اس اسکیم سے ان گاؤں دیہات اور نوجوانوں کی زندگیوں پر کیا اثر پڑا ہے؟ کیا اب یہ فوجیوں کے گاؤں نہیں کہلائیں گے؟ زندگی کا واحد خواب چکنا چور ہونے کے بعد یہ نوجوان اب کیا کر رہے ہیں؟ کیا فوج کو اس اسکیم کی ضرورت ہے؟ کیا یہ فوج کی جدید کاری کے لیے ضروری قدم ہے؟ ان سوالوں کی چھان بین کے لیے دی وائر نے ملک کے کئی ایسے علاقوں کا دورہ کیا۔ اس سلسلے میں پہلی قسط ہریانہ سے۔
ہندوستانی فوج کی ایک بھرتی ریلی میں نوجوان۔ (تصویر بہ شکریہ: ADGPI/Pixabay)
میرے پاس صرف دو ایکڑ زمین تھی۔ بیٹے کو فوج میں جانے کا جنون تھا۔ چار پانچ سال سے اس کی تیاری کر رہا تھا۔ پھر 2022 میں اگنی ویر اسکیم آئی، اچانک اس نے کہا کہ مجھے بیرون ملک جانا ہے۔ چار سال کے لیے فوج میں جانے سے اچھا ہے کہ کہیں باہر چلا جاؤں۔ اس کا سارا جنون ایک جھٹکے میں ختم ہو گیا۔ ہم نے اپنی چوتھائی ایکڑ زمین بیچ دی اور اسے صرف ایک ہفتہ قبل ہی قبرص بھیجا ہے۔’
یہ کہتے ہوئے مغربی ہریانہ کے حصار ضلع کے باس گاؤں کے رہنے والے یشپال موریہ جذباتی ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے للت موریہ کو صرف 18 سال کی عمر میں اس فروری میں بیرون ملک بھیج دیا۔ للت فوج میں جانا چاہتے تھے، عمر ابھی بچی تھی، لیکن اس کا جنون ختم ہو چکا تھا۔
فوں میں اپنے بیٹے کی فوج کی تیاری کے دنوں کی تصاویر دکھاتے یشپال موریہ۔ (تصویر: رشی کیش کمار)
یہ ملک بھر کے کئی گاؤں کی کہانی ہے، جنہیں فوجیوں کا گاؤں کہا جاتا رہا ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے یہاں کے لڑکوں کے لیے فوج ایک جنون، ایک خواب، ایک بڑے کیریئر کی طرح رہا ہے۔ ان دیہاتوں سے ہزاروں نوجوانوں نے فوج میں بھرتی ہو کر ملک کی خدمت کی ہے۔ ان علاقوں کی معیشت اور سماجی ڈھانچے کو فوج کی زندگی نے سمت دی ہے۔ لیکن اگنی پتھ اسکیم کے بعد حالات ایک آن میں بدل گئے ہیں۔
اس اسکیم نے ان دیہاتوں اور نوجوانوں کی زندگیوں پر کیا اثر مرتب کیا ہے؟ کیا اب یہ فوجیوں کے گاؤں نہیں کہلائیں گے؟ زندگی کا واحد خواب چکنا چور ہونے کے بعد یہ نوجوان اب کیا کر رہے ہیں؟ کیا فوج کو اس اسکیم کی ضرورت ہے؟ کیا یہ فوج کی جدید کاری کے لیے ضروری قدم ہے؟
ان سوالوں کی چھان بین کے لیے دی وائر نے ملک کے ایسے کئی علاقوں کا دورہ کیا۔ اس سلسلے میں
پہلی قسط ہریانہ سے۔
تقریباً ہر گھر سے کوئی نہ کوئی فوج میں ہے، لیکن لڑکوں نے تیاری چھوڑ دی ہے
ہریانہ سے نوجوانوں کی بیرون ملک ہجرت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن ہریانہ کے جند، حصار اور بھیوانی اضلاع کے کئی دیہاتوں کے باشندوں کو بیرون ملک نے نہیں لبھایا۔ یہاں کے نوجوان آزاد ہند فوج کے وقت سے ہی فوج میں جاتے رہے ہیں۔
بڑودہ، بھونگرہ، کرسندھو اور باس جیسے گاؤں کے دروازے پر شہید فوجیوں کی یادگاریں نظر آتی ہیں جو اندر قدم رکھنے سے پہلے ہی اس علاقے کی کہانی بیان کردیتی ہیں۔ دو سال پہلے تک یہاں کے لڑکے دسویں پاس کرنے کے بعد فوج میں بھرتی ہونا چاہتے تھے۔ لیکن اگنی پتھ اسکیم کے آنے کے بعد یہ روایت بدلنے لگی ہے۔
ہریانہ کے ایک گاؤں میں شہید کی یادگار۔ (تصویر: رشی کیش کمار)
