یہ نئی دہلی کی پولیس تھی جس نے راجدیپ سردیسائی اور مرنال پانڈے جیسے تجربہ کار مدیران کے خلاف سیڈیشن کے معاملے درج کیے تھے۔
یہ اس وقت ہوا جب انہوں نے جنوری 2021 میں ایک احتجاج کے دوران گولی سے ہلاک ہونے والے ایک کسان کی خبر رپورٹ کی تھی۔ میڈیا کو نشانہ بنانے کی ایک نئی ترکیب ہے: ‘قومی سلامتی’ کے خدشات کی بنیاد پر ٹی وی چینلوں کے نشریاتی لائسنس رد کرنا، جبکہ یہ کبھی نہیں بتایا گیا کہ یہ خدشات کیا ہیں۔ حال ہی میں ایک ملیالم
نیوز چینل میڈیا ون کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا۔
مودی حکومت ڈیجیٹل میڈیا کو کنٹرول کرنے میں اب تک سب سے کم کامیاب رہی ہے۔ حکومت کی مواصلاتی پالیسیوں پر وزراء کے ایک گروپ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں اس پر
کھلے عام افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
ڈیجیٹل میڈیا پر لگام لگانے میں ناکامی کے جواب میں حکومت نے دو قدم اٹھائے ہیں۔ سب سے پہلے اس نے ڈیجیٹل خبروں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حد کو 26 فیصد کر دیا ہے، جبکہ پہلے ایسی کوئی حد نہیں تھی – اور اس نے اس کے لیے حکومتی منظوری کو بھی لازمی بنا دیا ہے۔
دوسرے، اس نے نئی ہدایات جاری کی ہیں، جنہیں انفارمیشن ٹکنالوجی رولز، 2021 کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ حکومت کو ایسے مواد کو ہٹانے کا اختیار دیتی ہے، جس کو مختلف وزارتوں کے بیوروکریٹس پر مشتمل ایک کمیٹی نامناسب سمجھتی ہے۔ دی وائر اور دیگر نیوز فورمز نے ان قوانین کو
چیلنج کیا ہے اور اس کے خطرناک ترین حصوں پر عمل درآمد پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ لیکن کھیل جاری ہے اور خطرات بھی۔
موجودہ رجحانات کے پیش نظر،ایک صحافی کی حیثیت سے میں فطری طور پر میڈیا کی آزادی کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہوں۔ ہمیں امید ہے کہ عدالت آزادی کی حمایت کرے گی، جو ماضی میں پریس کی آزادی کے ساتھ کھڑی ہوتی رہی ہے۔
جس بات کی وجہ سےمجھے امیدیں کم ہیں وہ ہے ہندوستان میں عوامی گفتگو کی بڑھتی ہوئی جارحیت اور فرقہ واریت، اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف مذہبی شدت پسندوں کو فعال طور پر فروغ دینے والے لوگوں کے خلاف واضح اور براہ راست پیغام دینے میں عدالتوں کی ناکامی۔
‘تاریخی غلطیوں کو درست کرنا’: ہندوستانی مسلمانوں پر حملے
سن 1936 میں جرمنی کے دورے کے فوراً بعد عظیم امریکی عوامی دانشور ڈبلیو ای بی ڈو بوآ نے نازی حکومت میں یہودیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے بارے میں ایک انتہائی مؤثر مضمون لکھا۔ ڈو بوآ نے اپنے ملک میں افریقی– امریکی لوگوں پر ہونے والی نسل پرستی کو دیکھا اوراس کے بارے میں لکھا، اور اس تجربے کی روشنی میں انہوں نے ایک چیز پر زور دیتے ہوئے لکھا جو ان کے خیال میں بنیادی فرق تھا۔
جولیا بوائیڈ نے اپنی کتاب
