جو میدان الطاف شاہ نے چنا تھا اس میں معلوم ہی تھا کہ موت و حیات ہمیشہ باہم دست و گریباں رہے گی۔ اس میدان میں زندگی بہت مہنگی اور موت ارزاں ہوتی ہے۔موت،زندگی سے ایک لمحے کے فاصلے پہ تعاقب میں پھرتی ہے۔دل— گردہ چاہیے، اس میدان میں جمے رہنے کے لیے۔دو بار انہوں نے موت کو چکمہ دیا تھا۔ شاید وہ تیسری بار بھی اس کو شکست دیتے، اگر ان کا خاطر خواہ علاج کرایا جاتا یا تہاڑ جیل کے ڈاکٹر اپنے پیشے کے اصولوں سے انحراف نہیں کرتے۔
کشمیری علیحدگی پسند رہنما الطاف احمد شاہ اپنی بیٹی صحافی روا شاہ کے ساتھ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)
دس(10)اکتوبر کی رات کو جب دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں پچھلے پانچ سالوں سے تہاڑ جیل میں قید حریت لیڈر اور بزرگ کشمیری لیڈر مرحوم سید علی گیلانی کے داماد، الطاف احمد شاہ کی
موت کی خبر آئی تو شاید ہی اس پر کسی کو حیرت ہوئی ہو۔ قیدیوں کو علاج و معالجہ کی سہولیات فراہم نہ کرنے کے سبب پچھلے ایک سال میں یہ کسی سیاسی قیدی کی موت کا چھٹا واقعہ ہے۔
ان میں کشمیر سے جماعت اسلامی کے رکن غلام محمد بٹ، تحریک حریت کے صدر محمد اشراف صحرائی کے علاوہ مہاراشٹرا میں بائیں بازو کے ماؤنوازں کو مدد دینے کے الزام میں قید 83سالہ پادری اسٹین سوامی، 33 سا لہ پانڈو ناروتے اور 38سالہ کنچن نانووارے شامل ہیں۔ نانووارے کی پچھلے سال جنوری میں دوران حراست غلط برین سرجری کی گئی تھی، جس کے بعد ان کی موت ہوگئی۔
حیرت کا مقام ہے کہ عدالتیں—پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کے اس استدلال کو تسلیم کرتی ہیں کہ جیلوں میں علاج و معالجہ کی سہولیات موجود ہیں، اس لیے اس گراؤنڈ کو لےکر ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے۔ مگر جیل میں کس قدر علاج و معالجہ کی سہولیات دستیاب ہیں اور وہاں ڈاکٹروں کا رویہ کیسا ہوتا ہے،
اس کا میں خود گواہ ہوں۔
تہاڑ، جس کو ایک ماڈل جیل کے بطور پیش کیا جاتا ہے کی جیل نمبر تین میں واقعی ایک بہترین اسپتال ہے، جس کو ججوں و معائنوں پر آئے افسران اور کسی وقت غیر ملکی ٹیموں کو دکھا کر متاثر کیا جاتا ہے۔ 2002 میں جب نو روز تک دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے انٹروگیشن میں رہنے کے بعد مجھے تہاڑ جیل منتقل کیا گیا تو داخلہ کے وقت ہی مجھے جیل ڈاکٹروں کے رویہ کا ادراک ہوا۔
جیل سپرنٹنڈنٹ کے آفس میں پٹائی کے بعد کاغذی کارروائی پوری کرنے کے لیے مجھے جیل آفس سے متصل ڈاکٹر کے سامنے پیش کیا گیا، تو بجائے مجھے دیکھنے کے وہ مجھ پر لگائے گئے الزامات دریافت کرنے لگا۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ میں آفیشل اسکرٹس ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہوں، تو اس نے پاکستانی ایجنٹ ہونے کا الزام لگا کر مجھے کوسنا شروع کردیا۔
