سینئر صحافی کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے افغانستان کےمقبول چینل ٹولو ٹی وی کےچیف سعد محسنی نے کہا کہ طالبان کے لیے تو چیلنج اب شروع ہواہے کیونکہ اسے حکومت کرنا ہے اور اس بڑی ذمہ داری کے لیے ضروری مہارت اورخصوصیات ان میں ندارد ہیں۔
نئی دہلی: افغانستان میں طالبان کے قبضے کے دو ہفتے بعد ملک کے مقبول نیوز چینل ٹولو ٹی وی کے مالک سعد محسنی نے اس تبدیلی کے بارے میں تفصیل سے بات چیت کی۔ دی وائر کو دیے ایک انٹرویو میں سینئر صحافی کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پچھلے ہفتےکابل میں ہوئے بم دھماکے جیسے واقعات‘ملک کے لیے گراؤنڈ ہاگ ڈے’جیسےحالات پیدا کریں گے۔محسنی کا اشارہ اسی نام کی امریکی فلم کی طرف تھا، جہاں ہیرو باربار اپنے ماضی کو جیتا رہتا ہے، نہ کچھ بدلتا ہے، نہ ہی کوئی اصلاح ہوتی ہے۔
اس بات کو اورواضح کرتے ہوئے محسنی نے کہا کہ اب ‘طالبان نیا غنی(سابق صدر، جو طالبان کے قبضے کے بعدملک چھوڑ گئے)ہے اور آئی ایس آئی ایس نیا طالبان۔’محسنی نے یہ بھی کہا کہ طالبان کے پاس آئی ایس آئی ایس کےچیلنج کا ڈھنگ سے جواب دینے کی صلاحیت نہیں ہے اور اسے فوراً باقی دنیا سے مدد کی ضرورت ہے۔
محسنی نے کہا کہ دنیا کے پاس بھی ایک موقع ہے، جو شاید ہفتے بھر تک کھلا رہے کہ وہ طالبان کو اقتدار، پولیس اور مؤثر نظام قائم کرنے میں مدد کرےورنہ طالبان کا حال‘خمیر روج’والا ہو جائےگا۔ان کا یہ اشارہ 1975میں کمبوڈیا میں اقتدارپر قبضہ کرنے والی سفاک کمیونسٹ پارٹی کی طرف تھا،جس نے مبینہ طور پر لاکھوں لوگوں کوہلاک کردیا تھا۔ ہالی وڈ فلم ‘دی کلنگ فیلڈس’ میں اس واقعہ کو بہت مؤثر طریقے سے دکھایا گیا ہے۔
تقریباً چالیس منٹ کی اس بات چیت میں محسنی نے کہا کہ افغانستان میں گورننس کی کمیاں ہیں اور‘آئی ایس آئی ایس اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔’انہوں نے بتایا کہ ملک کے مشرقی حصہ سے آئی ایس آئی ایس کے ذریعےتشدد اورہلاکتوں کی کی خبریں آ رہی ہیں۔
محسنی نے آگے کہا کہ پچھلے جمعرات کو ہوئے بم دھماکے نے ‘طالبان کے اس بھرم کو توڑ دیا ہے’ کہ وہ امن قائم کر سکتے ہیں۔ بہت سے افغان شہری،جنہوں نے طالبان کواس امید میں تسلیم کیا تھا کہ وہ امن لائےگا، اب ان کی دل شکنی ہو چکی ہے اور وہ بےحدمایوس ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کابل ہوائی اڈے پرافراتفری کے برعکس کابل شہر میں نسبتاًامن ہونے کی رپورٹس جھوٹی نہیں ہیں لیکن یہ‘امن مجازی ہے۔’کابل پرسکون ہےکیونکہ‘یہاں کے باشندےڈرےہوئے ہیں۔’بیشتر دکانیں بند ہیں اوریہاں کی کرنسی ‘افغانی’ تیزی سے نیچے گر رہی ہے۔
محسنی نے کہا کہ ہندوستان ان تین ٹاپ ممالک میں سے ایک ہے جن پر افغان بھروسہ کرتے ہیں۔ انہوں نے حکومت ہند سے طالبان سے رابطہ کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ طالبان ہندوستان کی تجاویز کو اپنانے کو تیار ہوگا کیونکہ‘وہ پاکستان پر ان کے انحصار کو متوازن کرنا چاہتے ہیں۔’محسنی نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو پتہ چل جائےگا کہ ان کے لیے طالبان کا رویہ بدل جائےگا اور پاکستان کو ان فیصلوں کو لےکر چونکنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، جو طالبان آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں لےگا۔
حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کےنظربند ہونے کی سی این این کی رپورٹس پر محسنی نے کہا کہ یہ صحیح تصویر نہیں ہے اور وہ ان کے ساتھ مستقل رابطے میں تھے۔انہوں نے زور دےکر کہا کہ ابھی ان کی سیکیورٹی اور ان کی گاڑیوں کو واپس نہیں لیا گیا ہے۔ حالانکہ انہوں نے یہ تصدیق کی کہ سلامتی وجوہات سے کرزئی اور ان کے اہل خانہ عبداللہ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
محسنی نے کہا کہ طالبان نے جس تیزی سے افغانستان میں تباہی مچائی ہے،اس کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ کوئی فوجی جنگ اور لڑائی نہیں تھی، بلکہ یہ ہے کہ کوئی بڑی مزاحمت نہ ہونے کی وجہ سے ایک طرح کی قبولیت تھی۔ طالبان کے لیے تو چیلنج اب شروع ہوا ہے کیونکہ اسے حکومت کرنا ہے اور اس بڑی ذمہ داری کے لیے ضروری مہارت اورخصوصیات ان میں ندارد ہیں۔ملک اس وقت تین بڑےچیلنجز کا سامنا کر رہا ہے: پہلا، سیاسی ، جو دنیا کو واضح طور پر نظر آ رہی ہے، دوسرا،انسانی، جس میں اندرونی طورپر 700000 کے قریب بےگھر لوگ شامل ہیں اور تیسرااقتصادی بحران، جو ہر دن کے ساتھ بدتر ہوگا۔ طالبان ان سے نمٹنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا کو طالبان کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔ افغانستان کی مدد کرنے کا یہ سب سے اچھا طریقہ ہے۔
اس بات چیت کا سب سے اہم حصہ وہ رہا، جہاں محسنی نے وہاں صحافت کی صورتحال، ٹولو ٹی وی کے کام کاج، مخالف نظریے اور یہاں تک کہ پنج شیر مزاحمتی انٹرویوز اور مباحث کو لےکر طالبان حکومت کے اب تک کے رویے کے بارے میں بتایا۔
محسنی نے بتایا کہ ٹولو ٹی وی نے حال کے دنوں میں کچھ پرانے پروگرام شروع کیے ہیں اور طالبان کے ممبروں اور پنج شیر میں ہوئے مزاحمت کے بیچ سیاسی مذاکرہ بھی کیا ہے۔انہوں نے یہ بھی جوڑا کہ حالانکہ انہوں نے اپنے موسیقی سےمتعلق پروگرام بند کر دیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک پریس کانفرنس میں ذبیح اللہ مجاہد نے واضح کہا تھا کہ طالبان مانتا ہے کہ موسیقی شریعت کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ محسنی نے کہا کہ ٹیلی ویژن چینل اپنے معمول کے کام کاج پر لوٹنے کے لیے کوشش کر رہا ہے۔
خصوصی طورپرخبروں اور حالات حاضرہ کے بارے میں محسنی نے کہا کہ ‘خبرکو لےکر کوئی وضاحت نہیں ہے۔’انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں کابل کی سڑکوں پر طالبان کے ذریعےصحافیوں کو ٹوکا اور پیٹا گیا۔ یہ جمعرات کی بات ہے، جب طالبان دوارہ زیاریادخان کو کابل کے قلب میں ٹولو ٹی وی کے دفتر سے محض ایک کیلومیٹر کی دوری پر پیٹا گیا۔
محسنی نے کہا کہ ٹولو ٹی وی نے پچھلے ہفتہ عشرہ میں70-80ملازمین کو کھو دیا ہے، جن میں سے کئی ملک چھوڑکر جا چکے ہیں۔ حالانکہ چینل اب بھی خاتون صحافیوں اور اینکروں کو کام پر رکھ رہا ہے اور انہیں امید ہےکہ طالبان رہنماخاتون صحافیوں کو اور زیادہ انٹرویو دیں گے۔
عورتوں کےحقوق کے بارے میں طالبان کے شروعاتی بیان کہ کوئی امتیاز نہیں ہوگا میں آئے بدلاؤ، جب ذبیح اللہ مجاہد نے حال میں کہا کہ عورتوں کو تب تک کام پر نہیں جانا چاہیے جب تک کہ طالبان اس بات کو لےکر مطمئن نہیں ہے کہ اس کےاپنےممبران کے ساتھ بدسلوکی نہیں کریں گے، کے بارے میں محسنی نے کہا کہ یہ طالبان کی طرف سےخواتین کے حقوق پر شکنجہ کسنے کے اشارے کے بجائے سمجھداری بھرا قدم ہو سکتا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ طالبان کو مؤثر پولیس نظام کی کوئی جانکاری نہیں ہے اور ان کے ممبر نہیں جانتے ہیں کہ جدید شہری خواتین کے ساتھ سلوک کیسے کیا جاتا ہے۔
محسنی نے صاف کیا کہ عورتوں کے کام پر نہ جانے کی صلاح صرف سرکاری ملازمین پرنافذ ہوتی ہے۔یہ صحافیوں،غیرسرکاری تنظیموں(این جی او)اورنجی سیکٹر میں کام کرنے والی خواتین پر لاگو نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سوال اٹھایا، ‘مشکل یہ ہے کہ کیا سڑک پر موجود طالبانی فوج کو سرکاری ملازم یا صحافی یا نجی سیکٹر کے ملازم کے بیچ کا فرق بھی پتہ ہوگا؟’
(یہ ٹیکسٹ چالیس منٹ کی بات چیت کا چھوٹا ساحصہ ہے۔مکمل انٹرویو نیچے دیے گئے ویڈیو میں ملاحظہ کر سکتے )
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)