منی پور میں پچھلے کچھ دنوں سے تشدد جاری ہے، جبکہ جموں و کشمیر میں دہشت گردانہ حملے میں پانچ جوان شہید ہوگئے ہیں، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کرناٹک میں انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ انہوں نے ان دونوں واقعات پر اب تک نہ تو کوئی بیان دیا ہے اور نہ ہی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کےبارے میں کسی طرح کی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کرناٹک میں ایک انتخابی ریلی کے دوران۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/بی جے پی کرناٹک)
نئی دہلی: کرناٹک میں انتخابی مہم کے درمیان جموں و کشمیر کے راجوری ضلع میں مسلح دہشت گردوں کے ہاتھوں
پانچ فوجی جوانوں کی ہلاکت اور
منی پور میں بڑے پیمانے پر تشدد جس میں 50 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں، کی خبروں پر کانگریس کی قیادت والی اپوزیشن نے وزیر اعظم نریندر مودی کی ‘ خاموشی’ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
دریں اثناجنتر منتر پر ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے صدر اور بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ برج بھوشن شرن سنگھ پرجنسی ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئے پہلوانوں نے کہا تھا کہ
دہلی پولیس نے ان پر حملہ کیا۔
وزیر اعظم مودی نے ابھی تک ان میں سے کسی بھی ایشو پر منھ نہیں کھولا ہے۔ منی پور میں بدامنی کے دوران دی وائر نے ان کے سوشل میڈیا فیڈکو کھنگالا، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ وہ اس دوران کیا کر رہے تھے۔
ٹوئٹر پر3 مئی سے وزیر اعظم مودی نےکرناٹک انتخابی مہم سے متعلق 30 پوسٹ کیے ہیں، جن میں کم از کم درجن بھر پوسٹ میں کانگریس اور جنتا دل (سیکولر) پر حملہ کیا گیا ہے۔
گزشتہ 5 مئی کو مودی نے بیلاری اور تمکور میں ایک انتخابی پروگرام اور 6 مئی کو بنگلورو میں ایک روڈ شو میں شرکت کی۔ وہ ہفتے کے آخر میں کرناٹک کی راجدھانی میں 2 روڈ شو اور 4 عوامی ریلیاں کرنے والے ہیں۔
رائے عامہ کے
ایسے جائزوں کے سامنے آنے کے بعد کہ بی جے پی کرناٹک میں ہار سکتی ہے، مودی نے ریاست میں بڑے پیمانے پر انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔
گزشتہ 3 مئی کو مد بیدری سے انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کانگریس ‘
جئے بجرنگ بلی‘ کہنے والوں کو حوالات میں ڈالنا چاہتی ہے۔ ان کا یہ طنز کانگریس کے بجرنگ دل کے خلاف کارروائی کرنے کے وعدے پر تھا۔ انہوں نے انتخابی ریلیوں کا اختتام بھی ‘جئے بجرنگ بلی’ کے نعرے کے ساتھ کیا۔
کانگریس نے ان پر ووٹروں کو پولرائز کرنے کی کوشش میں بجرنگ دل کو جان بوجھ کر بھگوان ہنومان سے جوڑنے کا الزام لگایا ہے۔ وزیراعظم کے نعروں کی تشریح ، اصولوں کی خلاف ورزی کرکے مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کے طور پر کی جاسکتی ہے۔
منی پور میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بی جے پی حکومتوں (ریاستی اور مرکزی) کو
تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اکثریتی میتیئی کمیونٹی کی جانب سے ایس ٹی کا درجہ پانے کے مطالبے کو لے کراس شمال–مشرقی ریاست میں تشدد دیکھنےکو مل رہا ہے۔ ریاست میں میتیئی اور قبائلی برادریوں کے درمیان جھڑپوں کی اطلاع ہے، جس کے نتیجے میں ریپڈ ایکشن فورس کو تعینات کیا گیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ 5 مئی کو وزیر اعظم مودی نے کرناٹک میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اپنا ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا تھا۔ ٹوئٹ کے کیپشن میں لکھا تھا،اپنے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے کانگریس امن و امان کے سنگین مسائل کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہے۔
ویڈیو میں انہوں نے کہا کہ کرناٹک کو نمبر ون ریاست بنانے کے لیے امن و امان کو برقرار رکھنا سب سے ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب امن و امان کی بات آتی ہے تو بی جے پی ہمیشہ سے سخت رہی ہے، لیکن جب بھی ہم دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو کانگریس کے پیٹ میں درد ہونے لگتا ہے۔
دس منٹ کے ویڈیو میں وزیر اعظم نے منی پور تصادم کے بارے میں بولنے کے بجائے ایک پروپیگنڈہ فلم ‘
دی کیرالہ سٹوری‘ کے بارے میں بات کرنے کو ترجیح دی ، جس میں ان ملیالی خواتین کی سچی کہانی کو دکھانے کا دعویٰ کیا گیا ہے، جو اسلام قبول کرنے کے بعد سیریا جاکر آئی ایس آئی کا حصہ بن گئیں۔
غورطلب ہے کہ مودی نے اس فلم کی حمایت اس وقت کی ہے جب اس کے بنانے والوں نے 5 مئی کو ہائی کورٹ کو بتایا کہ متنازعہ فلم کا
گمراہ کن دعوے والا ٹیزر ہٹایا جائے گا، جس میں ریاست کی 32000 خواتین کے آئی ایس آئی ایس میں شامل ہونے کی بات کہی گئی ہے۔
وزیر اعظم مودی نے اس دہشت گردانہ حملے کے بارے میں بھی بات نہیں کی، جس میں جموں و کشمیر کے راجوری ضلع میں جمعہ (5 مئی) کو 5 فوجی جوان شہید ہوگئے۔ جیسا کہ
دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتا یا ہے کہ جموں ڈویژن کے پیر پنجال علاقے میں 2023 میں یہ تیسرا بڑا حملہ تھا۔ ان حملوں میں دو نابالغوں سمیت سات شہری اور فوج کے 10 اہلکار مارے گئے ہیں۔
کانگریس نے مودی اور بی جے پی کو نشانہ بنایا
میڈیا سے بات کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر لیڈر جئے رام رمیش نے وزیر اعظم مودی کی ‘ڈبل انجن سرکار’ (بھگوا پارٹی کی تشریح کے مطابق کہ مرکز اور ریاست دونوں میں اس کی حکومت ہو تو’ وکاس’ کو پنکھ لگ جاتے ہیں) پر حملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ منی پور میں بی جے پی کی حکومت کے منتخب ہونے کے صرف ایک سال بعد ہی ریاست تشدد کی لپیٹ میں ہے۔
جئے رام رمیش نے کہا کہ منی پور میں بدامنی نے بڑے پیمانے پر تشویش پیدا کر دی ہے، انٹرنیٹ خدمات معطل کر دی گئی ہیں، اور پورا منی پور غصے میں ابل رہا ہے۔ انہوں نے کہا، اس درمیان وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کرناٹک میں پولرائز کرنے میں مصروف ہیں۔
کانگریس کے صدر ملیکارجن کھڑگے نے بھی ٹوئٹر پر منی پور میں حالیہ واقعات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا اور الزام لگایا کہ بی جے پی نے برادریوں کے درمیان دراڑ پیدا کر دی ہے، جس سے شمال–مشرقی ریاست میں بدامنی پھیل رہی ہے۔ کشمیر اور منی پور دونوں میں صورت حال حساس ہے، اور امن و امان برقرار رکھنے کے لیے سیکورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