ستمبر-نومبر 2022 میں جبل پور میں ہوئے اگنی پتھ کے امتحان میں امیدواروں نے دھاندلی کا الزام لگایا ہے۔ حال ہی میں، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے فوج کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس بھرتی کے دوران منتخب ہونے والے تمام امیدواروں کے نمبر فراہم کرے۔
آرمی ریکروٹمنٹ ہیڈ کوارٹر، جبل پور؛ اگنی پتھ اسکیم کے تحت بھرتی ریلی کی علامتی تصویر۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک @prodeffau اورجوائن انڈین آرمی)
گوالیار: ملک بھر میں سرکاری بھرتیوں میں ہو رہے گھوٹالوں کے درمیان مدھیہ پردیش میں فوج کی اگنی پتھ اسکیم کو لے کر ایک نیا تنازعہ سامنے آیا ہے۔ کچھ امیدواروں نے اگنی ویر کے بھرتی امتحان میں ‘گھوٹالے’ کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ستمبر-نومبر 2022 میں جبل پور میں ہوئے اگنی پتھ کے امتحان میں انہوں نے ‘منتخب امیدواروں کی فہرست’ میں آنے والے ایک امیدوار سے کہیں زیادہ نمبر حاصل کیے تھے، اس کے باوجود منتخب نہیں ہوئے۔
یہ تنازعہ اتنا بڑا ہو گیا کہ ستنا کے رہنے والے امن دویدی سمیت کئی امیدواروں نے دسمبر 2022 میں ریاستی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔واضح ہو کہ یہ وہ امیدوار ہیں جنہیں مذکورہ بھرتی میں منتخب نہیں کیا گیا تھا۔ حال ہی میں، 1 جولائی کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے فوج کو ہدایت دی کہ وہ جبل پور میں ہوئی اگنی ویر کی بھرتی کے دوران منتخب ہونے والے تمام امیدواروں کے نمبر15 دنوں کے اندر عرضی گزاروں کو فراہم کرے۔ غور طلب ہے کہ اس سے قبل فوج نے اس کو تیسرے فریق سے متعلق ذاتی معلومات بتاتے ہوئے نمبر فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اس معاملے پر دی وائر کی خصوصی رپورٹ ملاحظہ کریں؛
آر ٹی آئی درخواستیں اور عدالتی لڑائی
ستمبر 2022 میں اگنی پتھ اسکیم کے تحت فوج کی جبل پور بھرتی ریلی کا فزیکل ٹیسٹ ہوا تھا، اس کے بعد 13 نومبر کو تحریری امتحان لیا گیا تھا۔ ان کے مشترکہ نتائج کا اعلان 26 نومبر کو کیا گیا تھا۔ جب کئی امیدواروں کو اس نتیجے پر شک ہوا تو وہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ گئے اور فوج کے سامنے بھی ایک آر ٹی آئی درخواست دائر کی تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ انہیں کتنے نمبر ملےتھے، کٹ آف کتنا تھا اور دوسرے امیدواروں کے نمبر کیا تھے ۔
یہ تمام درخواست گزار ریوا کی بہادر فزیکل اکیڈمی میں فوج میں بھرتی کی تیاری کر رہے تھے۔ یہ اکیڈمی سابق فوجی لال بہادر گوتم چلا رہے ہیں۔
ایک آر ٹی آئی کے جواب کے مطابق، نتیش کمار تیواری (رول نمبر 140241) نے فزیکل ٹیسٹ (88) اور تحریری امتحان (71) میں مجموعی طور پر 159 نمبر حاصل کیے تھے۔ قابل ذکر ہے کہ نتیش کمار کا نام نومبر میں اعلان کردہ امتحان کے نتائج کے منتخب امیدواروں میں شامل تھا (جس کی فہرست نیچے دیکھی جا سکتی ہے)۔ اس جواب نے تمام امیدواروں کو حیران کر دیا کیونکہ فوج نے ایک اور امیدوار کے آر ٹی آئی کے جواب میں بتایا تھا کہ منتخب طلباء کے کٹ آف نمبر 169 ہیں۔
آر ٹی آئی (بائیں) کے ذریعے حاصل کردہ نتیش کمار تیواری کےنمبر (بائیں)اور منتخب نہ ہونے والے ایک اور امیدوار سوربھ سنگھ کے نمبروں کی تفصیلات کے ساتھ کٹ آف مارکس کے (دائیں)۔
تاہم، نتیش کا کہنا ہے کہ نومبر 2022 میں نتائج کا اعلان ہونے کے ایک ماہ بعد اور جوائن کرنے سے ایک دن پہلے ہوئے میڈیکل ٹیسٹ میں وہ فیل ہو گئے اور فوج میں بھرتی نہیں ہو پائے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ طبی بنیادوں پرباہر کیے جانے کے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد 16 فروری 2023 کو نتیش کو آر ٹی آئی کے جواب (اوپر آر ٹی آئی کے جواب سے متعلق پہلی تصویر دیکھیں) میں آرمی ریکروٹمنٹ ہیڈ کوارٹر (مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ) نے ان کے نمبروں کی جانکاری دیتے ہوئےبتایا کہ ‘وہ پاس تو ہوگئے، لیکن میرٹ میں نہیں آئے۔’ جبکہ آرمی کے اپنے امتحان کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا رول نمبر منتخب طلباء یعنی میرٹ لسٹ میں تھا۔ فوج کی ویب سائٹ پر دستیاب
امتحان کے نتائج کے مطابق نتیش کمار کا نام اب بھی ‘منتخب امیدواروں’ کی فہرست میں درج ہے۔
امتحان میں نتیش کمار تیواری کا رول نمبر 140241 تھا، جسے منتخب امیدواروں کی فہرست میں دیکھا جا سکتا ہے۔
گوتم کہتے ہیں،’آر ٹی آئی کے بعد میرا شک صحیح ثابت ہوا کہ اگنی ویروں کے انتخاب میں دھاندلی ہوئی ہے۔ میرے کئی طلباء کے نمبر 160 سے 167 کے درمیان تھے۔ ان میں سے کسی کا نام منتخب امیدواروں کی فہرست میں نہیں تھا، لیکن 159 نمبر حاصل کرنے والے نتیش کا رول نمبر فہرست میں کیسے آیا؟‘
نتیش کمار تیواری کا ایڈمٹ کارڈ، جو ان کے رول نمبر کی تصدیق کرتا ہے۔
نتیش کمار تیواری کی او ایم آر شیٹ جو ان کے رول نمبر 140241 کی تصدیق کرتی ہے۔ اس رول نمبرکو منتخب امیدواروں کی فہرست میں دیکھا جا سکتا ہے۔
آر ٹی آئی کے مطابق، کئی ناکام امیدواروں کے نمبر نتیش کمار سے زیادہ ہیں- سجیت کمار راوت (160.5)، وکاس سنگھ (163)، ابھیشیک ورما (165.5)، سچن سنگھ (166.5) اور سوربھ سنگھ (167)۔
آر ٹی آئی کےتحت موصولہ جواب میں سجیت کمار راوت (بائیں) اور وکاس سنگھ (دائیں) کے حاصل کردہ نمبر۔
آر ٹی آئی کے تحت موصولہ جواب میں ابھیشیک ورما (بائیں) اور سچن سنگھ (دائیں) کے حاصل کردہ نمبر۔
گوتم نے الزام لگایا کہ انتخاب کے باوجود نتیش کو اچانک بے دخل کر دیا گیا کیونکہ نومبر میں نتائج آتے ہی امیدوار دسمبر کے پہلے ہفتے میں ہائی کورٹ چلے گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ‘فوج کے اہلکاروں کو لگا ہوگا کہ کم نمبر والے نتیش کو منتخب کرنے پر وہ مشکل میں پڑ جائیں گے، اس لیے انھوں نے میڈیکل میں فیل ہونے کا بہانہ بنا کر خود کو بچانے کی کوشش کی۔’
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں حکومت ہند کے وکیل نے دلیل دی کہ یہ معاملہ عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا اور صرف آرمڈ فورسز ٹریبونل (اے ایف ٹی) ہی اس کی سماعت کر سکتا ہے۔ اس کے بعد، 13 دسمبر 2022 کو ہائی کورٹ نے انہیں آرمڈ فورسز ٹریبونل (اے ایف ٹی) میں جانے کے لیے کہہ کر کیس ختم کردیا۔ اے ایف ٹی کے پاس جانے پر درخواست گزاروں کو بتایا گیا کہ ‘چونکہ درخواست گزار فوج کا حصہ نہیں ہیں، اس لیے اے ایف ٹی کو اس معاملے کو سننے کا اختیار نہیں ہے۔’
دریں اثنا، کچھ امیدواروں نے اپنی آر ٹی آئی درخواستوں پر حاصل کردہ نمبروں کے ساتھ 169 کے کٹ آف نمبروں کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں، اور ان کے شکوک مزید گہرے ہو گئے تھے۔
گوتم نے دی وائر کو بتایا کہ انہوں نے آر ٹی آئی کے ذریعے تمام منتخب طلباء کے نمبروں کی معلومات مانگی تھی، لیکن فوج نے آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8(1)(جے) کا حوالہ دیتے ہوئے اس معلومات کو تھرڈ پارٹی اور پرائیویٹ قرار دے دے کر جانکاری دینے سے انکار کر دیا۔ (اس سلسلے میں فوج کا جواب اوپر منسلک آر ٹی آئی کی کاپیوں میں پڑھا جا سکتا ہے۔)
لال بہادر گوتم۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)
اے ایف ٹی سے لوٹائے جانے کے بعد گوتم منتخب نہ ہو پانے والے اپنے کچھ طالبعلموں، جو معاملے میں شروع سے عرضی گزار تھے، کے ذریعے دوبارہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور بھرتی کے عمل کو چیلنج کرتے ہوئے اسے غیر شفاف اور غیر منصفانہ قرار دیا۔ اس کیس کی سماعت 9 جنوری 2023 سے دوبارہ شروع ہوئی۔ پی آئی ایل میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ امتحان میں امیدواروں کے حاصل کردہ نمبر اور کٹ آف مارکس فراہم کیے جائیں۔
حکومت ہند اور دیگر کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے ڈپٹی سالیسٹر جنرل (ڈی ایس جی) پشپندر یادو نے درخواست گزاروں کو منتخب امیدواروں کے نمبر نہ بتائے جانے کی پیچھے کی دلیل دی کہ مانگی گئی معلومات ایک تیسرے فریق کی ذاتی معلومات کے زمرے میں آتی ہے، جو فراہم نہیں کی جا سکتی ہے۔
کیس کی سماعت کر رہے جسٹس وشال دھگٹ نے ڈی ایس جی یادو کی دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مقابلہ جاتی امتحان میں جہاں طلباء ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہوں، وہاں ان کے نمبروں کا انکشاف نجی معلومات نہیں ہے۔
‘درخواست گزاروں نے دوسرے امیدواروں کے نمبر کا مطالبہ کیا ہے۔ تمام امیدواروں نے عوامی امتحان میں حصہ لیا تھا۔ امتحان میں امیدواروں کے حاصل کردہ نمبر عوامی سرگرمی کا حصہ ہیں اور ہر امیدوار کو دوسرے امیدواروں کے حاصل کردہ نمبروں کے بارے میں جاننے کا حق ہے۔ اگر دوسرے امیدواروں کے نمبر ظاہر کیے جاتے ہیں، تو یہ کسی بھی امیدوار کی ذاتی معلومات کی خلاف ورزی نہیں ہوگی،’ عدالت نے کہا۔
مختلف امتحانات میں دھاندلی کے مدنظر اس حکم کو اہم قرار دیتے ہوئے عرضی گزاروں کے وکیل این پی ایس روپراہ کہتے ہیں،’مستقبل میں اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ اگنی ویر یا کسی دوسرے انتخابی عمل میں، منتخب اور باہر کیےگئے تمام امیدواروں کو ان کے حاصل کردہ نمبر اور کٹ آف مارکس بتائے جائیں۔ انتخابی عمل میں جتنی شفافیت ہوگی کرپشن کا امکان اتنا ہی کم ہوگا۔‘
دی وائر نے اس سلسلے میں جبل پور ریکروٹمنٹ ہیڈ کوارٹر (مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ) کے ای میل ایڈریس پر اپنے سوال بھیجے ہیں، جن کا ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ جواب موصول ہونے پر اس رپورٹ کو اپڈیٹ کیا جائے گا۔