ڈاکٹر اور اس کے اسسٹنٹ کو نئے قیدیوں کو سیل یا وارڈوں میں بھیجنے سے قبل ان کی طبی جا نچ اور اگر وہ زخمی ہوں، تو اس کا اندراج کرنا ہوتا ہے۔ میری ناک اور کان سے خون رس رہا تھا۔ اس نے ان زخموں کو پولیس اور انٹروگیشن کے کھاتے میں ڈال کر مجھے دستخط کرنے کے لیے کہا۔
میں نے اس کو کہا کہ یہ خاطر داری چند لمحے قبل جیل آفس میں ہی ہوئی ہے اس کا پولیس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کو یقین نہیں آرہا تھا کہ مجھ جیسے غدار کو پولیس نے کیسے بخشا ہے۔ خیر اس نے جیل حکام کے حوالے کرکے مجھے سیل میں لے جانے کا اشارہ دے دیا۔
جیل نمبر تین کے اس اسپتال میں، جہاں الطاف شاہ کو کئی ماہ تک کینسر کا علاج کرنے کے بدلے بس پین کلر دےکر واپس سیل میں بھیج دیا جاتا تھا، کے او پی ڈی میں میرا اکثر آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اسٹیتھسکوپ لگانا تو دور کی بات، ڈاکٹر قیدیوں کو دور رکھ کر ان کو ہاتھ لگائے بغیر علاج تجویز کرتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ یا تو مریضوں کو چھو کر وہ اپنا دھرم بھرشٹ نہیں کرنا چاہتے ہیں یا حکیم بقراط کی طرح وہ دور سے ہی چال دیکھ کر تشخیص کرتے ہیں۔ بجائے مریض سے ا س کی بیماری کے بارے میں پوچھنے کے وہ اس کے کیس کے بارے میں تفتیش کرکے، سزا ئیں بھی تجویز کرتے رہتے ہیں۔
میڈیکل سائنس کی پوری اخلاقیات کا جیل کے ڈاکٹروں نے جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ علاج کے نام پر تمام مریضوں کو ایک ہی دوا دیتے تھے، چاہے پیٹ کا درد ہو یا نزلہ یا زکام۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار ہمارے وارڈ میں ایک قیدی کو شدید نزلہ، زکام لاحق ہو گیا تھا اور دوسرے قیدی کو دست ہوگئے تھے۔ دونوں جب اسپتال سے واپس آئے تو معلوم ہواان کو ایک ہی گولی دی گئی تھی اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ دونوں صحت یاب بھی ہوگئے۔
اس پر ایک دوسرے قیدی نے لقمہ دیاکہ دراصل دونوں کے جسم میں گندگی جمع ہو گئی تھی۔ ایک کی گندگی ناک و منہ سے نکل رہی تھی اور دوسرے کی گندگی نے دوسرا راستہ اختیار کیا تھا۔ اس ایک گولی نے اصل میں گندگی کو ٹھیک کردیا۔
تہاڑ میں گزرے آخری دنوں میں جب میرا کیس تقریباً ختم ہونے کے قریب تھا، میڈیا نے باہر دباؤ بنایا ہوا تھا اور حکومت خود ہی اس کو واپس لینے پر غور کر رہی تھی، میں جیل حکام کا خاصا لاڈلا بن گیا تھا۔ اس عرصہ میں وہ میرا بڑا خیال رکھتے تھے۔
ایک رات میرے پیٹ میں سخت درد اٹھا کہ برداشت سے باہر ہوگیا۔ کئی بار الٹیاں ہوگئی تھیں۔ رات کی ڈیوٹی پر مامور جیل حکام بیرکوں اور وارڈوں کو بند کر کے جیل آفس میں جاکر آرام کرتے ہیں۔ میرے ساتھی قیدیوں نے شور مچاکر جیل آفس تک آواز پہنچانے کی کوشش کی۔
آدھے گھنٹے کے بعد ایک وارڈن آگیا اور بیرک کی سلاخوں کے باہر سے ان کو ڈانٹ کر پوچھاکہ وہ کیوں شور مچارہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ قیدی کی طبیعت خراب ہے۔ اس نے نام پوچھا۔ گیلانی کا نام سنتے ہی اس نے کہا کہ مرنے دو اور واپس چلا گیا۔ قیدی بھی سکتے میں آگئے۔
