اگنی ویروں  کا نیا نشان: لوہا، لکڑی اور کریانے کی دکان

مدھیہ پردیش کے گوالیار-چنبل علاقے میں فوج میں جانے کی لمبی روایت رہی ہے۔ مثال کے طور پر، اب تک ہر بھرتی میں مرینا کے قاضی بسئی گاؤں کے 4-5 نوجوان فوج میں چنے جاتے تھے۔ اگنی پتھ اسکیم کے شروع ہونے کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ گاؤں سے کوئی بھی نہیں چنا گیا۔ فوج کی بھرتی پر انحصار کرنے والے یہ نوجوان اب انجانے کام کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔

مدھیہ پردیش کے گوالیار-چنبل علاقے میں فوج میں جانے کی لمبی روایت رہی ہے۔ مثال کے طور پر، اب تک ہر بھرتی میں مرینا کے قاضی بسئی گاؤں کے 4-5 نوجوان فوج میں چنے جاتے تھے۔ اگنی پتھ اسکیم کے شروع ہونے کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ گاؤں سے کوئی بھی نہیں چنا گیا۔ فوج کی بھرتی پر انحصار کرنے والے یہ نوجوان اب انجانے کام کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔

گوالیار کے ایک ٹریننگ سینٹرمیں سیکورٹی فورسز میں انتخاب کے لیے تیاری کرتے  امیدورا۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/دی وائر)

گوالیار کے ایک ٹریننگ سینٹرمیں سیکورٹی فورسز میں انتخاب کے لیے تیاری کرتے  امیدورا۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/دی وائر)

گوالیار:‘بیہڑ، باغی اور بندوق’ کے لیے معروف چنبل کی ایک اور پہچان ہے، جس سے کم لوگ واقف ہیں۔ بندوق یہاں بغاوت کے لیے صرف باغی یا ڈکیتوں نے نہیں اٹھائی، بلکہ یہاں کے نوجوانوں کی بڑی تعداد ملک کی سلامتی کے لیے ہندوستانی فوج میں شامل ہوتی رہی ہے۔ شہیدوں کی طویل فہرست والے کئی گاؤں میں بےشمار گھروں نے فوجیوں کی نسلیں دی ہیں۔

مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی حکومت کی طرف سے مرتب کیے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا تھا کہ ریاست کے کل شہید فوجیوں میں سے تقریباً 45 فیصد کا تعلق بھنڈ-مرینا ضلع سے تھا۔ اگر قریبی ضلع گوالیار کو شامل کیا جائے تو تعداد اور زیادہ ہو جاتی ہے۔

گوالیار واقع ایس ایف گراؤنڈ پر نوجوانوں کو فوج، پولیس اور نیم فوجی دستوں کے لیے جسمانی تربیت دے رہے سورج کہتے ہیں، ‘ایک وقت میں فوج کی بھرتی کے لیے جتنے فارم مدھیہ پردیش کے تمام اضلاع میں بھرے جاتے تھے، اتنے ہی ان تینوں اضلاع (بھنڈ، مرینا اور گوالیار) میں ہی  بھرے جاتےتھے۔’

لیکن اگنی پتھ اسکیم کے بعد حالات بدل گئے ہیں۔ چنبل کے نوجوان فوج سے مایوس ہونے لگے ہیں۔ مرینا ضلع کی کیلارس تحصیل کے رہائشی منو سکروار کہتے ہیں؛

ملک کے لیے شہید ہونا فخر کی بات ہے، لیکن ہماری  شہادت کے بعد نہ ہمارے گھر والوں کو پنشن کی سہولت ملے گی اور نہ ہی کوئی اور مراعات جو فوج کے باقاعدہ سپاہیوں کو ملتی ہیں۔ میرے پیچھے میرا خاندان ہے، کم از کم میرے جانے کے بعد اتنا تو ہو کہ وہ زندگی بھر پریشان نہ ہوں۔ ‘

دو سال پہلے تک 20 سالہ منو فوج میں جانا چاہتے تھے اور دلجمعی سے تیاری کر رہے تھے۔ اگنی پتھ اسکیم نے ان کے خوابوں کا گلا گھونٹ دیا۔ ‘اگنی پتھ اسکیم کی وجہ سے مجھے فوج میں شامل ہونے کا خواب ترک کرنا پڑا کیونکہ وہاں کوئی مستقبل نہیں ہے۔ چار سال بعد واپس آکر مجھے کوئی اور کام تلاش کرنا پڑتا، ایک نئی سمت میں محنت کرنی پڑتی اور روزگار کے لیے دھکے کھانے پڑتے۔’

منو اکیلےنہیں تھے۔ ان کے بہت سے دوست فوج میں جانے کا خواب دیکھ رہے تھے، لیکن آج سب دوسری نوکریوں کی تلاش میں ہیں۔ منو دہلی میں مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کر رہے ہیں، لیکن آج بھی کہتے ہیں کہ ان کی پہلی پسند فوج ہی ہے کیونکہ ان کے والد بھی فوجی ہیں۔

بہت سے افسران کا کہنا ہے کہ آپ فوج کو روزگار گارنٹی کی اسکیم کے طور پر نہیں دیکھ سکتے۔ فوج اپنی ضرورتوں کے مطابق بھرتی کرتی ہے، اور ملک کو سمجھنا چاہیے کہ اگنی ویر اسکیم فوج کی جدید کاری اور اس کی تنظیم کو مضبوط کرنے میں مدد کرے گی۔

لیکن اس سے قطع نظر یہ بھی سچ ہے کہ ملک کے کئی حصوں میں فوج ایک روایت ہے، ایک جنون ہے، فخر کے ساتھ جینے کا ایک لازمی طریقہ ہے۔ اگنی پتھ اسکیم اس روایت کو ایک جھٹکے کے ساتھ ختم کر رہی ہے۔ چنبل کے علاقے میں فوج میں شمولیت کی ایک طویل روایت رہی ہے۔ مرینا شہر کے بھانو جادون کے دادا اور نانیہال میں ماموں فوج کا حصہ رہے ہیں۔ آج بھانو اگنی ویر بننے کی عمر کی حد پار کر چکےہیں، لیکن جب اسکیم نافذ ہوئی تو وہ اس کے اہل تھے۔ کووڈ وبائی مرض سے پہلے ہوئے جسمانی اہلیت کے امتحان میں وہ کامیاب ہو چکے تھے، لیکن کووڈ کی وجہ سے باقی عمل میں تاخیر ہوتی رہی اور پھر اگنی پتھ اسکیم آئی۔ اسکیم کے پہلے سال میں انہیں عمر میں دو سال کی رعایت ملی تھی، لیکن انہوں نے اگنی ویر نہ بننے کا انتخاب کیا۔

