الطاف شاہ کی موت اور ہندوستانی جیلوں میں سیاسی قیدیوں کی کسمپرسی

جو میدان الطاف شاہ نے چنا تھا اس میں معلوم ہی تھا کہ موت و حیات ہمیشہ باہم دست و گریباں رہے گی۔ اس میدان میں زندگی بہت مہنگی اور موت ارزاں ہوتی ہے۔موت،زندگی سے ایک لمحے کے فاصلے پہ تعاقب میں پھرتی ہے۔دل— گردہ چاہیے، اس میدان میں جمے رہنے کے لیے۔دو بار انہوں نے موت کو چکمہ دیا تھا۔ شاید وہ تیسری بار بھی اس کو شکست دیتے، اگر ان کا خاطر خواہ علاج کرایا جاتا یا تہاڑ جیل کے ڈاکٹر اپنے پیشے کے اصولوں سے انحراف نہیں کرتے۔

جو میدان الطاف شاہ نے چنا تھا اس میں معلوم ہی تھا کہ موت و حیات ہمیشہ باہم دست و گریباں رہے گی۔ اس میدان میں زندگی  بہت مہنگی اور موت ارزاں ہوتی ہے۔موت،زندگی سے ایک لمحے کے فاصلے پہ تعاقب میں پھرتی ہے۔دل— گردہ چاہیے، اس میدان میں جمے رہنے کے لیے۔دو بار انہوں نے موت کو چکمہ دیا تھا۔ شاید وہ تیسری بار بھی اس کو شکست دیتے، اگر ان کا خاطر خواہ  علاج کرایا جاتا یا تہاڑ جیل کے ڈاکٹر اپنے پیشے کے اصولوں سے انحراف نہیں کرتے۔

کشمیری علیحدگی پسند رہنما الطاف احمد شاہ اپنی بیٹی صحافی روا شاہ کے ساتھ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

کشمیری علیحدگی پسند رہنما الطاف احمد شاہ اپنی بیٹی صحافی روا شاہ کے ساتھ۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

دس(10)اکتوبر کی رات کو جب دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز  میں پچھلے پانچ سالوں سے تہاڑ جیل میں قید حریت لیڈر اور بزرگ کشمیری لیڈر مرحوم سید علی گیلانی کے داماد، الطاف احمد شاہ کی موت کی خبر آئی تو شاید ہی اس پر کسی کو حیرت ہوئی ہو۔ قیدیوں کو علاج و معالجہ کی سہولیات فراہم نہ کرنے کے سبب پچھلے ایک سال میں یہ کسی سیاسی قیدی کی موت کا چھٹا واقعہ ہے۔

ان میں کشمیر سے جماعت اسلامی کے رکن غلام محمد بٹ، تحریک حریت کے صدر محمد اشراف صحرائی کے علاوہ مہاراشٹرا میں بائیں بازو کے ماؤنوازں کو مدد دینے کے الزام میں قید 83سالہ پادری اسٹین سوامی، 33 سا لہ پانڈو ناروتے اور 38سالہ  کنچن نانووارے شامل ہیں۔ نانووارے کی پچھلے سال جنوری میں دوران حراست غلط برین سرجری کی گئی تھی، جس کے بعد ان کی موت ہوگئی۔

حیرت کا مقام ہے کہ عدالتیں—پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کے اس استدلال کو تسلیم کرتی ہیں کہ جیلوں میں علاج و معالجہ کی سہولیات موجود ہیں، اس لیے اس گراؤنڈ کو لےکر ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے۔ مگر جیل میں کس قدر علاج و معالجہ کی سہولیات دستیاب ہیں اور وہاں ڈاکٹروں کا رویہ کیسا ہوتا ہے، اس کا میں خود گواہ ہوں۔

تہاڑ، جس کو ایک ماڈل جیل کے بطور پیش کیا جاتا ہے کی جیل نمبر تین میں واقعی ایک بہترین اسپتال ہے، جس کو ججوں و معائنوں پر آئے افسران اور کسی وقت غیر ملکی ٹیموں کو دکھا کر متاثر کیا جاتا ہے۔  2002  میں جب نو روز تک دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے انٹروگیشن میں رہنے کے بعد مجھے تہاڑ جیل منتقل کیا گیا تو داخلہ کے وقت ہی مجھے جیل ڈاکٹروں کے رویہ کا ادراک ہوا۔

جیل سپرنٹنڈنٹ کے آفس میں پٹائی کے بعد کاغذی کارروائی  پوری کرنے کے لیے مجھے جیل آفس سے متصل ڈاکٹر کے سامنے پیش کیا گیا، تو بجائے مجھے دیکھنے کے وہ مجھ پر لگائے گئے الزامات دریافت کرنے لگا۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ میں آفیشل اسکرٹس ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہوں، تو اس نے پاکستانی ایجنٹ ہونے کا الزام لگا کر مجھے کوسنا شروع کردیا۔

ڈاکٹر اور اس کے اسسٹنٹ کو نئے قیدیوں کو سیل یا وارڈوں میں بھیجنے سے قبل ان کی طبی جا نچ اور اگر وہ زخمی ہوں، تو اس کا اندراج کرنا ہوتا ہے۔ میری ناک اور کان سے خون رس رہا تھا۔ اس نے ان زخموں کو پولیس اور انٹروگیشن کے کھاتے میں ڈال کر مجھے دستخط کرنے کے لیے کہا۔

میں نے اس کو کہا کہ یہ خاطر داری چند لمحے قبل جیل آفس میں ہی ہوئی ہے اس کا پولیس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کو یقین نہیں آرہا تھا کہ مجھ جیسے غدار کو پولیس نے کیسے بخشا ہے۔ خیر اس نے جیل حکام کے حوالے کرکے مجھے سیل میں لے جانے کا اشارہ دے دیا۔

جیل نمبر تین کے اس اسپتال میں، جہاں الطاف شاہ کو کئی ماہ تک کینسر کا علاج کرنے کے بدلے بس پین کلر دےکر واپس سیل میں بھیج دیا جاتا تھا، کے او پی ڈی میں میرا اکثر آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اسٹیتھسکوپ لگانا تو دور کی بات، ڈاکٹر قیدیوں کو دور رکھ کر ان کو ہاتھ لگائے بغیر علاج تجویز کرتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ یا تو مریضوں کو چھو کر وہ اپنا دھرم بھرشٹ نہیں کرنا چاہتے ہیں یا حکیم بقراط کی طرح وہ دور سے ہی چال دیکھ کر  تشخیص کرتے ہیں۔ بجائے مریض سے ا س کی بیماری کے بارے میں پوچھنے کے وہ اس کے کیس کے بارے میں تفتیش کرکے، سزا ئیں بھی تجویز کرتے رہتے ہیں۔

میڈیکل سائنس کی پوری اخلاقیات کا جیل کے ڈاکٹروں نے جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ علاج کے نام پر تمام مریضوں کو ایک ہی دوا دیتے تھے، چاہے پیٹ کا درد ہو یا نزلہ یا زکام۔

مجھے یاد ہے کہ ایک بار ہمارے وارڈ میں ایک قیدی کو شدید نزلہ، زکام لاحق ہو گیا تھا اور دوسرے قیدی کو دست ہوگئے تھے۔ دونوں جب اسپتال سے واپس آئے تو معلوم ہواان کو ایک ہی گولی دی گئی تھی اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ دونوں صحت یاب بھی ہوگئے۔

اس پر ایک دوسرے قیدی نے لقمہ دیاکہ دراصل دونوں کے جسم میں گندگی جمع ہو گئی تھی۔ ایک کی گندگی ناک و منہ سے نکل رہی تھی اور دوسرے کی گندگی نے دوسرا راستہ اختیار کیا تھا۔ اس ایک گولی نے اصل میں گندگی کو ٹھیک کردیا۔

تہاڑ میں گزرے آخری دنوں میں جب میرا کیس تقریباً ختم ہونے کے قریب تھا، میڈیا نے باہر دباؤ بنایا ہوا تھا اور حکومت خود ہی اس کو واپس لینے پر غور کر رہی تھی، میں جیل حکام کا خاصا لاڈلا بن گیا تھا۔ اس عرصہ میں وہ میرا بڑا خیال رکھتے تھے۔

ایک رات میرے پیٹ میں سخت درد اٹھا کہ برداشت سے باہر ہوگیا۔ کئی بار الٹیاں ہوگئی تھیں۔ رات کی ڈیوٹی پر مامور جیل حکام بیرکوں اور وارڈوں کو بند کر کے  جیل آفس میں جاکر آرام کرتے ہیں۔ میرے ساتھی قیدیوں نے شور مچاکر جیل آفس تک آواز پہنچانے کی کوشش کی۔

آدھے گھنٹے کے بعد ایک وارڈن آگیا اور بیرک کی سلاخوں کے باہر سے ان کو ڈانٹ کر پوچھاکہ وہ کیوں شور مچارہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ قیدی کی طبیعت خراب ہے۔ اس نے نام پوچھا۔ گیلانی کا نام سنتے ہی اس نے کہا کہ مرنے دو اور واپس چلا گیا۔ قیدی بھی سکتے میں آگئے۔

تھوڑی دیرکے بعد بیرک میں موجود پچاس سے زائد قیدیوں نے دوبارہ چیخ و پکار بلند کی، کیونکہ کچھ عرصہ قبل اسی وارڈ میں ایک قیدی کی رات کے وقت موت ہوگئی تھی اور صبح سویرے پورے وارڈ کی کلاس لی گئی تھی کہ انہوں نے جیل حکام کو کیوں آگاہ نہیں کرایا۔جیل سپرنٹنڈنٹ نے  ہدایت دی تھی کہ ایسی صورت حال میں گلا پھاڑ کر چیخ و پکا ر بلند کیا کریں تاکہ آواز جیل کنٹرول روم تک پہنچے۔

ایک گھنٹے کے بعد دوسرا وارڈن ڈاکٹر سمیت آگیا اور  بیرک کھول کر مجھے اسپتال میں داخل کروایا۔ اگلے روز پہلے والا وارڈن اسپتال میں آکر معافی مانگ کر صفائی دینے لگا کہ وہ سمجھ رہا تھا کہ پارلیامنٹ والا گیلانی (مرحوم عبدا لرحمان گیلانی، جو پارلیامنٹ حملہ کیس میں انہی دنوں اسی جیل میں تھے، اور بعد میں بری ہوگئے) ہے۔ اس لیے اس نے دھیان نہیں دیا۔

الطاف احمد شاہ اپنے سسر سید علی گیلانی کی طرح ہی زمانہ طالبعلمی سے ہی سیاست سے وابستہ رہے ہیں۔ پرانے سرینگر شہر کے خانقاہ معلی محلہ کے مقیم ان کے والد محمد یوسف شاہ، شیخ محمد عبداللہ کے دست راست اور معروف تاجر بھی تھے۔ جب شیخ عبداللہ محا ذ رائے شماری کی قیادت کررہے تھے، تو ان کے ساتھ جیل بھی گئے ہیں۔

وہ ایک کٹر نیشنل کانفرنس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر زمانہ طالبعلمی میں ہی وہ شیخ عبداللہ کے سحر سے ایسے وقت آزاد ہوگئے تھے، جب نیشنل کانفرنس کے خلاف شہر سرینگر میں ہلکی سی کانا پھوسی بھی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھی۔

الطاف شاہ کے والد محمد یوسف شاہ کی سرینگر کے مرکز لال چوک میں فنٹوش ہوزری کے نام سے ایک دکان تھی۔ جس کی نسبت سے ان کو بھی الطاف فنٹوش کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ دکان ایک طرح سے محاذرائے شماری بعد میں نیشنل کانفرنس کے لیڈروں کی ایک پنڈ ہوتی تھی۔ غلام محمد بھدروائی، بشیر احمد کچلو، شیخ نذیر وغیر سینئر نیشنل کانفرنس کے لیڈران دوپہر بعد ان کی دکان پر چائے کی چسکیاں لےکر گفتگو کرتے تھے۔

بعد میں جب الطاف شاہ  اپنے والد کے ساتھ اس دکان کو سنبھالنے لگے تو یہ جماعت اسلامی، پیپلز لیگ اور آزادی پسند تنظیموں کے لیڈروں کا ٹھکانہ بن گئی۔ یہ ایک طرح سے سیاست کے دو کناروں کے لیڈروں کا ایک میٹنگ پوائنٹ بھی بن گیا تھا۔

الطاف شاہ کی کاوشوں سے شہر سرینگر کے معتدد نوجوان نیشنل کانفرنس اور شیخ عبداللہ کے سحر سے آزاد ہوگئے۔  جب نوے کے وسط میں انتہائی بدقسمتی اور بد بختی کی وجہ سے شہر میں العمر، جے کے ایل ایف اور حزب المجاہدین کے درمیان انٹر گروپ تنازعہ شروع ہوئے اور اس قدر بڑھ گئے کہ ایک دوسرے کو قتل کرنا اور اغوا کرنا معمول بن گیا تو الطاف شاہ کے کنیکشن اور رابطہ کام آتے تھے۔

وہ ایک زیرک سفارت کار اور ڈپلومیسی کے ذریعے معاملات سلجھانے کی کوشش کرتے تھے۔ کیونکہ تقریباً ہر گروپ میں ان کے قدر شناس موجود ہوتے تھے، یا ایسے اشخاص جن کو انہوٍں نے آڑے اوقات میں پناہ دی ہوئی ہوتی تھی، یا ان کی مدد کی تھی۔

 ایک طرح سے آذر کے گھر  میں ابراہیم کی پرورش ہو رہی تھی۔ شیخ عبداللہ کے علاوہ شہر کے چند علاقوں میں میرواعظ خاندان کا طوطی بولتا تھا اور یہ دونوں مل کی کسی تیسری قوت کو شہر میں پیر جمانے نہیں دیتے تھے۔ چونکہ دونوں ایک دوسرے سے برسرپیکار رہتے تھے، ان کی اساس ہی غنڈہ سیاست پر ٹکی ہوئی تھی اور عدم برداشت ان کے کارکنوں میں کوٹ کوٹ کر بھر ا تھا۔

سال 1978میں جماعت اسلامی نے طلبہ کے لیے اسلامی جمیعت طلبہ تنظیم کا قیام عمل میں لایا اور اس کی ذمہ داری محمد اشرف صحرائی کو سونپ دی، تو الطاف احمد شاہ کو 21 سال کی عمر میں اس کا پہلا جنرل سکریٹری بنادیا۔ 1979 میں  جب اس تنظیم کا پہلا اجلاس گول باغ (حال ہائی کورٹ کمپلکس) میں منعقد ہوا، تو اس میں دس ہزار طلبہ نے شرکت کی۔ 1980 میں اس تنظیم نے شیخ تجمل اسلام کی قیادت میں ایک اسلامی کانفرنس بلانے کا اعلان کردیا، جس کی پہلے تو حکومت نے اجازت دے دی،  بعد میں پابندی لگائی اور اس کے منتظمین کو حراست میں لے لیا۔ی

ہ  شاید یہ الطاف احمد شاہ کی پہلی گرفتاری تھی۔ و ہ اس وقت کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ ا یجوکیشن میں پوسٹ گریجوشن کے طالب علم تھے۔ ان کو پہلے ادھم پور اور پھر ریاسی جیل میں رکھا گیا۔ 1981تک یہ تنظیم بیشتر تعلیمی اداروں میں اپنی شاخیں بنا چکی تھیں۔ اس کے ساتھ جماعت میں یہ خدشہ سر اٹھانے لگا کہ آگے چل کر یہ ایک متوازی تنظیم نہ بن جائے، حالانکہ اس کے دستور میں یہ شق موجود تھی کہ طالبعلمی کے چار سال بعد رکنیت خودبخود ختم ہو جائےگی۔

ایک سال بعد جماعت اسلامی نے اسلامی جمیعت طلبہ کی انفرادی آزاد حیثیت کو ختم کرکے اس کو شعبہ طلبہ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کردیا۔ جب جمیعت نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کیا تو جماعت نے اس طلبہ تنظیم میں موجود اپنی افرادی قوت کو واپس بلایا اور ان کو شعبہ طلبہ کی ذمہ داری دی۔ ان میں الطاف احمد بھی شامل تھے۔

میں نے پہلی بار ان کو غالباً اکتوبر 1983میں دیکھا۔ اسکول کے امتحانات ختم ہوچکے تھے، تو میں سوپور سے اپنے ننہال سرینگر کے قدیمی علاقے مہاراج گنج آیا ہوا تھا۔ سرینگر سے شائع ہونے والے روزنامہ آفتا ب میں ان کے مضامین پڑھتا تھا۔ ان دنوں اسمبلی انتخابات کی مہم زوروں پر تھی۔ شیخ عبداللہ کی موت کے ایک سال بعد نیشنل کانفرنس یہ انتخابات فاروق عبداللہ کی قیادت میں اور میرواعظ کی پارٹی عوامی ایکشن کمیٹی کے اشتراک کے ساتھ لڑ رہی تھی۔

جماعت اسلامی نے زینہ کدل سیٹ سے الطاف احمد کو کھڑا کیاہوا تھا۔ یہ شیروں کے ساتھ ان کی کچھار میں پنجہ آزمائی کے مترادف تھا۔لگا کہ باہر کچھ شور برپا ہے۔ ایک نوجوان دورازوہ کھٹکھٹا کر لوگوں سے جماعت اسلامی کے نشان ترازو پرووٹ ڈالنے کی استدعا کر رہا تھا۔ ان سے علیک سلیک تو نہیں ہوئی، مگر میں نے دیکھا کہ گلی میں لوگ ان کو کوس رہے تھے،گالیاں دے رہے تھے کہ وہ کیسے بب یعنی شیخ عبداللہ کی پارٹی کی مخالفت کرنے کی جرأت کر رہا ہے۔مقامی مسجد کے پاس چند لوگ باتیں کر رہے تھے کہ یوسف صاحب جیسے شریف آدمی نے اولاد نا خلف کو جنم دیا ہے وہ کیسے اس کو برداشت کر رہے ہیں؟  ا

س الیکشن میں ان کو بس 461ووٹ ملے تھے۔ 1986میں جب ان کی شادی علی گیلانی کی تیسری بیٹی زاہدہ سے طے ہوئی تو وہ کئی بار جیل کی ہوا کھا چکے تھے اور جماعت اسلامی کے سرگرم اراکین میں شامل تھے۔ اس رشتہ کی وجہ سے اگلے سال 1987کے الیکشن میں ان کو منڈیٹ نہیں دیا گیا۔کیونکہ مسلم یونائیٹد فرنٹ کا اتحاد، جو نیشنل کانفرنس–کانگریس اتحاد کے خلاف بن گیا تھا،نے علی گیلانی کو پارلیامانی بورڈ اور انتخابی مہم کا سربراہ بناکرا میدواروں کو سلیکٹ کرنے کا کام سپرد کر دیاتھا۔

اس وقت حکومتی اتحاد کے خلاف ایک زبردست لہر چل رہی تھی۔ فاروق عبداللہ کے کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے سے شہر میں خصوصاً غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ہندوستان میں اس پر اتفاق رائے ہے کہ ان  انتخابات میں بے تحاشا دھاندلیوں اور نتائج میں ہیر پھیر کی وجہ سے ہی 1989میں عسکری تحریک کا جنم ہوا۔ منڈیٹ نہ ملنے کے باوجود الطاف شاہ ہی شہر سرینگر میں انتخابی اسٹریجی کی کمان کر رہے تھے۔ حزب المجاہدین کے سربراہ محمد یوسف شاہ (صلاح الدین) لال چوک حلقہ سے انتخابی میدان میں تھے، اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے سربراہ محمد یاسین ملک ان کے انتخابی ایجنٹ تھے۔

الطاف شاہ سے میری باضابطہ پہلی ملاقات دہلی کے کشمیر ہاؤس میں 1990میں ہوئی، جب میں جرنلزم کی پڑھائی کے لیے دہلی وارد ہوچکا تھا۔ ہمارے ایک رشتہ دار کشمیر یونیورسٹی میں پروفیسر وجیہہ احمد علوی امریکہ جا رہے تھے اور سامان وغیرہ کی پیکنگ کرنے کے لیے انہوں نے مجھے شام کو کشمیر ہاؤس آنے کے لیے کہا، جہاں و ہ ٹھہرے تھے۔ ان ہی کے کمرے میں الطاف شاہ بھی ٹھہرے تھے، جو چند روز قبل سرینگر میں حالا ت خراب ہونے کے سبب آئے تھے اور دہلی میں سفارتی اور میڈیا کے ادراوں کو اس کے بارے میں آگاہ کرانا چاہتے تھے۔

وہ کشمیر ہاؤس سے باہر کہیں رہائش پذیر ہونا چاہتے تھے۔ ڈنر کے بعد وہ میرے ساتھ ہی نکلے اور میرے ایک کمرے کے ڈیرے پر مقیم ہوئے۔ میں دن بھر کلاس اٹینڈ کرکے جب واپس آتا تھا، تو اکثر کسی ہوٹل میں رات کا کھانا کھاتا تھا۔ مگر الطاف شاہ نے آتے ہی اسٹوو و برتنوں کا انتظام کردیااور کافی دنوں بعد ان کی وجہ سے گھر جیسا کھانا نصیب ہوتا تھا۔ چونکہ ان کے پاس مہمان وغیرہ آتے تھے، تو انہوں نے کچھ عرصہ بعد علیحدہ رہائش کا انتظام کردیا۔

چند ماہ بعد جب وہ عید منانے سرینگر جا رہے تھے، تو ایر پورٹ پر ان کو گرفتار کرکے جموں کے جوائنٹ انٹروگیشن سینٹر (جے آئی سی) پہنچادیا گیا۔ ان ہی دنوں وہاں علی گیلانی کو بھی پہنچایا گیا تھا۔ ان کے سامنے ان کو تعدیب کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ان کو پورے آٹھ ماہ تک ایک تاریک قبر میں رکھا گیا۔

روداد قفس میں سید علی گیلانی رقم طراز ہیں کہ ان کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ نوجوان اس قبر میں کیسے زندہ رہا؟ کسی جاندار شے کو ایک طویل عرصے تک سورج کی روشنی سے محروم رکھا جائے، تو اس کی جان دھیرے دھیرے نکلتی ہے۔ جسم پھول جاتاہے اور اعضاء پر کائی جم جاتی ہے۔ پھر خودبخود اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔الطاف شاہ صرف اس لیے اس مقتل سے زندہ لوٹ آیا کہ اللہ نے ابھی اس کی زندگی باقی رکھی تھی، ورنہ  پروگرام تو یہی لگ رہا تھا کہ گھٹ گھٹ کر، سڑ سڑ کر، ایڑیا ں، رگڑتے رگڑتے، وہ جان جان آفریں کے سپرد کردے۔

آٹھ ماہ بعداس اندھیری قبر میں رہنے کے بعد ان کو جموں سینٹرل جیل منتقل کیا گیا۔جب ان کے والد اور بچے ملنے آئے، تو وہ ان کو پہچان ہی نہیں پا رہے تھے۔ ان کا بدن پھول چکا تھا اور آنکھیں بے نور ہو چکی تھیں۔ اس لیے ان کی فیملی نے جموں میں ہی قیام کیا، تاکہ ان کو ادویات اور خوراک کی فراہمی کرکے ان کی بحالی صحت کی کوشش کریں۔ غالباً چار سال اس جیل میں قید رہنے کے بعد ان کو اس وقت رہائی ملی،جب حریت کانفرنس کی تشکیل کے خد و خال ترتیب دیے جا رہے تھے۔

الطاف احمد شاہ اور حسام الدین ایڈوکیٹ دو ایسے اشخاص ہیں، جو سید علی گیلانی کے پیچھے ایک طرح سے اسٹریجسٹ کے بطور کام کرتے تھے۔ دونوں شعلہ بیان مقرر تو نہیں تھے، مگر پلاننگ اوراسٹرٹجی ترتیب دینا ان کا خاصہ تھا۔ الطاف شاہ خاص طور پر خاصے لو پروفائل رکھتے تھے۔

پورا اسٹیج وغیرہ ترتیب دےکر وہ خود پیچھےیا سامعین میں ہی بیٹھ جاتے تھے۔  2003 کے بعد جب کچھ سیاسی اسپیس کشمیری لیڈروں کو حاصل ہو گئی تھی تو انہی کے مشورہ پر علی گیلانی نے اس کا بھر پور استعمال کرکے عوامی رابطہ مہم شروع  کی۔ وہ اس گھر گھر مہم کے آرگنائزر تھے۔ جس کے نتیجے میں پونچھ راجوری اور جموں شہر سے لےکر گریز اور کرنا اور اوڑی کے دور دراز علاقوں تک علی گیلانی نے گھر گھر جا کر لوگوں سے ملاقاتیں کی اور تقاریر کیں۔ جب بارہمولہ میں ان کے میزبان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا، تو علی گیلانی رات کو کسی مسجد میں رکتے تھے۔

اس سے عوامی رابطہ کی اور راہیں نکلتی تھیں۔ کیونکہ ان کے ساتھ مسجد میں پورا محلہ یا کم و بیش قصبہ کے لوگوں کا اژدہام بیٹھتا تھا۔ 2008میں جب کشمیر کی سیاسی تحریک کو جہت ملی، تو یہ عوامی رابطہ مہم اس کی ایک بڑی وجہ تھی۔ پھر 2010اور 2014کی اسٹریٹ ایجی ٹیشن جس کو کشمیر کا انتفادہ کہا جاتا ہے وہ اسی مہم کی پیداوار تھی۔ اس مہم کی کامیابی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی، جس کی وجہ سے 15ستمبر 2004کو حسام الدین کو سرینگر میں ان کے گھر پر  نامعلوم بندوق بردارو ں نے ہلاک کر دیا۔

اس کے دو ماہ بعد 7نومبر 2004کو الطاف احمد جب افطار کرنے کے بعدنماز مغرب ادا کرنے مسجد کی طرف جا رہے تھے، ان پر فائر کرکے ان کو شدید زخمی کردیا گیا۔ان کے ایک پڑوسی ڈاکٹر نے ان کا بروقت علاج کرکے خون رکوانے کا کام کیا اور پھر سرینگر اور دہلی میں ڈاکٹروں کی ان تھک محنت اور لاتعداد آپریشن کروانے کے ایک سال بعد وہ شفا یاب ہوگئے۔ ان دونوں پر قاتلانہ حملوں کی وجہ یہی تھی کہ لوگ علی گیلانی کے قریب آنے اور کھل کر سرگرمیاں کرنے سے باز رہیں۔علی گیلانی نے 2007 میں اپنی تنظیم ‘تحریکِ حریت کشمیر’ بنائی تو اس کی تشکیل میں الطاف شاہ نے اہم کردار نبھایا اور بعد میں اسی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔

یہ بھی سچ ہے کہ کوئی بھی شخص مکمل نہیں ہوتا۔خامیاں تو ہوتی ہی ہیں۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے علی گیلانی کے اردگرد ایک حصار بنایا ہواہے، جو کسی اور کو ان کے قریب نہیں آنے دیتا ہے۔ اس کی پہلی شکایت غلام قادر وانی نے کی تھی، جن کو سوپور میں گیلانی صاحب کے جان نشین کے بطوردیکھا جاتا تھا اور وہ بھی ان سے ایک طرح سے اپنی اولاد کی طرح پیار کرتے تھے۔

وہ تحریر اور تقریر دونوں میں واقعی علی گیلانی کے جاں نشین لگتے تھے۔ الطاف شاہ  کے منصہ شہود پر آنے کے بعد وہ ان سے دور ہوتے گئے اور بعد میں جماعت اسلامی سے ہی کنارہ کش ہوکر جے کے ایل ایف میں چلے گئے تھے، ان کو بھی نامعلوم بندو ق برداروں نے 4نومبر 1998 کو بانڈی پورہ سے متصل ارن گاؤں میں ا پنے گھر پر ہلاک کردیا تھا۔

وانی کی طرح دیگر ایسے افراد بھی، جن کوعلی گیلانی کی سرپرستی حاصل تھی اور اگر یہ جاری رہتی تو ایک اثاثہ ثابت ہوسکتے تھے، اس دور میں ان سے دور ہوتے گئے۔ سوپور، جہاں علی گیلانی نے اپنی سیاست کا آغاز کیا اور مشکل وقت میں اس قصبہ نے ان کا بھرپور ساتھ دیا،  میں عام شکایت تھی کہ الطاف شاہ نے ہی علی گیلانی کو سرینگر منتقل ہونے پر مجبور کردیا، جس کی وجہ سے یہ قصبہ سیاسی طور پر یتیم ہوکر رہ گیا۔

لگتا ہے کہ 1990میں جے آئی سی اور پھر 2004میں نامعلوم بندوق بردار جس مہم میں ناکام ہوئے، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کے ذمہ داروں اور تہاڑ جیل کے افسران بشمول اس کے ڈاکٹروں نے اس کو کامیاب کرکے یہ یقینی بنادیا کہ الطاف احمد شاہ اس دنیا سے کوچ کرجائیں، اور الزام بھی ا ن کے سر نہ آئے۔

یکم اکتوبر کو این آئی اے کی درخواست کے جواب میں رام منوہر لوہیا اسپتال کی میڈیکل رپورٹ میں درج ہے؛’فی الحال مریض ایک سے زیادہ اعضاء کی خرابی کے ساتھ شدید بیمار ہے اس کو زندہ رکھنے کے لیے وینٹی لیٹر اور سپورٹ کی ضرورت ہے۔مریض کو آنکولوجی سپورٹ اور پی ای ٹی اسکین کی ضرورت ہے جو ہمارے ہسپتال میں دستیاب نہیں ہیں، اس لیے مریض کو اوپر بیان کردہ مرکز میں منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔’ان کی بیٹی روا شاہ آخری وقت تک ان کے علاج کی اپیل کرتی رہی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ،ڈاکٹروں نے بتایا کہ اْن کا دل اور گردے بیکار ہو گئے ہیں صرف دماغ کام کر رہا ہے۔ ابو نے کچھ کہنے کے لیے کاغذ اور قلم کا اشارہ کیا لیکن اس کی اجازت نہیں دی گئی۔’ جیل کے ڈاکٹر مہینوں تک ان کو پین کلر دےکر واپس سیل میں بھیجتے تھے۔ کئی ماہ بعد جب ان کی طبیعت بگڑ گئی، تو ا ن کو پہلے دین دیال اپادھیائے اسپتال میں اور پھر دلّی کے رام منوہر لوہیا ہسپتال میں منتقل کیا گیا،  جہاں ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ کینسر ان کے جسم میں آخری اسٹیج تک پہنچ چکا ہے۔ تیزی سے پھیلتے کینسر کی وجہ سے اْن کے اہم اعضا ناکارہ ہو چکے ہیں۔

رْوا شاہ اپیلیں کرتی رہیں کہ ان کے والد کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز منتقل کیا جائے جہاں سرطان کے علاج کے لیے باقاعدہ شعبہ ہے۔سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی وزیر داخلہ امت شاہ سے اپیل کی تھی کہ انسانی بنیادوں پر الطاف شاہ کو ضمانت دی جائے کیونکہ اْن کی حالت بہت تشویشناک ہے۔دہلی ہائی کورٹ کے آرڈر پر جب انکو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ شفٹ کیا گیا، تو پہلے اس آرڈر کی تکمیل میں حکام نے دو قیمتی دن لگائے اور جب ان کو منتقل کیا گیا تووہ کوما میں چلے گئے تھے۔

واضح رہے تہاڑ جیل میں قیدیاسین ملک، شبیر شاہ، آفتاب شاہ عرف شاہد الاسلام اور انجینیر رشید سمیت متعدد کشمیری سیاسی رہنماؤں کو کئی عارضوں کا سامنا ہے۔ یاسین ملک کی اہلیہ اور ہمشیرہ، شبیر شاہ اور آفتاب شاہ کی بیٹیاں بھی آئے روز حکام سے اپیلیں کرتی رہتی ہیں کہ اْن کے علاج کی خاطر انھیں انسانی بنیادوں پر گھروں میں ہی نظر بند رکھا جائے یا کم از کم ان کا تسلی بخش علاج کرایا جائے۔

الطاف احمد شاہ کی کسمپرسی میں موت اشارہ کرتی ہے کہ ان لیڈروں کی زندگیوں کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے اور وہ ادھار کی سانسیں لے رہے ہیں۔

جموں کے جوائنٹ انٹروگیشن سینٹر میں ان کو ایک اندھیری قبر میں دیکھ کر علی گیلانی نے لکھا تھا…

حسن جنون نواز کا پایا جو التفات

مستی میں آکے موت سے ٹکرا گئی حیات

جو میدان الطاف شاہ نے چنا تھا اس میں معلوم ہی تھا کہ موت و حیات ہمیشہ باہم دست و گریباں رہےگی۔ اس میدان میں زندگی  بہت مہنگی اور موت ارزاں ہوتی ہے۔موت،زندگی سے ایک لمحے کے فاصلے پہ تعاقب میں پھرتی ہے۔دل،گردہ چاہیے، اس میدان میں جمے رہنے کے لیے۔دو بار انہوں نے موت کو چکمہ دیا تھا۔ شاید وہ تیسری بار بھی اس کو شکست دیتے، اگر ان کا خاطر خواہ علاج کرایا جاتا یا تہاڑ جیل کے ڈاکٹر اپنے پیشے کے اصولوں سے انحراف نہیں کرتے۔

بس نام رہے گا اللہ کا

جو غائب بھی ہے حاضر بھی

جو منظر بھی ہے ناظر بھی

Next Article

کنگنا رناوت کی ’ایمرجنسی‘ پر سینئر صحافی نے کہا – میری کتاب کے حوالے سے غلط حقائق پیش نہ کریں

سینئر صحافی اور کتاب ‘دی ایمرجنسی’ کی مصنفہ کومی کپور نے کنگنا رناوت کی ہدایت کاری میں بنی فلم ‘ایمرجنسی’ کے پروڈیوسرز کے خلاف کاپی رائٹ کی خلاف ورزی اور تاریخی واقعات کو مبینہ طور پر مسخ کرنے کی وجہ سے ان کے وقار کوپہنچے  ٹھیس کے لیے مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

نئی دہلی: سینئر صحافی کومی کپور نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی لوک سبھا ایم پی کنگنا رناوت کی ہدایت کاری میں بنی فلم ‘ایمرجنسی’ کے روڈیوسرز کے خلاف کاپی رائٹ کی خلاف ورزی اور تاریخی واقعات کو مبینہ توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی وجہ سے  ان کے وقار کو پہنچے نقصان پہنچانے کے لیے مقدمہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق، کپور نے اخبار کو بتایا،’انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ اندرا گاندھی پر فلم بنا رہے ہیں۔ میں نے انہیں یہ کرنے دیا، جو کہ میری حماقت ہے، کیونکہ انہوں نے کہا کہ ہم صرف ایک باب استعمال کر رہے ہیں۔ اس میں تمام ابواب کا مواد موجود ہے۔ اندرا گاندھی کی زندگی پبلک ڈومین میں ہے۔ کتاب کا حوالہ نہ دیں اور غلط حقائق پیش نہ کریں۔’

اس سلسلے میں کپور نے کہا کہ دو قانونی نوٹس کے باوجود فلم میں یہ ڈسکلیمر لگا ہواہے کہ یہ ان کی کتاب ‘دی ایمرجنسی’ اور جینت وسنت سنہا کی ‘پریہ درشنی’ پر مبنی ہے۔

معلوم  ہو کہ 3 اپریل کو کپور کے وکیلوں  نے رناوت کی منی کرنیکا فلمز (جس میں کنگنا رناوت خود ایک ڈائریکٹر ہیں) اور نیٹ فلکس (جہاں فلم اسٹریم کی جارہی ہے) کو دیے گئے نوٹس میں چھ مبینہ تاریخی غلطیوں کا ذکر کیا ہے، جس میں یہ بھی شامل ہے کہ اندرا گاندھی ذاتی طور پر صدر فخرالدین علی احمد کے پاس گئی تھیں اور انہیں کابینہ میٹنگ بلائے بغیر ایمرجنسی کا اعلان کرنے کی  دھمکی دی تھی۔

اس کے علاوہ اس میں صحافی نکھل چکرورتی کی انٹرنل سیکورٹی ایکٹ (میسا) کے تحت گرفتاری کو بھی غلط قرار دیا گیا ہے۔

دی پرنٹ کے مطابق، کومی کپور نے بتایا کہ فلم میں بہت سی غلطیاں کی گئی ہیں، جن میں سنجے گاندھی کے قریبی ساتھی اکبر احمد کو آل انڈیا ریڈیو پر کشور کمار کے گانوں پر پابندی لگانے کا ذمہ دار ٹھہرانا بھی شامل ہے۔

کپور نے واضح کیا کہ ان کی کتاب میں واضح طور پر اس وقت کے وزیر اطلاعات و نشریات وی سی شکلا کو اس فیصلے کے لیے ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ کپور نے انکشاف کیا کہ احمد نے خود رناوت کی ایمرجنسی کو دیکھ کر ان سے اس دعوے کے بارے میں سوال کیا تھا۔

انہوں نے کہا، ‘مجھے یہ بتاناپڑا کہ میری کتاب میں ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا گیا ہے۔ وہ اکیلے نہیں تھے۔ بہت سے لوگوں نے مجھے فون کیا اور پوچھا کہ آپ نے کتاب میں کیا لکھا ہے؟

کپور نے اپنے معاملے میں دعویٰ کیا ہے کہ منی کرنیکا فلمز اور اس کے پبلشر پینگوئن رینڈم ہاؤس انڈیا کے ساتھ 2021 کے معاہدے نے حقائق کو مسخ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور خاص طور پر یہ لازمی کیا گیا تھا کہ کپور کا نام ‘مصنف کی پیشگی تحریری رضامندی کے بغیر’ استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے – جو مبینہ طور پر فلم میں دکھائے جانے سے پہلے نہیں لیا گیا تھا۔

منی کرنیکا فلمز نے 10 اپریل کو کپور کے وکیلوں کی مخالفت کی اور کہا کہ ان کی کتاب فلم کا واحد حوالہ نہیں ہے اور مصنف کی جانب سے اسکرپٹ کو منظور کرنے کی  کوئی  پابندی نہیں ہے۔

کمپنی نے یہ بھی کہا کہ کپور نے انہیں کتاب پر’مکمل اور دانشورانہ املاک کے حقوق’ دیے ہیں۔ کپور، جنہوں نے جنوری میں ریلیز ہونے پر فلم نہیں دیکھی تھی، نے اسے نیٹ فلکس پر اسٹریم  ہونے کے بعد ہی دیکھا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ رناوت کی فلم پہلے 6 ستمبر 2024 کو ریلیز ہونے والی تھی، لیکن سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن (سی بی ایف سی) کے ساتھ کلیئرنس تنازعہ کے بعد اسے ملتوی کر دیا گیا کیونکہ شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی (ایس جی پی سی) اور مختلف سکھ تنظیموں نے الزام لگایا کہ اس میں سکھوں کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے، جس کے بعد اسے 17 جنوری کو ریلیز کیا گیا تھا۔

Next Article

حیدرآباد کرکٹ ایسوسی ایشن نے مفادات کے ٹکراؤ کا حوالہ دیتے ہوئے پویلین سے اظہر الدین کا نام ہٹانے کو کہا

حیدرآباد کرکٹ ایسوسی ایشن نے راجیو گاندھی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم کے پویلین سے سابق ہندوستانی کپتان محمد اظہر الدین کا نام ہٹانے کو کہا ہے۔ الزام ہے کہ انہوں نے پویلین کو اپنا نام دیا، جبکہ اس پر ہندوستانی اسٹار کھلاڑی وی وی ایس لکشمن کا نام پہلے سےلکھا ہواتھا۔

حیدرآباد: سابق ہندوستانی کپتان محمد اظہر الدین کا نام حیدرآباد کے راجیو گاندھی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم کے ایک پویلین سے ہٹانے کو کہا گیا ہے۔

یہ حکم سنیچر (19 اپریل) کو حیدرآباد کرکٹ ایسوسی ایشن (ایچ سی اے) کے محتسب اور اخلاقیات افسر، جسٹس (ریٹائرڈ) وی ایشوریا، جو آندھرا پردیش ہائی کورٹ کے سابق قائم مقام چیف جسٹس  ہیں ، کی جانب سے دیا گیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی حکم دیا کہ اسٹیڈیم میں ہونے والے مستقبل کے میچوں کے کسی بھی ٹکٹ پر اظہر الدین کا نام نہیں ہوگا۔

جسٹس ایشوریا نے یہ حکم اس سال کے شروع میں ایچ سی اے سے منسلک ایک کلب کی شکایت کی بنیاد پر دیا، جس کے سابق صدر میں اظہر الدین ہیں۔ کلب نے الزام لگایا تھا کہ جب وہ ستمبر 2019 سے فروری 2023 تک ایسوسی ایشن کے صدر تھے، تب اسٹیڈیم میں ‘نارتھ پویلین’ کا نام اپنے نام پر رکھنے کے لیےاظہر الدین کی جانب سے سخت کارروائی کی گئی تھی۔

شکایت کے مطابق، ان پر الزام ہے کہ انہوں نےایچ سی اے کی جنرل باڈی کی منظوری نہیں لی  اور تنظیم کی اعلیٰ کونسل کے رکن کی حیثیت سے اپنے حق میں یکطرفہ فیصلہ لیا۔

یہ اظہرالدین کے لیے کرکٹ میں واپسی پر دوسرا جھٹکا ہے ، اس سے پہلے آندھرا پردیش ہائی کورٹ نے انہیں بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) کی طرف سے میچ فکسنگ کے الزامات ،جس نے پورے  ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا، پر لگائی گئی تاحیات پابندی سے آزاد کر دیا تھا۔

اکتوبر 2023 میں اپل پولیس اسٹیشن کے ذریعے ان کے اور ایچ سی اے کے دیگر عہدیداروں کے خلاف 3.85 کروڑ روپے کے فنڈز کے مبینہ غلط استعمال کے الزام میں چار مجرمانہ مقدمات درج کیے گئے تھے۔

مبینہ طور پر یہ رقم اسٹیڈیم میں استعمال کے لیے کرکٹ گیند، فائر سیفٹی کے سامان، جم کاےسامان اورکرسیاں خریدنے پر خرچ کی گئی تھی۔

ایچ سی اے کے سی ای او سنیل بوس نے اپنی پولیس شکایت میں اظہر الدین، سابق سکریٹری آر وجئے آنند، سابق خزانچی سریندر اگروال اور تین کمپنیوں کا نام لیا ہے۔

شکایت کے نتیجے میں مارچ 2023 تک تین سالوں کے لیے ایچ سی اے کے مالیات کا فرانزک آڈٹ کیا گیا۔

پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج کیے جانے کے بعد گزشتہ سال 8 اکتوبر کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے منی لانڈرنگ کے ایک معاملے میں اظہر الدین سے دس گھنٹے تک پوچھ گچھ کی تھی۔

حالیہ  پیش رفت میں اظہر الدین پر الزام ہے  کہ انہوں نے ایک پویلین کا نام اپنے نام پررکھا ہے، جبکہ اس پر پہلے ہی ایک اور ہندوستانی اسٹار وی وی ایس لکشمن کا نام موجود ہے، جنہوں نے ہندوستان کے لیے 134 ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں۔

شکایت میں کہا گیا ہے کہ اسٹینڈ کے شمال میں کمنٹیٹرز باکس کے اوپر ایک اسٹریٹجک مقام پر ‘وی وی ایس لکشمن پویلین’ نام کے ایک اورموجودہ  بورڈ کے اوپر  ‘محمد اظہرالدین اسٹینڈ’ لکھا ایک  بورڈ لگایا گیا ہے۔

اس میں  کہا گیا ہے کہ یہ مفادات کے ٹکراؤ  کا ایک بے شرم معاملہ ہے، من مانی اور غیر منصفانہ ہے۔ لارڈز کرکٹ کلب نے یہ بھی الزام لگایا کہ اس نے لکشمن کے نام پر اسٹینڈ الاٹ کرنے کے جنرل باڈی کے فیصلے کو نظرانداز کیا، جو ‘بے داغ’ کردار کے تھے۔

اظہر الدین مفادات کے ٹکراؤ کی تردید کرتے ہیں

اظہرالدین نے گزشتہ ماہ لوک پال (محتسب)کے سامنے اپنا جواب داخل کیا تھا اور ذاتی طور پر حاضر ہو کر کہا تھا کہ یہ شکایت چار یا پانچ سال پرانی ہے اور اس لیے وقت کی حد کے اندر اس پر روک لگا دی گئی ہے۔

انہوں نے مفادات کے ٹکراؤ کی تردید کی اور کہا کہ یہ سپریم کونسل کا متفقہ فیصلہ تھا نہ کہ یکطرفہ یا دباؤ میں لیا گیا فیصلہ۔

انہوں نے لکشمن کو نارتھ اسٹینڈ کے طور پر الاٹ کیے گئے اسٹینڈ اور ‘نارتھ پویلین اسٹینڈ’ کے درمیان فرق کی نشاندہی کی۔

انہوں نے کہا کہ وہ ایک ہی پویلین میں دو مختلف حصے تھے، انہوں نے مزید کہا کہ لکشمن کی نمائندگی کرنے والے اسٹینڈ کا نام تبدیل نہیں کیاگیا اور نہ ہی اس میں کوئی ترمیم کی گئی۔ کسی بھی تنازعات یا مسائل کی عدم موجودگی میں فیصلہ کو اگلے جنرل باڈی اجلاس میں منظور کر لیا جاتا ہے۔ اظہرالدین نے مزید کہا کہ مفادات کا کوئی ٹکراؤ نہیں تھا کیونکہ اس طرح کے فیصلے سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

تاہم، جج نے اظہر الدین کی اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ شکایت پر وقت کی حد لاگو ہوتی ہے اور کہا کہ اس کا اطلاق مفادات کے تصادم کے معاملات پر نہیں ہوتا۔

اظہرالدین نے کہا، ‘اس میں مفادات کا کوئی ٹکراؤ نہیں تھا، کیونکہ اس کارروائی سے کرکٹ سے متعلق معاملات میں کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔’

اظہرالدین کے استدلال کو ایچ سی اے کے سکریٹری آر دیوراج نے مسترد کیا، جنہوں نے کہا کہ اسٹیڈیم میں صرف دو پویلین ہیں– شمالی اور جنوبی۔ نارتھ پویلین کا مطلب سٹیڈیم کا پورا شمالی علاقہ تھا۔ ساؤتھ پویلین کو سابق ہندوستانی آف اسپنر شیو لال یادو کے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔ دونوں طرف مشرق اور مغرب اسٹینڈتھے۔

قابل ذکر ہے کہ 25 نومبر 2019 کو اظہر الدین کی سربراہی میں اعلیٰ کونسل کی ایک قرارداد میں –  جب ان کا نام نارتھ پویلین کو دیا گیا تھا ، تودو اور ہندوستانی ستاروں، ارشد ایوب اور ایل وینکٹ پتی راجو کو سٹیڈیم میں غیر متعینہ جگہوں پر ان کے نام والے بورڈ کے ساتھ اعزاز دینے کا فیصلہ بھی شامل تھا، لیکن آج تک ایسا نہیں کیا گیاہے۔

شکایت کی جانچ کرنے کے بعد جسٹس ایشوریا نے پایا کہ ایچ سی اے جنرل باڈی کی طرف سے سپریم کونسل کی قرارداد کو منظور کرنے یا پویلین کا نام لکشمن کے نام پر رکھنے کے پہلے کے جنرل باڈی کے حکم میں ترمیم/اصلاح کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیاتھا۔

محتسب اور اخلاقیات افسر کا عہدہ گزشتہ سال مئی تک خالی تھا، یہی وجہ تھی کہ لارڈز کرکٹ کلب نے اہل افسر کے پاس شکایت درج کرانے میں تاخیر کی۔ انہوں نے کہا کہ قانونی شکایت درج کرانے میں تاخیر کا جواز ہے۔

پویلین کا نام اظہر الدین کے نام پر رکھنے کی اعلیٰ کونسل کی قرارداد کا انتخابی عمل، لیکن ایوب اور راجو کو باہر رکھنا، اظہرالدین کے مفادات کے صریح ٹکراؤ کو ظاہر کرتا ہے۔ جج نے کہا کہ یہ قرارداد طاقت کا غلط استعمال تھا اور لکشمن کے نام کو جنرل باڈی کی جانب سے منظوری دیے جانے کے بعد بھی اس میں اختیارات کی کمی تھی۔

انہوں نے کہا کہ لہٰذا لکشمن کے نام کے اوپر اظہر الدین کے نام کا بورڈ لگانا ایک غیر قانونی عمل تھا، جسے جاری نہیں رکھا جا سکتا تھا۔

اس تناظر میں جج نے اظہر الدین کی طرف سے اس وقت کے محتسب کے سامنے دائر مقدمے کا حوالہ دیا، جس میں ایچ سی اے کے سابق صدر جی ویویکانند پر کاروباری مفادات کے ٹکراؤ کا الزام لگایا گیا تھا۔ محتسب نے وویکانند کو نااہل قرار دے دیا، حالانکہ وویکانند نے درخواست کی تھی کہ ان کے خلاف مفادات کے ٹکراؤ کا الزام کرکٹ سے متعلق معاملات سے نہیں ہے۔ جسے ہائی کورٹ نے برقرار رکھا۔

جسٹس ایشوریا نے کہا کہ کاروباری لین دین یا عہدے کا غلط استعمال مفادات کا ٹکراؤ کے دائرے میں آتا ہے، چاہے وہ کرکٹ کے معاملات میں مداخلت کیوں نہ کرتے ہوں۔ لہذا، ہ مفادات کے ٹکراؤ کی بنیاد پر وویکانند کو نااہل قرار دینے کے لوک پال کے حکم  کوائی کورٹ نے  پہلی نظر میں قانون کے مطابق مانا۔

دی وائر کے رابطہ کرنے پر نہ تو وویکانند اور نہ ہی ان کے بھائی ونود، جو ایچ سی اے کے صدر بھی تھے، اس معاملے پر بات کرنے کو تیار نہیں ہوئے۔ دونوں اب کانگریس کے ایم ایل اے ہیں۔

اظہر الدین کانگریس لیڈر اور پارٹی کی تلنگانہ یونٹ کے ورکنگ صدر بھی ہیں۔ 2009 کے عام انتخابات میں وہ مراد آباد، اتر پردیش سے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ منتخب ہوئے تھے۔

ایشوریا نے یہ بھی یاد دلایا کہ ایچ سی اے کے صدر کی حیثیت سے ایوب نے اسٹیڈیم کے کسی حصے کا نام اپنے نام پر رکھنے کا فیصلہ نہیں کیا، جبکہ اظہر الدین نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ لکشمن نے اظہرالدین کے نام کےبورڈ کو اپنے نام کے بورڈ سےاوپر لگائے جانے پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا، لیکن اس سے وہ مفادات کے ٹکراؤ کے الزام سے بری نہیں ہو جاتے۔

لکشمن اور موجودہ ہندوستانی فاسٹ بالر محمد سراج نے اظہر الدین کے پویلین کے افتتاح میں شرکت کی تھی۔

ایچ سی اے کے سابق سکریٹری ٹی سیش نارائن نے دی وائر کو بتایا کہ اظہر الدین کے نام والا بورڈ اچھا نہیں تھا،جو ایک سرے سے دوسرے سرے تک کافی جگہ لیتا ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ اسے لکشمن کے نام والے بورڈ کے اوپر رکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایچ سی اے سے منسلک کلبوں کے ایک حصے نے محسوس کیا کہ اظہر الدین نے اپنے فیصلے کو نافذ کرنے میں دوسروں کے خیالات کو ‘نظر انداز’ کیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ دیگر اراکین کے جذبات کا احترام کرنے کے بجائے اظہرالدین نے ایچ سی اے سے منظور شدہ فنڈز حاصل کیے اور ایک بڑا بورڈ لگوا دیا۔

شیش نارائن نے یاد دلایا کہ بی سی سی آئی نےاظہرالدین کی مین اسٹریم کرکٹ انتظامیہ میں واپسی کی راہ ہموار کرنے میں بہت فراخ دلی کا مظاہرہ کیا، جبکہ میچ فکسنگ اسکینڈل میں وہ  داغدار تھے۔ لیکن کرکٹر نے اس پیشکش کو خوش اسلوبی سے قبول نہیں کیا۔

حیدرآباد کے سابق رنجی ٹرافی کھلاڑی کنول جیت سنگھ نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ ملک کا نام روشن کرنے والے اظہر الدین کو اس طرح کی شرمندگی سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی قد کے کھلاڑی کے ساتھ ایسا کرنا درست نہیں لیکن کھیل سے بڑا کوئی نہیں ہوتا۔

اپنے ردعمل میں اظہرالدین نے کہا کہ وہ پویلین میں اپنا نام بحال کرانے کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کے حصول کے لیے عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے۔

سابق ہندوستانی کپتان نے محتسب کے فیصلے پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے گریز کیا اور اپنے مداحوں اور کرکٹ سے محبت کرنے والوں سے کہا کہ اس کا مناسب جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کے پیچھے چھپی ‘سازش’ کو بھی بے نقاب کیا جائے گا۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

’شربت جہاد‘ والے تبصرے پر دہلی ہائی کورٹ سخت، تمام اشتہارات ہٹائیں گے رام دیو

دہلی ہائی کورٹ نے رام دیو کو ہدایت دی ہے کہ وہ روح افزا کو ‘شربت جہاد’ کہنے والے تمام اشتہارات اور سوشل میڈیا پوسٹ کو فوراً ہٹا ئیں۔ روح افزا بنانے والی کمپنی ہمدرد نے رام دیو کے خلاف ٹریڈ مارک کو بدنام کرنے اور فرقہ وارانہ ریمارکس کے الزام میں عدالت سے رجوع کیا تھا۔

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے منگل (22 اپریل) کو یوگا گرو اور کاروباری  بابا رام دیو کی کمپنی پتنجلی کو ہمدرد کے مشہور زمانہ  مشروب روح افزا کو ‘شربت جہاد’ کہنے والے تمام اشتہارات کو فوراًہٹانے کو کہا ہے ۔

ہمدرد لیبارٹریز نے ٹریڈ مارک کی ساکھ کوخراب کرنے کے معاملےمیں پتنجلی کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔ کمپنی نے رام دیو پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس کی مصنوعات کو نشانہ بناتے ہوئے ہتک آمیز اور فرقہ وارانہ بیانات دے رہے ہیں۔

معلوم ہو کہ سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کے ذریعے پتنجلی کے سمر ڈرنک کے اشتہار میں رام دیو نے اس کا موازنہ روح افزا سے کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اس کو بنانے والی کمپنی کے منافع کی رقم ‘مساجد اور مدارس کی تعمیر’ میں جاتی ہے۔

درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس امت بنسل نے اپنے زبانی ریمارکس میں کہا،’مجھے اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہیں ہورہا ہے۔’

جسٹس بنسل نے کہا، ‘اس سے عدالت کے ضمیر کو جھٹکا لگا ہے۔ اس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ آپ (رام دیو کے وکیل) اپنے موکل سے ہدایات لیں، ورنہ سخت حکم دیا جائے گا۔’

عدالت کے ریمارکس کے فوراً بعد رام دیو نے ہائی کورٹ کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کے مبینہ’شربت جہاد’ ریمارکس سے متعلق ویڈیوز اور سوشل میڈیا پوسٹ کو فوراً ہٹا لیں گے۔

رام دیو کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ اپنے متنازعہ بیانات سے متعلق تمام اشتہارات کو فوراً ہٹا دیں گے – چاہے وہ پرنٹ، ویڈیو فارمیٹ یا سوشل میڈیا پوسٹ ہوں۔

اس کے بعد عدالت نے پتنجلی کو پانچ دنوں کے اندر حلف نامہ داخل کرنے کا بھی حکم دیا، جس میں رام دیو کا یہ بیان ریکارڈ کیاگیا ہو کہ وہ مستقبل میں ایسا کوئی بیان، اشتہار یا سوشل میڈیا پوسٹ نہیں کریں گے۔

ہمدرد کی طرف سے پیش ہوئےسینئر ایڈوکیٹ مکل روہتگی نے دلیل دی کہ یہ ایک چونکا دینے والا معاملہ ہے، جو صرف روح افزا پروڈکٹ کی بدنامی تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ’فرقہ وارانہ تقسیم’ کا معاملہ بھی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ رام دیو کا تبصرہ ‘ہیٹ اسپیچ’ہے۔

پتنجلی کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل راجیو نیر نے کہا کہ اگرچہ کمپنی’کسی مذہب کے خلاف نہیں ہے’… لیکن اگر یہ ان کی ‘رائے’ ہے تو رام دیو کو بولنے سے نہیں روکا جا سکتا۔

جسٹس بنسل نے کہا، ‘وہ اس رائے کو اپنے دماغ میں رکھ سکتے ہیں، لیکن اس کا اظہار نہیں کر سکتے۔’

اس معاملے کی اگلی سماعت یکم مئی کو ہوگی۔

اشتہار میں کیا تھا

پتنجلی نے سوشل میڈیا پر رام دیو کا ایک ویڈیو اس کیپشن کے ساتھ شیئر کیا تھا، ‘اپنے خاندان اور معصوم بچوں کو ‘شربت جہاد’ اور کولڈ ڈرنکس کے نام پر فروخت ہونے والے ٹوائلٹ کلینر جیسے زہر سے بچائیں۔ گھر لائیں صرف پتنجلی کاشربت اور جوس ۔’

ویڈیو میں رام دیو کہہ رہے تھے کہ اس کمپنی کا شربت پینے سے (جو شاید ہمدرد کی روح افزا کی جانب  اشارہ تھا) مساجد اور مدارس کی تعمیر کے لیے مالی مدد  ہوتی ہے، جبکہ پتنجلی کے گلاب شربت کا انتخاب گروکل، آچاریہ کلم، پتنجلی یونیورسٹی اور ہندوستانی تعلیمی بورڈ کوحمایت ملتی ہے۔

رام دیو نے کہا، ‘اس لیے میں کہتا ہوں… جس طرح لو جہاد اور ووٹ جہاد ہوتا ہے، اسی طرح شربت جہاد بھی ہے۔ تو آپ کو خود کو اس شربت جہاد سے بچانا چاہیے۔’

Next Article

سپریم کورٹ پر بیان کو لے کرنشی کانت دوبے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ، اے جی کو خط

سپریم کورٹ کے خلاف ریمارکس کے لیے  بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ نشی کانت دوبے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل انس تنویر نے کہا کہ دوبے نے فرقہ وارانہ  طور پرپولرائزیشن  کرنے والے بیان دیےتھے، جو براہ راست  سپریم کورٹ کی غیر جانبداری پر شک وشبہات کوجنم دیتا ہے۔

نئی دہلی: اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی کو ایک خط بھیج کر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیامنٹ نشی کانت دوبے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کی منظوری طلب کی  گئی ہے۔ دوبے نے سپریم کورٹ کے وقار اور اختیار کو کم کرنے کے مقصد سے ‘انتہائی قابل مذمت’ اور ‘گمراہ کن’ بیان دیے تھے۔

یہ خط ہفتہ (19 اپریل) کو دوبے کے اس بیان کے بعد سامنےآیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ ‘ملک میں خانہ جنگی’ کے لیے اور سپریم کورٹ ‘مذہبی جنگوں’ کے لیے ذمہ دار ہیں۔

تاہم، بی جے پی کے صدر اور مرکزی وزیر جے پی نڈا نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی ‘نہ تو ایسے بیان سے اتفاق کرتی ہے اور نہ ہی کبھی ایسے بیان کی حمایت کرتی ہے۔’ تاہم، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ  نشی کانت دوبےکے خلاف کوئی کارروائی کی جائے گی یا نہیں۔

دی وائر کی جانب  سے دیکھے گئے خط میں دوبے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے وکیل انس تنویر نے کہا کہ دوبے نے فرقہ وارانہ طور پر پولرائزنگ ریمارکس کیے ہیں جس سے سپریم کورٹ کی غیر جانبداری پر براہ راست شک پیدا ہوتا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے،’یہ تبصرے نہ صرف حقائق کی رو سے غلط ہیں بلکہ ان کا مقصد معزز سپریم کورٹ کو بدنام کرنا، عوامی اعتماد کو ختم کرنا اور عدالتی غیر جانبداری پر فرقہ وارانہ عدم اعتماد کو ہوا دینا ہے، یہ سب واضح طور توہین عدالت  کےایکٹ 19 کی دفعہ 2(سی)(آئی) کے تحت بیان کیے گئے مجرمانہ توہین کے مفہوم میں آتے ہیں۔’

جسٹس کھنہ کے خلاف دوبے کے ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے خط میں کہا گیا کہ ان کا بیان’انتہائی توہین آمیزاور خطرناک حد تک اشتعال انگیز’ تھا۔

اس میں کہا گیا، ‘یہ لاپرواہی کے ساتھ عزت مآب چیف جسٹس پر قومی بدامنی پھیلانے کا الزام لگاتا ہے، اس طرح ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی ادارےکو بدنام کرتا ہے اور عوام میں عدم اعتماد، ناراضگی اور ممکنہ بدامنی کو ہوا دینے کی کوشش کرتا ہے۔ بغیر کسی بنیاد کے اس طرح کا الزام عدلیہ کی سالمیت اور آزادی پر سنگین حملہ ہے اور یہ معاملہ توہین عدالت ایکٹ 1971 کے تحت فوری اور مثالی قانونی تحقیقات کا مستحق ہے۔’

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ دوبے کا یہ بیان کہ آرٹیکل 368 صرف پارلیامنٹ کو اس ملک میں قانون بنانے کا اختیار دیتا ہے ‘گمراہ کن’ ہے اور عدلیہ کو مقننہ کے اختیارات پر تجاوز کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ہے، جبکہ حقیقت میں سپریم کورٹ کو آرٹیکل 1414 اور 1414 کے تحت آئینی احکامات کوبنائے  رکھنے کے لیے پابند ہدایات جاری کرنے کا پورا اختیار ہے۔

دوبے کا یہ تبصرہ ایسے وقت میں آیا ہے جب سپریم کورٹ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کر رہی ہے۔

تنویر، جنہوں نے اٹارنی جنرل کو خط لکھا ہے، اس کیس میں ایک درخواست گزار کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

بنگال کے بی جے پی ایم ایل اے نے نشی کانت دوبے کی حمایت کی

بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم ایل اے اگنی مترا پال نے اتوار کو سپریم کورٹ کے خلاف نشی کانت دوبے کے ریمارکس کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک کو سپریم کورٹ اور چیف جسٹس آف انڈیا چلا رہے ہیں تو پارلیامنٹ کی کوئی  ضرورت نہیں ہے۔

پال نے کہا، ‘انہوں نے ٹھیک کہا ہے۔ صدر ہندوستان کے چیف جسٹس کی تقرری  کرتے ہیں۔ پھر چیف جسٹس آف انڈیا صدر کے حکم کو کیسے رد کر سکتے ہیں؟ وہ ملک کے قانون سازوں اور پالیسی سازوں کے فیصلے کو کیسے رد کر سکتے ہیں؟ اگر ملک کو چیف جسٹس اور سپریم کورٹ چلا رہے ہیں تو پارلیامنٹ کی  کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر سب کچھ سی جے آئی کو ہی  کرنا چاہیے۔’

معلوم ہو کہ جمعرات کو ہی نائب صدر جگدیپ دھنکھڑنے بھی عدلیہ کی مذمت کی تھی اور آرٹیکل 142، جو سپریم کورٹ کو انصاف کے مفاد میں ضروری احکامات جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے، کو’جمہوری طاقتوں کے خلاف نیوکلیئر میزائل’ قرار دیا تھا۔

ایسا اس وقت ہواہے،جب سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلے میں ریاستی گورنروں کے ذریعے بھیجے گئے بلوں پر فیصلہ لینے کے لیے صدر کے لیےایک ٹائم لائن مقرر کر دی تھی اور کہا تھا کہ تمل ناڈو کے گورنر آر این روی کےذریعے دس سے زیادہ بلوں کو اپنی منظوری نہ دینا اور انہیں صدر کی منظوری کے لیے محفوظ رکھناغیر قانونی ہے ۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)

Next Article

ڈی یو میں سینسرشپ کا معاملہ: اپوروانند کو نہیں دی گئی سیمینار میں شرکت کی اجازت

پروفیسر اپوروانند کو امریکہ میں ایک سیمینار میں حصہ لینا تھا۔ جب انہوں نے دہلی یونیورسٹی کو چھٹی کے لیے خط لکھا تو یونیورسٹی نے وزارت داخلہ سے رابطہ کیا اور پھر ان سے تقریر کی کاپی بھی مانگی۔ لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے منع  کر دیا کہ یہ اکیڈمک آزادی کی خلاف ورزی ہے۔

نئی دہلی: دہلی یونیورسٹی کے شعبہ ہندی کے پروفیسر اپوروانند کو نیویارک کے دی نیو اسکول میں ہونے والے ایک اکیڈمک پروگرام میں یونیورسٹی نے شرکت کی اجازت نہیں دی ۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں پہلے اپنی تقریر کی کاپی جمع کرانے کو کہا۔ جب پروفیسر نے ایسا کرنے سے منع  کر دیا تو انہیں سفر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