تھوڑی دیرکے بعد بیرک میں موجود پچاس سے زائد قیدیوں نے دوبارہ چیخ و پکار بلند کی، کیونکہ کچھ عرصہ قبل اسی وارڈ میں ایک قیدی کی رات کے وقت موت ہوگئی تھی اور صبح سویرے پورے وارڈ کی کلاس لی گئی تھی کہ انہوں نے جیل حکام کو کیوں آگاہ نہیں کرایا۔جیل سپرنٹنڈنٹ نے ہدایت دی تھی کہ ایسی صورت حال میں گلا پھاڑ کر چیخ و پکا ر بلند کیا کریں تاکہ آواز جیل کنٹرول روم تک پہنچے۔
ایک گھنٹے کے بعد دوسرا وارڈن ڈاکٹر سمیت آگیا اور بیرک کھول کر مجھے اسپتال میں داخل کروایا۔ اگلے روز پہلے والا وارڈن اسپتال میں آکر معافی مانگ کر صفائی دینے لگا کہ وہ سمجھ رہا تھا کہ پارلیامنٹ والا گیلانی (مرحوم عبدا لرحمان گیلانی، جو پارلیامنٹ حملہ کیس میں انہی دنوں اسی جیل میں تھے، اور بعد میں بری ہوگئے) ہے۔ اس لیے اس نے دھیان نہیں دیا۔
الطاف احمد شاہ اپنے سسر سید علی گیلانی کی طرح ہی زمانہ طالبعلمی سے ہی سیاست سے وابستہ رہے ہیں۔ پرانے سرینگر شہر کے خانقاہ معلی محلہ کے مقیم ان کے والد محمد یوسف شاہ، شیخ محمد عبداللہ کے دست راست اور معروف تاجر بھی تھے۔ جب شیخ عبداللہ محا ذ رائے شماری کی قیادت کررہے تھے، تو ان کے ساتھ جیل بھی گئے ہیں۔
وہ ایک کٹر نیشنل کانفرنس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر زمانہ طالبعلمی میں ہی وہ شیخ عبداللہ کے سحر سے ایسے وقت آزاد ہوگئے تھے، جب نیشنل کانفرنس کے خلاف شہر سرینگر میں ہلکی سی کانا پھوسی بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھی۔
الطاف شاہ کے والد محمد یوسف شاہ کی سرینگر کے مرکز لال چوک میں فنٹوش ہوزری کے نام سے ایک دکان تھی۔ جس کی نسبت سے ان کو بھی الطاف فنٹوش کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ دکان ایک طرح سے محاذرائے شماری بعد میں نیشنل کانفرنس کے لیڈروں کی ایک پنڈ ہوتی تھی۔ غلام محمد بھدروائی، بشیر احمد کچلو، شیخ نذیر وغیر سینئر نیشنل کانفرنس کے لیڈران دوپہر بعد ان کی دکان پر چائے کی چسکیاں لےکر گفتگو کرتے تھے۔
بعد میں جب الطاف شاہ اپنے والد کے ساتھ اس دکان کو سنبھالنے لگے تو یہ جماعت اسلامی، پیپلز لیگ اور آزادی پسند تنظیموں کے لیڈروں کا ٹھکانہ بن گئی۔ یہ ایک طرح سے سیاست کے دو کناروں کے لیڈروں کا ایک میٹنگ پوائنٹ بھی بن گیا تھا۔
الطاف شاہ کی کاوشوں سے شہر سرینگر کے معتدد نوجوان نیشنل کانفرنس اور شیخ عبداللہ کے سحر سے آزاد ہوگئے۔ جب نوے کے وسط میں انتہائی بدقسمتی اور بد بختی کی وجہ سے شہر میں العمر، جے کے ایل ایف اور حزب المجاہدین کے درمیان انٹر گروپ تنازعہ شروع ہوئے اور اس قدر بڑھ گئے کہ ایک دوسرے کو قتل کرنا اور اغوا کرنا معمول بن گیا تو الطاف شاہ کے کنیکشن اور رابطہ کام آتے تھے۔
