اگنی ویروں  کا نیا نشان: لوہا، لکڑی اور کریانے کی دکان

04:10 PM May 24, 2024 | دیپک گوسوامی

مدھیہ پردیش کے گوالیار-چنبل علاقے میں فوج میں جانے کی لمبی روایت رہی ہے۔ مثال کے طور پر، اب تک ہر بھرتی میں مرینا کے قاضی بسئی گاؤں کے 4-5 نوجوان فوج میں چنے جاتے تھے۔ اگنی پتھ اسکیم کے شروع ہونے کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ گاؤں سے کوئی بھی نہیں چنا گیا۔ فوج کی بھرتی پر انحصار کرنے والے یہ نوجوان اب انجانے کام کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔

گوالیار کے ایک ٹریننگ سینٹرمیں سیکورٹی فورسز میں انتخاب کے لیے تیاری کرتے  امیدورا۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/دی وائر)

گوالیار:‘بیہڑ، باغی اور بندوق’ کے لیے معروف چنبل کی ایک اور پہچان ہے، جس سے کم لوگ واقف ہیں۔ بندوق یہاں بغاوت کے لیے صرف باغی یا ڈکیتوں نے نہیں اٹھائی، بلکہ یہاں کے نوجوانوں کی بڑی تعداد ملک کی سلامتی کے لیے ہندوستانی فوج میں شامل ہوتی رہی ہے۔ شہیدوں کی طویل فہرست والے کئی گاؤں میں بےشمار گھروں نے فوجیوں کی نسلیں دی ہیں۔

مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی حکومت کی طرف سے مرتب کیے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا تھا کہ ریاست کے کل شہید فوجیوں میں سے تقریباً 45 فیصد کا تعلق بھنڈ-مرینا ضلع سے تھا۔ اگر قریبی ضلع گوالیار کو شامل کیا جائے تو تعداد اور زیادہ ہو جاتی ہے۔

گوالیار واقع ایس ایف گراؤنڈ پر نوجوانوں کو فوج، پولیس اور نیم فوجی دستوں کے لیے جسمانی تربیت دے رہے سورج کہتے ہیں، ‘ایک وقت میں فوج کی بھرتی کے لیے جتنے فارم مدھیہ پردیش کے تمام اضلاع میں بھرے جاتے تھے، اتنے ہی ان تینوں اضلاع (بھنڈ، مرینا اور گوالیار) میں ہی  بھرے جاتےتھے۔’

لیکن اگنی پتھ اسکیم کے بعد حالات بدل گئے ہیں۔ چنبل کے نوجوان فوج سے مایوس ہونے لگے ہیں۔ مرینا ضلع کی کیلارس تحصیل کے رہائشی منو سکروار کہتے ہیں؛

ملک کے لیے شہید ہونا فخر کی بات ہے، لیکن ہماری  شہادت کے بعد نہ ہمارے گھر والوں کو پنشن کی سہولت ملے گی اور نہ ہی کوئی اور مراعات جو فوج کے باقاعدہ سپاہیوں کو ملتی ہیں۔ میرے پیچھے میرا خاندان ہے، کم از کم میرے جانے کے بعد اتنا تو ہو کہ وہ زندگی بھر پریشان نہ ہوں۔ ‘

دو سال پہلے تک 20 سالہ منو فوج میں جانا چاہتے تھے اور دلجمعی سے تیاری کر رہے تھے۔ اگنی پتھ اسکیم نے ان کے خوابوں کا گلا گھونٹ دیا۔ ‘اگنی پتھ اسکیم کی وجہ سے مجھے فوج میں شامل ہونے کا خواب ترک کرنا پڑا کیونکہ وہاں کوئی مستقبل نہیں ہے۔ چار سال بعد واپس آکر مجھے کوئی اور کام تلاش کرنا پڑتا، ایک نئی سمت میں محنت کرنی پڑتی اور روزگار کے لیے دھکے کھانے پڑتے۔’

منو اکیلےنہیں تھے۔ ان کے بہت سے دوست فوج میں جانے کا خواب دیکھ رہے تھے، لیکن آج سب دوسری نوکریوں کی تلاش میں ہیں۔ منو دہلی میں مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کر رہے ہیں، لیکن آج بھی کہتے ہیں کہ ان کی پہلی پسند فوج ہی ہے کیونکہ ان کے والد بھی فوجی ہیں۔

بہت سے افسران کا کہنا ہے کہ آپ فوج کو روزگار گارنٹی کی اسکیم کے طور پر نہیں دیکھ سکتے۔ فوج اپنی ضرورتوں کے مطابق بھرتی کرتی ہے، اور ملک کو سمجھنا چاہیے کہ اگنی ویر اسکیم فوج کی جدید کاری اور اس کی تنظیم کو مضبوط کرنے میں مدد کرے گی۔

لیکن اس سے قطع نظر یہ بھی سچ ہے کہ ملک کے کئی حصوں میں فوج ایک روایت ہے، ایک جنون ہے، فخر کے ساتھ جینے کا ایک لازمی طریقہ ہے۔ اگنی پتھ اسکیم اس روایت کو ایک جھٹکے کے ساتھ ختم کر رہی ہے۔ چنبل کے علاقے میں فوج میں شمولیت کی ایک طویل روایت رہی ہے۔ مرینا شہر کے بھانو جادون کے دادا اور نانیہال میں ماموں فوج کا حصہ رہے ہیں۔ آج بھانو اگنی ویر بننے کی عمر کی حد پار کر چکےہیں، لیکن جب اسکیم نافذ ہوئی تو وہ اس کے اہل تھے۔ کووڈ وبائی مرض سے پہلے ہوئے جسمانی اہلیت کے امتحان میں وہ کامیاب ہو چکے تھے، لیکن کووڈ کی وجہ سے باقی عمل میں تاخیر ہوتی رہی اور پھر اگنی پتھ اسکیم آئی۔ اسکیم کے پہلے سال میں انہیں عمر میں دو سال کی رعایت ملی تھی، لیکن انہوں نے اگنی ویر نہ بننے کا انتخاب کیا۔

‘میں نے بچپن سے ہی اپنے گھر میں آرمی کلچر دیکھا تھا، اس لیے اس  میں جانےکا جذبہ تھا۔ لیکن 4 سال کی محدود ملازمت کی وجہ سے امتحان دینے میں دلچسپی نہیں لی۔ میرے جیسے بہت سے لڑکے ہیں جو اگنی پتھ اسکیم کی وجہ سے فوج میں دلچسپی کھو بیٹھے ہیں۔’

بھانو اب ایک پرائیویٹ کمپنی میں کلیکشن ایجنٹ بن گئے ہیں۔

‘دی وائر’ مرینا ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر سے تقریباً 30 کلومیٹر دور واقع قاضی بسئی گاؤں پہنچا۔ تقریباً 5 ہزار کی آبادی والے اس گاؤں میں 80 سے 90 فیصد گھر مسلمانوں کے ہیں۔ یہاں کے لوگ پہلی جنگ عظیم کے وقت سے ہی فوج میں جاتے رہے ہیں۔

گاؤں کے سابق سرپنچ حاجی محمد رفیق، جو 36 سال تک بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) میں خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائر ہوئے تھے، کہتے ہیں کہ اب تک ان کے گاؤں کے تقریباً 3000-3500 لوگ مختلف سکیورٹی فورسز کا حصہ رہ چکے ہیں اور 7 لوگ شہید ہوئے ہیں ۔ لوگ پانچ—پانچ نسلوں سے سیکورٹی فورسز میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس وقت بھی گاؤں کے 350 سے زیادہ لوگ ہندوستانی فوج، انڈو—تبت بارڈر پولیس (آئی ٹی بی پی)، بی ایس ایف اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف ) میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

مرینا ضلع واقع قاضی بسئی گاؤں کا پنچایت بھون اور سابق سرپنچ حاجی محمد رفیق۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/دی وائر)

اگنی پتھ اسکیم پر گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ‘ بالکل واہیات ہے اگنی ویر بنوو، جامے تو شہید کو بھی درجہ نہیں ملے گو۔’

ڈیوٹی کے دوران اگنی ویروں کی موت کی صورت میں معاوضہ اور انشورنس کا تو  اہتمام ہے، لیکن انہیں باقاعدہ فوجیوں کی طرح پنشن اور شہیدوں کے اہل خانہ کو دی جانے والی دیگر سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ مزید برآں، اسکیم کے تحت، اگنی ویر کو چار سال کی سروس مکمل کرنے کے بعد بھی ‘ایکس—سروس مین’ بھی نہیں مانا جائے گا۔

گاؤں والوں نے بتایا کہ پہلے ہر بھرتی میں قاضی بسئی گاؤں کے 4-5 لڑکے چنے جاتے تھے۔ اسکیم شروع ہونے کے بعد جو پچھلی بھرتی ہوئی ، اس میں پہلی بار ایسا ہوا کہ گاؤں سے کسی کو منتخب نہیں کیا گیا۔

واصف محمد نے اگنی پتھ اسکیم سے قبل فوج کی بھرتی ریلی میں شرکت کی تھی، لیکن اسکیم آتے ہی فوج میں شامل ہونے کا خیال ترک کردیا۔ ‘گاؤں میں شاید ہی کوئی لڑکا اگنی ویر میں دلچسپی رکھتا ہو،’ وہ کہتے ہیں۔ پہلے اگنی ویر بنو، پھر مستقل ہونے کے لیے محنت کرو اور اگر مستقل نہیں ہوئے تو دوسری بھرتیوں کے لیے کوشش کرو۔ ‘بہتر ہے کہ کسی اور مستقل ملازمت کے لیے محنت کریں۔’

سابق سرپنچ حاجی محمد اس  کے ایک تاریک گوشے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ‘جو بچے فوج کی تیاری کر رہے تھے، انھوں نے اب کریانے، لوہے اور کاٹھ (فرنیچر) کی دکانیں کھول لی ہیں۔’

واصف نے کریانے کی دکان کھولی ہے اور ان کے ہم عمر عباسی بڑھئی کا کام کرنے لگے ہیں۔

مرینا کی پورسا تحصیل میں ایک گاؤں ترسما بھی ہے، جو اب تک ملک کو 17 شہید دے چکا ہے۔ گاؤں میں تقریباً 400 گھر ہیں اور شہیدوں کے 5 مقامات ہیں۔ سرپنچ ستیہ بھان تومر کے مطابق، ‘ہر گھر میں 2-3 فوجی ہیں۔ بعض گھروں میں پانچ مرد ہیں اور پانچوں فوجی ہیں۔ ‘تومر کہتے ہیں کہ یہاں بھی ‘اگنی ویر’ کو لے کر کوئی جوش اور ولولہ نہیں ہے۔

مرینا ضلع کی کیلارس تحصیل میں سیکورٹی فورسز میں بھرتی کے لیے ایک فزیکل ٹریننگ سینٹر چلانے والے رام نارائن سکروار کہتے ہیں، ‘ہمارے علاقے میں اس لیے بھی فوج کی نوکری کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ یہاں زیادہ تر بچے کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ جسمانی طور پر وہ مضبوط ہوتے ہیں۔ جب فوج میں سروس صرف 4 سال کی ہے تو پھر وہ کہیں اور کام—دھندہ  دیکھنے کے لیے مجبور ہو گئے ہیں۔

واصف کی کریانہ کی دکان پر آپسی بحث میں مشغول گاؤں کے بزرگ نوی محمد، عطا محمد اور حصیر محمد، ‘دی وائر’ سے کہتے ہیں، ‘یہاں کرنے کو کوئی اور کام نہیں ہے۔ فوج کے علاوہ لڑکوں نے کچھ سوچا ہی نہیں تھا، اب حکومت چار سال کی نوکری دے رہی ہے تو وہی کرنی پڑے گی، ورنہ کرو محنت مزدوری۔’

‘ اگنی پتھ ‘  کے بعد منہ کے بل گری فزیکل  کی تیاری کرنے والوں کی تعداد؟

فوج سے ریٹائرڈ ادے بھدوریا گزشتہ 7 سالوں سے گوالیار کے بھنڈ روڈ پر ایک فزیکل ٹریننگ سینٹر چلا رہے ہیں، جہاں فوج، پولیس، این ڈی اے اور نیم فوجی دستوں کے جسمانی امتحان کی تیاری کرائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘جب اگنی پتھ اسکیم نہیں تھی، تو ملک بھر سے طلباء میرے پاس فوج کی تیاری کے لیے آتے تھے، لیکن اب یہ دائرہ صرف بھنڈ، مرینا، گوالیار، گنا، شیو پوری، دتیا، دھول پور کے بچوں تک ہی محدود ہو گیا ہے۔’

انہوں نے بتایا کہ فوج کی تیاری کے لیے آنے والے بچوں کی تعداد تقریباً آدھی رہ گئی ہے۔ ان کےٹریننگ سینٹر میں اگنی ویر بیچ کے بچوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔

ادے بھدوریا (دائیں) اور ان کے تربیتی مرکز کا اگنی ویر بیچ۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/دی وائر)

شہر کے ایس ایف گراؤنڈ میں چلنے والے ایک اور تربیتی مرکز کے انسٹرکٹر سورج کہتے ہیں، ’85 فیصدی بچوں نے فوج سے کنارہ کر لیا ہے۔ پہلے میرے آرمی بیچ میں 100-200 بچے ہوتے تھے، آج کی تاریخ میں صرف 10-15 بچے آرہے ہیں۔’

یہی صورتحال مرینا کے جورا اور کیلارس، اور بھنڈ کے انباہ واقع تربیتی مراکز میں دیکھی گئی۔

جورا میں کرہ سرکار فزیکل اکیڈمی چلانے والے گرراج سنگھ بینس کا کہنا ہے کہ کسی زمانے میں جورا کے ایک ہزار کے قریب بچے فوج کے لیے تیاری کرتے تھے،آج یہ تعداد کم ہو کر 100-200 رہ گئی ہے۔ وہیں،ان کی اکیڈمی میں آنے والے امیدواروں کی موجودہ تعداد 300-400 کے درمیان ہے، جن میں اگنی ویر کی تعداد 100کے قریب ہے۔ بینس کے مطابق، اس سکیم کے متعارف ہونے سے پہلے سب سے زیادہ تعداد صرف فوج کے بیچ میں ہوتی تھی۔

دریں اثنا، کیلارس واقع عارف پٹھان کے مرکز میں پہلے فوج کے بیچ میں 40-50 بچے ہمیشہ ہوتے تھے۔ موجودہ اگنی ویر بیچ میں صرف 5 لڑکے ہیں۔

غور طلب ہے کہ این ڈی اے، آئی ٹی بی پی، سی آر پی ایف، بی ایس ایف میں بھرتی کے لیے عمر کی حد 19 سے 23 سال کے درمیان ہے، جبکہ اگنی ویر کے لیے بھرتی کی عمر 17.5 سے 21 سال مقرر کی گئی ہے۔ لہذا، جب ایک ‘اگنی ویر’ فوج سے 21.5 سے 25 سال کے درمیان ریٹائر ہوگا، تو ان امتحانات کے لیے اہلیت سے محروم ہو جائے گا۔

گوالیار واقع آرمی ریکروٹمنٹ آفس، جہاں رابطہ کرنے کے باوجود اگنی ویر کی بھرتی سے متعلق نمبر دستیاب نہیں ہوسکے۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/دی وائر)

اگنی ویر اسکیم کے آغاز سے پہلے 2017-18 سے 2019-20 کے درمیان تین سالوں میں پورے مدھیہ پردیش سے فوج میں جانے والے نوجوانوں کی کل تعداد 7025 تھی۔ پارلیامنٹ میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق، سال 2017-18 میں 2352؛ 2018-19 میں 1570 اور 2019-20 میں 3103 نوجوان ریاست سے فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔

دی وائر نے گزشتہ دو سالوں میں اگنی پتھ اسکیم کے تحت بھنڈ، مرینا اور گوالیار اضلاع سے فوج میں بھرتی ہونے والے نوجوانوں کی تعداد معلوم کرنے کے لیے گوالیار میں آرمی ریکروٹمنٹ آفس سے رابطہ کیا، لیکن دفتر نے اس سلسلے میں کوئی بھی معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا ۔

چار سال بعد نہ روزگار اور نہ پریوار

اگنی پتھ اسکیم میں اگنی ویروں کا غیر شادی شدہ ہونا لازمی ہے۔ اس اسکیم کی ایک شق ہے؛

‘صرف غیر شادی شدہ امیدوار ہی اگنی ویر کے طور پر رجسٹر ہونے کے اہل ہوں گے اور چار سال کی سروس کے دوران شادی نہیں کر سکیں گے۔ شادی کرنے  والوں کو نوکری سے فارغ کر دیا جائے گا۔ مزید برآں، صرف غیر شادی شدہ اگنی ویر ہی ریگولر کیڈر میں کانسٹبل یا اس کے مساوی عہدے پر دوبارہ بھرتی/نامزدگی کے اہل ہوں گے۔ ‘

لیکن چنبل، خصوصی طور پر گوالیار کے دیہی علاقے اور اور بھنڈ—مرینا میں شادی عموماً کم عمری میں ہو جاتی ہے۔ وردی ملتے ہی شادی کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔

گرراج کہتے ہیں، ‘یہاں 25 سال کے لڑکے کو بوڑھا سمجھا جاتا ہے۔ ماں باپ کی سوچ ہوتی ہے کہ لڑکا دسویں—بارہویں پاس کرے اور فوج میں بھرتی ہوتے ہی شادی کر دیں۔’

اگنی ویر خواہ شادی نہ کر سکیں، رشتہ توپکا کر سکتے  ہیں۔ لیکن عارضی ملازمت کی وجہ سے رشتہ ملنا آسان نہیں ہے۔ ‘دو سالوں میں مرینا میں کسی بھی اگنی ویر کا رشتہ پکا نہیں ہواہے۔ مجھے لڑکیوں کے گھر والوں کی طرف سے فون آتے ہیں کہ کوئی فوج/فورس میں ہو تو  بتاؤ، لیکن اگنی ویر نہ ہو،’ گرراج کہتے ہیں۔

عارف پٹھان کہتے ہیں، ‘یہاں شادی 20-21 سال کی عمر میں ہو جاتی ہے۔ بہت سے شادی شدہ لوگ میرے پاس دوسری بھرتیوں کی تیاری کے لیے آتے ہیں، کچھ کے بچے بھی ہیں۔ اس لیے یہ خدشہ بھی ہے کہ 25 سالہ ریٹائرڈ ‘بے روزگار’ اگنی ویر سے کون رشتہ قائم کرے گا؟ اس پر تو نوکری جانے اور غیر شادی شدہ رہ جانے کی دوہری مار پڑے گی۔’