‘میں نے بچپن سے ہی اپنے گھر میں آرمی کلچر دیکھا تھا، اس لیے اس  میں جانےکا جذبہ تھا۔ لیکن 4 سال کی محدود ملازمت کی وجہ سے امتحان دینے میں دلچسپی نہیں لی۔ میرے جیسے بہت سے لڑکے ہیں جو اگنی پتھ اسکیم کی وجہ سے فوج میں دلچسپی کھو بیٹھے ہیں۔’

بھانو اب ایک پرائیویٹ کمپنی میں کلیکشن ایجنٹ بن گئے ہیں۔

‘دی وائر’ مرینا ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر سے تقریباً 30 کلومیٹر دور واقع قاضی بسئی گاؤں پہنچا۔ تقریباً 5 ہزار کی آبادی والے اس گاؤں میں 80 سے 90 فیصد گھر مسلمانوں کے ہیں۔ یہاں کے لوگ پہلی جنگ عظیم کے وقت سے ہی فوج میں جاتے رہے ہیں۔

گاؤں کے سابق سرپنچ حاجی محمد رفیق، جو 36 سال تک بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) میں خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائر ہوئے تھے، کہتے ہیں کہ اب تک ان کے گاؤں کے تقریباً 3000-3500 لوگ مختلف سکیورٹی فورسز کا حصہ رہ چکے ہیں اور 7 لوگ شہید ہوئے ہیں ۔ لوگ پانچ—پانچ نسلوں سے سیکورٹی فورسز میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس وقت بھی گاؤں کے 350 سے زیادہ لوگ ہندوستانی فوج، انڈو—تبت بارڈر پولیس (آئی ٹی بی پی)، بی ایس ایف اور سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف ) میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

مرینا ضلع واقع قاضی بسئی گاؤں کا پنچایت بھون اور سابق سرپنچ حاجی محمد رفیق۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/دی وائر)

مرینا ضلع واقع قاضی بسئی گاؤں کا پنچایت بھون اور سابق سرپنچ حاجی محمد رفیق۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/دی وائر)

اگنی پتھ اسکیم پر گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ‘ بالکل واہیات ہے اگنی ویر بنوو، جامے تو شہید کو بھی درجہ نہیں ملے گو۔’

ڈیوٹی کے دوران اگنی ویروں کی موت کی صورت میں معاوضہ اور انشورنس کا تو  اہتمام ہے، لیکن انہیں باقاعدہ فوجیوں کی طرح پنشن اور شہیدوں کے اہل خانہ کو دی جانے والی دیگر سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے۔ مزید برآں، اسکیم کے تحت، اگنی ویر کو چار سال کی سروس مکمل کرنے کے بعد بھی ‘ایکس—سروس مین’ بھی نہیں مانا جائے گا۔

گاؤں والوں نے بتایا کہ پہلے ہر بھرتی میں قاضی بسئی گاؤں کے 4-5 لڑکے چنے جاتے تھے۔ اسکیم شروع ہونے کے بعد جو پچھلی بھرتی ہوئی ، اس میں پہلی بار ایسا ہوا کہ گاؤں سے کسی کو منتخب نہیں کیا گیا۔

واصف محمد نے اگنی پتھ اسکیم سے قبل فوج کی بھرتی ریلی میں شرکت کی تھی، لیکن اسکیم آتے ہی فوج میں شامل ہونے کا خیال ترک کردیا۔ ‘گاؤں میں شاید ہی کوئی لڑکا اگنی ویر میں دلچسپی رکھتا ہو،’ وہ کہتے ہیں۔ پہلے اگنی ویر بنو، پھر مستقل ہونے کے لیے محنت کرو اور اگر مستقل نہیں ہوئے تو دوسری بھرتیوں کے لیے کوشش کرو۔ ‘بہتر ہے کہ کسی اور مستقل ملازمت کے لیے محنت کریں۔’

سابق سرپنچ حاجی محمد اس  کے ایک تاریک گوشے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ‘جو بچے فوج کی تیاری کر رہے تھے، انھوں نے اب کریانے، لوہے اور کاٹھ (فرنیچر) کی دکانیں کھول لی ہیں۔’

واصف نے کریانے کی دکان کھولی ہے اور ان کے ہم عمر عباسی بڑھئی کا کام کرنے لگے ہیں۔

مرینا کی پورسا تحصیل میں ایک گاؤں ترسما بھی ہے، جو اب تک ملک کو 17 شہید دے چکا ہے۔ گاؤں میں تقریباً 400 گھر ہیں اور شہیدوں کے 5 مقامات ہیں۔ سرپنچ ستیہ بھان تومر کے مطابق، ‘ہر گھر میں 2-3 فوجی ہیں۔ بعض گھروں میں پانچ مرد ہیں اور پانچوں فوجی ہیں۔ ‘تومر کہتے ہیں کہ یہاں بھی ‘اگنی ویر’ کو لے کر کوئی جوش اور ولولہ نہیں ہے۔

مرینا ضلع کی کیلارس تحصیل میں سیکورٹی فورسز میں بھرتی کے لیے ایک فزیکل ٹریننگ سینٹر چلانے والے رام نارائن سکروار کہتے ہیں، ‘ہمارے علاقے میں اس لیے بھی فوج کی نوکری کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ یہاں زیادہ تر بچے کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ جسمانی طور پر وہ مضبوط ہوتے ہیں۔ جب فوج میں سروس صرف 4 سال کی ہے تو پھر وہ کہیں اور کام—دھندہ  دیکھنے کے لیے مجبور ہو گئے ہیں۔

واصف کی کریانہ کی دکان پر آپسی بحث میں مشغول گاؤں کے بزرگ نوی محمد، عطا محمد اور حصیر محمد، ‘دی وائر’ سے کہتے ہیں، ‘یہاں کرنے کو کوئی اور کام نہیں ہے۔ فوج کے علاوہ لڑکوں نے کچھ سوچا ہی نہیں تھا، اب حکومت چار سال کی نوکری دے رہی ہے تو وہی کرنی پڑے گی، ورنہ کرو محنت مزدوری۔’

‘ اگنی پتھ ‘  کے بعد منہ کے بل گری فزیکل  کی تیاری کرنے والوں کی تعداد؟

فوج سے ریٹائرڈ ادے بھدوریا گزشتہ 7 سالوں سے گوالیار کے بھنڈ روڈ پر ایک فزیکل ٹریننگ سینٹر چلا رہے ہیں، جہاں فوج، پولیس، این ڈی اے اور نیم فوجی دستوں کے جسمانی امتحان کی تیاری کرائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘جب اگنی پتھ اسکیم نہیں تھی، تو ملک بھر سے طلباء میرے پاس فوج کی تیاری کے لیے آتے تھے، لیکن اب یہ دائرہ صرف بھنڈ، مرینا، گوالیار، گنا، شیو پوری، دتیا، دھول پور کے بچوں تک ہی محدود ہو گیا ہے۔’

انہوں نے بتایا کہ فوج کی تیاری کے لیے آنے والے بچوں کی تعداد تقریباً آدھی رہ گئی ہے۔ ان کےٹریننگ سینٹر میں اگنی ویر بیچ کے بچوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔

ادے بھدوریا (دائیں) اور ان کے تربیتی مرکز کا اگنی ویر بیچ۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/دی وائر)

ادے بھدوریا (دائیں) اور ان کے تربیتی مرکز کا اگنی ویر بیچ۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/دی وائر)

شہر کے ایس ایف گراؤنڈ میں چلنے والے ایک اور تربیتی مرکز کے انسٹرکٹر سورج کہتے ہیں، ’85 فیصدی بچوں نے فوج سے کنارہ کر لیا ہے۔ پہلے میرے آرمی بیچ میں 100-200 بچے ہوتے تھے، آج کی تاریخ میں صرف 10-15 بچے آرہے ہیں۔’

یہی صورتحال مرینا کے جورا اور کیلارس، اور بھنڈ کے انباہ واقع تربیتی مراکز میں دیکھی گئی۔

جورا میں کرہ سرکار فزیکل اکیڈمی چلانے والے گرراج سنگھ بینس کا کہنا ہے کہ کسی زمانے میں جورا کے ایک ہزار کے قریب بچے فوج کے لیے تیاری کرتے تھے،آج یہ تعداد کم ہو کر 100-200 رہ گئی ہے۔ وہیں،ان کی اکیڈمی میں آنے والے امیدواروں کی موجودہ تعداد 300-400 کے درمیان ہے، جن میں اگنی ویر کی تعداد 100کے قریب ہے۔ بینس کے مطابق، اس سکیم کے متعارف ہونے سے پہلے سب سے زیادہ تعداد صرف فوج کے بیچ میں ہوتی تھی۔

دریں اثنا، کیلارس واقع عارف پٹھان کے مرکز میں پہلے فوج کے بیچ میں 40-50 بچے ہمیشہ ہوتے تھے۔ موجودہ اگنی ویر بیچ میں صرف 5 لڑکے ہیں۔

غور طلب ہے کہ این ڈی اے، آئی ٹی بی پی، سی آر پی ایف، بی ایس ایف میں بھرتی کے لیے عمر کی حد 19 سے 23 سال کے درمیان ہے، جبکہ اگنی ویر کے لیے بھرتی کی عمر 17.5 سے 21 سال مقرر کی گئی ہے۔ لہذا، جب ایک ‘اگنی ویر’ فوج سے 21.5 سے 25 سال کے درمیان ریٹائر ہوگا، تو ان امتحانات کے لیے اہلیت سے محروم ہو جائے گا۔

گوالیار واقع آرمی ریکروٹمنٹ آفس، جہاں رابطہ کرنے کے باوجود اگنی ویر کی بھرتی سے متعلق نمبر دستیاب نہیں ہوسکے۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/دی وائر)

گوالیار واقع آرمی ریکروٹمنٹ آفس، جہاں رابطہ کرنے کے باوجود اگنی ویر کی بھرتی سے متعلق نمبر دستیاب نہیں ہوسکے۔ (تصویر: دیپک گوسوامی/دی وائر)

اگنی ویر اسکیم کے آغاز سے پہلے 2017-18 سے 2019-20 کے درمیان تین سالوں میں پورے مدھیہ پردیش سے فوج میں جانے والے نوجوانوں کی کل تعداد 7025 تھی۔ پارلیامنٹ میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق، سال 2017-18 میں 2352؛ 2018-19 میں 1570 اور 2019-20 میں 3103 نوجوان ریاست سے فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔

دی وائر نے گزشتہ دو سالوں میں اگنی پتھ اسکیم کے تحت بھنڈ، مرینا اور گوالیار اضلاع سے فوج میں بھرتی ہونے والے نوجوانوں کی تعداد معلوم کرنے کے لیے گوالیار میں آرمی ریکروٹمنٹ آفس سے رابطہ کیا، لیکن دفتر نے اس سلسلے میں کوئی بھی معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا ۔

چار سال بعد نہ روزگار اور نہ پریوار

اگنی پتھ اسکیم میں اگنی ویروں کا غیر شادی شدہ ہونا لازمی ہے۔ اس اسکیم کی ایک شق ہے؛

‘صرف غیر شادی شدہ امیدوار ہی اگنی ویر کے طور پر رجسٹر ہونے کے اہل ہوں گے اور چار سال کی سروس کے دوران شادی نہیں کر سکیں گے۔ شادی کرنے  والوں کو نوکری سے فارغ کر دیا جائے گا۔ مزید برآں، صرف غیر شادی شدہ اگنی ویر ہی ریگولر کیڈر میں کانسٹبل یا اس کے مساوی عہدے پر دوبارہ بھرتی/نامزدگی کے اہل ہوں گے۔ ‘

لیکن چنبل، خصوصی طور پر گوالیار کے دیہی علاقے اور اور بھنڈ—مرینا میں شادی عموماً کم عمری میں ہو جاتی ہے۔ وردی ملتے ہی شادی کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔

گرراج کہتے ہیں، ‘یہاں 25 سال کے لڑکے کو بوڑھا سمجھا جاتا ہے۔ ماں باپ کی سوچ ہوتی ہے کہ لڑکا دسویں—بارہویں پاس کرے اور فوج میں بھرتی ہوتے ہی شادی کر دیں۔’

اگنی ویر خواہ شادی نہ کر سکیں، رشتہ توپکا کر سکتے  ہیں۔ لیکن عارضی ملازمت کی وجہ سے رشتہ ملنا آسان نہیں ہے۔ ‘دو سالوں میں مرینا میں کسی بھی اگنی ویر کا رشتہ پکا نہیں ہواہے۔ مجھے لڑکیوں کے گھر والوں کی طرف سے فون آتے ہیں کہ کوئی فوج/فورس میں ہو تو  بتاؤ، لیکن اگنی ویر نہ ہو،’ گرراج کہتے ہیں۔

عارف پٹھان کہتے ہیں، ‘یہاں شادی 20-21 سال کی عمر میں ہو جاتی ہے۔ بہت سے شادی شدہ لوگ میرے پاس دوسری بھرتیوں کی تیاری کے لیے آتے ہیں، کچھ کے بچے بھی ہیں۔ اس لیے یہ خدشہ بھی ہے کہ 25 سالہ ریٹائرڈ ‘بے روزگار’ اگنی ویر سے کون رشتہ قائم کرے گا؟ اس پر تو نوکری جانے اور غیر شادی شدہ رہ جانے کی دوہری مار پڑے گی۔’