ٹریولرز ان دی تھرڈ ریخ میں اس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ‘امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کے دکھ کا موازنہ نازی جرمنی کے یہودیوں سے کرنا ناممکن تھا کیونکہ ‘جرمنی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ قانونی طورپر کھلے عام ہو رہا ہے، چاہے یہ ظالمانہ اور غیر منصفانہ ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن امریکہ میں نیگرو لوگوں پر ظلم و جبر خفیہ طریقے سےقانون کی کھلی خلاف ورزی کے ساتھ ہوتا ہے۔
ڈو بوآ جبر کے ایک طریقے کو دوسرے کے مقابلے ہلکا نہیں بتا رہے تھے،بلکہ وہ اس بات پر زور دے رہے تھے کہ جبر اور بالخصوص تشدد کو اگر قانون کے درجے تک پہنچا دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہےکہ ہم ایسی جگہ پر پہنچ گئے ہیں، جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ درحقیقت یہ ان کی دوربینی تھی۔
امتیازی سلوک اور علیحدگی سیاہ فام لوگوں کی زندگی کا ایک حصہ تھی، اور ڈو بوآ امریکہ میں جم کرو قوانین سے بخوبی واقف تھے، لیکن وہ اس بڑے پیمانے پر ہونے والی نسل کشی، تباہی لانے والی اس حالت کو صاف صاف دیکھ سکے، جس کی طرف نازی بڑھ رہے تھے۔
ڈو بوآ کے اس تبصرے نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا کیونکہ میری رائے میں آج ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں،بالخصوص مسلمان پر، ‘خاموشی سےقوانین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے، جبر کرنے’سے بات کہیں آگے بڑھ گئی ہے۔ اب ان کو وحشیانہ اور غیر منصفانہ حملوں اور ایذا رسانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو ہم سب کی آنکھوں کے سامنے ‘قانونی طور پر کھلے عام ہو رہا ہے’۔
گجرات میں ریاست کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے نریندر مودی کے دور اقتدار میں ہوئےمسلم مخالف تشدد کے بارے میں ایک کتاب میں نے مرتب کی ہے – گجرات: دی میکنگ آف اے ٹریجڈی۔ اس کتاب کو اس خیال سے مرتب کیا گیا تھا کہ یہ ایک بڑے علاقے میں کچھ دنوں تک چلنے والے انتہائی سنگین جرم کا ایک مستقل عوامی ستاویز (آرکائیو )بنے گا۔
سال 1984 میں جب کانگریس پارٹی برسراقتدار تھی تو اس کے دور حکومت میں سکھوں کے قتل عام کو بھی ایسے ہی دستاویزکیا گیا، لیکن اتنی تفصیل سے نہیں۔ یہ دونوں واقعات اس بات کی انتہا ہیں جسے پال براس نے ‘فسادات کا ادارہ جاتی نظام’ کہا ہے۔ یہ ہلاکتیں اس لیے ہوئیں کہ اقتدار میں موجود پارٹی یہ قتل چاہتی تھی: اس کا مقصد سماج کو دو خیموں میں تقسیم کرنا، ہندوؤں کو متحد کرنا، اور حملے کا شکار بنائے گئے اقلیتوں میں دائمی خوف پیدا کرناتھا۔
پولیس نے اپنے کارناموں اور نا اہلی کے ساتھ بڑی مستعدی سے اپنا کردار ادا کیا۔ ان کے کلیدی مجرم ہر طرح کی سزا سے بچ نکلے، گجرات میں مسلمانوں اور دہلی میں سکھوں کے خلاف تشدد قانون کی صریح خلاف ورزی تھی اور اس کے کلیدی مجرموں نے احتیاط سے کام لیتے ہوئےپردے کے پیچھے رہنے کا انتخاب کیا، خاص طور پر اعلیٰ سیاست دانوں نے۔
آج ‘فسادات’ کے پیچھے کا اصل مقصد تو وہی ہے، لیکن ‘نظام’ میں ایک تکنیکی تبدیلی آئی ہے۔ ایک محدود جغرافیائی علاقے میں بڑے پیمانے پر لیکن مختصر مدت کے لیے شدید تشدد کے بجائے اب ہزاروں حملوں سے خوف و ہراس پھیلانے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ میدان اب بہت بڑا، بہت ہی بڑا ہے اور مہم مسلسل جاری ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی کی حکمت عملی اب یہ ہے کہ مسلمانوں پر ایک قانونی اور کھلے طریقے سے جبر کیا جائے۔ کچھ معاملوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ نئے امتیازی قوانین کا استعمال کیا جائے، یا موجودہ قوانین کو ہی ضرورت کے مطابق بدل دیا جائے۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نجی افراد کی شکایات کا استعمال کرتے ہوئےقانون کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے، جس میں پولیس بڑے جوش سے کام کرتی ہے۔ اس طرح گرفتار کیے گئے لوگوں کو وکیل کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے جو ان کا مقدمہ لے کر انھیں ضمانت دلوائیں۔
ایک حالیہ مثال پر غور کریں۔ پچھلے مہینے، کٹھما شیخ کو ایک ذاتی وہاٹس ایپ اسٹیٹس کی وجہ سے کرناٹک کے باگل کوٹ میں
گرفتار کر لیا گیا۔ انہوں نے پاکستان کے یوم جمہوریہ پر صرف اتنا لکھا تھا: ‘اللہ ہر ملک کو امن، اتحاد اور بھائی چارے سے نوازے۔’ ان کی گرفتاری ایک ایسے شخص کی ذاتی شکایت پر ہوئی جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ ایک مقامی ہندوتوا تنظیم کا رکن ہے۔
شیخ پر انڈین پینل کوڈ کی دو دفعات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی تھی، جو مذہب، نسل وغیرہ کی بنیاد پر کمیونٹی کے درمیان دشمنی پیدا کرنے سے متعلق ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ انہوں نے اس طرح کے ایک معصوم سے پیغام پر خاتون کو کیوں گرفتار کیا، پولیس نے کہا، ہمیں شکایت ملی کہ پوسٹ اشتعال انگیز ہے اور سماج میں تناؤ پیدا کرنے کے مقصد لکھا گیا ہے۔کیوں کہ [پیغام] اپ لوڈ کرنے والے کی منشا طے نہیں ہو پائی ہے، اس لیے ہم ابھی بھی تحقیقات کر رہے ہیں۔
ہندوتوا کے کارکنوں نے یہ کہتے ہوئے مقامی ایڈوکیٹ ایسوسی ایشن پر دباؤ ڈالا کہ وہ شیخ کی نمائندگی کرنے سے انکار کر دیں، کیوں کہ وہ ملک کی دشمن ہے۔ شیخ کو بالآخر ضمانت مل گئی، لیکن تب تک وہ دو راتیں جیل میں گزار چکی تھیں۔
یہ ایک مسلم خاتون کی کہانی ہے، لیکن ہندوستان میں ایسے درجنوں معاملے ہیں، جن میں زیادہ تر بی جے پی مقتدرہ ریاستوں سے ہیں۔ انسپکٹر یہ آسانی سے دیکھ سکتا تھا کہ پوسٹ کے پیچھے شیخ کی منشا نقصان پہنچانے کی نہیں تھی، اور اس کی چھان بین کرنے کے بجائے اس نے ٹھہر کر کبھی خود سے یہ نہیں پوچھا کہ کیا شکایت کرنے والے شخص کے مقصد کی چھان بین ضروری نہیں تھی۔
اس نے ایسا نہیں کیا کیونکہ وہ نئے نظام کو سمجھتا ہے۔ ‘فسادات’ کے پرانے نظام میں وہ جانتا تھا کہ جب حکومت کے قریبی کارکنان کسی پر حملہ کرتے ہیں تو اسے آنکھیں بند کرلینی ہیں۔ اسے ایسا کرنے کے لیے کہنے کی ضرورت نہیں تھی، ابھی جیسا ماحول ہے اس میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنا ہی اس کے لیے ایک فطری قدم لگتا ہے۔
نئے نظام میں، انسپکٹر جانتا ہے کہ اس کا کردار یہی ہے کہ جس کسی کی طرف ہندوتوا کارکن انگلی اٹھا دیں، اسے ایسے ‘ملک دشمن عناصر’ کو قانون کی کتاب سے کچل دینا ہے۔ جب کبھی ایسے کارکن آگے بڑھ کر کسی کو قتل کر دیں یا شدید طورپر زخمی کردیں، تو پولیس متاثرہ کے خلاف جوابی الزامات درج کرتی ہے، جیسا کہ اخلاق کے معاملے میں ہوا، جوشمالی ہندوستان میں گائے کے نام پر بنے پرتشدد گینگ ‘گئو رکشکوں’ کے غالباً وہ پہلے شکار تھے۔
نیا نظام اچھی طرح سے کام کرتا ہے کیونکہ یہ ہندوتوا کے زمینی کارکنوں کے بلوےکی مدد پر چلتا ہے، اور مسلمانوں کی زندگیوں میں ابدی عدم استحکام لاتا ہے، جنہیں اب ہر وقت احتیاط سے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ وہ جو کھاتے ہیں یا پہنتے ہیں، پڑھتے ہیں یا لکھتے ہیں، کہتے یا کرتے ہیں، اس سے کہیں ان کی جان و مال کی حفاظت تو خطرے میں نہیں پڑ جائےگی۔ اس کا مقصد مسلمانوں کے وجود کو مٹانا ہے، انہیں نظروں سے غائب کر دینا ہے–بحیثیت فرد، گروہ، ثقافتی اور جغرافیائی شناخت کے طور پر۔
افسردہ کردینے والی اس فہرست کو دیکھیں، جو کسی بھی طرح سے حتمی فہرست نہیں ہے:
دہلی، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں جگہوں کے ناموں کو مٹانا؛
اردو پر مضحکہ خیز حملہ؛
اسکولوں میں حجاب پر پابندی کی کوششیں؛
مسلمانوں کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کی اپیل، جس کو کووڈ مہاماری کے بعد فرقہ وارانہ پروپیگنڈے سے تقویت ملی؛
ہندو تہواروں میں مسلمانوں کی شرکت پر پابندی (اور اس کو مجرمانہ قرار دینے تک) کی کوششیں؛
گوشت اور دیگر مصنوعات کے حلال سرٹیفیکیشن پر حملہ؛
ہندو تہواروں کے دوران گوشت کی فروخت پر پابندی؛
مسلمان اور اسلامی یادگاروں کو مسلسل ‘ہندو’ کہہ کر ان پردعویٰ کرنے کی کوششیں؛
مسلم علاقوں میں ہندو مذہبی جلوسوں کو لے جانے کی جارحانہ سیاست، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انہیں’صحیح راستے پر لا رہے ہیں’ اورانہیں ‘انڈیا میں دوبارہ ضم’ کر رہے ہیں۔
بلڈوزر کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے املاک کی تباہی (جیسا کہ حال ہی میں مدھیہ پردیش اور یہاں تک کہ دہلی میں بھی دیکھا گیا ہے)۔
یہ سب ان کی نشانیاں مٹانے کے عمل کا حصہ ہیں۔
ڈاکٹر جے شنکر کے لفظوں کا استعمال کرتے ہوئے کہیں توسنگھ پریوار ان اقدامات کو تاریخی غلطیوں کو سدھارنے کا ایک طریقہ سمجھتی ہے۔ کچھ ہندوتوا رہنما مسلسل مسلمانوں کے قتل عام اور اسلام کو ختم کرنے کی اپیل کرتے ہیں، ایسے رہنماؤں میں یتی نرسنہانند قابل ذکر ہیں۔
ان تمام اشتعال انگیزیوں کو بی جے پی کے منتخب نمائندوں اور لیڈروں کی کھلی یا اندرونی حمایت حاصل ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کی تنقید کبھی بھی ایک ایسے وزیر اعظم نےنہیں کی جو تمام ہندوستانیوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
آج کے ہندوستان سے انہیں بے دخل کرنے کا یہ عمل مسلمانوں پر کھلے اور قانونی جبر کا صرف ایک پہلو ہے۔ لیکن ایسے قوانین بھی ہیں جو واضح طور پر مسلمانوں کی شناخت ایسے لوگوں کے طور پر کرتے ہیں جو سزا کے لائق ہیں۔ اور یہ ہندوستانی سیاست میں ایک خطرناک اورنئے موڑ کی نمائندگی کرتا ہے۔
میں جاننا چاہتا ہوں کہ کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ جب کوئی مسلمان اپنی بیوی کو چھوڑ دیتا ہے، یعنی قانون کے مطابق طلاق دینے میں ناکام رہتا ہے، تو اسے قید کیا جا سکتا ہے، جب کہ ہندو، سکھ یا عیسائی کو اسی طرح کا قدم اٹھانے کے لیے کوئی سزا نہیں ملے گی؟
میں 2019 کے قانون کا حوالہ دے رہا ہوں جو طلاق کے عمل میں تین
طلاق کو جرم بناتا ہے، جسے سپریم کورٹ نے پہلے ہی غیر قانونی قرار دیاتھا۔
سال 2019 میں ہی مودی حکومت نے ایک بار پھر قانون میں مسلمانوں کی نشاندہی کی۔ اس بار شہریت (ترمیمی) ایکٹ کے ذریعے، جس کے تحت انہیں شہریت کے ان فوائد سے باہر رکھا گیا، جو پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے بغیر دستاویزات کے آنے والے تمام لوگوں کو فراہم کیے گئے تھے۔
اگر مقصد یہ تھا کہ ان ممالک سے بھاگ کر ہندوستان آنے والے مذہبی جبر کے شکار لوگوں کو فائدہ پہنچاجائے،جو کہ بلاشبہ قابل ستائش قدم ہے، تو یہ اس طرح بھی حاصل کیا جا سکتا تھا کہ ایسا قانون پاس کیا جائے جوظلم و ستم کا شکار ہونے والوں کو پناہ گزین کا درجہ دے، اور ایک شفاف اور عدالتی عمل قائم کرے جو درخواست دہندگان کے دعووں کو تیزی سے حل کر سکے۔
جن لوگوں کو پناہ گزین کا درجہ دیا گیا تھا انہیں شہریت کا اہل بنایا جا سکتا تھا، جیسا کہ 1951 کے مہاجرین کنونشن کی پابندی کرنے والے جمہوری ممالک میں ایک اصول ہے۔ لیکن مقصد کچھ اور تھا – اور ڈاکٹر جے شنکر کے لفظوں کا استعمال کریں تو مقصد تاریخی غلطیوں کی اصلاح کرنا تھی۔
بی جے پی کے خیال میں، ہندوستان ہندوؤں، یا نام نہاد ہندوستانی مذاہب کے پیروکاروں کی قدرتی سرزمین ہے، جن میں سے بہت سے لوگ تقسیم کی وجہ سے پھنسے رہ گئے۔ لہذا، مودی حکومت کے لیے، سی اے اے ایک منطقی قدم ہے، جس میں عیسائیوں کو بھی شامل کرلیا گیا ہے کیونکہ وہ بظاہر پاکستان میں ایک مظلوم اقلیت ہیں۔
میں سی اے اے پر ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں۔ بی جے پی کے وزراء یہ کہنا پسند کرتے ہیں کہ سی اے اے صرف غیر ہندوستانیوں کے بارے میں ہے اور یہ قانون کسی بھی طرح سے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرتا ہے۔ یہ دلیل اخلاقی طور پر غلط اور بے بنیاد ہے، اوریہ حقائ کی کسوٹی پر غلط بھی ہے۔
آپ دو ہندوستانی خواتین کی مثال لیں، جن میں سے ایک ہندو اور ایک مسلمان ہے۔ ان کی شادی دو غیر دستاویزی بنگلہ دیشی مردوں سے ہوئی ہے، ایک ہندو ہے اور ایک مسلمان۔ پرانے شہریت کے قانون کے مطابق، دونوں خواتین کے بچوں کو ‘غیر قانونی پناہ گزین’ سمجھا جاتا ، اور انہیں ان کے والد کے ساتھ واپس بھیج دیا جاتا ۔ لیکن سی اے اے واضح طور پر اس کی راہ کھولتا ہے کہ ایک ہندو ہندوستانی خاتون ملک بدری کے کسی بھی خطرے کا سامنا کیے بغیر ایک عام خاندانی زندگی گزارتی رہے گی۔ لیکن مسلمان ہندوستانی عورت کو ہندوستان سے اپنے خاندان سے نکالے جانے کے خطرے کے ساتھ جینا پڑے گا۔
یقیناً کوئی بھی جمہوری ملک قانون میں اس طرح کے امتیاز کی کھل کر حمایت نہیں کر سکتا۔ لیکن تین سال گزرنے کے بعد، سپریم کورٹ کو ابھی تک سی اے اے کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضی کو ڈھنگ سے سننے کے لیے وقت نہیں ملا ہے۔
اسی طرح بی جے پی کی حکومت والی کئی ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے خلاف سخت قوانین نافذ کیے گئے ہیں (یا کرنا چاہتے ہیں)۔ وہ اس جھوٹے دعوے پر مبنی ہیں کہ مسلمان آبادی میں اپنا حصہ بڑھانے کے لیے ہندو خواتین کو لالچ دے کر مذہب تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چھوٹ صرف ان لوگوں کو دی گئی ہے جو لوگوں کو واپس ان کے اصل مذہب میں لاتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ آر ایس ایس کی گھر واپسی کی سرگرمیاں جاری رہیں گی، تب بھی جب اسلام (یا عیسائیت) قبول کرنا جرم بنا دیا گیا ہو، بالخصوص جہاں بین المذاہب شادیاں ہو ئی ہیں۔
نتیجہ: اندھیرے کے درمیان، روشنی کی کرنیں
اداسی کا یہ سفر ہمیں کہاں لے جائے گا؟ میں نے آپ کو امید کی تھوڑی سی روشنی کا وعدہ بھی کیا تھا، لہٰذا اب مجھے اس امید کے بارے میں بات کرنے کی اجازت دیں جو ماند نہیں پڑی ہے۔
میں اپنی بات سے ہی شروع کروں گا: دی وائر اپنی جگہ پر بنارہے گا۔ اور ہم اکیلے نہیں ہیں۔ ایسے درجنوں میڈیا پلیٹ فارم ہیں جو مضبوطی سے آزاد صحافت کی راہ پر گامزن ہیں – بالخصوص ویب سائٹس، کچھ اخبارات اور ٹی وی چینل۔ ایسےہزاروں بہادر فری لانس رپورٹر ہیں جنہوں نے دھمکیوں کے سامنے جھکنے سے انکار کیا ہے، حالانکہ وہ کئی معنوں میں سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ اور میں خاص طور پر ان تمام لوگوں کو سلام کرتا ہوں جو جموں و کشمیر میں کام کر رہے ہیں۔
یو ٹیوب پر ویڈیو مواد نے ہمارے لیے ایک بالکل نیا ناظر اور مارکیٹ پیدا کیا ہے۔ اس نےبڑےمیڈیا ہاؤسز کی اجارہ داری اور جانبداری کو چیلنج کیا ہے۔ ڈیجیٹل خبروں کے پھیلاؤ نے غلط معلومات کو نفرت کا ایک اوزار بھی بنا یا ہے (اور اس میں بگ ٹیک کا کردار خاص طور پر پریشان کن رہا ہے) لیکن اس نے آزاد، پیشہ ورانہ طریقے سے لکھی گئی خبروں کے لیے بھی جگہ بنائی ہے۔
ہمہ گیرزوال کے خلاف امید کی ایک اور روشنی جنوب اور مشرق کی سیاسی جماعتوں اور عوام کی مزاحمت ہے، جنہوں نے جمہوریت مخالف منصوبے کو ہندوستان میں وفاقیت کی باقیات پر حملے کے طور پر دیکھا ہے۔
امید کی روشنی صرف میڈیا یا سیاسی جماعتوں کی سطح پر ہی نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے بڑے میڈیا ہاؤسز کے قریب قریب مکمل کنٹرول کے باوجود، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک سال کے اندر دو بڑی عوامی تحریکیں ہوئیں – ایک 2019-2020 میں سی اے اے کے خلاف اور دوسری 2021-22 میں زرعی قوانین کے خلاف، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عام شہری حکومت کو چیلنج کرنے کی چاہت رکھتے ہیں اورجن اصولوں اور مسائل پر وہ یقین رکھتے ہیں ان کے لیے ان میں لڑنے کا جذبہ بھی ہے۔
متبادل میڈیا کی مدد سے ان تحریکوں نے جمہوریت کے مسلسل زوال کو مؤثر طریقے سے چیلنج کیا ہے جس کا مشاہدہ ہندوستان میں کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان میں دوسری جگہوں پر بھی، عام لوگوں نے اپنی طاقت پر یقین کرنا بند نہیں چھوڑا ہے، چاہے وہ چھتیس گڑھ کا سلگر ہو یا اڑیسہ اور آسام ہوں۔ یہ وہ عام لوگ ہیں جو جمہوریت کو سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ انہی میں ہندوستان کو نجات ملے گی۔
(اس لیکچر کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔)