حالیہ برسوں میں عیسائیوں کے خلاف مہم میں تیزی آئی ہے۔ ہندوستان کی آبادی کے صرف 2.3 فیصد عیسائی ہیں۔ ہندوستان کی آبادی میں ان کا حصہ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہی رہا ہے ۔ تو پھر تبدیلی مذہب کی وجہ سے عیسائیوں کی آبادی میں دھماکہ خیز اضافہ کا خطرہ اتنا حقیقی کیوں لگتا ہے؟
‘عیسائیوں نے اسکول بنائے، اسپتال بنائے اور جذام کے مریضوں کے علاج کے لیے الگ انتظام کیا۔ان کےاسکولوں سے نکلنے والے لاکھوں ہندو بچےآج خاموش کیوں ہیں؟ اور ہم اور آپ خاموش کیوں ہیں؟’ (تصویر: پی ٹی آئی)
بڑا دن آنے والا ہے۔ بازاروں میں رونق ہے۔ رنگ برنگے برقی قمقمے کی چمک بتا رہی ہے کہ کرسمس قریب ہے۔ سفید کناری والی سرخ ٹوپیاں پہنے بچے، جوان اور بزرگ سڑکوں پر نظر آنے لگے ہیں۔ دکانوں پر ‘ہیپی کرسمس’ کے بورڈبرقی قمقموں سے چمک رہے ہیں۔
اس طرح ہمیں معلوم ہوتاہے کہ بڑا دن یا کرسمس قریب ہے۔ لیکن معلوم ہوا کہ آج کے ہندوستان میں کرسمس کی مبارکباد کا طریقہ کچھ اور ہے۔ چھتیس گڑھ میں کرسمس کے موقع پر 24 دسمبر کو عیسائیوں کے خلاف بند کی کال دی گئی ہے۔
مجھے کینیڈا کی ایک سکھ دوست نے بات چیت ختم ہوتے وقت کہا،’آپ سب کو کرسمس مبارک ہو، یہ تہوار کا موسم ہے۔ سب کچھ کتنا خوشگوار ہے! میں نے جواب دیا، اب، جب بھی کوئی تہوار قریب آتا ہے، میرا دل کانپنے لگتا ہے۔ کرسمس قریب ہے، یہ عیسائی نہیں بتاتے، ہندو بولتے ہیں۔ اس کا پتہ ہمیں لگتا ہے جب گرجا گھروں پر حملوں کی خبریں آنے لگتی ہیں، عیسائیوں کے گھروں میں گھس کرآپس میں خوشی منانے والے عیسائیوں کے ساتھ ما رپیٹ کی جاتی ہے۔ ان کی دعائیہ اجتماعات میں خلل ڈالا جاتا ہے۔’
حالیہ برسوں میں یہ معمول بن گیا ہے۔ ہندوستان میں یوں توسال بھر عیسائیوں کے خلاف مختلف شکلوں میں تشدد معمول بن گیا ہے ۔ اس کے لیے کرسمس کا انتظار نہیں کیا جاتا۔ اس سال تقریباً 100 عیسائی ہندوستان کی مختلف ریاستوں کی جیلوں میں بغیر کسی جرم کے کرسمس منانے کو مجبور ہیں۔ 2025 میں، نومبر تک عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 700 سے زیادہ مقدمات درج کیے گئے ۔ یہ محض تعداد ہیں، اور اس سے اس تشدد اور سفاکی کا کوئی احساس نہیں ہوتا، جو ہندوتوا غنڈوں نے ان کے ساتھ کیا ہے۔ زیادہ تر معاملات میں پولیس غنڈوں کا ساتھ دیتی ہے۔
اس ایک واقعے پر غور کیجیے؛ جبل پور کے ایک چرچ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی لیڈر ایک نابینا خاتون پر
حملہ کر رہی ہے اور اسے دھمکی دے رہی ہے۔ موقع ہےکرسمس کی تقریبات کے دوران نابینا بچوں کے لیے دعوت کا۔ یہ لیڈر انجو بھارگو الزام لگاتی ہے کہ ان سب کا زبردستی مذہب تبدیل کیا جا رہا ہے۔ پولیس جس نرمی سے اس پورے تشدد میں اپنا رول درمیان میں رکھے ہوئی ہے، وہ قابل دید ہے۔ عورت حملہ کرتی ہے اور آرام سے چلی جاتی ہے۔ دعوت میں شامل بچوں کا کہنا ہے کہ انہیں مذہب تبدیل کرنے کے لیے نہیں کہا گیا۔ انہیں صرف کرسمس کی دعوت دی گئی۔ لیکن بی جے پی کو یہ برداشت نہیں ہے۔
جبل پور میں ہی ایک دوسری جگہ کچھ غنڈےایک چرچ میں جئے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے داخل ہوتے ہیں اور دعائیہ اجتماع میں خلل ڈالتے ہیں۔ وہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ وہاں مذہب تبدیل کروایا جا رہا تھا۔
دہلی کے لاجپت نگر میں سڑک پر سانتا کی ٹوپی پہنے خواتین اور بچوں کے ساتھ بجرنگ دل کے غنڈےبدتمیزی کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ سب مذہب تبدیل کرانے کے لیے سڑک پر چکر لگا رہی ہیں۔ ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس حملے میں خواتین کس قدر گھبرا گئی ہیں۔ ایک اور ویڈیو میں تلک لگائے ہوئے ایک غنڈہ چرچ میں داخل ہوتا ہے اور دھمکیاں دیتا ہے۔ زیادہ تر معاملات میں پولیس خاموش تماشائی نظر آتی ہے۔
ہری دوار میں ہندو تنظیموں نے احکامات جاری کیے کہ ہوٹل اور دکانیں کرسمس کی تقریبات کا انعقاد نہیں کر سکتیں۔ ایک ہوٹل نے اپنا پروگرام
رد کر دیا اور کہا ہے کہ اس دن گنگا آرتی کی جائے گی۔
کیرالہ میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے لوگ اسکولوں پر کرسمس کی تقریبات منسوخ کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ کئی ا سکولوں نے ایسا کیا بھی ہے۔ حکومت اس کی
جانچ کر رہی ہے ۔ کیرالہ میں ہی محکمہ ڈاک کے ملازمین کے درمیان ہر سال کی طرح اس سال جب کرسمس کے پروگرام کا کا اعلان کیا گیا توآر ایس ایس کے لوگوں نے
دباؤ ڈالا کہ اس میں گنیش وندنا بھی کی جائے۔ پروگرام منسوخ کر دیا گیا۔
اڑیسہ کے دوستوں نے اطلاع دی کہ سڑکوں پرسانتا کی ڈریس بیچنے والے دکانداروں کو
دھمکیاں دی جا رہی ہیں ۔ انہیں اپنا سامان باندھتے دیکھا جا سکتا تھا۔ زومیٹو جیسی کمپنیوں میں سامان لے کر آنے والے کرسمس کے آس پاس سانتا کی پوشاک پہن کر سامان لاتے ہیں۔ انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
وشو ہندو پریشد نے
باضابطہ بیان جاری کیا ہے جس میں ہندوؤں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی طرح کرسمس نہ منائیں۔ ان کے مطابق، ایسا ہندوؤں کو ثقافتی طور پر بیدار کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ دکانوں اور دیگر اداروں کو بھی کرسمس کے خلاف خبردار کیا جا رہا ہے۔
یہ سب کچھ تبدیلی مذہب کی مخالفت کے نام پر کیا جا رہا ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ دوسری بات، ہندوستانی آئین کے مطابق مذہبی تبلیغ اور مذہب کی تبدیلی کوئی جرم نہیں ہے۔ تاہم، اب بہت سی ریاستوں نے لالچ یا زبردستی کے ذریعے تبدیلی مذہب کو جرم قرار دینے والے قوانین نافذ کیے ہیں۔
ان قوانین کی آڑ میں راہ چلتے کسی بھی عیسائی پر حملہ کیا جا سکتا ہے، کسی بھی عیسائی کے گھرمیں داخل ہو کر کسی بھی گھریلو اجتماع میں مار پیٹ کی جا سکتی ہے اور اس کو روکا جا سکتا ہے۔اجتماع پر حملے تومعمول بن چکے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ایسے معاملات میں تشدد کا نشانہ بننے والے عیسائی ہی گرفتار ہوتے ہیں اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا ہے۔
کرسمس عیسائیوں کا خاص موقع ہے جب عیسائیوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے۔ تاہم، جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، یہ تشدد سال بھر ہوتا ہے۔
ابھی پچھلے مہینے، خبر ملی کہ کرناٹک میں ایک آنگن واڑی ملازمہ، نیویدیتا کے گھر میں تقریباً 20 لوگ گھس آئے اور اسے دھمکیاں دیں۔ یہ سلسلہ آنگن واڑی میں بھی جاری رہا۔ کسی طرح اس نے ان کے خلاف رپورٹ درج کروائی۔ تاہم، پولیس نے جلد ہی نویدیتا اور چار دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی۔ غنڈے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، انہیں اپنے گھرچھوڑ کربھاگنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
ویسے توہر ریاست میں عیسائیوں کے خلاف تشدد کی خبریں روزانہ آتی رہتی ہیں، لیکن چھتیس گڑھ عیسائیوں کے خلاف
تشدد کا گڑھ بن گیا ہے ۔ ابھی چند دن پہلے کانکیر میں ایک عیسائی قبائلی شخص کا گھر جلا دیا گیا اور گرجا گھروں کو آگ لگا دی گئی۔
وجہ یہ تھی کہ قبائلی شخص اپنے والد کی لاش کو دفن کرنا چاہتا تھا لیکن گاؤں والوں کا اصرار تھا کہ وہ عیسائیت اختیار کرنے کی وجہ سے اپنے والد کی آخری رسومات میں شامل نہیں ہوسکتا۔ اس نے اپنے کھیت میں باپ کی لاش کو دفن کیا۔
گاؤں والوں نے دعویٰ کیا کہ یہ زمین گاؤں کے دیوتا کی ہے اور اس پر حملہ کر دیا۔ انتظامیہ نے بیٹے کی اجازت کے بغیر لاش کو قبر سےنکال کر قبضے میں لے لیا۔
یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ہندوستان کے ریاستی اداروں بشمول عدالتوں کو تبدیلی مذہب کے حوالے سے کوئی نہ کوئی مسئلہ درپیش ہے۔ وہ دل ہی دل میں سمجھتے ہیں کہ یہ غلط ہے اوراس سے ہندوؤں کی تعداد گھٹ جاتی ہے۔ وہ نہ کہیں تب بھی ان کا اس طرح کے معاملات پر موقف وہی رہتا ہے۔ شاید زیادہ تر پولیس افسران اور انتظامی اہلکار بھی عیسائیوں کو مکمل ہندوستانی نہیں سمجھتے۔
اس سال کے شروع میں کانکیر سے ملتا جلتا واقعہ چھندواڑہ میں پیش آیا تھا۔ ایک پادری مر گیا۔ جب اس کے بیٹے نے اسے گاؤں کے قبرستان میں دفن کرنا چاہا تو گاؤں والوں نے احتجاج کیا۔ اسے اپنے ہی کھیت میں دفنانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ کیس سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ تک پہنچا۔ ان میں سے ایک نے بیٹے کے حقوق کے حق میں ووٹ دیا، لیکن دوسرے نے دلیل دی کہ امن عامہ زیادہ اہم ہے۔ بالآخر سینئر جج نے بھی
سمجھوتہ کر لیا اور پادری کی لاش کو کسی اور جگہ دفن کرنے کا حکم دیا۔
سال کا آغاز ایک عیسائی کے اپنے گاؤں میں تدفین نہ ہونے کے ساتھ ہوا اور سال کا اختتام اس کے گاؤں سے ایک اور عیسائی کی لاش کو نکالنے پر ہو رہا ہے۔
عیسائی ہندوستان کی کل آبادی کا صرف 2.3 فیصد ہیں۔ ہندوستانی آبادی میں ان کا حصہ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہی رہا ہے۔ تو پھر تبدیلی مذہب کی وجہ سے عیسائی آبادی میں دھماکہ خیز اضافہ کا خطرہ اتنا حقیقی کیوں لگتا ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ مسیحی آبادی کی شرح نمو پچھلی مردم شماری کے مطابق 22فیصد سے کم ہو کر 15فیصد ہو گئی تھی۔ پھر بھی، عیسائی ہندوؤں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں!
حالیہ برسوں میں عیسائیوں کے خلاف مہم میں تیزی آئی ہے۔ عیسائیوں نے اسکول بنائے، ہسپتال بنائے اور جذام کے مریضوں کے علاج کے لیے علیحدہ سہولیات قائم کیں۔ ان کے اسکولوں سے نکلنے والے لاکھوں ہندو بچے آج خاموش کیوں ہیں؟ اورہم اور آپ خاموش کیوں ہیں؟ عدالتیں کیوں خاموش ہیں؟ سیاسی جماعتیں کیوں خاموش ہیں؟ کیا عیسائی ہندوستان کے لوگ نہیں ہیں؟ کیا وہ انسان نہیں ہیں؟
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)