وہ ایک زیرک سفارت کار اور ڈپلومیسی کے ذریعے معاملات سلجھانے کی کوشش کرتے تھے۔ کیونکہ تقریباً ہر گروپ میں ان کے قدر شناس موجود ہوتے تھے، یا ایسے اشخاص جن کو انہوٍں نے آڑے اوقات میں پناہ دی ہوئی ہوتی تھی، یا ان کی مدد کی تھی۔
ایک طرح سے آذر کے گھر میں ابراہیم کی پرورش ہو رہی تھی۔ شیخ عبداللہ کے علاوہ شہر کے چند علاقوں میں میرواعظ خاندان کا طوطی بولتا تھا اور یہ دونوں مل کی کسی تیسری قوت کو شہر میں پیر جمانے نہیں دیتے تھے۔ چونکہ دونوں ایک دوسرے سے برسرپیکار رہتے تھے، ان کی اساس ہی غنڈہ سیاست پر ٹکی ہوئی تھی اور عدم برداشت ان کے کارکنوں میں کوٹ کوٹ کر بھر ا تھا۔
سال 1978میں جماعت اسلامی نے طلبہ کے لیے اسلامی جمیعت طلبہ تنظیم کا قیام عمل میں لایا اور اس کی ذمہ داری محمد اشرف صحرائی کو سونپ دی، تو الطاف احمد شاہ کو 21 سال کی عمر میں اس کا پہلا جنرل سکریٹری بنادیا۔ 1979 میں جب اس تنظیم کا پہلا اجلاس گول باغ (حال ہائی کورٹ کمپلکس) میں منعقد ہوا، تو اس میں دس ہزار طلبہ نے شرکت کی۔ 1980 میں اس تنظیم نے شیخ تجمل اسلام کی قیادت میں ایک اسلامی کانفرنس بلانے کا اعلان کردیا، جس کی پہلے تو حکومت نے اجازت دے دی، بعد میں پابندی لگائی اور اس کے منتظمین کو حراست میں لے لیا۔ی
ہ شاید یہ الطاف احمد شاہ کی پہلی گرفتاری تھی۔ و ہ اس وقت کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ ا یجوکیشن میں پوسٹ گریجوشن کے طالب علم تھے۔ ان کو پہلے ادھم پور اور پھر ریاسی جیل میں رکھا گیا۔ 1981تک یہ تنظیم بیشتر تعلیمی اداروں میں اپنی شاخیں بنا چکی تھیں۔ اس کے ساتھ جماعت میں یہ خدشہ سر اٹھانے لگا کہ آگے چل کر یہ ایک متوازی تنظیم نہ بن جائے، حالانکہ اس کے دستور میں یہ شق موجود تھی کہ طالبعلمی کے چار سال بعد رکنیت خودبخود ختم ہو جائےگی۔
ایک سال بعد جماعت اسلامی نے اسلامی جمیعت طلبہ کی انفرادی آزاد حیثیت کو ختم کرکے اس کو شعبہ طلبہ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کردیا۔ جب جمیعت نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کیا تو جماعت نے اس طلبہ تنظیم میں موجود اپنی افرادی قوت کو واپس بلایا اور ان کو شعبہ طلبہ کی ذمہ داری دی۔ ان میں الطاف احمد بھی شامل تھے۔
میں نے پہلی بار ان کو غالباً اکتوبر 1983میں دیکھا۔ اسکول کے امتحانات ختم ہوچکے تھے، تو میں سوپور سے اپنے ننہال سرینگر کے قدیمی علاقے مہاراج گنج آیا ہوا تھا۔ سرینگر سے شائع ہونے والے روزنامہ آفتا ب میں ان کے مضامین پڑھتا تھا۔ ان دنوں اسمبلی انتخابات کی مہم زوروں پر تھی۔ شیخ عبداللہ کی موت کے ایک سال بعد نیشنل کانفرنس یہ انتخابات فاروق عبداللہ کی قیادت میں اور میرواعظ کی پارٹی عوامی ایکشن کمیٹی کے اشتراک کے ساتھ لڑ رہی تھی۔
