مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے شہریت ترمیم بل کوصحیح ٹھہرانے کے لیے لوک سبھا میں کئی دلیل دیے، جو سراسرجھوٹ ہیں۔
وزیر داخلہ امت شاہ(فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: متنازعہ شہریت ترمیم بل، 2019 کو لوک سبھا سے پاس کر دیا گیا ہے۔ اس کو لےکر ملک کے الگ الگ حصوں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔اس بل میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی استحصال کی وجہ سے ہندوستان آئے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ شہریت ترمیم بل میں ان مسلمانوں کو شہریت دینے کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے جو ہندوستان میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔اس طرح کے امتیاز کی وجہ سے اس کی تنقید کی جا رہی ہے اور اس کو ہندوستان کے سیکولر تانے بانے کو بدلنے کی سمت میں ایک قدم کے طورپر دیکھا جا رہا ہے۔ ابھی تک کسی کو اس کے مذہب کی بنیاد پر ہندوستانی شہریت دینے سے منع نہیں کیا گیا ہے۔
جب اپوزیشن نے لوک سبھا میں شہریت ترمیم بل، 2019 کو لے کر تشویش کا اظہا رکیا اور اس کو غیر آئینی کہا تومرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے اس بل کو صحیح ٹھہرانے کے لیے کئی دلیل دیے،، جس کی صداقت کو لےکر سوال اٹھ رہے ہیں۔
امت شاہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ ملک کی آزادی کے بعد اگر کانگریس نے مذہب کی بنیادملک کا بٹوارہ نہ کیا ہوتا، تو آج شہریت ترمیم بل لانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ شاہ نے کہا، ‘اس ملک کا
بٹوارہ مذہب کی بنیاد پر کانگریس پارٹی نے کیا ہے۔’
حالانکہ امت شاہ کا یہ بیان بالکل غلط ہے۔ ہندو اور مسلم کمیونٹی کی بنیاد پرملک کو بانٹنے کا دو قومی نظریہ مسلم لیگ کے محمد علی جناح کے ذریعے رکھا گیا تھا۔اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر اورمؤرخ سرناتھ راگھون نے کہا کہ کانگریس نے تقسیم کو تو قبول کیا تھا لیکن دوقومی نظریے کونہیں۔ہندوستان کوتقسیم کرنے میں شدت پسند ہندو تنظیموں کی بھی بڑی خدمات تھیں۔ اس کے بارے میں مشہور سماجوادی رہنما رام منوہر لوہیا نے اپنی کتاب ‘دی گلٹی مین آف انڈیاز پارٹیشن’ میں تفصیل سے لکھا ہے۔
لوہیا لکھتے ہیں،‘شدت پسند ہندوتواکے ذریعے بٹوارے کی مخالفت کا کوئی مطلب نہیں ہے،ملک کو تقسیم کرنے والی طاقتوں میں سے ایک یہ ہندو شدت پسندی تھی ۔ یہ اس کے جرم کے بعد کے گئے قتل کی طرح تھا۔’انہوں نے آگے لکھا، ‘اس کے بارے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ متحدہ ہندوستان کو لے کر چلانے والے موجودہ جن سنگھ اور ان کے اجداد نے برٹن اور مسلم لیگ کی ملک کی تقسیم میں مدد کی ہے۔’
رام منوہر لوہیا نے لکھا کہ انہوں نے مسلمانوں کو ایک ملک کے اندر ہندو کے قریب لانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کے لیے لگ بھگ سب کچھ کیا۔ اس طرح کا نظام بٹوارے کی اصلی وجہ ہے۔
امت شاہ نے اس بل کو صحیح ٹھہرانے کے لیے سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کے اس فیصلے کا حوالہ دیا جس کے تحت 1971 میں مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش)کے پناہ گزینوں کو ہندوستان میں آنے دیا گیا تھا۔
امت شاہ نے جو کہا
اس بل میں افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی غیر مسلم کمیونٹی کو ہندوستان میں پناہ دینے کی بات کہی گئی ہے۔ کئی رکن پارلیامان نے سوال کیا کہ ‘اس میں نیپال کو کیوں شامل نہیں کیا گیا ہے۔’ اس پر شاہ نے کہا کہ ‘ہندوستان کی 106 کیلومیٹر سرحد افغانستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔’اس کے بعد بھی جب رکن پارلیامان لگاتار سوال کرتے رہے تو انہوں نے کہا، ‘شاید وہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان کا حصہ نہیں مانتے ہیں۔’
شاہ نے کہا، ‘افغانستان ایک اسلامی ریاست ہے اور پاکستان اور بنگلہ دیش بھی۔’ انہوں نے کہا کہ 1950 کا نہرو لیاقت سمجھوتہ مشرقی اورمغربی پاکستان اور ہندوستان میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے فراہم کیا گیا تھا۔ جبکہ ہم نے اسے ٹھیک سے نافذ نہیں کیا، ان دوسرے ملکوں میں اقلیتوں کا استحصال ہورہا ہے ہندوؤں، سکھوں، بودھوں، جینیوں، پارسیوں اور عیسائیوں کے ساتھ امتیاز کیا گیا۔
جب کچھ رکن پارلیامان نے پوچھا کہ کیا ان ممالک میں مسلمانوں کے خلاف کوئی ظلم نہیں ہوا ہے، تو شاہ نے جواب دیا، ‘کیا ان ملکوں میں مسلمانوں پر ظلم ہوگا؟’
آرٹیکل 14 اور مناسب درجہ بندی
وزیر داخلہ کے مطابق، ‘یہ بل آئین کے کسی بھی آرٹیکل کی خلاف ورزی نہیں ہے۔’ یہ کہتے ہوئے کہ سبھی نے دفعہ14 کے بارے میں بات کی ہے کیونکہ انہیں لگا کہ بل مساوات کی خلاف ورزی کرتی ہے، انہوں نے زور دےکر کہا، ‘مناسب درجہ بندی کی وجہ سے دفعہ 14 ہمیں قانون بنانے سے نہیں روک سکتا ہے۔’پھر انہوں نے کہا، ‘1971 میں، ایک فیصلہ لیا گیا تھا کہ بنگلہ دیش سے آنے والے سبھی لوگوں کو شہریت دی جائےگی۔ پاکستان سے آنے والوں کو کیوں نہیں دیا گیا؟ اس وقت بھی، آرٹیکل 14 تھا، پھر صرف بنگلہ دیش ہی کیوں؟’
شاہ نے زور دےکر کہا کہ یہ بل بنگلہ دیش کے لوگوں کے لیے بھی ہے۔ وہاں استحصال ابھی بند نہیں ہوا ہے۔ 1971 کے بعد بھی وہاں الپ اقلیتوں کو چن چن کر مارا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہاں سے آئے پناہ گزینوں کو مناسب درجہ بندی کی بنیاد پر اجازت دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘اس طرح کے قوانین دنیا موجود میں ہیں۔اگر آرٹیکل14 کا یہ خلاصہ نافذہوتا ہے، تو آپ اقلیتو ں کو خصوصی سہولیات کیسے دیں گے۔’
حالانکہ اہم وکیلوں کا کہنا ہے کہ شاہ کے ‘مناسب درجہ بندی’ کی وضاحت درست نہیں ہے۔سینئر وکیل سنجے ہیگڑے نے کہا، ‘شاہ نےمناسب درجہ بندی جملے کا صرف ایک حصہ بتایا ہے۔اگر مذہبی استحصال کی وجہ سے بھاگنے والوں کی درجہ بندی کی گئی ہے تو سبھی طرح کے لوگ مذہبی استحصال سے بھاگ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ صرف کچھ مذاہب کے لوگ ہی مذہبی استحصال کے شکا ربنائے جا سکتے ہیں، دوسرے نہیں۔ پاکستان یا افغانستان سے مذہبی استحصال سے بھاگے ایک احمدیہ یا شیعہ مسلم کو کسی بھی ہندو، بودھ، سکھ، پارسی یا عیسائی کے طورپرہندوستانی شہریت مانگنے کاحق ہونا چاہیئے۔’
شاہ کے ذریعے1971 میں بنگلہ دیش کی حالت کے ساتھ شہریت ترمیم بل کا موازنہ کرنے پر، ہیگڑے نے کہا، ‘اندرا گاندھی نے کبھی نہیں کہا کہ ‘صرف مشرقی پاکستان کے ہندوؤں کااستقبال کیا جائےگا۔مشرقی پاکستان کا کوئی بھی فرد جو پاکستانی فوج سے بھاگ رہا تھا اسے ہندوستان میں آنے کی اجازت دی گئی تھی۔ تب مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں تھا۔’امت شاہ کے اس دعوے پر ردعمل دیتے ہوئے کہ اقلیتوں کو مناسب درجہ بندی کے مطابق فائدہ دیا جاتا ہے، ہیگڑے نے کہا، ‘اگر آپ ہندوستان کے اندریہ طے کرتے ہیں کہ کچھ کمیونٹی کو زیادہ مددکی ضرورت ہے، تو یہ پوری طرح سے ایک الگ بات ہے۔درجہ بندی ہوا ہوائی طریقے سے نہیں کی جا سکتی ہے۔
ایک اور سینئروکیل سی یو سنگھ نے امت شاہ کے ذریعے اس بل کوصحیح ٹھہرانے کے لیے 1971 کا حوالہ دینے پراعتراض کیا۔ انہوں نے کہا، ‘مجھے 1971 والا قول درست نہیں لگتا ہے، میں اس سےمتفق نہیں۔’سنگھ نے آگے کہا، ‘مناسب درجہ بندی قانون کے لحاظ سےہونا چاہیئے۔ اگر آپ کا مقصد مظللوم اقلیتوں کوپناہ دینا ہے تو ایسی حالت میں ان اسلامی ملکوں میں اکثریت کے اندر ہی کئی اقلیتی طبقے پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ احمدیہ اور بہائییوں کی مثال سب کے سامنے ہے۔’