ان گاؤں کے سرپنچوں کے مطابق، گزشتہ دو سالوں میں ایک ہزار سے زیادہ نوجوان بیرون ملک جا چکے ہیں، جن میں اکثر فوج کے لیے تیاری کرتے تھے۔ ان کے علاوہ بہت سے نوجوان پاسپورٹ بنوانے کے بعد ویزا کے انتظار میں ہیں یا ڈنکی روٹ کی تلاش میں ہیں، یعنی غیر قانونی طور پر ملک کی سرحدیں عبور کرنا چاہتے ہیں۔ کئی سالوں سے پنجاب اور ہریانہ سے بڑی تعداد میں لوگ جنگلوں، پہاڑوں اور دریاؤں کے راستے
غیر قانونی طور پر امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا جیسے ممالک پہنچتے رہے ہیں ۔
جند کے بھونگرہ گاؤں کے چوک پر دس لوگوں کے ساتھ تاش کھیل رہے 62 سالہ رنویر سنگھ نے بڑے فخر سےبتایا، ‘یہاں سب فوج میں جاتے ہیں۔ میں خود جاٹ ریجمنٹ میں رہ چکا ہوں۔’ انہوں نے چار دوسرے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بھی فوج میں رہ چکے ہیں۔
اب کیا صورتحال ہے؟
یہ سنتے ہی محفل میں مایوسی چھا جاتی ہے۔
رنویر سنگھ بتاتے ہیں کہ دو سال پہلے تک یہاں دوپہر کے وقت بھی بچے میدانوں اور سڑکوں پر دوڑتے نظر آتے تھے، اب صبح و شام بھی کوئی نہیں ملے گا۔ اب لڑکے پاسپورٹ بنوا کر بیرون ملک جا رہے ہیں۔
تصدیق کے لیے روزانہ 2-3 پاسپورٹ، گزشتہ دو سالوں میں ایک بڑی کھیپ جا چکی ہے
جند کے بڑودہ گاؤں کی آبادی 20 ہزار سے اوپر ہے۔ 50 سالہ سرپنچ ریشم سنگھ کا کہنا ہے کہ آزاد ہند فوج کے وقت سے لے کر اب تک اس گاؤں کے ایک ہزار سے زیادہ باشندے فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ فوج سے محبت کی وجہ سے اگنی ویر کے آنے کے بعد بھی بچوں نے پیرا ملٹری یا ہریانہ پولیس کا آپشن نہیں چنا۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘روزانہ ایک یا دو پاسپورٹ ان کے پاس تصدیق کے لیے آتے ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں اس گاؤں کے تقریباً 500 لڑکے بیرون ملک جا چکے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد فوج میں بھرتی کی تیاری کرنے والے نوجوانوں کی تھی ۔ ‘
ریشم سنگھ کے مطابق زیادہ تعداد ڈنکی روٹ سے جانے والوں کی ہوتی ہے۔ بے روزگاری کو اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ‘اگر نہیں جائیں گے تو یہاں بھوکے مر جائیں گے۔’
بڑودہ گاؤں اور سرپنچ ریشم سنگھ۔ (تصویر: رشی کیش کمار)
باس گاؤں کے بادشاہ پور پنچایت کے سرپنچ جیوتی موریہ کہتے ہیں،’کسان مزدور خاندانوں کے بچے فوج میں شامل ہوتے ہیں۔ دسویں کے بعد یہ ایک اچھی نوکری تھی۔ اب وہ کیا کریں گے؟ اب تک صرف میری پنچایت کے 30 بچے بیرون ملک جا چکے ہوں گے۔ ‘
تقریباً 35 ہزار سے زائد آبادی والے باس گاؤں میں لگ بھگ 3 ہزار لوگ فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں یا خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس گاؤں سے اعلیٰ افسران بھی فوج میں رہ چکے ہیں۔ لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔
تلوار سنگھ کے دونوں بیٹے فوج کی تیاری کرتے تھے۔ اگنی ویر کا فارم بھی ڈالا تھا لیکن تلوار سنگھ نے خود منع کر دیا۔ پھر دونوں امریکہ چلے گئے۔ آج ان کا بڑا بیٹا وہاں ٹرک ڈرائیور ہے اور چھوٹا یومیہ اجرت پر کام کرتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اتنی جلدی ویزا کیسے مل گیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا،’پتہ لگا لو کیسے گیا ہوگا!’
صاف ہے کہ جو لڑکے کبھی فوج میں بھرتی ہونا چاہتے تھے وہ آج ڈنکی روٹ سے بیرون ملک جا رہے ہیں۔
تاہم، دی وائر سے بات کرتے ہوئے جنڈ کے ڈپٹی کمشنر نے اس کی سختی سے تردید کی۔ ‘ مجھے ایسی کوئی اطلاع یا شکایت نہیں ملی ہے کہ نوجوان کسی اسکیم کی وجہ سے بیرون ملک ہجرت کر رہے ہیں۔ یہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔ ہمارے پاس اس پر کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ اس لیے میں اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہوں گا۔ یہاں کے نوجوان پہلے ہی بیرون ملک جانے میں دلچسپی رکھتے رہے ہیں۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ صرف اگنی ویر کی وجہ سے ہے،’ جند کے ڈپٹی کمشنر محمد عمران رضا نے کہا۔
اس کے برعکس حصار کے ڈپٹی کمشنر پردیپ دہیا اشارہ دیتے ہیں کہ یہ نوجوان نقل مکانی کر رہے ہیں۔ ‘میں نے حال ہی میں چارج سنبھالا ہے، اس لیے اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اور نہ ہی ان باتوں پر ہمارے ساتھ کبھی کسی فورم پر بات ہوئی ہے۔ جہاں تک ہجرت کا تعلق ہے تو اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لوگ بہتر امکانات کی تلاش میں ہجرت کرتے ہیں۔ تیاری کرنے والے بھی کر ہی رہے ہیں۔’
‘ملتوی’ بھرتی کی ٹوٹتی امید
اگنی ویر کے نفاذ کے بعد جب فوج میں بھرتی روک دی گئی تو اس نے ان نوجوانوں کے خوابوں کو ایک ہی جھٹکے میں چکنا چور کر دیا۔ بڑودہ گاؤں کے رہنے والے سریش چہل کا کہنا ہے کہ ان کا 22 سالہ بیٹا انکت چہل پڑھائی میں اچھا تھا۔ فوج کی تیاری چھوڑ کر اس نے اسٹڈی ویزا لیا اور امریکہ چلا گیا۔
سال 2020-21کے لیے فوج میں بھرتی کا عمل تقریباً مکمل ہونے والا تھا۔
فوج کے لیے تحریری امتحان ہونا تھا اور بحریہ/ایئر فورس کے منتخب امیدواروں کو تقرری کے خطوط دیے جانے تھے، لیکن کووِڈ کی وجہ سے تاخیر ہوتی رہی۔ پھر جون 2022 میں اگنی پتھ اسکیم کا اعلان ہوا، اور وہ امتحان
ادھورا رہ گیا۔
جب امیدوار عدالت گئے تو مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ
یہ بھرتی رد نہیں کی گئی ہے بلکہ ملتوی کر دی گئی ہے۔ اس لیے امیدواروں کو اب بھی کچھ امیدیں ہیں۔ ان دیہاتوں میں درجنوں نوجوان ہیں، جو فوج میں بھرتی کے دوبارہ شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔
بھونگرہ گاؤں کے 23 سالہ سنیل چہل نے اس بھرتی کے لیے میڈیکل امتحان پاس کیا تھا ۔ چونکہ وہ این سی سی کیڈیٹ تھے، اس لیے اسے تحریری امتحان سے چھوٹ مل گئی۔ بچپن کا خواب پورا ہونے ہی والا تھا کہ اگنی پتھ اسکیم آگئی، بھرتی رد ہوگئی اور خواب چکنا چور ہوگیا۔ اب وہ اپنا پاسپورٹ دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ، ‘اب آخری آپشن بیرون ملک ہے۔ جو باہر چلے گئے ہیں میں ان دوستوں سے بات کر رہا ہوں کہ کون سا ملک بہتر رہے گا۔ ‘