جماعت اسلامی نے زینہ کدل سیٹ سے الطاف احمد کو کھڑا کیاہوا تھا۔ یہ شیروں کے ساتھ ان کی کچھار میں پنجہ آزمائی کے مترادف تھا۔لگا کہ باہر کچھ شور برپا ہے۔ ایک نوجوان دورازوہ کھٹکھٹا کر لوگوں سے جماعت اسلامی کے نشان ترازو پرووٹ ڈالنے کی استدعا کر رہا تھا۔ ان سے علیک سلیک تو نہیں ہوئی، مگر میں نے دیکھا کہ گلی میں لوگ ان کو کوس رہے تھے،گالیاں دے رہے تھے کہ وہ کیسے بب یعنی شیخ عبداللہ کی پارٹی کی مخالفت کرنے کی جرأت کر رہا ہے۔مقامی مسجد کے پاس چند لوگ باتیں کر رہے تھے کہ یوسف صاحب جیسے شریف آدمی نے اولاد نا خلف کو جنم دیا ہے وہ کیسے اس کو برداشت کر رہے ہیں؟ ا
س الیکشن میں ان کو بس 461ووٹ ملے تھے۔ 1986میں جب ان کی شادی علی گیلانی کی تیسری بیٹی زاہدہ سے طے ہوئی تو وہ کئی بار جیل کی ہوا کھا چکے تھے اور جماعت اسلامی کے سرگرم اراکین میں شامل تھے۔ اس رشتہ کی وجہ سے اگلے سال 1987کے الیکشن میں ان کو منڈیٹ نہیں دیا گیا۔کیونکہ مسلم یونائیٹد فرنٹ کا اتحاد، جو نیشنل کانفرنس–کانگریس اتحاد کے خلاف بن گیا تھا،نے علی گیلانی کو پارلیامانی بورڈ اور انتخابی مہم کا سربراہ بناکرا میدواروں کو سلیکٹ کرنے کا کام سپرد کر دیاتھا۔
اس وقت حکومتی اتحاد کے خلاف ایک زبردست لہر چل رہی تھی۔ فاروق عبداللہ کے کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے سے شہر میں خصوصاً غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ہندوستان میں اس پر اتفاق رائے ہے کہ ان انتخابات میں بے تحاشا دھاندلیوں اور نتائج میں ہیر پھیر کی وجہ سے ہی 1989میں عسکری تحریک کا جنم ہوا۔ منڈیٹ نہ ملنے کے باوجود الطاف شاہ ہی شہر سرینگر میں انتخابی اسٹریجی کی کمان کر رہے تھے۔ حزب المجاہدین کے سربراہ محمد یوسف شاہ (صلاح الدین) لال چوک حلقہ سے انتخابی میدان میں تھے، اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے سربراہ محمد یاسین ملک ان کے انتخابی ایجنٹ تھے۔
الطاف شاہ سے میری باضابطہ پہلی ملاقات دہلی کے کشمیر ہاؤس میں 1990میں ہوئی، جب میں جرنلزم کی پڑھائی کے لیے دہلی وارد ہوچکا تھا۔ ہمارے ایک رشتہ دار کشمیر یونیورسٹی میں پروفیسر وجیہہ احمد علوی امریکہ جا رہے تھے اور سامان وغیرہ کی پیکنگ کرنے کے لیے انہوں نے مجھے شام کو کشمیر ہاؤس آنے کے لیے کہا، جہاں و ہ ٹھہرے تھے۔ ان ہی کے کمرے میں الطاف شاہ بھی ٹھہرے تھے، جو چند روز قبل سرینگر میں حالا ت خراب ہونے کے سبب آئے تھے اور دہلی میں سفارتی اور میڈیا کے ادراوں کو اس کے بارے میں آگاہ کرانا چاہتے تھے۔
وہ کشمیر ہاؤس سے باہر کہیں رہائش پذیر ہونا چاہتے تھے۔ ڈنر کے بعد وہ میرے ساتھ ہی نکلے اور میرے ایک کمرے کے ڈیرے پر مقیم ہوئے۔ میں دن بھر کلاس اٹینڈ کرکے جب واپس آتا تھا، تو اکثر کسی ہوٹل میں رات کا کھانا کھاتا تھا۔ مگر الطاف شاہ نے آتے ہی اسٹوو و برتنوں کا انتظام کردیااور کافی دنوں بعد ان کی وجہ سے گھر جیسا کھانا نصیب ہوتا تھا۔ چونکہ ان کے پاس مہمان وغیرہ آتے تھے، تو انہوں نے کچھ عرصہ بعد علیحدہ رہائش کا انتظام کردیا۔
چند ماہ بعد جب وہ عید منانے سرینگر جا رہے تھے، تو ایر پورٹ پر ان کو گرفتار کرکے جموں کے جوائنٹ انٹروگیشن سینٹر (جے آئی سی) پہنچادیا گیا۔ ان ہی دنوں وہاں علی گیلانی کو بھی پہنچایا گیا تھا۔ ان کے سامنے ان کو تعدیب کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ان کو پورے آٹھ ماہ تک ایک تاریک قبر میں رکھا گیا۔
روداد قفس میں سید علی گیلانی رقم طراز ہیں کہ ان کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ نوجوان اس قبر میں کیسے زندہ رہا؟ کسی جاندار شے کو ایک طویل عرصے تک سورج کی روشنی سے محروم رکھا جائے، تو اس کی جان دھیرے دھیرے نکلتی ہے۔ جسم پھول جاتاہے اور اعضاء پر کائی جم جاتی ہے۔ پھر خودبخود اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔الطاف شاہ صرف اس لیے اس مقتل سے زندہ لوٹ آیا کہ اللہ نے ابھی اس کی زندگی باقی رکھی تھی، ورنہ پروگرام تو یہی لگ رہا تھا کہ گھٹ گھٹ کر، سڑ سڑ کر، ایڑیا ں، رگڑتے رگڑتے، وہ جان جان آفریں کے سپرد کردے۔
آٹھ ماہ بعداس اندھیری قبر میں رہنے کے بعد ان کو جموں سینٹرل جیل منتقل کیا گیا۔جب ان کے والد اور بچے ملنے آئے، تو وہ ان کو پہچان ہی نہیں پا رہے تھے۔ ان کا بدن پھول چکا تھا اور آنکھیں بے نور ہو چکی تھیں۔ اس لیے ان کی فیملی نے جموں میں ہی قیام کیا، تاکہ ان کو ادویات اور خوراک کی فراہمی کرکے ان کی بحالی صحت کی کوشش کریں۔ غالباً چار سال اس جیل میں قید رہنے کے بعد ان کو اس وقت رہائی ملی،جب حریت کانفرنس کی تشکیل کے خد و خال ترتیب دیے جا رہے تھے۔
الطاف احمد شاہ اور حسام الدین ایڈوکیٹ دو ایسے اشخاص ہیں، جو سید علی گیلانی کے پیچھے ایک طرح سے اسٹریجسٹ کے بطور کام کرتے تھے۔ دونوں شعلہ بیان مقرر تو نہیں تھے، مگر پلاننگ اوراسٹرٹجی ترتیب دینا ان کا خاصہ تھا۔ الطاف شاہ خاص طور پر خاصے لو پروفائل رکھتے تھے۔
پورا اسٹیج وغیرہ ترتیب دےکر وہ خود پیچھےیا سامعین میں ہی بیٹھ جاتے تھے۔ 2003 کے بعد جب کچھ سیاسی اسپیس کشمیری لیڈروں کو حاصل ہو گئی تھی تو انہی کے مشورہ پر علی گیلانی نے اس کا بھر پور استعمال کرکے عوامی رابطہ مہم شروع کی۔ وہ اس گھر گھر مہم کے آرگنائزر تھے۔ جس کے نتیجے میں پونچھ راجوری اور جموں شہر سے لےکر گریز اور کرنا اور اوڑی کے دور دراز علاقوں تک علی گیلانی نے گھر گھر جا کر لوگوں سے ملاقاتیں کی اور تقاریر کیں۔ جب بارہمولہ میں ان کے میزبان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا، تو علی گیلانی رات کو کسی مسجد میں رکتے تھے۔
اس سے عوامی رابطہ کی اور راہیں نکلتی تھیں۔ کیونکہ ان کے ساتھ مسجد میں پورا محلہ یا کم و بیش قصبہ کے لوگوں کا اژدہام بیٹھتا تھا۔ 2008میں جب کشمیر کی سیاسی تحریک کو جہت ملی، تو یہ عوامی رابطہ مہم اس کی ایک بڑی وجہ تھی۔ پھر 2010اور 2014کی اسٹریٹ ایجی ٹیشن جس کو کشمیر کا انتفادہ کہا جاتا ہے وہ اسی مہم کی پیداوار تھی۔ اس مہم کی کامیابی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی، جس کی وجہ سے 15ستمبر 2004کو حسام الدین کو سرینگر میں ان کے گھر پر نامعلوم بندوق بردارو ں نے ہلاک کر دیا۔
اس کے دو ماہ بعد 7نومبر 2004کو الطاف احمد جب افطار کرنے کے بعدنماز مغرب ادا کرنے مسجد کی طرف جا رہے تھے، ان پر فائر کرکے ان کو شدید زخمی کردیا گیا۔ان کے ایک پڑوسی ڈاکٹر نے ان کا بروقت علاج کرکے خون رکوانے کا کام کیا اور پھر سرینگر اور دہلی میں ڈاکٹروں کی ان تھک محنت اور لاتعداد آپریشن کروانے کے ایک سال بعد وہ شفا یاب ہوگئے۔ ان دونوں پر قاتلانہ حملوں کی وجہ یہی تھی کہ لوگ علی گیلانی کے قریب آنے اور کھل کر سرگرمیاں کرنے سے باز رہیں۔علی گیلانی نے 2007 میں اپنی تنظیم ‘تحریکِ حریت کشمیر’ بنائی تو اس کی تشکیل میں الطاف شاہ نے اہم کردار نبھایا اور بعد میں اسی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔
یہ بھی سچ ہے کہ کوئی بھی شخص مکمل نہیں ہوتا۔خامیاں تو ہوتی ہی ہیں۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے علی گیلانی کے اردگرد ایک حصار بنایا ہواہے، جو کسی اور کو ان کے قریب نہیں آنے دیتا ہے۔ اس کی پہلی شکایت غلام قادر وانی نے کی تھی، جن کو سوپور میں گیلانی صاحب کے جان نشین کے بطوردیکھا جاتا تھا اور وہ بھی ان سے ایک طرح سے اپنی اولاد کی طرح پیار کرتے تھے۔
وہ تحریر اور تقریر دونوں میں واقعی علی گیلانی کے جاں نشین لگتے تھے۔ الطاف شاہ کے منصہ شہود پر آنے کے بعد وہ ان سے دور ہوتے گئے اور بعد میں جماعت اسلامی سے ہی کنارہ کش ہوکر جے کے ایل ایف میں چلے گئے تھے، ان کو بھی نامعلوم بندو ق برداروں نے 4نومبر 1998 کو بانڈی پورہ سے متصل ارن گاؤں میں ا پنے گھر پر ہلاک کردیا تھا۔
وانی کی طرح دیگر ایسے افراد بھی، جن کوعلی گیلانی کی سرپرستی حاصل تھی اور اگر یہ جاری رہتی تو ایک اثاثہ ثابت ہوسکتے تھے، اس دور میں ان سے دور ہوتے گئے۔ سوپور، جہاں علی گیلانی نے اپنی سیاست کا آغاز کیا اور مشکل وقت میں اس قصبہ نے ان کا بھرپور ساتھ دیا، میں عام شکایت تھی کہ الطاف شاہ نے ہی علی گیلانی کو سرینگر منتقل ہونے پر مجبور کردیا، جس کی وجہ سے یہ قصبہ سیاسی طور پر یتیم ہوکر رہ گیا۔
لگتا ہے کہ 1990میں جے آئی سی اور پھر 2004میں نامعلوم بندوق بردار جس مہم میں ناکام ہوئے، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کے ذمہ داروں اور تہاڑ جیل کے افسران بشمول اس کے ڈاکٹروں نے اس کو کامیاب کرکے یہ یقینی بنادیا کہ الطاف احمد شاہ اس دنیا سے کوچ کرجائیں، اور الزام بھی ا ن کے سر نہ آئے۔
یکم اکتوبر کو این آئی اے کی درخواست کے جواب میں رام منوہر لوہیا اسپتال کی میڈیکل رپورٹ میں درج ہے؛’فی الحال مریض ایک سے زیادہ اعضاء کی خرابی کے ساتھ شدید بیمار ہے اس کو زندہ رکھنے کے لیے وینٹی لیٹر اور سپورٹ کی ضرورت ہے۔مریض کو آنکولوجی سپورٹ اور پی ای ٹی اسکین کی ضرورت ہے جو ہمارے ہسپتال میں دستیاب نہیں ہیں، اس لیے مریض کو اوپر بیان کردہ مرکز میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔’ان کی بیٹی روا شاہ آخری وقت تک ان کے علاج کی اپیل کرتی رہی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ،ڈاکٹروں نے بتایا کہ اْن کا دل اور گردے بیکار ہو گئے ہیں صرف دماغ کام کر رہا ہے۔ ابو نے کچھ کہنے کے لیے کاغذ اور قلم کا اشارہ کیا لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی۔’ جیل کے ڈاکٹر مہینوں تک ان کو پین کلر دےکر واپس سیل میں بھیجتے تھے۔ کئی ماہ بعد جب ان کی طبیعت بگڑ گئی، تو ا ن کو پہلے دین دیال اپادھیائے اسپتال میں اور پھر دلّی کے رام منوہر لوہیا ہسپتال میں منتقل کیا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ کینسر ان کے جسم میں آخری اسٹیج تک پہنچ چکا ہے۔ تیزی سے پھیلتے کینسر کی وجہ سے اْن کے اہم اعضا ناکارہ ہو چکے ہیں۔
رْوا شاہ اپیلیں کرتی رہیں کہ ان کے والد کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز منتقل کیا جائے جہاں سرطان کے علاج کے لیے باقاعدہ شعبہ ہے۔سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی وزیر داخلہ امت شاہ سے اپیل کی تھی کہ انسانی بنیادوں پر الطاف شاہ کو ضمانت دی جائے کیونکہ اْن کی حالت بہت تشویشناک ہے۔دہلی ہائی کورٹ کے آرڈر پر جب انکو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ شفٹ کیا گیا، تو پہلے اس آرڈر کی تکمیل میں حکام نے دو قیمتی دن لگائے اور جب ان کو منتقل کیا گیا تووہ کوما میں چلے گئے تھے۔
واضح رہے تہاڑ جیل میں قیدیاسین ملک، شبیر شاہ، آفتاب شاہ عرف شاہد الاسلام اور انجینیر رشید سمیت متعدد کشمیری سیاسی رہنماؤں کو کئی عارضوں کا سامنا ہے۔ یاسین ملک کی اہلیہ اور ہمشیرہ، شبیر شاہ اور آفتاب شاہ کی بیٹیاں بھی آئے روز حکام سے اپیلیں کرتی رہتی ہیں کہ اْن کے علاج کی خاطر انھیں انسانی بنیادوں پر گھروں میں ہی نظر بند رکھا جائے یا کم از کم ان کا تسلی بخش علاج کرایا جائے۔
الطاف احمد شاہ کی کسمپرسی میں موت اشارہ کرتی ہے کہ ان لیڈروں کی زندگیوں کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے اور وہ ادھار کی سانسیں لے رہے ہیں۔
جموں کے جوائنٹ انٹروگیشن سینٹر میں ان کو ایک اندھیری قبر میں دیکھ کر علی گیلانی نے لکھا تھا…
حسن جنون نواز کا پایا جو التفات
مستی میں آکے موت سے ٹکرا گئی حیات
جو میدان الطاف شاہ نے چنا تھا اس میں معلوم ہی تھا کہ موت و حیات ہمیشہ باہم دست و گریباں رہےگی۔ اس میدان میں زندگی بہت مہنگی اور موت ارزاں ہوتی ہے۔موت،زندگی سے ایک لمحے کے فاصلے پہ تعاقب میں پھرتی ہے۔دل،گردہ چاہیے، اس میدان میں جمے رہنے کے لیے۔دو بار انہوں نے موت کو چکمہ دیا تھا۔ شاید وہ تیسری بار بھی اس کو شکست دیتے، اگر ان کا خاطر خواہ علاج کرایا جاتا یا تہاڑ جیل کے ڈاکٹر اپنے پیشے کے اصولوں سے انحراف نہیں کرتے۔
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی