پی ایف آئی پر پابندی کے بعد آر ایس ایس کو بھی بین کرنے کا مطالبہ

04:10 PM Sep 30, 2022 | دی وائر اسٹاف

مرکزی حکومت کی جانب سے پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر یو اے پی اے کےتحت پابندی عائد کیے جانے کے بعد سامنے آئے ردعمل میں کئی پارٹیوں کے رہنماؤں نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سمیت متعدد ہندوتوا تنظیموں پر بھی پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔

پی ایف آئی ارکان کی گرفتاری کے دوران لی گئی ایک تصویر۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: حکومت کی جانب سے یو اے پی اے کے تحت پاپولرفرنٹ آف انڈیا ( پی ایف آئی) اور اس کے اتحادیوں پر پابندی عائد کیے جانے کے بعدآر جے ڈی سپریمو لالو پرساد یادو نے بدھ کو مطالبہ کیا کہ راشٹریہ سویم سیوک جیسی تنظیموں پر بھی پابندی عائد کی جائے۔

لالو پرساد یادو نے اپنے ٹوئٹ میں کہا، پی ایف آئی کی طرح جتنی بھی نفرت اور عداوت  کو ہوا  دینے والی تنظیمیں  ہیں  سب پر پابندی لگنی چاہیے۔ جس میں آر ایس ایس بھی شامل ہے۔سب سے پہلے آر ایس ایس کو بین کریں، یہ اس سے بھی بدتر تنظیم ہے۔

انہوں نے مزید لکھا، آر ایس ایس پر پہلے بھی دو بار پابندی لگائی گئی ہے۔ سند رہے سب سے پہلے آر ایس ایس پرے پابندی مرد آہن سردار پٹیل نے لگائی تھی۔

قابل ذکر ہے کہ 1948 میں مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد سنگھ پر پابندی لگا دی گئی تھی جسے ایک سال بعد ہٹا دیا گیا تھا۔

سال 2019 میں دی وائر نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ اس پابندی سے متعلق دستاویزات عوامی طور پر دستیاب ہونے چاہیے، لیکن اس وقت  ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں بتایا گیاتھاکہ یہ نہ تو نیشنل آرکائیوز کے پاس ہیں اور نہ ہی وزارت داخلہ کے پاس۔

اگر فرقہ پرست طاقتوں پر پابندی لگانی ہے تو سب سے پہلے آر ایس ایس پر پابندی لگنی چاہیے: سی پی آئی (ایم)

وہیں، انڈین ایکسپریس کے مطابق، سی پی آئی (ایم) کا خیال ہے کہ پی ایف آئی انتہا پسندانہ خیالات رکھنے والی تنظیم ہے اور وہ اپنے مبینہ مخالفین کے خلاف پرتشدد سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے۔ تاہم دوسری جانب اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ شدت پسند تنظیم پر پابندی لگانا مسئلےکا حل نہیں ہے۔

ایک بیان میں، سی پی آئی (ایم) نے کہا، ‘ پابندی لگانا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ آر ایس ایس اور ماؤسٹ جیسی تنظیموں پر پابندیاں کارگر نہیں تھیں۔ پی ایف آئی  جب بھی غیر قانونی اور پرتشدد سرگرمیوں میں ملوث ہو، موجودہ قوانین کے تحت اس کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔ اس کے فرقہ وارانہ اور تفرقہ انگیز نظریے کو بے نقاب کیا جانا چاہیے  اور لوگوں کے درمیان اس سے سیاسی طور پرلڑا جانا چاہیے۔

بائیں بازو کی پارٹی نے کہا کہ پی ایف آئی اور آر ایس ایس کیرالا اور ساحلی کرناٹک میں قتل و غارت اور انتقامی قتل میں مصروف ہیں، اس لیے فرقہ وارانہ پولرائزیشن پیدا کرنے کےنظریے سے ماحول  خراب ہو رہا ہے۔

اس میں مزید کہا گیا، سناتن سنستھا اور ہندو جن جاگرتی سمیتی جیسی انتہا پسند تنظیمیں بھی ہیں، جن کے لوگ سیکولر مصنفین اور شخصیات کےقتل میں ملوث ہیں۔ ان تمام قوتوں کو خواہ وہ انتہا پسند اکثریتی یا اقلیتی گروہوں کی نمائندگی کرتی ہوں، سخت قانونی کارروائی کے ذریعے ان کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔

کیرالہ کی حکمراں سی پی آئی (ایم) نے یہ بھی کہا کہ فرقہ پرست طاقتوں یا انتہا پسند تنظیموں پر پابندی لگانے سے ان کی سرگرمیاں ختم نہیں ہوں گی اور اگر ایسا کوئی قدم اٹھانا ہی ہے تو سب سے پہلے آر ایس ایس پر پابندی لگائی  جانی چاہیے۔

قبل ازیں منگل کو سی پی آئی (ایم) کے ریاستی سکریٹری ایم وی گووندن نے کہا تھا، اگر کسی تنظیم پر پابندی عائد کی جانی چاہیے تو وہ آر ایس ایس ہے۔ یہ فرقہ وارانہ سرگرمیوں کو انجام دینے والی سرکردہ تنظیم ہے۔ کیا اس پر پابندی لگائی جائے گی؟ کسی شدت پسند تنظیم پر پابندی لگانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ کسی تنظیم پر پابندی لگانے سے اس کا نظریہ ختم نہیں ہوگا اور یہ ایک نئے نام سے دوبارہ وجود میں آئے گی۔

انہوں نے آزادی کے بعد آر ایس ایس پر پابندی اور سال 1950 میں سی پی آئی پر لگائی گئی پابندی کا ذکر کیا۔

وہیں، پارٹی کے جنرل سکریٹری  سیتارام یچوری نے کہا کہ پی ایف آئی جیسی تنظیموں پر پابندی لگانا مسئلے کاحل نہیں ہے، لیکن ایک بہتر راستہ یہ ہوتا کہ انہیں سیاسی طور پر الگ تھلگ کرکے ان کی مجرمانہ سرگرمیوں کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی۔

اپنی پارٹی کی قیادت والی لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ (ایل ڈی ایف) مقتدرہ ریاست  کیرالہ پر بی جے پی صدر جے پی نڈا کی جانب سے ‘آتنک کا گڑھ’ ہونے کا الزام لگائے جانے پر جوابی حملہ کرتے ہوئے یچوری نے ان سے (نڈا سے) بدلہ لینے کے لیے مارڈالنے کے چلن پر روک لگانے اور ریاستی انتظامیہ کو انتہا پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت دینے کو کہا۔

انہوں نے کہا، بی جے پی صدر نے کہا کہ کیرالہ آتنک کا گڑھ ہے۔ اگر وہ اس قسم کی دہشت گردی کو روکنا چاہے ہیں  تو انہیں  آر ایس ایل سے کہنا چاہیے کہ وہ انتقامی کارروائیوں میں اس کی طرف سے کی جانے والی ہلاکتیں بند کرے۔ ریاستی انتظامیہ کو کارروائی کرنے دیجیے۔ ریاستی انتظامیہ انتہا پسند تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی، چاہے وہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا ( پی ایف آئی) ہو یا کوئی اور۔

انہوں نے کہا،اس مسئلے سے نمٹنے کے لیےپابندی لگاناکوئی  حل نہیں ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارا اپنا تجربہ اور ہندوستان کا تجربہ کیا رہا ہے۔ مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد سنگھ پر تین بار پابندی لگائی گئی تھی۔ کیا کچھ ہوا؟ نفرت اور دہشت کی پولرائزیشن مہم، اقلیتوں کی مخالفت، اقلیتوں کا قتل عام، یہ سب جاری ہے۔

کانگریس

دریں اثنا، کانگریس نے کہا کہ وہ اکثریت پرستی یا اقلیت پرستی کی بنیاد پرمذہبی جنون میں فرق نہیں کرتی۔

پارٹی کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے ایک بیان میں کہا،کانگریس پارٹی ہمیشہ سے ہر قسم کی فرقہ پرستی کے خلاف رہی ہے، ہم اکثریت پرستی یا اقلیت پرستی کی بنیاد پر مذہبی جنون میں فرق نہیں کرتے ۔ کانگریس کی پالیسی ہمیشہ  سے بغیر کسی خوف کے، بغیر کسی سمجھوتے کے فرقہ پرستی سے لڑنے کی رہی ہے۔

