پہلگام حملہ: ایک ماہ بعد بھی خالی ہاتھ این آئی اے، اب تک نہیں ملا کوئی ٹھوس سراغ

پہلگام حملے کو ایک مہینہ گزر چکا ہے، لیکن این آئی اے کو ابھی تک کوئی ٹھوس سراغ نہیں ملا ہے۔ تفتیشی ایجنسی گواہوں سے پوچھ گچھ اور تکنیکی نگرانی کر رہی ہے۔ پانچ دہشت گردوں پر شبہ ہے، جن میں سے تین پاکستانی ہو سکتے ہیں۔ سینکڑوں لوگوں سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ تھری ڈی میپنگ بھی کی گئی ہے۔

پہلگام حملے کو ایک مہینہ گزر چکا ہے، لیکن این آئی اے کو ابھی تک کوئی ٹھوس سراغ نہیں ملا ہے۔ تفتیشی ایجنسی گواہوں سے پوچھ گچھ اور تکنیکی نگرانی کر رہی ہے۔ پانچ دہشت گردوں پر شبہ ہے، جن میں سے تین پاکستانی ہو سکتے ہیں۔ سینکڑوں لوگوں سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ تھری ڈی میپنگ بھی کی گئی ہے۔

23 اپریل 2025 کو جائے وقوع  پر تعینات ہندوستانی فوج کے جوان۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

23 اپریل 2025 کو جائے وقوع  پر تعینات ہندوستانی فوج کے جوان۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: پہلگام میں 22 اپریل کو ہوئے حملے کو ایک مہینہ گزر چکا ہے، لیکن قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) اب بھی ان دہشت گردوں کی تلاش کر رہی ہے جنہوں نے جموں و کشمیر کے اس سیاحتی مقام پر 26 شہریوں – 25 سیاحوں اور ایک مقامی کو ہلاک کیا تھا۔ اس حملے کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی کافی بڑھ گئی تھی۔

حملے کے چند دن بعد جموں و کشمیر پولیس سے جانچ اپنے ہاتھ میں لینے والی این آئی اے کو اب تک کوئی ٹھوس سراغ نہیں ملا ہے۔ ایجنسی اب گواہوں سے پوچھ گچھ کر رہی ہے اور تکنیکی نگرانی کے ذریعے ڈیٹا کی جانچ کر رہی ہے۔

شبہ ہے کہ اس حملے میں کم از کم پانچ دہشت گرد ملوث تھے، جن میں سے تین کا تعلق پاکستان سے تھا۔ انتظامیہ نے کم از کم تین دہشت گردوں کے اسکیچ جاری کیے ہیں اور ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے والوں کے لیے 20 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔

انڈین ایکسپریس نے ایک ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے، ‘جموں و کشمیر پولیس نے ابتدائی طور پر دہشت گردوں کے اسکیچ جاری کیے تھے۔ اس کے بعد این آئی اے نے ایک نیا مقدمہ درج کیا اور گواہوں سے پوچھ گچھ شروع کی۔ اب تک 150 مقامی لوگوں سے پوچھ گچھ کی جا چکی ہے، جن میں ٹٹو چلانے والے، دکاندار، فوٹوگرافر اور ایڈونچر اسپورٹس سے وابستہ افراد شامل ہیں۔’

این آئی اے نے ایک مقامی شخص سے بھی پوچھ گچھ کی ہے، جس نے واقعہ سے تقریباً 15 دن پہلے علاقے میں ایک دکان کھولی تھی لیکن حملے کے دن اسے بند رکھا تھا۔ ذرائع نے کہا، ‘اب تک اس کے خلاف کچھ ٹھوس نہیں ملا ہے، تحقیقات جاری ہے۔’

تحقیقات کے دوران این آئی اے نے جائے وقوع سے جمع کیے گئے موبائل ڈیٹا کی جانچ شروع کردی ہے، جس میں متاثرین کے رشتہ داروں اور دیگر سیاحوں کے ذریعے لیے گئے ویڈیوز اور تصاویر بھی شامل ہیں۔ ایجنسی نے گواہوں اور دکانداروں کے بیانات کی بنیاد پر وادی بائی سرن کی تھری ڈی میپنگ بھی کی ہے۔

ایک افسر نے کہا، ‘اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ حملہ آور کتنی  دیر تک وہاں تھے، وہ کہاں سے آئے اور کہاں گئے۔ اسی طرح کی تھری ڈی میپنگ این آئی اے نے 2019 کے پلوامہ حملے کی تحقیقات میں بھی کی تھی۔’

حملے کے بعد جموں و کشمیر پولیس نے بڑے پیمانے پر چھاپے مارے اور سینکڑوں لوگوں کو حراست میں لیا، جن میں اوور گراؤنڈ ورکرز بھی شامل تھے۔ ایک سینئر پولیس اہلکار نے کہا کہ حراست کے پیچھے دو مقاصد تھے؛’پہلا، حملے کے بارے میں کوئی معلومات حاصل کرنا اور دوسرا، یہ پیغام دینا کہ اس طرح کے حملوں کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور انہیں برداشت نہیں کیا جائے گا۔یہ پیغام دینا ضروری تھا تاکہ مستقبل میں ایسے حملوں کو روکا جا سکے۔’

تاہم، اہلکار نے یہ بھی اعتراف کیا، ‘پہلے مقصد کے حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔’

ایک اور اہلکار نے بتایا کہ حراست میں لیے گئے بیشتر افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔ ‘تاہم، جن لوگوں نے پہلے اوور گراؤنڈ ورکرز کے طور پر کام کیا ہے ان میں سے کچھ کے خلاف پی ایس اے (پبلک سیفٹی ایکٹ) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ پولیس اور این آئی اے کو ‘بہت سے لوگوں’ کے بارے میں اطلاع ملی تھی، لیکن زیادہ تر سراغ جھوٹے نکلے۔ ‘ایک معاملے میں، ایک سیاح نے تین آدمیوں کا ویڈیو پوسٹ کیاتھا،  جو حملہ آوروں سے ملتے جلتے تھے اور انہیں وادی بیتاب (پہلگام کے قریب) میں دیکھا گیا تھا۔ انہیں پکڑا گیا اور بعد میں چھوڑ دیا گیا کیونکہ کوئی کچھ خاص نہیں ملا۔’

ایک اور اہلکار نے بتایا کہ تلاشی مہم کو پہلگام سے آگے جنوبی کشمیر کے بیشتر جنگلات تک بڑھا دیا گیا ہے۔

افسر نے یہ بھی کہا کہ حملے کے ابتدائی چند دنوں میں، سیکورٹی فورسز کو دہشت گردوں کے ڈیجیٹل فٹ پرنٹ  ملے تھے اور ان کی بات چیت کو ٹریس کیاگیا تھا۔ ‘لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اب مکمل طور پر آف لائن ہو چکے ہیں۔’

حملے کے بعد، فوج اور پولیس نے جنوبی کشمیر میں دو الگ الگ کارروائیوں میں مقامی دہشت گردوں  کو ہلاک کر دیا ہے، جن میں ٹی آر ایف (دی ریزسٹنس فرنٹ) کا ایک ٹاپ کمانڈر بھی شامل تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پہلگام حملے کے پیچھے اسی تنظیم کا ہاتھ ہے۔