ملک میں ایک لمبی اور مشکل لڑائی کے بعد حاصل کئے گئے جمہوری حقوق خطرے میں ہیں کیونکہ حکمراں پارٹی کے ذریعے ان کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
امرتیہ سین،(فوٹو: پی ٹی آئی)
جمہوریت کی بنیاد کو کھوکھلا کرنے والے قدم ہندوستان میں لگاتار دن بہ دن عام ہوتے جا رہے ہیں۔ دی وائر اور اس کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کے خلاف اتر پردیش حکومت جہاں مرکز میں حکمراں پارٹی کی ہی حکومت ہے – کی
پولیس کی کارروائی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت پرتباہ کن حملے کس حد تک اور کس مرحلے میں پہنچ گئے ہیں۔
جو ہو رہا ہے، اس کو لےکر دی وائر کا نظریہ سرکار کے نظریے سے الگ ہے، لیکن اس اختلاف کےمتعلق یوپی پولیس کو دی وائر کے خلاف مجرمانہ معاملہ درج کرنے کی کوشش کرتے دیکھنا، جس کے تحت اس کے مدیرکو گرفتار کیا جا سکتا ہے، بے حد خوفناک ہے۔ایک ہندوستانی شہری کے طور پر، ہمارے چنے ہوئے رہنماؤں کی بد سلوکی کو دیکھ کر میرا سر شرم سےجھک جاتا ہے۔ میرا اشارہ میڈیا کی آزادی کو کچلنے اور ملک میں اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی کی ان کی کوششوں کی طرف ہے۔
میں اس معاملے میں تو سرکاری کارروائی کی مذمت کرتا ہی ہوں اور مجرمانہ الزام فوراً ہٹانے کی مانگ کرتا ہوں، ساتھ ہی ساتھ مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ اپنے ملک میں جمہوری آزادی کے زوال کے موضوع پر بھی اپنی بات رکھنا یہاں ضروری ہے۔وردراجن اور دی وائر کے خلاف پوری طرح سے غیر منصفانہ مجرمانہ مقدمہ ہندوستان کے حساب سے ایک ڈرانے والاواقعہ ہے۔
ایسا صرف اس لیے نہیں ہے کہ یہ پوری دنیا کے سامنے اس بات کو اجاگر کر دیتی ہے کہ اپنی موجودہ قیادت کے سایہ میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کتنےحیرت انگیز طور پر عدم روادار ہوگئی ہے۔ہندوستان میں جمہوری قدروں کو جس طرح سے پامال کیا گیا ہے، حال کے برسوں میں وہ دنیا میں
بڑے پیمانے پر بحث کاموضوع ہے اور اس کو لے کر لگاتار اس پر الزام لگتے رہے ہیں۔
ہندوستان کے دوستوں کے لیے یہ صورت حال تکلیف دہ ہے، جبکہ اس کے دشمنوں کو یہ سب دیکھ کر خوشی ملتی ہے۔ہندوستان کے عالمی وقار کا گرنا سنگین مسئلہ ہے ہندوستان کو یہاں سے نکلنے میں وقت لگےگا (یہ موجودہ سیاسی قیادت میں تبدیلی کے بعد ہی ہوگا، جس کا آج نہ کل ہونا طے ہے)- مگر پولیس کی اس کارروائی اور ملک کے کئی حصوں میں اسی سے ملتی جلتی مطلق العنایت کا یہ سب سے خراب پہلو نہیں ہے۔
سیاسی اقتدار کے اس طرح سے ظاہری طور پر غلط استعمال سے ہونے والاسب سے بڑا نقصان دراصل دوررس گھریلونتائج کے طور پر نظر آئےگا۔ہندوستان میں جمہوریت نے کئی اچھی حصولیابیوں کو ممکن بنایاہے۔ برٹش انڈیا میں باربار آنے والا تباہ کن قحط،جمہوری انتظامیہ اور میڈیا کی آزادی کے قیام کے ساتھ ہی رک گیا۔
اس کے علاوہ ہندوستان کی کئی دوسری حصولیابیاں ہیں۔ مثال کے طور پر جمہوری روداری اور میڈیا کی وسیع آزادی کی ہم نوائی کا استعمال کرتے ہوئے ہندوستان کے ذریعےدانشورانہ تخلیقیت کے شعبےمیں بڑی ترقی درج کی گئی ہے۔وہیں، غریبی اور خوفناک عدم مساوات کے خاتمہ جیسے دوسرےجمہوری مقاصدکی طرف اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس کو بہتر داخلی حکمت عملیوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور اس میں جمہوری سیاسی نظا م مددگار ثابت ہوگا۔
یہاں تک کہ اگر پریس کی آزادی پر پابندیوں کے باوجود چین بہتر کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، تو یہ ایک ادھوری کہانی ہے (چین میں گریٹ لیپ فارورڈ کے دور میں تاریخ کے
سب سے بڑے قحط دیکھنے کو ملے)اور اس کی حصولیابیاں اس کی قیادت کے ذریعے سب کے لیے اسکولی تعلیم اور ہیلتھ سروس کو لے کرعزم پر ٹکی ہے۔
یہ اس کی قیادت کے بنیادی سیاسی نظریےکے مطابق ہے اور ہندوستان میں اس سے موازنہ کرنے لائق کچھ نہیں ہے۔ ہندوستان جیسی صورتحال میں میڈیا کی آزادی کے خلاف جانے کو ہوشیار ڈیولپمنٹ پالیسی نہیں کہا جا سکتا۔ایک عام انتخاب میں جیت درج کرتےحکمراں پارٹی کو جواختیارات ملتے ہیں، ان کی وضاحت الگ الگ طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔
اور کبھی کبھی اس کے کئی ایسے مطلب نکالے جا سکتے ہیں، جس کو آئین کی کسوٹی پر جائزنہیں کہا جا سکتا ہے۔
بڑا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کیا 2019 کے نتیجے میں
جنگ کا گہرا اثر رہا– جنگ اکثر حکمراں پارٹیوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں(جیسے کہ فاکلینڈ جنگ نے 1982 کے انتخاب میں پیچھے چل رہی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کو 1983 میں زبردست جیت دلائی)، نہ ہی یہ کہ بنیادی طور پر حکمراں پارٹی کے
بے مثال انتخابی وسائل نے اس میں مرکزی رول نبھایا۔
تشویش کی بات ہے اس اختیار کی غلط تشریح ہے، جوپارلیامانی انتخابات میں ملی جیت کے بعدجائز طریقے سے ملتی ہے۔انتخابات میں ملی جیت حکمرانوں کو کسی کو صرف سرکار کا (جو ملک نہیں ہے)مخالف ہونے کی وجہ سے
‘غدار’ قرار دینے کا اخلاقی (یہاں تک کہ قانونی بھی) اختیار نہیں دیتی ہے۔
نہ ہی یہ سرکار کوسیاسی اختلاف کو
‘غدار’ قرار دینے کی اجازت دیتی ہے (جیسا کہ حکومت ہند کے ذریعے باربار کیا گیا ہے)، نہ ہی یوپی سرکار کی پولیس کی رروائی کے معاملے میں، ایک صحافی کے ذریعےکسی بات کی سرکاری لائن سے الگ تشریح کو مجرمانہ کام قرار دیا جا سکتا ہے۔
فوٹو: کرنیکا کوہلی/دی وائر
میں اپنی بات کو دو باتوں کے ساتھ ختم کرنا چاہوں گا۔ پہلی بات، کوئی بھی سرکار لافانی نہیں ہوتی ہے، بھلے ہی حکمراں طبقے کو یہ مغالطہ رہتا ہو۔موجودہ وقت میں سرکار بھلے ہی تسلیم شدہ معیاروں کی دھجیاں اڑانے میں کامیاب ہو جائےگی، لیکن آنے والے وقت میں اس کو اسی طرح سے نہیں دیکھا جائےگا۔
پاکستان کے صدر ضیا الحق کے خلاف لکھی گئی
فیض احمد فیض کی مشہور نظم ‘ہم دیکھیں گے’ نے مستقبل کے اس وقت کی طرف اشارہ کیا تھا جب آج کی کارگزاریوں کو الگ طرح سے دیکھا جائےگا۔اس وقت ضیابے حد طاقتور تھے، لیکن آج انہیں کیسے دیکھا جاتا ہے؟ اورلاطینی امریکہ کے کل کے سیاسی طور پرناقابل تسخیر تاناشاہ حکمرانوں کو آج کس طرح سے دیکھا جاتا ہے؟
کیاہندوستان کے طاقتوار حکمراں تاریخ کے ذریعے کئے جانے والے فیصلوں سے پوری طرح سے انجان ہیں؟
دوسری بات کا تعلق ہماری قومی تاریخ سے ہے۔ ہندوستا ن نے آزادی کی جد وجہد کے دوران جمہوری حقوق کے لیے لمبی لڑائی لڑی کئی لوگوں نے ہمارے ملک میں آزادجمہوریت کے قیام کے لیے قربانیاں دیں اور کئی لوگوں نے شدید تکلیف اٹھائے کئی الگ الگ مذاہب، عقائداور پنتھ کو ماننے والے لوگوں نے شاندار ڈھنگ سے کندھے سے کندھا ملاکرجد وجہد کیا۔
یہ جدوجہد کسی مغرور نظام کے ہاتھوں من مانی حکمرانی کے لیے نہیں تھا، جس کی عمدہ مثال میڈیا کی آزادی کے خلاف یوپی پولیس کی کارروائی اور بڑے صحافیوں کو گرفتار کرنے کی کوشش ہے۔اپنے نوآبادیاتی ماضی میں ہم برٹش راج کے شہری ہونے کے ناطے اپنی کمتر حیثیت کو سمجھ سکتے تھے، لیکن کیا اپنی جمہوریت میں بھی ہم اسی طرح کی محکومی کو قبول کر سکتے ہیں؟
(امرتیہ سین اکانومسٹ ہیں۔)