دہلی فسادات کے معاملے میں دائر ایک چارج شیٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 8 جنوری کو منعقد ایک میٹنگ میں ٹرمپ کے ہندوستان دورے کےوقت تشدد کامنصوبہ بنایا گیاتھا۔ پچھلے دنوں ایک دوسری چارج شیٹ میں پولیس نے اس کو ہٹاتے ہوئے کہا ہے کہ سی اے اےمخالف مظاہرہ2019کے عام انتخابات میں بی جے پی کی جیت سے کھوئی زمین پانے کے لیے بڑے پیمانےپرفسادات کروانے کی‘دہشت گردانہ سازش’کا حصہ تھے۔
عمر خالد، ڈونالڈ ٹرمپ اور کپل مشرا(فوٹو:رائٹرس/فیس بک)
نئی دہلی: گزشتہ ہفتے دہلی پولیس کی جانب سےدائر ایک چارج شیٹ میں فروری،2020 کے فسادات میں سی اے اےمخالف مظاہرین کے رول کو لےکرسابقہ چارج شیٹس میں کیےگئے دعووں کااعادہ کیاگیا ہے،لیکن ایک قابل ذکر استثنایہ ہےکہ جانچ کرنے والوں نے اُس مضحکہ خیزدعوے کو ہٹا لیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ شمال-مشرقی دہلی میں امریکی صدر کے ہندوستان دورے کے دوران تشدد بھڑ کانے کی سازش 8 جنوری کی ایک میٹنگ میں کی گئی تھی۔
ایف آئی آر 65/2020 اور ایف آئی آر 101/2020 سےمتعلق معاملوں میں پہلے ہی دائر کیے گئے
دوچارج شیٹ میں کیا گیایہ دعویٰ واضح طور پرمضحکہ خیز تھا کیونکہ ٹرمپ کی ہندوستان آمد سے متعلق پہلی خبرہی 13جنوری کو آئی تھی۔پولیس نے کہا تھا کہ 8 جنوری کےمنصوبہ کا مقصد بین الاقوامی سطح پرہندوستان کو بدنام کرنا اور شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) اوراین آرسی کے مدعے پر مرکزی حکومت کوشدید جھٹکا دینا تھا۔
پولیس نے تاریخوں کے سلسلے میں
اس فاش غلطی کو لےکرمیڈیا میں آئی رپورٹس پر کبھی کوئی ردعمل نہیں دیا، جس نے اس کے دوسرے دعووں کی صداقت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔
لیکن دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے ایف آئی آر 59/2020 کے تحت فسادات کی سازش کے معاملے میں دائر کی گئی تازہ چارج شیٹ میں خفیہ طریقے سے 8 جنوری کی مبینہ میٹنگ،جس میں مبینہ طور پر سابق اسٹوڈنٹ لیڈرعمر خالد، سابق کونسلر طاہر حسین اور کمیونٹی کارکن خالدسیفی شامل ہوئے تھے،کی تفصیلات سے‘ٹرمپ’والی بات کو ہٹا دیا ہے اور سازش کی جہت کو ایک کم ناقابل یقین تاریخ سے جوڑا ہے۔
اس طرح اسپیشل سیل کی چارج شیٹ– جس کی کاپی د ی وائر کے پاس ہے اپنے ‘کرونالوجی اور کانسپریسی’عنوان والے اہم حصہ میں مندرجہ ذیل دعوے کرتی ہے:
‘امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کےہندوستان دورے کی جانکاری سازش کرنے والوں کو 14جنوری سے ہی تھی، جب یہ خبر پہلی بار ٹیلی ویژن پر آئی تھی۔ اس پروگرام کارسمی اعلان11.02.20 کو ہوا۔ ایک مشترکہ سازش کو آگے بڑھانے کے لیے چاند باغ، مصطفیٰ باد، کردم پوری، اور جعفرآباد کےمظاہرےکے رہنماؤں نے 16-17 فروری کے بیچ کی رات میں2 بجے ایک میٹنگ کی۔
اس میٹنگ میں شمال-مشرقی دہلی کےممبروں کے ذریعے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہ کے دوران منظم طریقے سے ٹریفک روکنے یا چکہ جام کرنے کا فیصلہ متفقہ طور پرلیا گیا۔ چکہ جام کے بعدتمام ممبروں کومظاہرےکومزید تیز کرنے کے لیےپرتشدد طریقہ اپنانا تھا۔’
دہلی پولیس اب بھی یہ کہہ رہی ہے کہ خالد، حسین اورسیفی کے بیچ 8 جنوری کو شاہین باغ میں پاپولرفرنٹ آف انڈیا کے دفتر میں خفیہ میٹنگ ہوئی تھی۔ دعویٰ ہے کہ یہیں تشدد کامنصوبہ بنایا گیاتھا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب ان کا یقین ان باتوں پر نہیں رہا، جو انہوں نے سابقہ چارج شیٹوں میں کہی ہیں۔ سابقہ چارج شیٹ تھی؛
‘[8 جنوری]کی میٹنگ میں ایک بڑا دھماکہ کرنے کامنصوبہ بنا تاکہ مرکزی حکومت کو سی اے اے/این آرسی کے مسئلے پر بڑا جھٹکا دیا جا سکے اور اس طرح سے بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کو بدنام کیا جا سکے۔میٹنگ میں عمر خالد نے پیسے کی فکرنہ کرنے کا بھروسہ دلایا تھا کیونکہ پی ایف آئی بھی ان فسادات کے لیے پیسہ اور ضروری سامان مہیا کرانے کے لیے تیار رہےگی۔ ان فسادات کو فروری میں امریکی صدر کےدورےسے پہلے یا اس کے بعد کرنے کامنصوبہ بنایا گیا تھا۔’
امراوتی کی تقریر کا عمر خالد کے خلاف استعمال
حالانکہ اس نئی چارج شیٹ میں بھی عمر خالد کو کلیدی ماسٹرمائنڈ کے طور پر پیش کیا ہے اور یہ الزام لگایا گیا ہے کہ 17 فروری کو مہاراشٹر کے
امراوتی میں کی گئی ان کی تقریر– جس میں انہوں نے گاندھیائی تحریک کی ضرورت کے بارے میں بات کی تھی اورمرکزی حکومت کی پالیسیوں کی مخالفت کے لیے ٹرمپ کے ہندوستان دورے کے دوران لوگوں سے سڑکوں پر اترنے کی صلاح دی تھی،اس کا مقصد دراصل دہلی میں فسادات کروانا تھا۔
خالد اورسی اے اےمخالف تحریک کے خلاف یہ الزام پہلی بار بھارتیہ جنتا پارٹی کی آئی ٹی سیل نے اور اس کے بعدوزیرداخلہ امت شاہ نے لگایا تھا۔
ایف آئی آر 59/2020 کی چارج شیٹ میں ری پبلک ٹی وی اور نیوز18 کے جوابات کو بھی شامل کیا گیا ہے دونوں نے خالد کی لمبی تقریر کاایڈیٹیڈحصہ دکھایا تھا جس میں انہوں نےپولیس کو کہا کہ ان کے پاس امراوتی کے واقعہ کا کوئی را (اصل)فوٹیج نہیں تھا اور جو کلپ انہوں نے دکھائی وہ انہیں بی جے پی آئی ٹی سیل کے چیف امت مالویہ سے ملی تھی۔
پولیس اوریجنل ریکارڈنگ حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور چارج شیٹ میں خالد کی پوری تقریرکی نقل کو بھی شامل کیا گیا ہے، پھر بھی پولیس نہ تو اس حقیقت کی جانب توجہ دلاتی ہے اور نہ یہ درج کرتی ہے کہ خالد نے باربار پرامن مظاہروں پر زور دیا تھا۔
کپل مشرا کی اسپیچ میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں لگا
ایک طرف جہاں خالد کی جانب سے لوگوں کو سڑک پر اترنے کےلیے کہنے کو تشدد بھڑ کانے والا کہا گیا ہے، وہیں چارج شیٹ میں بی جے پی رہنما کپل مشراکی جانب سےفسادات کے شروع ہونے سے ٹھیک پہلے 23 فروری کو شمال-مشرقی دہلی میں جعفرآباد کے سی اے اےمخالف پروٹسٹ سائٹ کے پاس کیے گئے متنازعہ تبصرے کو لےکر مشراکی وضاحت کوقبول کر لیا گیا ہے۔
موج پور لال بتی کے قریب ڈی سی پی(نارتھ-ایسٹ)وید پرکاش سوریہ کےساتھ بی جے پی رہنما کپل مشرا(فوٹو : ویڈیو اسکرین گریب/ٹوئٹر)
قابل ذکر ہے کہ مشرا نے اپنےحامیوں کو وہاں پر اکٹھا کیاتھا اورپولیس کی موجودگی میں ہی پولیس کے سی اے اےمخالف مظاہرین کو سڑک سے ہٹانے میں ناکام رہنے پر قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی دھمکی دی تھی۔ان کی اسپیچ کے ٹھیک بعد جعفرآباد میں جھڑپیں شروع ہو گئیں جو دھیرے دھیرےشمال-مشرقی دہلی کے دوسرے حصہ میں بھی پھیل گئی، جس میں 52 عام شہریوں کی جانیں گئیں۔ مرنےوالوں میں 40 مسلمان تھے۔ ایک پولیس اہلکار کی بھی اس میں موت ہوئی۔
چارج شیٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ 27 جولائی کوپولیس نے مشرا سے پوچھا تھا، ‘آپ کے یہ کہنے کا کیا مطلب تھا کہ جب تک ٹرمپ یہاں ہیں، ہم خاموشی سے چلے جا ئیں گے، لیکن اس کے بعد ہم (پولیس کی بھی)نہیں سننے والے ہیں؟’اس پر مشرا کا جواب تھا کہ ان کا ارادہ بس پولیس کو یہ کہنا تھا کہ اگر سی اے اےمخالف مظاہرین کے ذریعے بند کیے گئے راستے کو کھلوایا نہیں جائےگا، تو وہ بھی دھرنے پر بیٹھیں گے۔
اسپیچ دینے کی بات سے انکار کرتے ہوئےمشرانے کہا کہ انہوں نے ڈی ایس پی سے کہا تھا کہ ‘ہم آپ سے جعفرآباد اور چاند باغ (کی سڑک کو)کو کھلوانے کی اپیل کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہم سڑک پر اترنے لیے مجبور ہو جائیں گے۔’چارج شیٹ میں اس بات کا کوئی تجزیہ نہیں کیا گیا ہے کہ آخر کیوں ایک دھماکہ خیز ماحول کے بیچ مشرا کی جانب سے اپنےحامیوں سے سڑک پر اترنے کی اپیل پرامن تھی اور اور کیسے امراوتی میں عمر خالد کی تقریرپرتشدد تھی؟
ایف آئی آر 59/2020 متعلقہ چارج شیٹ کے پیج نمبر 1730 پر کپل مشرا کا بیان۔
مشرا کے رول کو لےکر اس سے آگے جانچ نہیں کی گئی اور ان کی اسپیچ کے ایک ہندوتووادی وہاٹس ایپ گروپ پر استعمال کو لےکر کوئی وضاحت طلب نہیں کی گئی
جس کے ممبروں پر فسادات کے دوران مسلمانوں کے قتل کے الزام ہیں۔چارج شیٹ وزیر مملکت انوراگ ٹھاکر، جیسے بی جے پی رہنماؤں کے رول کو لےکر بھی خاموش ہے، جنہوں نے ٹھیک‘سازش’کیے جانے کی مدت میں اپنےحامیوں کو ‘غداروں’کو گولی مارنے کے لیے اکسایا تھا۔
دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ دہلی فسادات کی پوری تاریخ پچھلے دسمبر کو سی اے اے کے پاس ہونے سے ٹھیک پہلے تک جاتی ہے۔
سی اے اےمخالف تحریک دہشت گردانہ سازش کا حصہ
پولیس کیس کا خلاصہ یہ ہے کہ سی اے اے کے خلاف پوری تحریک15دسمبر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کےطلباکے ذریعے جلوس نکالے جانے (جس میں نیوفرینڈس کالونی کے پاس بسوں میں آگ لگانے کاواقعہ ہوا)سے لےکر، شاہین باغ کی عورتوں کے تاریخی مظاہرے تک اپنی شروعات سے ہی دہشت گردی کو بڑھاوا دینے اور گڑبڑی پھیلانے کی سازش کا حصہ تھی۔
چارج شیٹ میں اسی بنیاد پر 15مرد اور خاتون ملزمین پریواےپی اے لگانے کو جائزٹھہرایا گیا ہے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ سازش کرنے والوں نے دسمبر مہینے میں ہی‘ٹھیک وقت پر بڑے پیمانے کا فسادات بھڑ کانے’کا فیصلہ لے لیا تھا۔ ‘14 جنوری،2020 کی تاریخ نے، یعنی اس دن جب امریکی صدر ٹرمپ کی اگلے مہینے ہندوستان دورےکی خبر ٹیلی ویژن کے ذریعے سامنے آئی، سازش کو انجام دینے کا ایک پسندیدہ موقع دے دیا۔’
وہاٹس ایپ گروپس کی چیٹ کی من مانی تشریح اور درجنوں نام والے اور گمنام گواہوں جن میں سے کئی لوگوں کے بیانات کے کئی حصہ آپس میں ملتے ہیں، جو جانچ افسروں کے تعاون کا صاف اشارہ ہے کہ گواہیوں کی بنیاد پرپولیس نے اپنی جو کہانی بنائی ہے، وہ ایک سادہ سی سوچ پرمبنی ہے فسادات کی شروعات جعفرآباد اور دوسرے پروٹسٹ سائٹ میں سڑک بند کرنے کے منظم فیصلے سے ہوئی، جس کا مقصد ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرکے مودی سرکار کی بے عزتی کرانا اور اسے سی اے اے این آرسی کو رد کرنے کے لیے مجبور کرنا تھا۔
پولیس کی کہانی کے جھول
اس کہانی میں کئی خامیاں اورتضاد ہیں جن کاشنوائی کے دوران سامنے آنا طے ہے۔ ہم یہاں ایک کی چرچہ کرتے ہیں۔چارج شیٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سڑکوں کو بند کرنے اور اس طرح دنگے کے پیچھے
دہلی پروٹیسٹس سپورٹ گروپ –(دراصل فلمساز راہل رائے کے ذریعےچلائے جارہےایک وہاٹس ایپ گروپ) کا دماغ تھا۔
ڈی پی ایس جی کے رول کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا ہے، اس بات کے علاوہ کہ اس کے ممبر جعفرآباد کے بدلتے حالات کے بیچ اس قدم کے فائدے نقصان کو لےکر بحث کر رہے تھے۔ جبکہ ایک ممبر سڑک بند کرنےکی حمایت کرتا دکھ رہا ہے۔ڈی پی ایس جی کی ایک ممبربنجیوتسنا لاہری نے کافی سختی سے چکہ جام پر سوال اٹھایا۔پولیس چارج شیٹ میں ان کے اسٹینڈ کی تعریف کی گئی ہے، لیکن اس میں اس بات کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا ہے کہ وہ دراصل عمر خالد کی ساتھی ہیں۔
تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تو خالد سڑک کو بند کرنے کے پیچھے ماسٹرمائنڈ ہونے کےملزم ہیں، جبکہ ان کی پارٹنرپرزور طریقے سے کسی بھی طرح کے سڑک جام کے نقصاندہ ہونے کے حق میں دلیل پیش کرتی ہے؟
چاہے جو بھی ہو، اگر کوئی اس کمزور دلیل کو قبول بھی کر لے کہ سڑک بند کرنے کی وجہ سےتشدد بھڑکا، کیونکہ‘سی اے اے حامی’ بھیڑ ان سے دودو ہاتھ کرنے کے لیے جمع ہو گئی تھی،مگر تین دن تک چلنے والے تشدد کے جغرافیہ اور اس کی نوعیت سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس میں دوسری طاقتوں کے ساتھ پولیس کا بھی رول ہے، جس پرتعصب اورجانبداری کے ٹھوس الزام لگے ہیں۔
سی اے اےمخالف تحریک کو دہشت گردنہ سازش ماننے کے علاوہ، یہ چارج شیٹ ایک قدم اور آگے جاتی ہے اور یہ الزام لگاتی ہے کہ سازش کرنے والوں کے ذریعےتشدد بھڑ کانے کا مقصد اپنی کھوئی زمین‘پھر سے حاصل کرنا’تھا، جو پچھلے سال مئی میں نریندر مودی کے پھر سے وزیراعظم بننے کی وجہ سے انہوں نے گنوا دی تھی۔
‘سال 2019 کےعام انتخابات کے نتائج کے دن سے ہی موجودہ معاملے کے سازش کرنے والے کلیدی ملزمین کےعوامی بیانات کی زبان اور لہجے میں تشدد کےلیے ایک دلکشی دکھائی دیتا ہے، اور یہ ان کے ذہن میں بیٹھ گیا تھا۔
کچھ لوگوں کو اپنی کھوئی زمین پھر سے حاصل کرنے کے لیے اور کچھ کے لیے نئی زمین تیار کرنے کے لیے تشدد ہی واحد راستہ لگنے لگا اور یہی وہ بنیاد تھی، جس نے لوگوں کو ایک ہی مقصد کے لیے جوڑ نے کا کام کیا۔
سی اے اے اور این آرسی کے نافذ کیے جانے نے ان لوگوں کو وہ دے دیا، جس کی انہیں تلاش تھی یہ ان کے لیے ان کے ذہنی تشدد کو ایک تعبیر دینے کے آخری موقع کی طرح تھا، جو انہیں پہلے کے مقابلےزیادہ قریب لایا۔ اس کے بعد جو بھی ہوا وہ تشدد کرنے کی اس مجرمانہ سازش کا نتیجہ تھا…’
اگر دہلی پولیس کا ‘ذہنی تشدد’اور سازش کرنےوالوں کے دماغ میں چل رہے تشدد کے لیے لگاؤ’پرمرکوز ہونا ‘تھاٹ کرائم’کی یاد دلاتا ہے (جارج آرویل کے ناول1984 کے مطابق تھاٹ کرائم یعنی کوئی غیر سرکاری خیال دل میں لانا)، تو ان کی چارج شیٹ پڑھ کر اور کسی شک کی گنجائش بھی نہیں رہتی۔
دہلی پولیس کہتی ہے کہ ‘محض یہ حقیقت کہ فسادات کروانے کی سازش کی گئی تھی، بذات خواد بہت بڑا جرم ہے، جس کے لیے ملزمین پر مقدمہ چلاکر انہیں سزا دلوائی جا سکتی ہے، بھلے ہی اس سے متعلق دنگے اور بڑے پیمانے پر تشدد نہ ہوئے ہوتے۔’
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)