انہوں نے کہا، ہم ہر اس نظریے اور ادارے کے خلاف ہیں جو ہمارے معاشرے کو مذہبی طور پر پولرائز کرنے کے لیے تعصب، نفرت،شدت پسندی اور تشدد کا سہارا لیتا ہے۔

کانگریس کے سینئر لیڈر اور کیرالہ کے سابق وزیر داخلہ رمیش چنیتھلا نے کہا کہ پی ایف آئی پر پابندی لگانے کا مرکز کا فیصلہ خوش آئند قدم ہے۔

انہوں نے کہا، آر ایس ایس پر بھی اسی طرح کی پابندی لگنی چاہیے۔ کیرالہ میں اکثریتی فرقہ پرستی اور اقلیتی فرقہ پرستی دونوں کی یکساں مخالفت کی جانی چاہیے۔ دونوں تنظیموں نے فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دی اور اس طرح سماج کوتقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔

انہوں  نے کہا کہ کانگریس ایک ایسی پارٹی ہےجس نے اکثریتی اور اقلیتی دونوں طبقوں کی طرف سے پھیلائی گئی فرقہ پرستی کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے۔

وہیں، کیرالہ سے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ کوڈیکنل سریش نے کہا، ہم آر آر ایس پر بھی پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پی ایف آئی پر پابندی لگانا اس کا علاج نہیں، آر ایس ایس بھی پورے ملک میں ہندو فرقہ پرستی کو ہوا دے رہی ہے۔ آر ایس ایس اور پی ایف آئی ایک جیسے ہیں، اس لیے حکومت کو دونوں پر پابندی لگانی چاہیے۔ صرف  پی ایف آئی  ہی کیوں؟

کرناٹک کے سابق وزیر اعلیٰ سدارمیا نے بھی آر ایس ایس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا، ہم امن و امان میں خلل ڈالنے والوں یا جو لوگ قانون کے خلاف ہیں ، ان  کے خلاف کارروائی کی مخالفت نہیں کرتے۔ آر ایس ایس اور دیگر بھی اسی طرح امن کو خراب کر رہے ہیں، ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے، ایسی کسی بھی تنظیم پر پابندی لگنی چاہیے۔

اے آئی یو ڈی ایف

آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) کے ایم ایل اے رفیق الاسلام نے کہا، گزشتہ چند دنوں میں 100 سے زیادہ پی ایف آئی ارکان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ میں  پی ایف آئی کی حمایت نہیں کر رہا ہوں، لیکن حکومت کو  پی ایف آئی پر پانچ سال کے لیے پابندی لگانے کا فیصلہ کرنے سے پہلے تحقیقات کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے مزید کہا، حکومت کو نفرت انگیز تقاریر کرنے والے بجرنگ دل، وی ایچ پی (وشوا ہندو پریشد) اور آر ایس ایس کی بھی مرکزی ایجنسیوں سے تحقیقات کرانی چاہیے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین

اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ پی ایف آئی کے نقطہ نظر کی مخالفت کی ہے اور جمہوری نقطہ نظر کی حمایت، لیکن تنظیم پر پابندی کی حمایت نہیں کر سکتے، خاص طور پر اس بات کی روشنی میں کہ مسلمان عدالتوں سے انصاف حاصل کرنے کے لیے کس طرح جدوجہد کرتے ہیں۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا،لیکن اس طرح کی سخت پابندی خطرناک ہے کیونکہ یہ کسی بھی اس مسلمان پر پابندی ہے جو اپنی بات کہنا چاہتا ہے۔ جیسا کہ ہندوستان کی انتخابی خود مختاری فاشزم کے قریب پہنچ رہی ہے، اب ہندوستان کے کالے قانون یو اے پی اے کے تحت ہر مسلمان نوجوان کو  پی ایف آئی کے پمفلٹ کے ساتھ گرفتار کیا جائے گا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)