بھونگرہ کے رہنے والے انکت چہل کا بھی یہی حال ہے۔ اس نے فوج کی تیاری کر رکھی تھی۔ انتخاب بھی ہوا لیکن بھرتی رد کر دی گئی۔ انکت اب ویزا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جند کے اوچانا گاؤں میں راجیو گاندھی کالج کے گراؤنڈ میں پڑوسی گاؤں کے سینکڑوں نوجوان دوڑ کی مشق کر کے فوج میں شامل ہوئے ہیں۔ فروری کی اس شام یہاں صرف دس لوگ ہیں۔ گراؤنڈ کی دیکھ بھال کرنے والے رمیش چہل نے بتایا کہ ‘یہاں روزانہ 250-300 بچے دوڑنے آتے تھے۔ لیکن پچھلے دو سالوں میں سب کچھ بدل گیا۔ آج جو 5-10 افراد نظر آ رہے ہیں ،وہ بھرتی والےنہیں ہیں۔ فٹنس بنانے آئے ہیں۔ ‘
اوچانا کے ایک گاؤں کا میدان، جو عموماً فوج میں بھرتی ہونے کی تیاری کرنے والے نوجوانوں سے بھرا ہوتا تھا، اب وہاں بہت کم نوجوان آتے ہیں۔
اگنی ویر کے آنے کے بعد ہریانہ کی شرکت 75 فیصد تک کم ہو گئی
فروری 2022 میں لوک سبھا میں وزارت دفاع کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، 2019-20 میں ہونے والی فوج کی بھرتی میں ہریانہ سے 5097 امیدواروں کا انتخاب کیا گیا تھا۔ ہریانہ ہندوستان کی کل آبادی کا صرف 2 فیصد ہے، لیکن فوج کی بھرتی میں ریاست کی شرکت 6 فیصد تھی۔ اس سال صرف تین ریاستوں کا تناسب ہریانہ سے بہتر تھا – ہماچل پردیش، اتراکھنڈ اور پنجاب۔
ہماچل پردیش کی آبادی ملک کی کل آبادی کا صرف 1 فیصد ہے، لیکن اس کی شرکت 7 فیصد رہی۔ اسی طرح اتراکھنڈ نے 1 فیصد آبادی کے باوجود فوج میں 5 فیصد کی شر کت کی۔ پنجاب کی آبادی ملک کی کل آبادی کا صرف 2 فیصد ہے، لیکن پنجاب کی شرکت 10 فیصد تھی ۔
مقامی اندازوں کے مطابق، ہریانہ کے جند،بھیوانی اور حصار جیسے اضلاع میں، یہ اوسط ریاستی اوسط کے دوگنے سے بھی زیادہ ہے۔ راجیہ سبھا کے رکن دیپندر سنگھ ہڈا نے دی وائر کو بتایا کہ انہوں نے راجیہ سبھا میں اگنی ویر کا مسئلہ اٹھایا تھا۔
ہڈا نے کہا کہ اگنی ویر کے آنے کے بعد سے فوج میں ہریانہ کے نوجوانوں کی شرکت 70 فیصد سے بھی کم ہو گئی ہے۔ انہوں اس فروری میں راجیہ سبھا میں اپنی
تقریر میں ہریانہ میں پھیلی بے روزگاری کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ اس ریاست کے بے روزگار نوجوان بیرون ملک ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے اگنی پتھ اسکیم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ہر سال ہریانہ سے 5500 پکی بھرتیاں ہوا کرتی تھیں، اب صرف 900 بھرتی کیے جا رہے ہیں۔’
دی وائر نے آر ٹی آئی کے تحت وزارت دفاع سے سوال پوچھا کہ سال 2022-23 اور 2023-24 کے دوران اگنی ویر بھرتی میں کس ریاست سے کتنے لوگوں کو منتخب کیا گیا ہے؟ لیکن وزارت نے یہ کہتے ہوئے یہ ڈیٹا فراہم کرنے سے انکار کر دیا کہ ‘ان کے پاس یہ معلومات مطلوبہ فارمیٹ میں دستیاب نہیں ہیں’، اور ‘اس معلومات کو جمع کرنا وقت اور وسائل کی بربادی ہے۔’
فضائیہ نے جواب میں لکھا،’آر ٹی آئی میں مانگی گئی معلومات کا تعلق ‘مسلح افواج کی صلاحیتوں سے ہے۔ یہ حساس معلومات ہے اور اس کے افشاء سے ہندوستان کی خودمختاری، سالمیت اور سلامتی متاثر ہوسکتی ہے اور یہ وسیع تر عوامی مفاد میں نہیں ہے ۔’
وہیں، بحریہ نے جواب دیا کہ’مسلح افواج میں اہلکاروں کی تقرری/ بھرتی/ جوائنگ سے متعلق ڈیٹا کو سیکورٹی وجوہات کے پیش نظر عام نہیں کیا جا سکتا۔ ‘
دی وائر نے امبالہ ہیڈ کوارٹر سے پچھلے 5 سالوں میں منتخب امیدواروں کی تعداد کے بارے میں پوچھا، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
آر ٹی آئی درخواستوں کے جوابات۔
فوج کی تیاری کرانے والے کئی کوچنگ سینٹر بند ہو گئے
روہتک کے رہنے والے ملکھا گریوال فوج میں بھرتی کی تیاری کے لیے ایک کوچنگ سینٹر چلاتے تھے۔ اب انہوں نے اپنی کوچنگ بند کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگنی ویر کے آنے کے 6 ماہ بعد ان کی کوچنگ میں صرف 15-20 امیدوار رہ گئے تھے۔ پہلے یہ تعداد 200-250 تک ہوتی تھی۔ اس خسارے پر کوچنگ چلانا ممکن نہیں تھا۔’
‘یہی حال بہت سی دوسری کوچنگ کا بھی ہوا۔ کچھ کوچنگ کلاسز ابھی باقی ہیں، جہاں 30-40 لڑکے بڑی مشکل سے ملیں گے ۔ اب سب فوج کی تیاری چھوڑ کرآئی ای ایل ٹی ایس کے پیچھے لگ گئے ہیں۔ اب ان کے درمیان بیرون ملک جانے کا زیادہ مقابلہ ہے،’ وہ کہتے ہیں۔
کرنال میں اپنا امیگریشن آفس چلانے والے گورو کمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ گورو کہتے ہیں، ‘پہلے گاؤں کے نوجوان 10ویں اور 12ویں کے بعد فوج میں بھرتی کی تیاری کرتے تھے، اب وہ آئی ای ایل ٹی ایس اور پی ٹی ای کرتے نظر آ رہے ہیں ۔ ‘
پچھلے ڈیڑھ سال میں 2 لاکھ سے زیادہ پولیس کلیئرنس سرٹیفکیٹ
کسی بھی تنظیم کے پاس بیرون ملک ہجرت کے حوالے سے درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ ہریانہ پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ پچھلے ڈیڑھ سال میں امبالہ اور آس پاس کے 6-7 اضلاع جند، حصار، بھیوانی، امبالہ، روہتک،کیتھل، کرنال میں پچھلے ڈیڑھ سال میں کم از کم 2 لاکھ سے زیادہ پولیس کلیئرنس سرٹیفکیٹ دیے گئے ہوں گے ۔
پولیس کلیئرنس سرٹیفکیٹ ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جو بیرون ملک ملازمت یا طویل مدتی ویزا کے لیے درخواست دیتے ہیں۔ لیکن اس سے بڑی تعداد غیر قانونی طور پر جانے والوں کی ہے، جن کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں۔
امیگریشن آفس چلانے والے ایجنٹ بتاتے ہیں کہ پاسپورٹ بنوانے کے لیے امبالہ میں ویٹنگ لسٹ اتنی لمبی ہے کہ لوگ جئے پور، چندی گڑھ اور دہلی جاتے ہیں۔ ‘امبالہ اور چندی گڑھ میں پاسپورٹ کے لیے روزانہ 835 اپائنٹمنٹ ہوتے ہیں۔ اگر کسی کو بہت جلد ضرورت ہو تو وہ جئے پور یا دہلی کا رخ کرتے ہیں،‘ ایک ایجنٹ نے کہا۔
ڈنکی روٹ سے بیرون ملک جانے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ
برطانوی حکومت نے حال ہی میں اپنی رپورٹ پیش کی ہے، جس میں اس نے کہا ہے کہ ڈنکی روٹ سے ان کے ملک آنے والے ہندوستانیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
سال 2022 میں 748 ہندوستانی انگلش چینل عبور کر کے برطانیہ آئے تھے، جبکہ 2023 میں یہ تعداد 50 فیصد بڑھ کر 1192 ہو گئی۔ جہاں 2022 میں 2612 ہندوستانیوں نے سیاسی پناہ کی درخواست کی تھی، وہیں 2023 میں یہ تعداد بڑھ کر 5253 ہو گئی۔
اسی طرح امریکہ میں بھی یہ تعداد تیزی سے بڑھی ہے۔ 2022 میں 65 ہزار ہندوستانی غیر قانونی طور پر امریکی سرحد میں داخل ہوئے تھے، 2023 میں یہ تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ ڈنکی روٹ سے بیرون ملک جانے والوں میں 60 فیصد سے زیادہ نوجوان ہوتے ہیں۔
(رشی کیش کمار آزاد صحافی ہیں۔)