Next Article

ایک پستول، دو جرم: یوپی پولیس کا ’فرضی انکاؤنٹر‘ عدالت میں بے نقاب

کانپور پولیس کے ایک مبینہ’انکاؤنٹر’میں دو افراد کے پیروں  میں گولی مارنے کے تقریباً پانچ سال بعد مقامی عدالت نے پایا کہ جو ہتھیار پولیس نے ان سے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا، وہ پولیس کے مال خانے  سےہی لیا گیا تھا۔ عدالت نے پولیس کی گواہی میں کئی تضادات پائے، سی سی ٹی وی فوٹیج بھی پیش نہیں کیا گیا۔

نئی دہلی: اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کے آنے کے بعد سے ‘پولیس انکاؤنٹر’ کے معاملے اکثر سرخیوں میں رہتے ہیں۔

سال 2020 کی  ایک رات پولیس کی گشتی ٹیم ایک موٹر سائیکل کو روکتی ہے۔ موٹر سائیکل پر دو لوگ سوار ہیں۔ پولیس انہیں رکنے کا اشارہ دینے کے لیے ٹارچ کا استعمال کرتی ہے۔ لیکن موٹر سائیکل نہیں رکتی اور تیزی سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ پولیس ان کا پیچھا کرتی ہے۔ جب وہ خودکو گھراہوا  پاتے ہیں تو وہ  بائیک چھوڑ کر پیدل بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پولیس نے انہیں سریندر کرنے کو کہتی ہے، لیکن وہ  دیسی کٹوں  سے پولیس پر گولی چلا دیتے ہیں۔ پولیس بال بال بچ جاتی ہے اور اپنے دفاع میں دونوں کو ان کی ٹانگوں میں گولی مار دیتی ہے۔ پولیس نے ان سے دیسی کٹے اور چوری کا سامان برآمد کرتی ہے۔ ملزمان کے خلاف پولیس پر جان لیوا حملے  کا مقدمہ درج کر کے انہیں جیل بھیج دیا جاتا ہے۔

لیکن اس بار کہانی ٹک نہیں پائی ۔ یہ ثابت ہوگیا کہ یہ انکاؤنٹر فرضی تھا۔

کانپور پولیس کے مبینہ’انکاؤنٹر’ میں دو افراد کو ٹانگوں میں گولی مارنے کے تقریباً پانچ سال بعد مقامی عدالت نے پایا ہے کہ جو غیر قانونی ہتھیار پولیس نے ان سے برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا وہ دراصل پولیس مال خانے (شواہد کو رکھنے کی جگہ) سے نکالا گیا تھا۔ یہ ہتھیار 2007 کے ایک معاملے کا تھا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی ہتھیار کو 13 سال کے وقفے سے دو الگ الگ معاملوں میں ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔

گزشتہ یکم اپریل کو عدالت نے کانپور کے  کندن سنگھ اور امت سنگھ کو تمام الزامات سے بری کر دیا۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ پولیس نے ان  سے اسلحہ برآمد کرنے کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ امت کو پہلے ہی ضمانت مل چکی تھی، لیکن کندن 2020 سے جیل میں تھے۔

ایڈیشنل سیشن جج ونئے سنگھ نے کہا کہ جس طریقے سے 2007 کے ایک کیس سے منسلک ایک غیر قانونی پستول (جس کا حل 2018 میں ہوا تھا) کو کندن اور امت نے کے پاس سے برآمد دکھایا گیا، اس نے پورے معاملے کو ‘مشکوک’ بنا دیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس نے انہیں جھوٹا پھنسایا۔ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں ملوث پولیس انسپکٹر اور پوری پولیس ٹیم کے خلاف ‘تفصیلی اور اعلیٰ سطحی تفتیش’ ضروری ہے۔

جسٹس سنگھ نے کانپور پولیس کمشنر کو حکم دیا کہ وہ خود یا کسی اہل افسر کے ذریعے پورے معاملے کی تفصیلی تحقیقات کرائیں اور تین ماہ کے اندر رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔ اگر تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ پولیس نے انکاؤنٹر کا جھوٹا مقدمہ درج کرنے کے لیے مال خانے سے غیر قانونی طور پر اسلحہ نکالا تھا تو متعلقہ افسر اور ان کی ٹیم کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی۔

پولیس کہانی: انکاؤنٹر کیسے ہوا؟

قابل ذکر ہے کہ 21 اکتوبر 2020 کی رات کو پولیس انسپکٹر گیان سنگھ کی قیادت میں ایک پولیس ٹیم گشت پر تھی۔ وہ مریم پور تراہے پر گاڑیوں کی چیکنگ کر رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے کاکادیو علاقہ سے آنے والی ایک بائیک کو روکا۔ موٹر سائیکل پر دو لوگ سوار تھے۔ پولیس نے انہیں  رکنے کا اشارہ کیا لیکن وہ موٹر سائیکل لے کر مریم پور ہسپتال کی طرف بڑھ گئے۔

مشکوک سرگرمی دیکھ کر پولیس نے فوری طور پر اپنی جیپ میں ان کا پیچھا کیا۔ وہ دونوں کاکادیو کی طرف بھاگے۔ پولیس نے انہیں لاؤڈ اسپیکر پر رکنے کو کہا، لیکن وہ آگے بڑھتے رہے اور ارما پور کی طرف مڑ گئے۔ پولیس نے ارما پور پولیس اسٹیشن کو اطلاع دی۔ وہیں انسپکٹر اجیت کمار ورما کی قیادت میں ایک پولیس ٹیم نے بائیک سواروں کو روکنے کی کوشش کی، لیکن وہ ارما پور اسٹیٹ کی طرف بھاگ گئے۔

تقریباً 500 میٹر تک دوڑنے کے بعد، جب وہ کیندریہ ودیالیہ کراسنگ کے قریب گھر گئے، تو انہوں نے موٹر سائیکل چھوڑ دی ۔ پولیس نے انہیں سرینڈر کرنے کو کہا۔ لیکن انہوں  نے اپنی پستول نکالی اور پولیس پر دو گولیاں چلائیں۔ اتفاق  سے پولیس والے بچ گئے۔

پولیس نے انہیں دوبارہ سرینڈر کرنے کو کہا، لیکن انہوں نے اپنی پستول دوبارہ لوڈ کرنا شروع کر دیں۔ مجبوری  میں انسپکٹر سنگھ نے اپنی سروس پستول سے دو گولیاں ان  کے پاؤں پر چلائیں۔ وہ گر پڑے اور درد سے کراہنے لگا۔ ان کی دائیں ٹانگ پر گھٹنے کے نیچے سے خون بہہ رہا تھا۔ پولیس نے گاڑی سے کپڑا نکال کر ان  کے زخموں پر پٹی باندھ دی۔

ان کی شناخت کندن اور امت کے طور پر ہوئی ہے۔ پولیس نے امت کی جیب سے سونے کی دو چین اور 1000 روپے (100 روپے کے دس نوٹ) برآمد کیے۔ اس کے دائیں ہاتھ میں 315 بور کا دیسی کٹا تھا جس میں ایک زندہ کارتوس اور ایک خالی کارتوس پاس ہی پڑا تھا۔ کندن کے قریب سے سونے کی ایک چین  اور چین کا ایک حصہ ملا۔ اس کے ہاتھ میں 315 بور کا دیسی کٹا تھا، جس میں ایک زندہ کارتوس تھا۔

غیر قانونی اسلحہ اور دیگر اشیاء کو سیل بند پلاسٹک باکس  میں رکھا گیا۔ کندن اور امت کو 11:20 بجے حراست میں لیا گیا۔ پولیس نے ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ اس گرفتاری میں قومی انسانی حقوق کمیشن اور ہائی کورٹ کے احکامات کی تعمیل کی گئی۔

دونوں کے خلاف اقدام قتل اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے تین مقدمات درج کیے گئے۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس سے برآمد ہونے والی سونے کی چین چوری اور چھیننے کی واردات کا حصہ تھی۔ یہ معاملہ 2022 میں ٹرائل پر گیا، جس میں استغاثہ نے 10 گواہ پیش کیے۔ سب پولیس والے تھے۔ کوئی آزاد گواہ نہیں تھا۔

پولیس کی کہانی میں خامیاں

عدالت نے پولیس کی کہانی میں بہت سی خامیاں پائیں۔

پہلی، پولیس نے اپنی گواہی میں یہ نہیں بتایا کہ وہ متعلقہ تھانے سے کب اور کہاں کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ ریکوری میمو میں اس کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ سات پولیس اہلکاروں کی گواہی کی جانچ کرنے کے بعد، عدالت نے کہا کہ ان میں سے کسی نے بھی رات کی ڈیوٹی کے دوران اپنی روانگی کا وقت یا ڈسپیچ رپورٹ نمبر نہیں بتایا۔

دوسری ، عدالت نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ پولیس نے آزاد گواہوں کو شامل کرنے کے لیے ‘معقول کوشش’ نہیں کی۔ جبکہ کیندریہ ودیالیہ کے سیکورٹی گارڈ موقع کے قریب ہی تھے اور اساتذہ کی رہائش گاہیں بھی قریب ہی تھیں۔ پولیس نے ان عوامی گواہوں کے نام اور پتے بھی ظاہر نہیں کیے جنہوں نے مبینہ طور پر گواہی دینے سے انکار کر دیا تھا۔

تیسری، ملزمان کے وکلاء نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ پولیس کے مطابق دو افراد نے انہیں قتل کرنے کی نیت سے فائرنگ کی، لیکن کوئی پولیس اہلکار زخمی نہیں ہوا اور نہ ہی ان کی گاڑیوں کو کوئی نقصان پہنچا۔

کیس میں شکایت کنندہ انسپکٹر سنگھ نے گواہی دی کہ کندن اور امت نے پولیس پر فائرنگ کی تھی۔ سنگھ کے مطابق، ان میں سے ایک نے ان پر اور دوسرے نے انسپکٹر ورما کی پیٹھ پر گولی چلائی۔ عدالت نے اس بیان کو ناقابل اعتبار قرار دیا۔ عدالت نے کہا کہ یہ بیان ‘عام اور فطری صورتحال’ کے خلاف ہے جو کہ اگر پولیس ملزمان کو چاروں طرف سے گھیر لیتی تو پیدا ہوتی۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ جب پولیس نے مشتبہ افراد کو گھیرے میں لیا تو پولیس کا سامنا مجرموں سے ہونا چاہیے تھا نہ کہ پیٹھ ان کی طرف ہونی  چاہیے تھی۔ استغاثہ اس بات کی وضاحت نہیں کر سکا کہ انسپکٹر ورما اپنی پیٹھ  ملزم کی طرف  کیوں  کرکے کھڑے  تھے۔

جج سنگھ نے کہا، ‘اگر وہ  اپنی پیٹھ ملزمین  کی طرف کرکے کھڑے تھے، تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پولیس والوں کو ان سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ کوئی اور اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔’

چوتھی، عدالت نے دو پولیس انسپکٹروں کے بیانات میں بھی تضاد پایا، جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ملزمان کو پستول استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

پانچویں، عدالت نے یہ بھی پایا کہ جس جگہ یہ واقعہ پیش آیا وہاں سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے، لیکن استغاثہ نے ریکارڈ پر کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج پیش نہیں کیا۔ عدالت نے کہا کہ اس فوٹیج سے صاف ظاہر ہو سکتا تھا کہ پولیس ٹیم ملزم کا پیچھا کر رہی تھی یا نہیں۔

چھٹی اور سب سے اہم بات یہ تھی کہ پولیس نے 21 اکتوبر 2020 کو ملزمین سے جس پستول کو برآمد کرنے کا دعویٰ کیا،  وہ  پہلے ہی ‘1 سی ایم ایم کے این آر 13.05.2014’ کے طور پر نشان زد کی جا چکی تھی۔ یہ پستول 2007 کے آرمس ایکٹ کیس میں ضبط کی گئی تھی جس میں ملزم رشبھ سریواستو کو 25 ستمبر 2018 کو مقامی عدالت نے بری کر دیا تھا۔

قواعد کے مطابق، جب کوئی غیر قانونی اسلحہ برآمد ہو تا ہے  اور اس پر مقدمہ ختم ہو جاتا ہے تو اسے تلف کر دیا جانا چاہیے۔ جسٹس سنگھ نے کہا، ‘کسی بھی حالت میں 2020 میں ملزم سے یہ غیر قانونی ہتھیار برآمد ہونا ممکن نہیں تھا۔’

جج نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پولیس انسپکٹر سنگھ نے یہ پستول مال خانے سے یا کسی اور ذریعے سے حاصل کیا تھا اور ملزم کو جھوٹا پھنسانے کے لیے اسے ریکوری کے طور پر دکھایا تھا۔ پولیس اس بات کی بھی وضاحت نہیں کر سکی کہ پہلے سے پولیس کے قبضے میں موجود پستول ملزمان تک کیسے پہنچی۔

عدالت نے کہا، ‘ایسے میں استغاثہ کی یہ کہانی کہ ملزمان نے پولیس پر جان سے مارنے کے ارادے سے حملہ کیا تھا، پوری طرح سے جھوٹی ثابت ہوتی ہے۔ اس مقدمے میں استغاثہ کی کہانی قابل اعتبار نہیں ہے اور استغاثہ کی جانب سے پیش کردہ گواہوں کی گواہی بھی سے بھی کوئی بھروسہ  پیدا نہیں ہوتا۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

مسجد، قبرستان اور یتیم خانہ پر سیاست: وقف کا مستقبل کیا ہے؟

وقف ترمیمی بل کو پارلیامنٹ کی  منظوری مل گئی  ہے، لیکن اپوزیشن جماعتوں اور مسلم کمیونٹی کے نمائندوں کے سوال اب بھی باقی ہیں۔ اس بل پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر ایس کیو آر الیاس اور سینئر صحافی عمر راشد کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔

Next Article

اتراکھنڈ میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی سیاست

عوام کی توجہ ہٹانے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیےاتراکھنڈ کو فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے ذریعے سماجی تصادم کی ایک نئی تجربہ گاہ میں تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ ایک حساس ہمالیائی ریاست کے طور پر اس کی شناخت مٹائی جا رہی ہے۔

حال ہی میں اتراکھنڈ میں بی جے پی کی ڈبل انجن سرکارنے ان لوگوں کو مضطرب کر دیا ہے، جو ریاست میں سماجی تصادم اور نسلی تعصب میں اضافہ کے امکان سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ اتراکھنڈ میں مقامی بنام بیرونی جنون اور عوامی عدم اطمینان کے واقعات میں اضافہ کامشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی حکومت کے تین سال کا جشن منانے کے لیے کروڑوں کے بجٹ کو وزیر اعلیٰ کے چہرے کو چمکانےکی  فضول خرچی میں بہایا جا رہا ہے۔ بے روزگاری،نقل مکانی، روایتی کاشتکاری کے خاتمے، گھوٹالوں اور بدعنوانی کے چرچے عام ہیں۔

ریاست کے تین اضلاع میں مغل ناموں والے پندرہ مقامات کے نام تبدیل کر دیے گئے ۔ اس میں دہرادون کا ایک قدیم علاقہ میانوالا بھی شامل ہے۔ یہ گاؤں راجپوت میاں کی نسلوں  کا آبائی گاؤں ہے۔ آج بھی یہاں کے راجپوت اپنے ناموں میں  میاں لگاتے ہیں۔ چونکہ یہ نام مسلمانوں  سے ملتا جلتا ہے، اس لیے جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتی حکومت کو نام بدلنے پر شدید عوامی غصہ کا سامنا  کرنا پڑ رہاہے۔

مسائل کا  حل نہیں

ڈھائی دہائی قبل ریاست کے الگ ریاست بننے کے بعد بننے والی حکومتوں کی ناکامیوں کی وجہ سے یہاں سے نقل مکانی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ سابق وزیر اعلی ترویندر سنگھ نے اتراکھنڈ کے چار میدانی علاقوں میں غیر قانونی کان کنی کے ریکیٹ پر اپنی پارٹی کی حکومت اور وزیر اعلیٰ دھامی پر حملہ کرتے ہوئے ریاستی بی جے پی اور حکومت میں اندرونی کشمکش کو مزید تیز کر دیا۔ ترویندر فی الحال ہریدوار لوک سبھا سیٹ سے ایم پی ہیں۔

اسے پشکر سنگھ دھامی کو ہٹانے کی مہم سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم، سابق کابینہ وزیر اور ٹہری کے بی جے پی ایم ایل اے کشور اپادھیائے نے کہا کہ غیر قانونی کان کنی ایک لاعلاج بیماری ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ صاف ستھرے ہونے کا دعویٰ کرنے والے تمام سابق وزرائے اعلیٰ کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔

اتراکھنڈ میں امن و امان کی خراب صورتحال اور حکومت اور مجرموں کے درمیان گٹھ جوڑ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 18 ستمبر 2022 کو رشی کیش کے قریب 19 سالہ انکیتا بھنڈاری کے قتل کا الزام بی جے پی اور آر ایس ایس کے ایک طاقتور رہنما ونود آریہ کے بیٹے پلکیت پر لگایا گیا تھا ۔ انکیتا کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ وزیر اعلیٰ دھامی سی بی آئی انکوائری اس لیے  نہیں  ہونےدے رہے ہیں کیونکہ اس قتل کے پیچھے ریاستی بی جے پی کے ایک عہدیدار کا ہاتھ ہے۔

اتراکھنڈ میں بھی ہماچل کی طرز پر سخت زمینی قوانین کے لیے ایک طویل عرصے سے تحریک چل رہی ہے۔ لیکن 2018 میں نریندر مودی حکومت نے دہلی سے ریاست پر زمین کا ایسا قانون مسلط کر دیا، جس نے یہاں کے نازک پہاڑوں کو بیش قیمتی زمینوں کی خرید و فروخت کی منڈی میں تبدیل کر دیا۔

ریاستی اور مرکزی حکومت کی غلط پالیسیوں، زراعت، جنگل، زمین، سرکاری وسائل اور معاشی سرگرمیوں پر بیرونی ریاستوں سے آنے والے لوگوں نے پورے پہاڑ کو کامرشیل ہب  بنا دیا ہے۔ بی جے پی سخت زمینی قوانین اور اصل تحریک کو کچلنے کے لیےحربے اپنا رہی ہے۔ دو مقامی سیاسی کارکنوں، آشوتوش نیگی اور آشیش نیگی کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔

سماجی نفرت کو فروغ دینا

بی جے پی اور سنگھ پریوار سے وابستہ درجنوں تنظیمیں ریاست کے کچھ حصوں میں آباد مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے ریاستی حکومت کے وزراء اور کئی عہدیدار مقامی باشندوں اور باہر کے لوگوں کے درمیان دشمنی بڑھا رہے ہیں۔

ریاست کی تشکیل کے بعد پہلی بار ریاست کے سینئر کابینہ وزیر پریم چند اگروال کی طرف سے اسمبلی کے اندر مقامی پہاڑی باشندوں کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے کے بعد ریاست بھر میں ایک تحریک پھیل گئی اور پھر انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ لوگ ان سے اس لیے بھی ناراض ہیں کیونکہ انہوں نے انکیتا بھنڈاری قتل کیس کو چھپانے اور اس قتل میں بی جے پی کے وی آئی پی  کے مبینہ کردار کے بارے میں سچائی کو چھپانے کے بارے میں بیانات دیے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ دھامی حکومت ایک وزیر کے استعفیٰ سے بھی محفوظ نہیں ہے۔ دھامی پارٹی ہائی کمان کو وضاحت دینے کے لیے دہلی دوڑ لگاتے  رہتے ہیں۔

یو سی سی ریاست کو کیسے بدلے گا؟

اس سال کے شروع ہوتے ہی حکومت نے ریاستی اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلایا اور یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کو اکثریت کے زور پر پاس کرایا۔ یو سی سی کے بارے میں نہ تو اپوزیشن کو کچھ بتایا گیا اور نہ ہی عام لوگوں کو معلوم ہے کہ اس کے نفاذ کے بعد عوام کی تقدیر کیسے بدلنے والی ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کپل سبل کا کہنا ہے کہ اتراکھنڈ میں بی جے پی کا یہ منصوبہ ملک کے آئین میں مداخلت ہے۔ ایسا قانون بنانے کا اختیار صرف ملک کی پارلیامنٹ کو ہے۔ یہ شق ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 44 کو غیر مؤثر بنانے کی کوشش ہے۔ کسی بھی ریاستی حکومت کو ان اختیارات میں ترمیم کرنے کی اجازت دینا جو صرف ملک کی پارلیامنٹ کو حاصل ہیں غیر قانونی اور آئین کے خلاف ہے۔

قابل ذکر ہے کہ دو سال قبل ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ نے اتراکھنڈ میں یو سی سی بنانے کے حوالے سے کہا تھا کہ اس کے بعد آہستہ آہستہ ملک کی تمام ریاستیں اتراکھنڈ جیسا قانون بنائیں گی اور اس کے بعد پارلیامنٹ قانون پاس کرے گی۔ لیکن ایک ریاست کس طرح مرکزی قانون کو صرف اپنی ریاست میں نافذ کر سکتی ہے اور من مانی طور پر ایک نظیر بنا سکتی ہے؟

دراصل عوام کی توجہ ہٹانے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے اتراکھنڈ کو فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے ذریعے سماجی تصادم کی نئی تجربہ گاہ بنایا جا رہا ہے۔ اس طرح ایک حساس ہمالیائی ریاست کے طور پر اس کی شناخت مٹائی جا رہی ہے۔

(اوما کانت لکھیڑا سینئر صحافی ہیں۔)

Next Article

روزہ یا پیسے کا جھگڑا: رمضان میں ’تبدیلی مذہب‘ کے الزام میں یوپی کی مسلم خاتون گرفتار

اتر پردیش کے جھانسی میں رمضان کے دوران ایک 40 سالہ مسلم خاتون کونابالغ ہندو لڑکی کا’مذہب تبدیل’ کروانےکے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ لیکن خاتون کا کہنا ہے کہ پڑوسی ہندو خاندان  نے ان سے لیا گیا قرض واپس کرنے سے بچنے کے لیے ‘فرضی کہانی’ بنائی ہے۔

نئی دہلی: ملک بھر میں رمضان کا مقدس مہینہ عام طور پر پرامن طور پر گزرا اور حال ہی میں عید الفطر منائی گئی۔ لیکن اتر پردیش کے جھانسی کے ایک محلے میں مبینہ طور پر روزہ رکھنے کا معاملہ ایک مجرمانہ معاملے کا موضوع بن گیا ہے۔

الزام ہے کہ پڑوس کی ایک مسلم خاتون نے مبینہ طور پر ایک نابالغ ہندو لڑکی کو اسلام قبول کرنے کے لیے بہلایا۔ اس معاملے میں 40 سالہ مسلم خاتون شہناز کو گرفتار کیا گیا ہے۔

دی وائر کی جانب سے دیکھے گئے دستاویزوں کے مطابق، اس خاتون نے بعد میں ایک مقامی عدالت میں دعویٰ کیا کہ تبدیلی مذہب  کا پورا معاملہ ایک مالی تنازعہ کی وجہ سے بنایا گیا ہے ۔

کیاہے معاملہ؟

جھانسی میں ایک ایف آئی آر 13 مارچ کو درج کی گئی،  جب ایک ہندو شخص نے الزام لگایاکہ اس کی 16 سالہ بیٹی کو اس کے پڑوس کی دو مسلم خواتین نے رمضان کے دوران روزہ رکھنے کے لیےبہلایا،  تاکہ اسے اسلام قبول کرنے کے لیے آمادہ کیا جا سکے۔

باپ نے کہا،’انہوں نے میری بیٹی کو بہلا پھسلا کریہ یقین دلایا کہ اگر وہ روزہ رکھے گی تو اس کے گھر میں برکت آئے گی۔ وہ امیر ہو جائے گی اور وہ اسے مناسب مدد فراہم کریں گے۔’

ہم اس شخص کی شناخت ظاہر نہیں کر رہے ہیں کیونکہ اس سے ان  کی نابالغ بیٹی کی پرائیویسی متاثر ہو سکتی ہے۔

لڑکی کے والد کا الزام ہے کہ ان کی بیٹی نے تین چار روزے رکھے اور نماز بھی پڑھی۔

شکایت کنندہ کے مطابق،  13 مارچ کوکلیدی ملزم شہناز زبردستی ان کے گھر میں داخل ہوئی اور ایک کمرے کو اندر سے بند کر کے پھانسی لگا کر خودکشی کرنے کی کوشش کی۔ یہ کمرہ شکایت کنندہ کے بھائی کا تھا۔ جب ہندو خاندان نے پولیس کو بلانے کے لیے 112 پر کال کی تو خاتون وہاں سے بھاگ گئی، لیکن جانے سے پہلے  ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دی۔ اسی دوران کچھ ہندو دائیں بازو کے کارکن بھی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے مسلم خواتین پر جبری تبدیلی مذہب کا الزام لگایا۔

اس کے بعد، شہناز اور کشناما نامی دو خواتین کے خلاف اتر پردیش کے غیر قانونی تبدیلی مذہب کی روک تھام کے قانون 2021 کی دفعہ 3 اور 5 (1) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ تحقیقات کے دوران پولیس نے بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دیگر دفعات بھی شامل کیں، جن میں جان سے مارنے کی دھمکی، املاک کو تباہ کرنے کی دھمکی اور  جان بوجھ کر توہین کرنا تاکہ امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو، شامل ہے۔

شہناز کا کیا کہنا ہے؟

شہناز نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ مقامی عدالت میں دائر اپنی ضمانت کی درخواست میں انہوں  نے کہا کہ ہندو خاندان نے انہیں پھنسانے کے لیے ‘فرضی کہانی’ بنائی ہے کیونکہ وہ ان سے لیے گئے قرض کی ادائیگی سے بچنا چاہتے تھے۔

شہناز کے مطابق، کچھ عرصہ قبل جب ہندو شخص بیمار ہوا تو اس کی اہلیہ نے شہناز سے 50 ہزار روپے ادھار لیے اور 10 دن میں واپس کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن رقم واپس نہ ہونے پر شہناز کئی بار ان  کے گھر گئی اور رقم واپس مانگی۔ انہوں  نے کہا، ‘ان  کی بیوی نے ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتی تھی۔’

شہناز نے الزام لگایا کہ 13 مارچ کو صبح 10 بجے جب وہ ان کے گھر پیسے مانگنے گئی تو پڑوس کا بھائی، جو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ اسی گھر میں رہتا تھا، نے اسے ایک کمرے میں بند کر دیا اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی۔

‘میں نے زور سے چلایا تو پڑوسی جمع ہو گئے۔’ انہوں نے کہا۔

شہناز نے الزام لگایا کہ لڑکی کے والد نے دائیں بازو کی تنظیموں کے لوگوں کو بلایا، جنہوں نے پولیس کو بلایا اور انہیں بچانے کے لیے جھوٹی کہانی بنا دی ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے ان کی شکایت درج کرنے سے انکار کر دیا۔

انہوں نے واضح طور پر اس بات کی تردید کی کہ انہوں  نے نابالغ لڑکی کو اسلام قبول کرنے کو کہا یا اسے روزے رکھنے اور نماز پڑھنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے یہ بھی دلیل دی کہ لڑکی کے گھر میں اس کے والدین، بہن بھائی اور چچا اور چچی سمیت کئی لوگ رہتے ۔ ‘اگر لڑکی نے واقعی روزہ رکھا ہوتا تو اس کے گھر والوں کو ضرور معلوم ہوتا۔’ انہوں نے کہا۔

روزے کے عمل میں آدمی کو سورج نکلنے سے پہلے کھانا کھانا پڑتا ہے اور پھر سارا دن روزہ رکھنے کے بعد غروب آفتاب کے وقت افطار کرنا پڑتا ہے۔ شہناز نے کہا،’اگر لڑکی ایک بھی  روزہ  رکھتی تو گھر والوں کو ضرور پتہ چل جاتا’۔

شہناز کی درخواست ضمانت مسترد

گزشتہ 26 مارچ کو جھانسی کے ایڈیشنل سیشن جج وجئے کمار ورما نے شہناز کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ عدالت نے کہا کہ شہناز متاثرہ کی پڑوسی ہیں  اور وہ گواہوں یا شواہد پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

چھتیس گڑھ پولیس نے محمد زبیر کے خلاف پاکسو کیس میں کلوزر رپورٹ داخل کی

چھتیس گڑھ پولیس نے فیکٹ چیکر محمد زبیر کے خلاف  2020 میں ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے لیےپاکسوایکٹ کے تحت درج معاملے کو بند کر دیا ہے۔ اس کے بعد زبیر نے کہا ہے کہ ‘سچائی کو پریشان کیا جا سکتا ہے، لیکن شکست نہیں دی جا سکتی!’

محمد زبیر۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)

نئی دہلی: چھتیس گڑھ پولیس نے آلٹ نیوز کے فیکٹ چیکراور صحافی محمد زبیر کے خلاف پاکسو ایکٹ کے تحت درج کیس میں کلوزر رپورٹ داخل کی ہے۔ ریاستی حکومت نے حال ہی میں چھتیس گڑھ ہائی کورٹ کو یہ جانکاری دی۔

یہ کیس  2020 میں زبیر کی طرف سے ایکس (سابقہ ​​ٹوئٹر) پر کی گئی پوسٹ کے سلسلے میں  درج کیا گیا تھا۔

لائیو لا کے مطابق، چھتیس گڑھ حکومت کے وکیل نے چیف جسٹس رمیش سنہا اور جسٹس اروند کمار ورما کی بنچ کے سامنے یہ جانکاری دی۔

اب عدالت نے زبیر کی درخواست نمٹا دی ہے، جس میں انہوں نے ان کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کی استدعا کی تھی۔ ایف آئی آر انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 67، تعزیرات ہند کی دفعہ 509بی  اور پاکسو ایکٹ کی دفعہ 12 کے تحت درج کی گئی تھی۔

کیاتھا معاملہ؟

زبیر نے ایکس پر 2020 میں جگدیش سنگھ نامی شخص کو ٹیگ کرتے ہوئے ایک پوسٹ کی تھی۔ انہوں نے سنگھ سے پوچھا تھا کہ کیا سوشل میڈیا پر گالی گلوچ کرنا ان کے لیے درست ہے، خاص طور پر جب ان کی پروفائل تصویر میں ان کی پوتی دکھائی دے رہی تھی۔

زبیر نے پوسٹ میں لکھا تھا: ‘ہیلو جگدیش سنگھ، کیا آپ کی پیاری پوتی کو معلوم ہے کہ آپ سوشل میڈیا پر لوگوں کو گالیاں  دیتے ہیں؟ میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنی پروفائل تصویر تبدیل کرلیں۔’

اس پوسٹ میں زبیر نے لڑکی کے چہرے کو دھندلا کر دیا تھا،اس کے باوجود جگدیش سنگھ نے نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس سے شکایت کی تھی۔

اس کے بعد نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس نے اس سلسلے میں دہلی اور رائے پور پولیس کو خط لکھا، جس کے بعد رائے پور پولیس نے ایف آئی آر درج کی۔ زبیر نے اس ایف آئی آر کو عدالت میں چیلنج کیا تھا۔

عدالت کا فیصلہ

اکتوبر 2020 میں ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ زبیر کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہ کی جائے۔ 2024 میں، عدالت نے جگدیش سنگھ کو ایکس پر زبیر سے معافی مانگنے کا حکم دیا۔

زبیر کا بیان

گزشتہ 2 اپریل 2024 کو زبیر نے ایکس  پر لکھا : ‘اس معاملے میں، نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کے سابق چیئرمین پریانک قانون گو نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا اور میرے خلاف پروپیگنڈہ  چلایا۔ انہوں نے دہلی اور رائے پور پولیس کو خط لکھ کر دعویٰ کیا کہ میرا ٹوئٹ ایک نابالغ لڑکی کو ہراساں کرنے والا تھا۔ لیکن گزشتہ سال دہلی کی عدالت نے شکایت کنندہ کو مجھ سے سر عام معافی مانگنے کا حکم دیا تھا۔ اور اب چھتیس گڑھ پولیس نے کلوزر رپورٹ درج کر کے مجھے بے قصور قرار دیا ہے۔’

زبیر کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کل 10 ایف آئی آر درج ہیں، جن میں سے اب دو کو خارج کر دیا گیا ہے۔ اس موقع پر وہ لکھتے ہیں، ‘سچ پریشان ہو سکتا ہے، لیکن شکست نہیں دی جا سکتی۔ انصاف کی جیت ہوتی  ہے!’

قابل ذکر ہے کہ محمد زبیر نے حکومت اور بی جے پی کے گمراہ کن دعوے کو بے نقاب کرنے والے فیکٹ چیکنگ  رپورٹس شائع کی ہیں، جس کی وجہ سے وہ ہندوتوا کے حامیوں اور پروپیگنڈہ چلانے والوں کے نشانے پر رہتے ہیں۔ اتر پردیش پولیس نے ان کے خلاف ہیٹ اسپیچ دینے والے یتی نرسنہانند سے متعلق پوسٹ کرنے پر بھی ان کے خلاف کیس  درج کیا ہے ۔