پروفیسر اپوروانند نے دی نیو اسکول میں انڈیا چائنا انسٹی ٹیوٹ کی 20ویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لیے چھٹی کی درخواست دی تھی۔ پروفیسر کے مطابق، انہوں نے 35 روز قبل چھٹی کی درخواست دی تھی، لیکن 2 اپریل کو انہیں یونیورسٹی کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں انہیں سفر کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔

انڈیا چائنا انسٹی ٹیوٹ کی 20 ویں سالگرہ 23 اپریل اور 1 مئی کے درمیان منعقد ہونے والی ہے۔ اپوروانند کو جس سیمینار میں بولنا تھا، اس کا موضوع تھا- آمریت پسندی  کے دور میں یونیورسٹی کی حالت۔

دی وائر سے بات چیت میں پروفیسر اپوروانند نے یونیورسٹی انتظامیہ کی کارروائی کو اکیڈمک آزادی اور سینسر شپ کے اصول کی خلاف ورزی قرار دیا۔

یونیورسٹی اور پروفیسر کے درمیان وزارت داخلہ کیوں؟

اساتذہ کی چھٹی پر فیصلہ یونیورسٹی کو ہی لینا ہوتاہے۔ اس میں کسی وزارت کا کوئی رول نہیں ہوتا۔ پروفیسر نے اپنی چھٹی کی درخواست یونیورسٹی کے مجاز اتھارٹی کو بھیجی تھی، لیکن یونیورسٹی نے اسے مرکزی وزارت داخلہ کے پاس  بھیج دیا ۔

‘یونیورسٹی حکام نے مجھے بتایا کہ میری چھٹی کی درخواست وزارت کو بھیج دی گئی ہے۔ پھر انہوں نے مجھے اپنی تقریر کا متن منظوری کے لیے پیش کرنے کو کہا۔ یہ دونوں چیزیں (اظہار رائے کی آزادی کی) خلاف ورزی ہیں۔’

‘ چھٹی کی منظوری  میں وزارت سےمداخلت کے لیےکہنا ادارہ جاتی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے، جبکہ میری تقریر کی کاپی مانگنا اکیڈمک آزادی کی خلاف ورزی ہے۔ یونیورسٹی اپنی ادارہ جاتی خود مختاری کے تحفظ کے لیے تیار نہیں ہے۔ میرے پاس  رجسٹرار کا بھی فون آیا، جس میں مجھ سے تقریر کی ایک کاپی جلد از جلد بھیجنے کو کہا گیا، لیکن میں نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ یہ ممکن نہیں ہے،’ پروفیسر اپوروانند نے کہا ۔

دہلی یونیورسٹی کے اہلکار نے میڈیا کو بتایا کہ وزارت سے مشورہ لینے کا فیصلہ ‘بین الاقوامی تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے’ لیا گیا تھا،’ہم عام طور پر وزارت سے رجوع نہیں کرتے، لیکن اس معاملے میں ہم نے محسوس کیا کہ ان کا مشورہ لینا بہتر ہوگا۔ہم نے ان سے (اپوروانند) ان کی تقریر کی کاپی مانگی تھی، لیکن انہوں نے نہیں دی۔’

دی وائر سے بات کرتے ہوئے پروفیسر اپوروانند نے کہا، ‘ایسا کوئی اصول نہیں ہے۔ پہلے بھی لوگ جاتے رہے ہیں۔ یہ کوئی وجہ نہیں ہے۔ اور اگر یہ وجہ بھی ہے تو آپ کیاچاہتے ہیں کہ لیکچر کا فارمیٹ آپ کو پہلے سے دے دیا جائے۔ پھرآپ اس سے مطمئن ہوں گے تو اجازت دیں گے، مطمئن  نہیں ہوں گے تو اجازت نہیں دیں گے۔ یہ توسینسر شپ ہو گئی  اور آج تک ایسا نہیں ہوا ہے۔’

وہ مزید کہتے ہیں،’یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبوں کے لوگ اکثر تر بیرون ملک جاتے  رہتےہیں،  تو ان سے  توکبھی مانگا نہیں  جاتا۔ ہماری یونیورسٹی کی جو رول بک ہے، پوری رول بک میں یہ بات کہیں نہیں لکھی ہے۔’

اس سینسر شپ کو اکیڈمک دنیا میں ہر جگہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی میں تقریر اور تحریر کی آزادی کی حد پر اپوروانند نے کہا، ‘اس آزادی کو محدود کیا جا رہا ہے۔ پچھلے 10 سالوں سے جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ یونیورسٹی میں اساتذہ خود مختار نہیں ہیں اور یہاں تک کہ طلباء بھی خود مختار نہیں ہیں۔ دونوں اپنی اپنی بات کہنے میں آزاد نہیں ہیں۔ایک طرح کے  طلبہ اور اساتذہ ضرور آزاد ہیں، جو حکمران جماعت یا اس کے نظریے سے وابستہ ہیں۔ باقی کوئی اور آزاد نہیں ہے۔’

کیا یہ انتقامی کارروائی ہے؟  

پروفیسر اپوروانند اکثر مختلف پلیٹ فارم سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے نظریہ اور بی جے پی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ یہ تعلیم کے بھگواکرن اور یونیورسٹیوں میں بڑھتی ہوئی حکومتی مداخلت کے خلاف بھی آواز اٹھاتے  رہتےہیں۔ کیا ان کے سفر کو منظوری نہ دینے پس پردہ یہ  وجہ ہو سکتی ہے؟

پروفیسر اپوروانند کہتے ہیں کہ وہ خود کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی  ہی تحریری طور پر وضاحت پیش  کرے کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے۔

’بطور استاد میری زندگی کوئی دس سال کی تو ہےنہیں، تیس سال کی ہے۔ اس پورے معاملے میں حکومت کہیں نہیں ہے۔ معاملے میں صرف یونیورسٹی انتظامیہ ہے۔ جو بھی فیصلہ لیا جا رہا ہے وہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے  لیا جا رہا ہے کیونکہ ذمہ داری اس کی ہے حکومت کی نہیں۔ میں نے حکومت کو چھٹی کے لیے نہیں لکھا۔ میں نے یونیورسٹی کی مجاز اتھارٹی کو خط لکھا تھا۔ اگر وہ خود فیصلہ نہیں لے رہے ہیں اور حکومت سے پوچھنے جارہے ہیں کہ اجازت دی جائے یا نہ دی جائے تو یونیورسٹی اپنا اختیار حکومت کو دے رہی ہے۔ اس سوال کا جواب یونیورسٹی انتظامیہ کو دینا ہوگا۔ …میں نے اخبار میں پڑھا کہ کسی  نامعلوم اہلکار نے کہا کہ ایسا بین الاقوامی تناظر کی حساسیت کی وجہ سے کیا گیا ہے لیکن یہ بھی زیادہ واضح نہیں ہے۔’

پروفیسر نے واضح کیا کہ ان کی زیادہ تشویش یونیورسٹی کی خود مختاری کے بارے میں ہے، ‘میں نے وائس چانسلر اور رجسٹرار کو لکھا کہ میری تشویش میری اپنی یونیورسٹی کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہے۔ وہ اپنی خود مختاری خود حکومت کے حوالے کیوں کر رہی ہے؟ آگے بڑھ کر حکومت کووہاں  کیوں لا رہی ہے، جہاں حکومت کوآنے کی ضرورت  نہیں ہے۔ یونیورسٹی اپنے اساتذہ پر ایسی شرائط کیوں عائد کر رہی ہے جن کی نہ تو کوئی روایت ہے اور نہ ہی کوئی اصول؟’

اپنے خط میں پروفیسر نے لکھا ہے کہ یہ ایک ‘خطرناک مثال’ بن سکتی ہے۔

ہم نے جاننا چاہا کہ کیا انہیں لگتا ہے کہ مستقبل میں دیگر اساتذہ کو بھی ایسے ہی تجربات ہو سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا، ‘ میں نے یونیورسٹی انتظامیہ کے اس اقدام کی مخالفت ہی اس لیے کی ہے۔ میں  یہ نہیں چاہتا کہ یہ ایک شروعات بن جائے۔’

تقریر کے کچھ نکات تحریری طور پر  دیےدیے جاتے تو روایت بن جاتی۔ ‘میں ایسا نہیں ہونے دینا چاہتا۔ یہ ایک خطرناک شروعات ہو سکتی ہے۔ تمام اساتذہ اور طلبہ کو اس بات کو سمجھنا چاہیے۔’

اب یہ واضح ہے کہ پروفیسر اس تقریب میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔ ایسے میں جب ہم نے منتظمین کے ردعمل کے بارے میں پوچھا تو پروفیسر نے کہا، ‘وہ (منتظمین) مجھ سے میرا لیکچر مانگ رہے ہیں۔ میں اب اس پر فیصلہ کروں گا۔ جب ہم ایسے پروگراموں میں جاتے ہیں تو صرف لیکچر ہی نہیں دیتے بلکہ بحث ومباحثہ بھی کرتے ہیں۔ اس میں لوگ آپ سے اختلاف کا اظہار کرتے ہیں۔ طرح طرح کے خیالات آتے ہیں۔ پھر یہ آپ کو یہ سوچنے میں مدد کرتا ہے کہ جو کچھ آپ نے اب تک سوچا تھا وہ صحیح تھا یا نہیں۔ آخر انٹلیکچول انٹریکشن کا مطلب کیا ہوتا ہے، یہی نا۔ ہم خود پر نظر ثانی کرتے ہیں اور خود پر غور کرتے ہیں۔وہ موقع  تو مجھے اب نہیں ملے گا۔ یہ ایک استاد کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔’